Sunday, April 24, 2011
Thursday, April 21, 2011
جن و شیاطین سے حفاظت کے 15 اسباب
(1)گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر کرنا
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"جب آدمي اپنے گھر میں داخل ہو تو یہ دعا پڑھے (اللہم إنی أسئلک خیر المولَج وخیر المخرَج ,بسم اللہ ولَجنا وبسم اللہ خرَجنا وعلى ربِّنا توکَّلنا ) " اے اللہ میں تجھ سے (گھر میں) داخل ہونے اور نکلنے کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں, اللہ کے نام کے ساتھ ہم (گھر میں ) داخل ہوئے اور اللہ کے نام کے ساتہ نکلے , اور اپنے پروردگار پرہم نے توکل کیا " پھر اپنے گھر والوں کو سلام کرے. (سنن ابو داؤد ج/4ص325,علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے
(2)اھل خانہ سے سلام کرنا
امام نووی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں مستحب یہ ہے کہ (آدمی گھر میں داخل ہوتے وقت )بسم اللہ پڑھے اور بکثرت ذکر الہی کرے ,اور سلام کرے چاہے گھر میں آدمی ہوں یا نہ ہوں ,کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے { فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً (61) سورة النــور﴾ "جب تم گھروں میں داخل هو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرلیا کروجو اللہ کی جانب سے مبارک اور پاکیزہ سلام ہے "
حضرت انس رضي الله عنه كا بيان هے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے )کہا (یابنی إذا دخلت على أہلک فسلّم یکن برکۃ علیک وعلى أہل بیتک)" اے میرے بیٹے جب اپنے اہل کے پاس جاؤتو انہیں سلام کرو جو تم پر اور اہل خانہ پر برکت کا سبب ہوگا "(سنن ترمذی ,ج 4ص161,امام ترمذي نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ).
امام نووی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ضامن علی اللہ کا مفہوم ہے ضمانت والا, گارنٹی پانےوالا , اورضمان کہتے ہیں کسی چیز کی حفاظت ونگرانی کرنے کو ,تو گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص اللہ کی حفاظت ونگرانی میں ہے . اور اس سے بہتر انعام اور کیا ہو سکتا ہے کہ آدمی ہمیشہ ہمیش کے لئے اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں رہے .
(3)کھاتے اور پیتے وقت اللہ کا ذکر کرنا
حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہو تے وقت اور کھاتے وقت اللہ کا نا م لیتا ہے تو شیطان (اپنے ساتھی شیطانوں سے)کہتا ہے ,کہ تمہارے لئے یہاں شب بسر کرنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ کھانا ہے, اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت آدمی اللہ کا نام نہیں لیتا, تو شیطان (اپنے ساتھی شیطانوں سے )کہتا ہے کہ تم نے شب بسر کرنےکی جگہ پالی , اور جب کھانا کھاتے ہوئے بھی اللہ کا نام نہیں لیتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ تم نے شب بسر کرنے اور کھانا کھانے کی جگہ پالی "(صحیح مسلم )
(4)گھر میں کثرت سے قرآن کی تلاوت کرنا:
حضرت ابو موسى'اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا :"قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال سنگترے (نارنجی) کی سی ہے کہ اسکا ذائقہ بھی عمدہ ہوتا ہے اور خوشبو بھی عمدہ, اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے, کہ اسکا ذائقہ تو عمدہ ہوتا ہے مگر اس میں خوشبو نہیں ہوتی ,اورقرآن پڑھنے والے منافق کی مثال گل ریحان کی سی ہے کہ اس کی خوشبو عمدہ ہوتی ہے مگر ذائقہ کڑوا ہوتا ہے , اورقرآن نہ پڑھنے
والےمنافق کی مثال اندرائن (کے پھل) جیسی ہے کہ اس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے اور اس میں خوشبو بھی نہیں ہوتی " ( صحیح بخاری ومسلم)
اسی طرح گھر میں خشوع وخضوع کے ساتہ قرآن پڑھنے سےفرشتے گھر کے قریب آتے ہیں ,چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ ایک رات اپنے کھلیان (کجھور جمع کرنے کی جگہ) میں قرآن پڑھ رہے تھے کہ اچانک ان کی گھوڑی بدکنے لگی (وہ خاموش ہوگئے تو پھر وہ گھوڑی ٹہرگئی ) پھر وہ پڑھنے لگے تو پھروہ گھوڑی بدکنے لگی (اس کے بعد پھر وہ پڑھنے سے رک گئے ) پھر وہ پڑھنے لگے تو پھر وہ گھوڑی بدکنے لگی ,حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ڈر گیا کہ کہیںگھوڑی (میرے بچے ) کو کچل نہ ڈالے , پھر میں اس گھوڑی کی طرف بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک
ایک سائبان سا میرے سر پر ہے ,اور اس میں چراغ جیسی روشنی ہے ,پھر وہ روشنی فضا میں بلند ہونے لگی یہاں تک کہ میں نے پھر اس کو نہیں دیکھا ,میں رسول £کی خدمت میں صبح کو حاضر ہوا, اور عرض کیا یارسول اللہ! گزشتہ رات میں اپنےکھلیان میں قرآن پڑہ رہا تھا کہ میری گھوڑی بدکنے لگی ,تورسول £نے فرمایا, اے ابن حضیر! پڑھتے رہو, ابن حضیر کا بیان ہے کہ پھر میں پڑھنے لگا ,پھر وہ گھوڑی بدکنے لگی , پھر رسول £نے فرمایا :اے ابن حضیر!پڑہتے رہو ,ابن حضیر کہنے لگے کہ میں ہی رک گیا ,کیونکہ یحی' گھوڑی کے پاس تھا ,میں ڈرا کہ کہیں یحی' کو کچل نہ ڈالے ,چنانچہ مین نے ایک سائبان سا دیکھا جس میں چراغ جیسی روشنی تھی ,پھر وہ فضا میں بلند ہونے لگی یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا ,تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"يہ فرشتےتھے جوتمھاری قراءت سن رہے تھے اگر تم پڑھتے پڑھتے صبح کردیتے تو لوگ ان فرشتوں کو دیکہ لیتے اور وہ ان کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہتے ".
(5)گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنا:
جب آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کے گھر میں مشکلات بڑہ گئی ہیں ,آوازیں بلند ہونے لگی ہیں ,اور سرکشی وعناد پیدا ہوگئی ہے تویہ جان لیں کہ شیطان وہاں ضرور موجود ہے ,اسلئے آپ کو چاہئے کہ اسے بھگانے اور دور کرنے کی کوشش کریں ,لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کیسے بھاگے گا, اس سوال کا جواب آپ کو اللہ کے رسول £دے رھے ہیں ,آپ نے فرمایا :(إن لكل شيءسناما ,وإن سنام القرآن سورة البقرة ,وإن الشيطان إذا سمع سورة البقرة تقرأ خرج من البيت الذي تقرأ فيه البقرة) "ہرچیز کی کوئی چوٹی ہوتی ہے (جو سب سے اوپراور بالاتر ہوتی ہے )اورقرآن کی چوٹی سورۂ بقرہ ہے اور شیطان جب سورۂ بقرہ کی تلاوت ہوتے ہوئے سنتا ہے تو اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جہاں سورۂ بقرہ کی تلاوت ہوتی ہے "(امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور حافظ ذہبی نے اس کی تائید کی ہے ,اور علامہ البانی نے اپنی کتاب السلسلۃ الصحیحۃ ح/558میں اس حدیث کو حسن کہا ہے ).
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لا تجعلوابیوتکم قبورا فإن البیت الذی تقرأ فیہ سورۃ البقرۃ لا یدخلہ الشیطان )"اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ(بلکہ اپنے گھروں کو تلاوت قرآن سے معمور رکھو)کیونکہ جس گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر میں شیطان نہیں آسکتا "
(6)شيطاني آواز سے گھر کوپاک رکھنا :
فرمان باری تعالى ہے ﴿{وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ ﴾ اور ان ميں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکتا ہے بہکالے " (سورۃ اسراء:64)
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(ليشربنَّ أُناس من أمتي الخمريسمّونها بغير اسمها ,يعزف على رؤسهم بالمعازف ,ويخسف الله بهم الأرض ,ويجعل منهم قردة وخنازير)" البتہ ضرور میری امت کے کچہ لوگ شراب پیئیں گے اس کا نام بدل دیں گے ’ان کے سروں پر گلوکارائیں گائیں گی اورآلات طرب بجائے جائیں گے ,اللہ تعالى انہیں زمین میں دھنسا دے گا , اور ان میں سے بعض افراد کو بندر اور سور بنادیگا "(سنن ابن ماجہ 2/1333,اس حدیث کی سند حسن ہٍے, دیکھئے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب اغاثہ اللہفان )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(ليكونن في أمّتي أقوام يستحلّون الحرّ والحرير والخمر والمعازف)
"میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جوزنا ,ریشم ,شراب اور آلات موسیقی کو حلال سمجہ لیں گے "(صحیح بخاری 10/51مع الفتح)
(7)گھنٹیوں سے گھر کو پاک رکھنا :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :( الجرس مزامير الشيطان )"گھنٹی شیطان کے باجے ہیں "(صحیح مسلم ,سنن ابوداؤد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی ایک دوسری روایت ہے جس میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(لا تصحب الملائکۃ رفقۃ فیہا کلب, أو جرس )"فرشتے ان مسافروں کے ساتھ نہیں رہتے جن کے ساتہ گھنٹا یا کتا ہو "(صحیح مسلم , ابوداؤد , ترمذی ,اوراما م ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے )
فرشتے اللہ کی فوج ہیں اور وہ ہمیشہ شیطانی فوج کے ساتہ جنگ کی حالت میں ہوتے ہیں ,جب رحمانی فوجیں ان سے علیحدہ ہوتی ہیں تو پھران پر شیطانی فوجیں مسلط ہوجاتی ہیں .
لیکن گھنٹی سےمرا د وہ ممنوعہ گھنٹی ہے جو آوازکی شکل میں گرجا گھروں کے ناقوس کے مشابہ ہو ,اس سے موجودہ ٹیلی فون کی گھنٹی کا حکم مستثنى ہے ,اسی طرح گھروں میں لگائی جانے والی گھنٹیاں بھی اس سے خارج ہیں , الاّ یہ کہ وہ گھنٹیاں آواز میں گرجاگھروں کے ناقوس کے مشابہ ہوں ,جس طرح وہ گھنٹی جو ایک دفعہ بجے پھر بند ہوجائے , اس طرح بجتی اوربند ہوتی رہے .
اسی طرح ممنوعہ گھنٹی میں دیوار گھڑی کی وہ گھنٹی بھی شامل ہے جو بنڈول کے نام سے جانی جاتی ہے ,اسلئے کہ یہ آواز میں گرجا گھر کے ناقوس کے متشابہ ہوتی ہے ,اور یہاں پر ایک بات اچہی طرح جان لیں کہ موسیقی کی گھنٹی جو حرام ہے اس کی حرمت اس وجہ سے نہیں ہےکہ وہ عیسائیوں کےناقوس کے متشابہ ہے, بلکہ اس کی حرمت اس وجہ سے ہے, کہ یہ شیطانی باجے ہیں ,جس کی نشاندہی سطور بالا میں کی جا چکی ہے .
(8)صلیب[كراس نشان ] سے گھر کو پاک رکھنا:
اسلئےکہ صلیب نصارى'کاشعار ہے ,اورہمیں یہودونصاری'کی مشابہت سے روکا گیا ہے , لیکن ہائے افسوس !آج صلیبیں مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہوچکی ہیں ,مسلمانوں کے جس گھر میں داخل ہوں گے صلیب آپ کو ضرور ملے گا ,جا نماز میں ,یا پردے میں یا دیوار کے نقش ونگار میں ,بلکہ یہ صلیبیں اللہ کے گھروں (مسجدوں ) میں داخل ہو چکی ہیں ,کتنی مسجدیں ہیں کہ اگر اس کے جانمازوں کے نقش ونگار کو بنظرغائر دیکھا جائے تو آپ کو صلیبیں صاف صاف نظر آئیں گی ,اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ یہ جا نمازیں اور قالینیں عیسائی ملکوں سے درآمد کئے جاتے ہیں ,گویاکہ یہ نیا صلیبی حملہ ہے جو ہر گھر پر حملہ آور ہے , اسلئے اے مسلمان بھائیو !آپ محتاط رہیں ,اورکپڑا ,بستر ,قالین ,جانماز وغیرہ خریدتے وقت گہری نظرڈالیں ,اوریہ نہ کہیں کہ بلا تعمّد یہ صلیبیں آگئی ہیں ,کیونکہ نبی کریم £جوصلیب بھی اپنے گھرمیں پاتے اس کو توڑ ڈالتے , کیا کوئی عقلمند کہ سکتا ہے کہ نبی کریم £کے گھر میں عمداً صلیب لائی گئی تھی .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :(لم يكن النبي صلی اللہ علیہ وسلم يترك في بيته شيئا فيه تصاليب إلا نقضه ) "آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں جب کوئی ایسی چیز دیکھتے جس پر صلیب کی تصویر یں ہوتیں تو اس کو توڑ ڈالتے " (صحیح بخاری ,سنن ابو داؤد).
(9)گھر کو تصویروں ,مجسموں اور مورتیوں سے پا ک رکھنا:
ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کو مجسموں اور مورتیوں سے پاک رکھے ,سوائے ان کے جن کا استثناء حدیث میں آیا ہوا ہے , اوروہ لڑکیوں کا گڑیا ہے ,اسی طرح تصویروں سے بھی (گھرکوپاک رکھے) بجز ان تصویروں کے جو ضرورت کے لئے ہوں جیسے پاسپورٹ , شناختی کارڈ اور سرکاری کاغذات وغیرہ .
اس لئے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر اورمجسمے ہوں , اورجیسا کہ ہم نے ابھٍی ذکر کیا کہ فرشتے جس گھر سے نکل جاتے ہیں شیطان اس گھر میں اپنا مسکن بنالیتا ہے , چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے انہوں نے ایک توشک خریدی جس میں تصویریں تھیں ,جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو آپ دروازے پر کھڑے رہے اوراندر نہ گئے ,میں نے آپ کے چہرۂ مبارک سےناراضگی کو پھچان لیا,میں نے کہا یارسول اللہ !
میں توبہ کرتی ہوں اللہ اور اس کے رسول کے سامنے میرا کیا گناہ ہے؟
آپ نے فرمایا :یہ توشک کیسی ہے ؟ میں نے کہا اس کو میں نے خریدا ہے تاکہ آپ بیٹھیں اور ٹیک لگائیں , آپ نے فرمایا ان تصویروں کو بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائیگا اور ان سے کہا جائے گأ کہ تم نے جنہیں پیدا کیا انہیں زندہ کرو ,آپ نے مزید فرمایا کہ جس گھر میں تصویرہو وہاں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے "(صحیح بخاری ومسلم )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لا تدخل الملائکۃ بیتا فیہ تماثیل أو تصاویر) "جس گھر میں مجسمے اور تصاویر ہوں وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے " ( صحیح مسلم )
(10)گھر کا کُتّوں سے پاک رکھنا:
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة ) "[ رحمت كے ]فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو " (صحیح بخاری وصحیح مسلم )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ جبرئیل علیہ السلام نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک متعین وقت میں آنے کا وعدہ کیا , وقت گزرگیا لیکن جبرئیل علیہ السلام نہ آئے ,اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتہ میں ایک لکڑی تھی, آپ نے اسے اپنے ہاتہ سے پھینک دیا اور فرمایا :"کہ اللہ تعالى وعدہ خلافی نہیں کرتا نہ اس کے قاصد وعدہ خلافی کرتے ہیں, پھر آپ نے ادہر ادہر دیکھا تو ایک پلا ( یعنی کتے کا بچّہ) آپ کی چارپائی کے نیچے دکھائی دیا , آپ نے فرمایا اے عاشہ! یہ پِلاّ اس جگہ کب آیا ؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم !مجھے علم نہیں ,آپ نے حکم دیا وہ باہر نکالا گیا , پھر جب جبرئیل آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور میں آپ کے انتظارمیں بیٹھا رہا لیکن آپ نہیں آئے ,تو جبرئیل نے کہا یہ کتا جو آپ کے گھر میں تھا اسنے مجھے روک رکھا تھا, جس گھر میں کتا اور تصویر ہو ہم وہاں داخل نہیں ہوتے "(صحیح بخاری ومسلم )
اس حکم سے صرف شکاری, یا حفاظتی کتے مستثنى ہیں بشرطیکہ کتا, کا لا نہ ہو, اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (الکلب الأسود شیطان )" سیاہ کتا شیطان ہے "اورسیاہ کتے کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہوئے آپ نے فرمایا ( علیکم بالاسود البہیم ذی النقطتین فإنہ شیطان ) " تم دو نقطوں والے کالے سیاہ کتے کو مارو کیونکہ وہ شیطان ہے " (صحیح مسلم)
ایک دوسری روایت جو حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے , ان کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (من اقتنى کلبا إلا کلب صید أوماشیۃ ,فإنہ ینقص من أجرہ کل یوم قیراطان ) "جو شخص مویشی یا شکاری کتے کے علاوہ کوئی اور کتا پالے تواس کے ثواب میں سے روزانہ دوقیراط گھٹتے جائیں گے "(بخاری ومسلم )
(11)گھر میں نفلی نمازوں کا بکثرت اہتما م کرنا:
حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (إجعلوامن صلاتکم فی بیوتکم ولا تتخذوھا قبورا ) "اپنی نمازوں کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں ادا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ"(صحیح بخاری ومسملم )
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کھ گھر میں نماز پڑھنے کی ترغیب اس لئے دی جارہی ہے کہ یہ کام آسان اور اس میں ریاکاری سے دوری اور اعمال کی بربادی سے بچاؤ ہے ,نیز اس وجہ سے بھی کہ اس سے گھر میں برکت کا حصول ہوتا ہے ,رحمت نازل ہوتی ہے ,فرشتے آتے ہیں اورشیطان گھر سے بھاگتا ہے ,ا.ھ.( شرح مسلم للنووی )
(12)اچھی بات اورخندہ پیشانی:
آپ کویہ معلوم ہے کہ شیطان مسلم معاشرے کو تہس نہس کرنے کے لئے تدبیریں کرتا , چال چلتا اورمنصوبے بناتا ہے, اس کےمنصوبے میں مسلم خاندان کی بنیاد کو اکھاڑپھینکنا بھی شامل ہے, کیوں کہ معاشرے کی تعمیر میں یہ پہلی اینٹ ہے, جس کی وضاحت حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث کررہی ہے , رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (إن إبلیس یضع عرشہ على الماء ,ثم یبعث سرایاہ, فا دناہم منہ منزلۃ أعظمہم فتنۃ یجیئ أحدہم فیقول :ما ترکتہ حتی فرقت بینہ وبین امرأتہ قال : فيدنيه منه ويقول نعم أنت )"ابليس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے ,پھر وہاںسے وہ اپنا لشکر (دنیا میں فساد برپا کرنے کے لئے )بھیجتا ہے , ابلیس کے سب سے قریب وہ شیطان ہوتا ہے جوسب سے بڑا فتنہ برپا کرے چنانچہ جب کوئی شیطان آکرکہتا ہے میں فلاں بیوی کے پیچھے پڑا رہا یہاں تک کہ وہ دونوں میں علیحد گی پید ا کردی , ابلیس اسے اپنے قریب کرلیتا ہے اورکہتا ہے توبہت خوب ہے "(صحیح مسلم )
ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنا معاشرہ کی بنیاد کو جڑسے اکھاڑپھینکنا ہے , اوریہ ابلیس لعین کا خاص ہدف ہے –
اسلئے شوہر کے لئے ضروری ہے کہ اپنی بیوی سے حسن سلوکی سے پیش آئے ,اور اچھی بات اختیار کرے, تاکہ شیطان اس کے اوراسکی بیوی کے درمیان فساد برپا نہ کرسکے, فرمان باری تعالى ہے﴿{وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُواْ الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ﴾"میرے بندوں سے کہدیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے " (سورۂ اسراء:53)
(13)اهل خانہ کی حفاظت:
حضرت عبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( إذ ا تزوّج أحدکم إمراة,أو اشترى خادما فليقل : اللهم إني أسئلك خيرها وخيرما جبلتها عليه ,وأعوذبك من شرها وشرما جبلتها عليه ,(وفي رواية )ثم لياخذ بناصيتها وليدع بالبركة في المرأة والخادم , وإذا اشترى بعيرا فليأخذ بذروة سنامه وليقل مثل ذلك )
"تم ميں سے کوئی جب کسی عورت سے شادی کرے, یا کوئی غلام خریدے, تو یہ دعا کرے (أللهم إني أسئلك خيرها وخيرها ما جبلتها عليه ,وأعوذبك من شرها وشرما جبلتها عليه ) "اے اللہ میں تجھ سے اس کی بھلائی اور اس چیز کی بھلائی چاہتا ہوں جس پر تونے اس کو پیدا کیا , اورتجھ سے اس کی برائی ,اوراس چیز کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں جس پر تونے اس کو پیدا کیا "
(سنن ابی داؤد ,علامہ البانی رحمۃ اللہ نے الکلم الطیب کی تخریج میں اس حدیث کی سند کو حسن کہا ہے)
ایک دوسری روایت میں ہے اس کی پیشانی پکڑے, اوربیوی اورخادم کے بارے میںبرکت کی دعا کرے , اور جب اونٹ خریدے تو اس کی کوہان کی چوٹی کو پکڑ کراوپر کی دعا پڑھے .
اور دولہا کو چاہئے کہ شب زفاف میں اپنی بیوی کے ساتہ دورکعت نماز پڑہے ایسا کرنے سے دونوں کی ازدواجی زندگی ہر نا پسند یدہ چیز سے محفوظ رہے گی .
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ کا بیان ہے کہ" جب تمہاری بیوی تمہارے پاس آئے تو تم اسے کہو, کہ وہ تمہارے پیچھے دو رکعت نماز پڑھے, اور یہ دعا کرو(اللهم بارك لي في أهلي ,وبارك لهم فِيَّ ,اللهم اجمع بَيننا ما جمعت َبِخير ,وفرِّق بيننا إذا فرَّقت إلي الخير)" اے اللہ 1میرے لئے میرے اہل میں برکت عطا فرما . اور ان کے لئے مجھ میں برکت عطا فرما , اے اللہ!جب تک ہمیں اکھٹا رکھے خیر پر اکھٹا رکھ, اورجب ہمارے اندر جدائی ہو تو خیر ہی پر جدائی کر " (طبرانی ,علامع البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس اثرکوحسن کہا ہے )
(14)اولا د کی شیطان سے حفاظت:
مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ ہمبستری کی دعاؤں کا اہتمام کرے , ایسا کرنے سے بچہ شیطان کے اثر سے محفوظ رہے گا , حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لو أن أحدکم إذا أتی أھلہ قال: بسم الله ,اللهم جنبنا الشيطان , وجنب الشيطان ما رزقتنا , فقضى بينهما ولد , لم يضره الشيطان أبدا )"اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لے ( بسم اللہ اللہم جنبنا الشیطان ,وجنب الشیطان مارزقتنا ) "اے اللہ !تو ہمیں شیطان سے محفوظ رکہ, اور تو ہمیں جو اولاد عطا کر اسے بھی شیطان سے بچانا " تو ان کے یہاں جو بچھ پیدا ہوگا شیطان اسے کبھی ضرر نہیں پھنچا سکے گا " (صحیح بخاری وصحیح مسلم )
(15)اولاد کا زہریلے جانوروں[سانپ ,بچھو] اور حسد سےٍ بچاؤ:
صبح وشام کے وقت اپنی اولا د کو جمع کریں, اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیرکر یہ دعا پڑھیں ( أعیذکم بکلمات اللہ التامّۃ من کل شیطان وہامّۃ ومن کل عین لامّۃ ) " میں تمہیں اللہ کی کلمات تامہ کے ساتہ ہر شیطان, زہریلے کیڑے اور ہو نظر بد سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں "
اور یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو مذکورہ بالا دعا کے ساتہ دم کیا کرتے تھے, اورفرماتے کہ تمہارے جد امجد ابراہیم علیہ السلام اسی دعا کے ساتہ اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام کو دم کیا کرتے تھے " (صحیح بخاری ,سنن ترمذی )
تالیف:وحید بن عبد السلام بالی
ترجمہ: ابوعدنان محمد طیب بهواروی
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"جب آدمي اپنے گھر میں داخل ہو تو یہ دعا پڑھے (اللہم إنی أسئلک خیر المولَج وخیر المخرَج ,بسم اللہ ولَجنا وبسم اللہ خرَجنا وعلى ربِّنا توکَّلنا ) " اے اللہ میں تجھ سے (گھر میں) داخل ہونے اور نکلنے کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں, اللہ کے نام کے ساتھ ہم (گھر میں ) داخل ہوئے اور اللہ کے نام کے ساتہ نکلے , اور اپنے پروردگار پرہم نے توکل کیا " پھر اپنے گھر والوں کو سلام کرے. (سنن ابو داؤد ج/4ص325,علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے
(2)اھل خانہ سے سلام کرنا
امام نووی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں مستحب یہ ہے کہ (آدمی گھر میں داخل ہوتے وقت )بسم اللہ پڑھے اور بکثرت ذکر الہی کرے ,اور سلام کرے چاہے گھر میں آدمی ہوں یا نہ ہوں ,کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے { فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً (61) سورة النــور﴾ "جب تم گھروں میں داخل هو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرلیا کروجو اللہ کی جانب سے مبارک اور پاکیزہ سلام ہے "
حضرت انس رضي الله عنه كا بيان هے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے )کہا (یابنی إذا دخلت على أہلک فسلّم یکن برکۃ علیک وعلى أہل بیتک)" اے میرے بیٹے جب اپنے اہل کے پاس جاؤتو انہیں سلام کرو جو تم پر اور اہل خانہ پر برکت کا سبب ہوگا "(سنن ترمذی ,ج 4ص161,امام ترمذي نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ).
امام نووی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ضامن علی اللہ کا مفہوم ہے ضمانت والا, گارنٹی پانےوالا , اورضمان کہتے ہیں کسی چیز کی حفاظت ونگرانی کرنے کو ,تو گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص اللہ کی حفاظت ونگرانی میں ہے . اور اس سے بہتر انعام اور کیا ہو سکتا ہے کہ آدمی ہمیشہ ہمیش کے لئے اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں رہے .
(3)کھاتے اور پیتے وقت اللہ کا ذکر کرنا
حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہو تے وقت اور کھاتے وقت اللہ کا نا م لیتا ہے تو شیطان (اپنے ساتھی شیطانوں سے)کہتا ہے ,کہ تمہارے لئے یہاں شب بسر کرنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ کھانا ہے, اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت آدمی اللہ کا نام نہیں لیتا, تو شیطان (اپنے ساتھی شیطانوں سے )کہتا ہے کہ تم نے شب بسر کرنےکی جگہ پالی , اور جب کھانا کھاتے ہوئے بھی اللہ کا نام نہیں لیتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ تم نے شب بسر کرنے اور کھانا کھانے کی جگہ پالی "(صحیح مسلم )
(4)گھر میں کثرت سے قرآن کی تلاوت کرنا:
حضرت ابو موسى'اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا :"قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال سنگترے (نارنجی) کی سی ہے کہ اسکا ذائقہ بھی عمدہ ہوتا ہے اور خوشبو بھی عمدہ, اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے, کہ اسکا ذائقہ تو عمدہ ہوتا ہے مگر اس میں خوشبو نہیں ہوتی ,اورقرآن پڑھنے والے منافق کی مثال گل ریحان کی سی ہے کہ اس کی خوشبو عمدہ ہوتی ہے مگر ذائقہ کڑوا ہوتا ہے , اورقرآن نہ پڑھنے
والےمنافق کی مثال اندرائن (کے پھل) جیسی ہے کہ اس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے اور اس میں خوشبو بھی نہیں ہوتی " ( صحیح بخاری ومسلم)
اسی طرح گھر میں خشوع وخضوع کے ساتہ قرآن پڑھنے سےفرشتے گھر کے قریب آتے ہیں ,چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ ایک رات اپنے کھلیان (کجھور جمع کرنے کی جگہ) میں قرآن پڑھ رہے تھے کہ اچانک ان کی گھوڑی بدکنے لگی (وہ خاموش ہوگئے تو پھر وہ گھوڑی ٹہرگئی ) پھر وہ پڑھنے لگے تو پھروہ گھوڑی بدکنے لگی (اس کے بعد پھر وہ پڑھنے سے رک گئے ) پھر وہ پڑھنے لگے تو پھر وہ گھوڑی بدکنے لگی ,حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ڈر گیا کہ کہیںگھوڑی (میرے بچے ) کو کچل نہ ڈالے , پھر میں اس گھوڑی کی طرف بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک
ایک سائبان سا میرے سر پر ہے ,اور اس میں چراغ جیسی روشنی ہے ,پھر وہ روشنی فضا میں بلند ہونے لگی یہاں تک کہ میں نے پھر اس کو نہیں دیکھا ,میں رسول £کی خدمت میں صبح کو حاضر ہوا, اور عرض کیا یارسول اللہ! گزشتہ رات میں اپنےکھلیان میں قرآن پڑہ رہا تھا کہ میری گھوڑی بدکنے لگی ,تورسول £نے فرمایا, اے ابن حضیر! پڑھتے رہو, ابن حضیر کا بیان ہے کہ پھر میں پڑھنے لگا ,پھر وہ گھوڑی بدکنے لگی , پھر رسول £نے فرمایا :اے ابن حضیر!پڑہتے رہو ,ابن حضیر کہنے لگے کہ میں ہی رک گیا ,کیونکہ یحی' گھوڑی کے پاس تھا ,میں ڈرا کہ کہیں یحی' کو کچل نہ ڈالے ,چنانچہ مین نے ایک سائبان سا دیکھا جس میں چراغ جیسی روشنی تھی ,پھر وہ فضا میں بلند ہونے لگی یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا ,تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"يہ فرشتےتھے جوتمھاری قراءت سن رہے تھے اگر تم پڑھتے پڑھتے صبح کردیتے تو لوگ ان فرشتوں کو دیکہ لیتے اور وہ ان کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہتے ".
(5)گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنا:
جب آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کے گھر میں مشکلات بڑہ گئی ہیں ,آوازیں بلند ہونے لگی ہیں ,اور سرکشی وعناد پیدا ہوگئی ہے تویہ جان لیں کہ شیطان وہاں ضرور موجود ہے ,اسلئے آپ کو چاہئے کہ اسے بھگانے اور دور کرنے کی کوشش کریں ,لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کیسے بھاگے گا, اس سوال کا جواب آپ کو اللہ کے رسول £دے رھے ہیں ,آپ نے فرمایا :(إن لكل شيءسناما ,وإن سنام القرآن سورة البقرة ,وإن الشيطان إذا سمع سورة البقرة تقرأ خرج من البيت الذي تقرأ فيه البقرة) "ہرچیز کی کوئی چوٹی ہوتی ہے (جو سب سے اوپراور بالاتر ہوتی ہے )اورقرآن کی چوٹی سورۂ بقرہ ہے اور شیطان جب سورۂ بقرہ کی تلاوت ہوتے ہوئے سنتا ہے تو اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جہاں سورۂ بقرہ کی تلاوت ہوتی ہے "(امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور حافظ ذہبی نے اس کی تائید کی ہے ,اور علامہ البانی نے اپنی کتاب السلسلۃ الصحیحۃ ح/558میں اس حدیث کو حسن کہا ہے ).
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لا تجعلوابیوتکم قبورا فإن البیت الذی تقرأ فیہ سورۃ البقرۃ لا یدخلہ الشیطان )"اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ(بلکہ اپنے گھروں کو تلاوت قرآن سے معمور رکھو)کیونکہ جس گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر میں شیطان نہیں آسکتا "
(6)شيطاني آواز سے گھر کوپاک رکھنا :
فرمان باری تعالى ہے ﴿{وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ ﴾ اور ان ميں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکتا ہے بہکالے " (سورۃ اسراء:64)
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(ليشربنَّ أُناس من أمتي الخمريسمّونها بغير اسمها ,يعزف على رؤسهم بالمعازف ,ويخسف الله بهم الأرض ,ويجعل منهم قردة وخنازير)" البتہ ضرور میری امت کے کچہ لوگ شراب پیئیں گے اس کا نام بدل دیں گے ’ان کے سروں پر گلوکارائیں گائیں گی اورآلات طرب بجائے جائیں گے ,اللہ تعالى انہیں زمین میں دھنسا دے گا , اور ان میں سے بعض افراد کو بندر اور سور بنادیگا "(سنن ابن ماجہ 2/1333,اس حدیث کی سند حسن ہٍے, دیکھئے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب اغاثہ اللہفان )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(ليكونن في أمّتي أقوام يستحلّون الحرّ والحرير والخمر والمعازف)
"میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جوزنا ,ریشم ,شراب اور آلات موسیقی کو حلال سمجہ لیں گے "(صحیح بخاری 10/51مع الفتح)
(7)گھنٹیوں سے گھر کو پاک رکھنا :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :( الجرس مزامير الشيطان )"گھنٹی شیطان کے باجے ہیں "(صحیح مسلم ,سنن ابوداؤد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی ایک دوسری روایت ہے جس میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(لا تصحب الملائکۃ رفقۃ فیہا کلب, أو جرس )"فرشتے ان مسافروں کے ساتھ نہیں رہتے جن کے ساتہ گھنٹا یا کتا ہو "(صحیح مسلم , ابوداؤد , ترمذی ,اوراما م ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے )
فرشتے اللہ کی فوج ہیں اور وہ ہمیشہ شیطانی فوج کے ساتہ جنگ کی حالت میں ہوتے ہیں ,جب رحمانی فوجیں ان سے علیحدہ ہوتی ہیں تو پھران پر شیطانی فوجیں مسلط ہوجاتی ہیں .
لیکن گھنٹی سےمرا د وہ ممنوعہ گھنٹی ہے جو آوازکی شکل میں گرجا گھروں کے ناقوس کے مشابہ ہو ,اس سے موجودہ ٹیلی فون کی گھنٹی کا حکم مستثنى ہے ,اسی طرح گھروں میں لگائی جانے والی گھنٹیاں بھی اس سے خارج ہیں , الاّ یہ کہ وہ گھنٹیاں آواز میں گرجاگھروں کے ناقوس کے مشابہ ہوں ,جس طرح وہ گھنٹی جو ایک دفعہ بجے پھر بند ہوجائے , اس طرح بجتی اوربند ہوتی رہے .
اسی طرح ممنوعہ گھنٹی میں دیوار گھڑی کی وہ گھنٹی بھی شامل ہے جو بنڈول کے نام سے جانی جاتی ہے ,اسلئے کہ یہ آواز میں گرجا گھر کے ناقوس کے متشابہ ہوتی ہے ,اور یہاں پر ایک بات اچہی طرح جان لیں کہ موسیقی کی گھنٹی جو حرام ہے اس کی حرمت اس وجہ سے نہیں ہےکہ وہ عیسائیوں کےناقوس کے متشابہ ہے, بلکہ اس کی حرمت اس وجہ سے ہے, کہ یہ شیطانی باجے ہیں ,جس کی نشاندہی سطور بالا میں کی جا چکی ہے .
(8)صلیب[كراس نشان ] سے گھر کو پاک رکھنا:
اسلئےکہ صلیب نصارى'کاشعار ہے ,اورہمیں یہودونصاری'کی مشابہت سے روکا گیا ہے , لیکن ہائے افسوس !آج صلیبیں مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہوچکی ہیں ,مسلمانوں کے جس گھر میں داخل ہوں گے صلیب آپ کو ضرور ملے گا ,جا نماز میں ,یا پردے میں یا دیوار کے نقش ونگار میں ,بلکہ یہ صلیبیں اللہ کے گھروں (مسجدوں ) میں داخل ہو چکی ہیں ,کتنی مسجدیں ہیں کہ اگر اس کے جانمازوں کے نقش ونگار کو بنظرغائر دیکھا جائے تو آپ کو صلیبیں صاف صاف نظر آئیں گی ,اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ یہ جا نمازیں اور قالینیں عیسائی ملکوں سے درآمد کئے جاتے ہیں ,گویاکہ یہ نیا صلیبی حملہ ہے جو ہر گھر پر حملہ آور ہے , اسلئے اے مسلمان بھائیو !آپ محتاط رہیں ,اورکپڑا ,بستر ,قالین ,جانماز وغیرہ خریدتے وقت گہری نظرڈالیں ,اوریہ نہ کہیں کہ بلا تعمّد یہ صلیبیں آگئی ہیں ,کیونکہ نبی کریم £جوصلیب بھی اپنے گھرمیں پاتے اس کو توڑ ڈالتے , کیا کوئی عقلمند کہ سکتا ہے کہ نبی کریم £کے گھر میں عمداً صلیب لائی گئی تھی .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :(لم يكن النبي صلی اللہ علیہ وسلم يترك في بيته شيئا فيه تصاليب إلا نقضه ) "آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں جب کوئی ایسی چیز دیکھتے جس پر صلیب کی تصویر یں ہوتیں تو اس کو توڑ ڈالتے " (صحیح بخاری ,سنن ابو داؤد).
(9)گھر کو تصویروں ,مجسموں اور مورتیوں سے پا ک رکھنا:
ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کو مجسموں اور مورتیوں سے پاک رکھے ,سوائے ان کے جن کا استثناء حدیث میں آیا ہوا ہے , اوروہ لڑکیوں کا گڑیا ہے ,اسی طرح تصویروں سے بھی (گھرکوپاک رکھے) بجز ان تصویروں کے جو ضرورت کے لئے ہوں جیسے پاسپورٹ , شناختی کارڈ اور سرکاری کاغذات وغیرہ .
اس لئے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر اورمجسمے ہوں , اورجیسا کہ ہم نے ابھٍی ذکر کیا کہ فرشتے جس گھر سے نکل جاتے ہیں شیطان اس گھر میں اپنا مسکن بنالیتا ہے , چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے انہوں نے ایک توشک خریدی جس میں تصویریں تھیں ,جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو آپ دروازے پر کھڑے رہے اوراندر نہ گئے ,میں نے آپ کے چہرۂ مبارک سےناراضگی کو پھچان لیا,میں نے کہا یارسول اللہ !
میں توبہ کرتی ہوں اللہ اور اس کے رسول کے سامنے میرا کیا گناہ ہے؟
آپ نے فرمایا :یہ توشک کیسی ہے ؟ میں نے کہا اس کو میں نے خریدا ہے تاکہ آپ بیٹھیں اور ٹیک لگائیں , آپ نے فرمایا ان تصویروں کو بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائیگا اور ان سے کہا جائے گأ کہ تم نے جنہیں پیدا کیا انہیں زندہ کرو ,آپ نے مزید فرمایا کہ جس گھر میں تصویرہو وہاں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے "(صحیح بخاری ومسلم )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لا تدخل الملائکۃ بیتا فیہ تماثیل أو تصاویر) "جس گھر میں مجسمے اور تصاویر ہوں وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے " ( صحیح مسلم )
(10)گھر کا کُتّوں سے پاک رکھنا:
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة ) "[ رحمت كے ]فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو " (صحیح بخاری وصحیح مسلم )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ جبرئیل علیہ السلام نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک متعین وقت میں آنے کا وعدہ کیا , وقت گزرگیا لیکن جبرئیل علیہ السلام نہ آئے ,اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتہ میں ایک لکڑی تھی, آپ نے اسے اپنے ہاتہ سے پھینک دیا اور فرمایا :"کہ اللہ تعالى وعدہ خلافی نہیں کرتا نہ اس کے قاصد وعدہ خلافی کرتے ہیں, پھر آپ نے ادہر ادہر دیکھا تو ایک پلا ( یعنی کتے کا بچّہ) آپ کی چارپائی کے نیچے دکھائی دیا , آپ نے فرمایا اے عاشہ! یہ پِلاّ اس جگہ کب آیا ؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم !مجھے علم نہیں ,آپ نے حکم دیا وہ باہر نکالا گیا , پھر جب جبرئیل آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور میں آپ کے انتظارمیں بیٹھا رہا لیکن آپ نہیں آئے ,تو جبرئیل نے کہا یہ کتا جو آپ کے گھر میں تھا اسنے مجھے روک رکھا تھا, جس گھر میں کتا اور تصویر ہو ہم وہاں داخل نہیں ہوتے "(صحیح بخاری ومسلم )
اس حکم سے صرف شکاری, یا حفاظتی کتے مستثنى ہیں بشرطیکہ کتا, کا لا نہ ہو, اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (الکلب الأسود شیطان )" سیاہ کتا شیطان ہے "اورسیاہ کتے کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہوئے آپ نے فرمایا ( علیکم بالاسود البہیم ذی النقطتین فإنہ شیطان ) " تم دو نقطوں والے کالے سیاہ کتے کو مارو کیونکہ وہ شیطان ہے " (صحیح مسلم)
ایک دوسری روایت جو حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے , ان کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (من اقتنى کلبا إلا کلب صید أوماشیۃ ,فإنہ ینقص من أجرہ کل یوم قیراطان ) "جو شخص مویشی یا شکاری کتے کے علاوہ کوئی اور کتا پالے تواس کے ثواب میں سے روزانہ دوقیراط گھٹتے جائیں گے "(بخاری ومسلم )
(11)گھر میں نفلی نمازوں کا بکثرت اہتما م کرنا:
حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (إجعلوامن صلاتکم فی بیوتکم ولا تتخذوھا قبورا ) "اپنی نمازوں کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں ادا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ"(صحیح بخاری ومسملم )
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کھ گھر میں نماز پڑھنے کی ترغیب اس لئے دی جارہی ہے کہ یہ کام آسان اور اس میں ریاکاری سے دوری اور اعمال کی بربادی سے بچاؤ ہے ,نیز اس وجہ سے بھی کہ اس سے گھر میں برکت کا حصول ہوتا ہے ,رحمت نازل ہوتی ہے ,فرشتے آتے ہیں اورشیطان گھر سے بھاگتا ہے ,ا.ھ.( شرح مسلم للنووی )
(12)اچھی بات اورخندہ پیشانی:
آپ کویہ معلوم ہے کہ شیطان مسلم معاشرے کو تہس نہس کرنے کے لئے تدبیریں کرتا , چال چلتا اورمنصوبے بناتا ہے, اس کےمنصوبے میں مسلم خاندان کی بنیاد کو اکھاڑپھینکنا بھی شامل ہے, کیوں کہ معاشرے کی تعمیر میں یہ پہلی اینٹ ہے, جس کی وضاحت حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث کررہی ہے , رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (إن إبلیس یضع عرشہ على الماء ,ثم یبعث سرایاہ, فا دناہم منہ منزلۃ أعظمہم فتنۃ یجیئ أحدہم فیقول :ما ترکتہ حتی فرقت بینہ وبین امرأتہ قال : فيدنيه منه ويقول نعم أنت )"ابليس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے ,پھر وہاںسے وہ اپنا لشکر (دنیا میں فساد برپا کرنے کے لئے )بھیجتا ہے , ابلیس کے سب سے قریب وہ شیطان ہوتا ہے جوسب سے بڑا فتنہ برپا کرے چنانچہ جب کوئی شیطان آکرکہتا ہے میں فلاں بیوی کے پیچھے پڑا رہا یہاں تک کہ وہ دونوں میں علیحد گی پید ا کردی , ابلیس اسے اپنے قریب کرلیتا ہے اورکہتا ہے توبہت خوب ہے "(صحیح مسلم )
ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنا معاشرہ کی بنیاد کو جڑسے اکھاڑپھینکنا ہے , اوریہ ابلیس لعین کا خاص ہدف ہے –
اسلئے شوہر کے لئے ضروری ہے کہ اپنی بیوی سے حسن سلوکی سے پیش آئے ,اور اچھی بات اختیار کرے, تاکہ شیطان اس کے اوراسکی بیوی کے درمیان فساد برپا نہ کرسکے, فرمان باری تعالى ہے﴿{وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُواْ الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ﴾"میرے بندوں سے کہدیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے " (سورۂ اسراء:53)
(13)اهل خانہ کی حفاظت:
حضرت عبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( إذ ا تزوّج أحدکم إمراة,أو اشترى خادما فليقل : اللهم إني أسئلك خيرها وخيرما جبلتها عليه ,وأعوذبك من شرها وشرما جبلتها عليه ,(وفي رواية )ثم لياخذ بناصيتها وليدع بالبركة في المرأة والخادم , وإذا اشترى بعيرا فليأخذ بذروة سنامه وليقل مثل ذلك )
"تم ميں سے کوئی جب کسی عورت سے شادی کرے, یا کوئی غلام خریدے, تو یہ دعا کرے (أللهم إني أسئلك خيرها وخيرها ما جبلتها عليه ,وأعوذبك من شرها وشرما جبلتها عليه ) "اے اللہ میں تجھ سے اس کی بھلائی اور اس چیز کی بھلائی چاہتا ہوں جس پر تونے اس کو پیدا کیا , اورتجھ سے اس کی برائی ,اوراس چیز کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں جس پر تونے اس کو پیدا کیا "
(سنن ابی داؤد ,علامہ البانی رحمۃ اللہ نے الکلم الطیب کی تخریج میں اس حدیث کی سند کو حسن کہا ہے)
ایک دوسری روایت میں ہے اس کی پیشانی پکڑے, اوربیوی اورخادم کے بارے میںبرکت کی دعا کرے , اور جب اونٹ خریدے تو اس کی کوہان کی چوٹی کو پکڑ کراوپر کی دعا پڑھے .
اور دولہا کو چاہئے کہ شب زفاف میں اپنی بیوی کے ساتہ دورکعت نماز پڑہے ایسا کرنے سے دونوں کی ازدواجی زندگی ہر نا پسند یدہ چیز سے محفوظ رہے گی .
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ کا بیان ہے کہ" جب تمہاری بیوی تمہارے پاس آئے تو تم اسے کہو, کہ وہ تمہارے پیچھے دو رکعت نماز پڑھے, اور یہ دعا کرو(اللهم بارك لي في أهلي ,وبارك لهم فِيَّ ,اللهم اجمع بَيننا ما جمعت َبِخير ,وفرِّق بيننا إذا فرَّقت إلي الخير)" اے اللہ 1میرے لئے میرے اہل میں برکت عطا فرما . اور ان کے لئے مجھ میں برکت عطا فرما , اے اللہ!جب تک ہمیں اکھٹا رکھے خیر پر اکھٹا رکھ, اورجب ہمارے اندر جدائی ہو تو خیر ہی پر جدائی کر " (طبرانی ,علامع البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس اثرکوحسن کہا ہے )
(14)اولا د کی شیطان سے حفاظت:
مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ ہمبستری کی دعاؤں کا اہتمام کرے , ایسا کرنے سے بچہ شیطان کے اثر سے محفوظ رہے گا , حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لو أن أحدکم إذا أتی أھلہ قال: بسم الله ,اللهم جنبنا الشيطان , وجنب الشيطان ما رزقتنا , فقضى بينهما ولد , لم يضره الشيطان أبدا )"اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لے ( بسم اللہ اللہم جنبنا الشیطان ,وجنب الشیطان مارزقتنا ) "اے اللہ !تو ہمیں شیطان سے محفوظ رکہ, اور تو ہمیں جو اولاد عطا کر اسے بھی شیطان سے بچانا " تو ان کے یہاں جو بچھ پیدا ہوگا شیطان اسے کبھی ضرر نہیں پھنچا سکے گا " (صحیح بخاری وصحیح مسلم )
(15)اولاد کا زہریلے جانوروں[سانپ ,بچھو] اور حسد سےٍ بچاؤ:
صبح وشام کے وقت اپنی اولا د کو جمع کریں, اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیرکر یہ دعا پڑھیں ( أعیذکم بکلمات اللہ التامّۃ من کل شیطان وہامّۃ ومن کل عین لامّۃ ) " میں تمہیں اللہ کی کلمات تامہ کے ساتہ ہر شیطان, زہریلے کیڑے اور ہو نظر بد سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں "
اور یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو مذکورہ بالا دعا کے ساتہ دم کیا کرتے تھے, اورفرماتے کہ تمہارے جد امجد ابراہیم علیہ السلام اسی دعا کے ساتہ اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام کو دم کیا کرتے تھے " (صحیح بخاری ,سنن ترمذی )
تالیف:وحید بن عبد السلام بالی
ترجمہ: ابوعدنان محمد طیب بهواروی
Friday, April 15, 2011
. آیے اپنے رب کے بارے میں کچھ جانتے ہیں
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ :::
بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں
آیے اپنے رب کے بارے میں کچھ جانتے ہیں
اللہ کرے کہ میری یہ باتیں آپ کے دِل میں گھر کر جائیں ،
اور آپ اللہ سے حقیقی محبت کرنے لگیں جِس طرح کہ اُس سے محبت کرنے کا حق ہے ،
آیے اللہ کے بارے میں کچھ جانیں ، اور ایسی زُبان میں جانیں جو بولی جانے والی ساری زُبانوں سے مختلف ہے لیکن ساری زبانوں سے زیادہ طاقتور اور مؤثر ہے ،
وہ ہے محبت کی ز ُبان
،
انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ اُس کی بے مثال تخلیقات اور ایجادات سے ساری کائنات بھری ہوئی ہے بلکہ کائنات بھی اُسی کی تخلیق ہے ؟؟؟
انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ ہر سانس لینے والی جان پر اُس کا یہ احسانء عظیم ہو کہ وہ سانس لے رہی ہے ؟؟؟
انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ اُس کا ہمارے ساتھ انتہائی حلم والا رویہ کہ وہ ہمارا ہر وہ کام دیکھتا ہے جو اُس کی ناراضگی والا ہے پھر بھی ہمیں سزا نہیں دے رہا ؟؟؟
انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ ہم اُس کی نافرمانیوں میں لُتھڑ کر بھی اگر اُس کے سامنے خود کو حاضر کر دیں تو وہ ہماری طرف سے منہ نہیں پھیرتا ، ہم سے نفرت نہیں کرتا بلکہ خوش ہوتا ہے ، اور ہماری توبہ قبول کرتا ہے اور ہمارے گناہوں کو نیکوں میں تبدیل کر دیتا ہے
،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا کوئی ہم مثل نہیں ((((( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ::: اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب دیکھنے اور سننے والا ہے ))))) سورت الشوریٰ /آیت 11،
اور اللہ پاک کے بارے میں کچھ سمجھانے کے لیے سب سے اعلیٰ ترین مثال ہوتی ہے ((((( وَلِلّهِ الْمَثَلُ الأَعْلَىَ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ::: اور اللہ کے لیے (سب سے) بُلند مثال ہے اور وہ زبردست اور حِکمت والا ہے )))) سورت النحل/آیت 60،
اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِن دونوں مذکورہ بالا فرامین کو سامنے رکھتے ہوئے میں ایک مثال دے کر آپ کو کچھ سمجھانا چاہتا ہوں لیکن معاذ اللہ یہ مثال اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک یا اُس کی کسی صفت مبارک کی تشبیہ کے لیےنہیں اور نہ ہی اُس کی کسی صفت مبارک کی کوئی کیفیت بتانے کے لیے بلکہ آپ صاحبان کو بات سمجھانے کے لیے ، آپ کے شعور میں کچھ اجاگر کرنے کے لیے ہے ،
تصور کیجیے کہ اگر کوئی انسان، کسی دوسرے اِنسان سے مصافحہ کرنے کے لیے یا اُس کی مدد کرنے کے لیے، یا اُس کو درست راہ تک پہنچانے کے لیے ، اُس کی طرف ہاتھ پھیلائے اوروہ پہلا اِس دوسرے کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ کسی اور طرف ، کسی اور کی طرف متوجہ رہے اور دوسرا شخص پہلے کی اِس بے رُخی کے باوجود اُس کی طرف متوجہ رہے اور اُس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائے رکھے تو بتایے کیا آپ اُس پہلے بے رُخی کرنے والے کو اُس کی بے رخی پر ڈانٹیں گے نہیں ؟؟؟
اور دوسرے کو اِس پہلے کی طرف سے توجہ ہٹا دینے کا نہیں کہیں گے چھوڑیے اِس کو ، یہ اِس قابل ہی نہیں کہ آپ اِس کی مدد کرنے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑہائیں، اور شاید آپ کا یہ کہنا ایک لحاظ سے دُرست بھی ہو ،
اب آپ یہ دیکھیے کہ ہمارا رب اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف کس طرح متوجہ رہتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے ((((( إِنَّ اللَّهَ عَزّ وجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ حتى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِن مَغْرِبِهَا::: بے شک اللہ عز و جل رات میں اپنا ہاتھ (مُبارک ) پھیلاتا ہے کہ دِن میں برائیاں کرنے والا توبہ کر لے اور دِن میں ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات میں برائیاں کرنے والا توبہ کر لے (اور اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرتا رہے گا ) یہاں تک سورج مغرب سے طلوع ہو جائے )))))صحیح مُسلم/ حدیث 2759/ کتاب التوبہ /باب 5،
دیکھیے کہ ہمارا رب ہر وقت ہمارے لیے اپنی رحمت کے ساتھ ، اپنی مغفرت لیے ہوئے اپنا ہاتھ مبارک ہماری طرف پھیلائے رکھتا ہے اور ہم اُس کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے اور طرف متوجہ رہتے ہیں ،ہمارے دِل ہمارے رب سے آشنا نہیں ، اُس کی رحمت اور اس کی بخشش کی وسعت سے آشنا نہیں ، اُس کی محبت سے آشنا نہیں ، اور یہ نا آشنائی ہمیں ہمارے رب سے اُس کی محبت سے اُس کی تابع فرمانی سے مزید دُور کرتی چلی جاتی ہے ،
آیے ایک اور مثال سے اپنے رب کی رحمت اور عطاء کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں ، اور ساتھ ساتھ ہی یہ بات بھی دہراتا چلوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ """ یہ مثال اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک یا اُس کی کسی صفت مبارک کی تشبیہ کے لیےنہیں اور نہ ہی اُس کی کسی صفت مبارک کی کوئی کیفیت بتانے کے لیے بلکہ آپ صاحبان کو بات سمجھانے کے لیے ، آپ کے شعور میں کچھ اجاگر کرنے کے لیے ہے
"""
جی ، تو ذرا سوچیے کہ ایک شخص کے پاس کچھ کام کرنے والے غُلام ہوں اور ان میں ایک بہت ہی غریب اور تباہ حال شخص بھی ہو ، اور یہ آقا اپنے اس غُلام کو اس کی ضروریات زندگی پوری کرنے کا سامان تو ضرور ہی دیتا ہواور جوابی طور پر وہ غُلام اپنے آقا کے احکام پر عمل نہ کرتا ہو ، اُس کی نا فرمانی کرتا ہو ،اور اگر کبھی آقا کے احکام پر عمل کرے بھی تو آقا کے بتائے ہوئے طریقے پر نہیں بلکہ اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہو ، اپنے نفس کی خواہشات کے مطابق کرتا ہو ، اپنی عقل اور مزاج کی شہوتوں کے مطابق کرتا ہو ،
آپ ہی بتایے کہ کیا ایسا غُلام اس قابل نہیں کہ آقا اسے دُھتکار دے ، اپنے احسان اور درگزر کے دروازے اُس پر بند کر دے ؟؟؟
لیکن آقا یہ سب جانتے ہوئے بھی اُس نافرمان اور گمراہ غُلام کے ساتھ احسان اور درگزر والا رویہ رکھے اور اُس کے لیے اپنے عفو اور بخشش کے در کھولے رکھے ،
کیا آپ ایسے آقا کی تعریف نہ کریں گے ؟؟؟
کیا ایسے آقا کے لیے آپ کے دِل میں احترام اور محبت پیدا نہ ہو گی ؟
ایک دفعہ پھر یاد دہانی کروا دوں کہ اللہ سُبحانہ و تعالیٰ کے لیے سب سے اعلیٰ ترین مثال ہو سکتی ہے ، یہ مثالیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات اور ان کی کیفیات نہیں ہیں بلکہ صرف ان کے بارے میں کچھ سمجھانے کچھ اندازہ قائم کرنے کے لیے ہے تو اس مذکورہ بالا مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اب غور کیجیے کہ وہ غُلام ہم ہیں اور وہ آقا اللہ تعالیٰ ہے ، تو کیوں ایسے الروؤف الرحیم اورالجوادالکریم رب کی محبت ہمارے دِلوں میں نہ ہو !!!؟؟؟
اور کیسے ہم اپنے""" ودود """رب کی نافرمانی کرتے ہیں !!!؟؟؟
دیکھے ہمارا """ ودود """ رب کس طرح اپنے اِیمان والے نیکوکار بندوں پر شفقت کی بارش کیے رکھتا ہے اور اُن کی اپنے رب سے محبت سے پہلے وہ """ ودود """ رب اُن سے محبت کرتا ہے ((((( يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ ::: اللہ اُن سے محبت کرتا ہے او وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں )))))
اور اللہ تما م تر بادشاہی کا مالک ہے ، ہر قوت و قدرت کا مالک ہے،اُسے کسی سے کوئی حاجت نہیں ، کسی سے کوئی لالچ نہیں ، اس کے باوجود جب اپنے غُلاموں کی طرف نزول فرماتا ہے تو ان کے ساتھ اپنے جلال اور ھیبت والے معاملے کی بجائے شفقت اور رحمت والا معاملہ فرماتا اور انہیں پکار پکار کر فرماتا ہے
((((( هَل مِن سَائِلٍ يُعْطَى؟ هَل مِن دَاعٍ يُسْتَجَابُ لَهُ ؟ هَل مِن مُسْتَغْفِرٍ يُغْفَرُ لَهُ؟:::ہے کوئی سوالی کہ اُسے دِیا جائے ؟ ہے کوئی دُعا کرنے والا کہ اُس کی دُعا قبول کی جائے ؟ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ اُس کی بخشش کی جائے )))))صحیح مُسلم /حدیث758/کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا /باب24 ،
ایسا مالک اور آقا جو اپنی تمام تر قوت و عظمت کے باوجود ہماری تما م تر برائیوں اور نافرمانیوں کے باوجود ہمیں اُس کی بخشش کی کھلی دعوت دے، کیوں ہم اُس سے محبت نہیں کرتے اور اس کی نافرمانیوں میں مشغول رہتے ہیں !!!؟؟؟
اُس نے ہمیں اسلام کی نعمت سے نوازا ، اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت میں شامل فرما کر اپنی خاص نعمتوں کے دروازے ہمارے لیے کھولے اور اس طرح ہم سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا ، اور ہم اُس سے محبت نہیں کرتے اُس کی نافرمانی کرتے ہیں !!! یا اُس کی تابع فرمانی اپنی مرضی کے طور طریقوں پر کرتے ہیں
!!!
چلتے چلتے اللہ کی محبت حاصل ہوجانے کے نتیجے پر غور فرماتے چلیے ،
انس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ کہیں سے گذر رہے تھے تو اُنہوں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ راستے میں ہے اُس کی ماں نے جب اپنے بچے کو راستے کے درمیان میں دیکھا تو ڈر گئی کہ کہیں جانوروں کے پیروں تلے دب نہ جائے تو انتہائی والہانہ انداز میں """ میرا بچہ میرا بچہ """کہتے ہوئے بھاگی اور اپنے بچے کو اٹھا کر سینے سے چمٹا لیا ،
صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ دیکھا تو عرض کی """ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كَانَتْ هَذِهِ لِتُلْقِيَ ابْنَهَا فِي النَّارِ ؟::: اے اللہ کے رسول کیا یہ اپنے بیٹے کو آگ میں ڈال سکتی ہے ؟ """ (یعنی جو ماں اپنے بیٹے سے اتنی محبت کرتی ہے وہ کیسے یہ برادشت کر سکتی ہے کہ اُس کا بیٹا آگ میں ڈال دیا جائے
)
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((لَا وَلَا يُلْقِي اللَّهُ حَبِيبَهُ فِي النَّارِ::: نہیں اور نہ ہی اللہ اپنے کسی
محبوب کو آگ میں ڈالے گا )))))
المستدرک الحاکم/حدیث 7347، مُسند احمد /حدیث 13492/السلسلہ الصحیحۃ /حدیث2407،
اللہ کرے کہ ہم اُس سے محبت کرنے والوں میں سے بن سکیں اور ہم اُس کے اِس حکم پر عمل کرنے والے بھی بن سکیں کہ ((((( قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ::: (اے محمد ) آپ فرما دیجیے کہ اگر تُم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تابع فرمانی کرو (تو پھر ) اللہ تُم لوگوں سے محبت کرے گا اور تُم لوگوں کے گناہ معاف فرمائے گا اور اللہ بہت ہی بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے )))))سورت آل عمران /آیت 31۔
اپنی بات کچھ سوالات پر ختم کرتا ہوں جو ہم سب کے لیے ہیں کہ ہم خود سے پوچھیں کہ ،
کیا اپنے رب کی یہ چند صفات جاننے کے بعد بھی میں اُس سے اُس طرح محبت نہیں کروں گا جِس طرح کہ اُس سے محبت کرنے کا حق ہے ؟؟؟
اور کیا اِن بینات کو سمجھنے کے بعد بھی میں اُس کی نافرمانی کروں گا ؟؟؟
کیا میں نا شکر گذار بنوں گا ؟؟؟
کیا میں اپنے رب کی ذات بے مثال اور صفات بے مثال کو مزید جاننے سے رکا رہوں گا ؟؟؟
اِن شاء اللہ سب کا جواب """ نہیں """ ہوگا ، قولاً بھی اور عملاً بھی ،
اور آپ سب یہ کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کر کے اُس کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کر کے اللہ کی محبت حاصل کر سکیں کہ جسے اللہ کی محبت حاصل ہو جائے اللہ اسے عذاب نہ دے گا ۔
اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ :::
بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں
آیے اپنے رب کے بارے میں کچھ جانتے ہیں
اللہ کرے کہ میری یہ باتیں آپ کے دِل میں گھر کر جائیں ،
اور آپ اللہ سے حقیقی محبت کرنے لگیں جِس طرح کہ اُس سے محبت کرنے کا حق ہے ،
آیے اللہ کے بارے میں کچھ جانیں ، اور ایسی زُبان میں جانیں جو بولی جانے والی ساری زُبانوں سے مختلف ہے لیکن ساری زبانوں سے زیادہ طاقتور اور مؤثر ہے ،
وہ ہے محبت کی ز ُبان
،
انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ اُس کی بے مثال تخلیقات اور ایجادات سے ساری کائنات بھری ہوئی ہے بلکہ کائنات بھی اُسی کی تخلیق ہے ؟؟؟
انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ ہر سانس لینے والی جان پر اُس کا یہ احسانء عظیم ہو کہ وہ سانس لے رہی ہے ؟؟؟
انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ اُس کا ہمارے ساتھ انتہائی حلم والا رویہ کہ وہ ہمارا ہر وہ کام دیکھتا ہے جو اُس کی ناراضگی والا ہے پھر بھی ہمیں سزا نہیں دے رہا ؟؟؟
انتہائے حیرت ہے!!! کہ کیونکر دِل اللہ کی محبت سے لبریز نہ ہوں جبکہ ہم اُس کی نافرمانیوں میں لُتھڑ کر بھی اگر اُس کے سامنے خود کو حاضر کر دیں تو وہ ہماری طرف سے منہ نہیں پھیرتا ، ہم سے نفرت نہیں کرتا بلکہ خوش ہوتا ہے ، اور ہماری توبہ قبول کرتا ہے اور ہمارے گناہوں کو نیکوں میں تبدیل کر دیتا ہے
،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا کوئی ہم مثل نہیں ((((( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ::: اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب دیکھنے اور سننے والا ہے ))))) سورت الشوریٰ /آیت 11،
اور اللہ پاک کے بارے میں کچھ سمجھانے کے لیے سب سے اعلیٰ ترین مثال ہوتی ہے ((((( وَلِلّهِ الْمَثَلُ الأَعْلَىَ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ::: اور اللہ کے لیے (سب سے) بُلند مثال ہے اور وہ زبردست اور حِکمت والا ہے )))) سورت النحل/آیت 60،
اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِن دونوں مذکورہ بالا فرامین کو سامنے رکھتے ہوئے میں ایک مثال دے کر آپ کو کچھ سمجھانا چاہتا ہوں لیکن معاذ اللہ یہ مثال اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک یا اُس کی کسی صفت مبارک کی تشبیہ کے لیےنہیں اور نہ ہی اُس کی کسی صفت مبارک کی کوئی کیفیت بتانے کے لیے بلکہ آپ صاحبان کو بات سمجھانے کے لیے ، آپ کے شعور میں کچھ اجاگر کرنے کے لیے ہے ،
تصور کیجیے کہ اگر کوئی انسان، کسی دوسرے اِنسان سے مصافحہ کرنے کے لیے یا اُس کی مدد کرنے کے لیے، یا اُس کو درست راہ تک پہنچانے کے لیے ، اُس کی طرف ہاتھ پھیلائے اوروہ پہلا اِس دوسرے کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ کسی اور طرف ، کسی اور کی طرف متوجہ رہے اور دوسرا شخص پہلے کی اِس بے رُخی کے باوجود اُس کی طرف متوجہ رہے اور اُس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائے رکھے تو بتایے کیا آپ اُس پہلے بے رُخی کرنے والے کو اُس کی بے رخی پر ڈانٹیں گے نہیں ؟؟؟
اور دوسرے کو اِس پہلے کی طرف سے توجہ ہٹا دینے کا نہیں کہیں گے چھوڑیے اِس کو ، یہ اِس قابل ہی نہیں کہ آپ اِس کی مدد کرنے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑہائیں، اور شاید آپ کا یہ کہنا ایک لحاظ سے دُرست بھی ہو ،
اب آپ یہ دیکھیے کہ ہمارا رب اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف کس طرح متوجہ رہتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے ((((( إِنَّ اللَّهَ عَزّ وجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ حتى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِن مَغْرِبِهَا::: بے شک اللہ عز و جل رات میں اپنا ہاتھ (مُبارک ) پھیلاتا ہے کہ دِن میں برائیاں کرنے والا توبہ کر لے اور دِن میں ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات میں برائیاں کرنے والا توبہ کر لے (اور اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرتا رہے گا ) یہاں تک سورج مغرب سے طلوع ہو جائے )))))صحیح مُسلم/ حدیث 2759/ کتاب التوبہ /باب 5،
دیکھیے کہ ہمارا رب ہر وقت ہمارے لیے اپنی رحمت کے ساتھ ، اپنی مغفرت لیے ہوئے اپنا ہاتھ مبارک ہماری طرف پھیلائے رکھتا ہے اور ہم اُس کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے اور طرف متوجہ رہتے ہیں ،ہمارے دِل ہمارے رب سے آشنا نہیں ، اُس کی رحمت اور اس کی بخشش کی وسعت سے آشنا نہیں ، اُس کی محبت سے آشنا نہیں ، اور یہ نا آشنائی ہمیں ہمارے رب سے اُس کی محبت سے اُس کی تابع فرمانی سے مزید دُور کرتی چلی جاتی ہے ،
آیے ایک اور مثال سے اپنے رب کی رحمت اور عطاء کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں ، اور ساتھ ساتھ ہی یہ بات بھی دہراتا چلوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ """ یہ مثال اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک یا اُس کی کسی صفت مبارک کی تشبیہ کے لیےنہیں اور نہ ہی اُس کی کسی صفت مبارک کی کوئی کیفیت بتانے کے لیے بلکہ آپ صاحبان کو بات سمجھانے کے لیے ، آپ کے شعور میں کچھ اجاگر کرنے کے لیے ہے
"""
جی ، تو ذرا سوچیے کہ ایک شخص کے پاس کچھ کام کرنے والے غُلام ہوں اور ان میں ایک بہت ہی غریب اور تباہ حال شخص بھی ہو ، اور یہ آقا اپنے اس غُلام کو اس کی ضروریات زندگی پوری کرنے کا سامان تو ضرور ہی دیتا ہواور جوابی طور پر وہ غُلام اپنے آقا کے احکام پر عمل نہ کرتا ہو ، اُس کی نا فرمانی کرتا ہو ،اور اگر کبھی آقا کے احکام پر عمل کرے بھی تو آقا کے بتائے ہوئے طریقے پر نہیں بلکہ اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہو ، اپنے نفس کی خواہشات کے مطابق کرتا ہو ، اپنی عقل اور مزاج کی شہوتوں کے مطابق کرتا ہو ،
آپ ہی بتایے کہ کیا ایسا غُلام اس قابل نہیں کہ آقا اسے دُھتکار دے ، اپنے احسان اور درگزر کے دروازے اُس پر بند کر دے ؟؟؟
لیکن آقا یہ سب جانتے ہوئے بھی اُس نافرمان اور گمراہ غُلام کے ساتھ احسان اور درگزر والا رویہ رکھے اور اُس کے لیے اپنے عفو اور بخشش کے در کھولے رکھے ،
کیا آپ ایسے آقا کی تعریف نہ کریں گے ؟؟؟
کیا ایسے آقا کے لیے آپ کے دِل میں احترام اور محبت پیدا نہ ہو گی ؟
ایک دفعہ پھر یاد دہانی کروا دوں کہ اللہ سُبحانہ و تعالیٰ کے لیے سب سے اعلیٰ ترین مثال ہو سکتی ہے ، یہ مثالیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات اور ان کی کیفیات نہیں ہیں بلکہ صرف ان کے بارے میں کچھ سمجھانے کچھ اندازہ قائم کرنے کے لیے ہے تو اس مذکورہ بالا مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اب غور کیجیے کہ وہ غُلام ہم ہیں اور وہ آقا اللہ تعالیٰ ہے ، تو کیوں ایسے الروؤف الرحیم اورالجوادالکریم رب کی محبت ہمارے دِلوں میں نہ ہو !!!؟؟؟
اور کیسے ہم اپنے""" ودود """رب کی نافرمانی کرتے ہیں !!!؟؟؟
دیکھے ہمارا """ ودود """ رب کس طرح اپنے اِیمان والے نیکوکار بندوں پر شفقت کی بارش کیے رکھتا ہے اور اُن کی اپنے رب سے محبت سے پہلے وہ """ ودود """ رب اُن سے محبت کرتا ہے ((((( يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ ::: اللہ اُن سے محبت کرتا ہے او وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں )))))
اور اللہ تما م تر بادشاہی کا مالک ہے ، ہر قوت و قدرت کا مالک ہے،اُسے کسی سے کوئی حاجت نہیں ، کسی سے کوئی لالچ نہیں ، اس کے باوجود جب اپنے غُلاموں کی طرف نزول فرماتا ہے تو ان کے ساتھ اپنے جلال اور ھیبت والے معاملے کی بجائے شفقت اور رحمت والا معاملہ فرماتا اور انہیں پکار پکار کر فرماتا ہے
((((( هَل مِن سَائِلٍ يُعْطَى؟ هَل مِن دَاعٍ يُسْتَجَابُ لَهُ ؟ هَل مِن مُسْتَغْفِرٍ يُغْفَرُ لَهُ؟:::ہے کوئی سوالی کہ اُسے دِیا جائے ؟ ہے کوئی دُعا کرنے والا کہ اُس کی دُعا قبول کی جائے ؟ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ اُس کی بخشش کی جائے )))))صحیح مُسلم /حدیث758/کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا /باب24 ،
ایسا مالک اور آقا جو اپنی تمام تر قوت و عظمت کے باوجود ہماری تما م تر برائیوں اور نافرمانیوں کے باوجود ہمیں اُس کی بخشش کی کھلی دعوت دے، کیوں ہم اُس سے محبت نہیں کرتے اور اس کی نافرمانیوں میں مشغول رہتے ہیں !!!؟؟؟
اُس نے ہمیں اسلام کی نعمت سے نوازا ، اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت میں شامل فرما کر اپنی خاص نعمتوں کے دروازے ہمارے لیے کھولے اور اس طرح ہم سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا ، اور ہم اُس سے محبت نہیں کرتے اُس کی نافرمانی کرتے ہیں !!! یا اُس کی تابع فرمانی اپنی مرضی کے طور طریقوں پر کرتے ہیں
!!!
چلتے چلتے اللہ کی محبت حاصل ہوجانے کے نتیجے پر غور فرماتے چلیے ،
انس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ کہیں سے گذر رہے تھے تو اُنہوں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ راستے میں ہے اُس کی ماں نے جب اپنے بچے کو راستے کے درمیان میں دیکھا تو ڈر گئی کہ کہیں جانوروں کے پیروں تلے دب نہ جائے تو انتہائی والہانہ انداز میں """ میرا بچہ میرا بچہ """کہتے ہوئے بھاگی اور اپنے بچے کو اٹھا کر سینے سے چمٹا لیا ،
صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ دیکھا تو عرض کی """ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كَانَتْ هَذِهِ لِتُلْقِيَ ابْنَهَا فِي النَّارِ ؟::: اے اللہ کے رسول کیا یہ اپنے بیٹے کو آگ میں ڈال سکتی ہے ؟ """ (یعنی جو ماں اپنے بیٹے سے اتنی محبت کرتی ہے وہ کیسے یہ برادشت کر سکتی ہے کہ اُس کا بیٹا آگ میں ڈال دیا جائے
)
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((لَا وَلَا يُلْقِي اللَّهُ حَبِيبَهُ فِي النَّارِ::: نہیں اور نہ ہی اللہ اپنے کسی
محبوب کو آگ میں ڈالے گا )))))
المستدرک الحاکم/حدیث 7347، مُسند احمد /حدیث 13492/السلسلہ الصحیحۃ /حدیث2407،
اللہ کرے کہ ہم اُس سے محبت کرنے والوں میں سے بن سکیں اور ہم اُس کے اِس حکم پر عمل کرنے والے بھی بن سکیں کہ ((((( قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ::: (اے محمد ) آپ فرما دیجیے کہ اگر تُم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تابع فرمانی کرو (تو پھر ) اللہ تُم لوگوں سے محبت کرے گا اور تُم لوگوں کے گناہ معاف فرمائے گا اور اللہ بہت ہی بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے )))))سورت آل عمران /آیت 31۔
اپنی بات کچھ سوالات پر ختم کرتا ہوں جو ہم سب کے لیے ہیں کہ ہم خود سے پوچھیں کہ ،
کیا اپنے رب کی یہ چند صفات جاننے کے بعد بھی میں اُس سے اُس طرح محبت نہیں کروں گا جِس طرح کہ اُس سے محبت کرنے کا حق ہے ؟؟؟
اور کیا اِن بینات کو سمجھنے کے بعد بھی میں اُس کی نافرمانی کروں گا ؟؟؟
کیا میں نا شکر گذار بنوں گا ؟؟؟
کیا میں اپنے رب کی ذات بے مثال اور صفات بے مثال کو مزید جاننے سے رکا رہوں گا ؟؟؟
اِن شاء اللہ سب کا جواب """ نہیں """ ہوگا ، قولاً بھی اور عملاً بھی ،
اور آپ سب یہ کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کر کے اُس کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کر کے اللہ کی محبت حاصل کر سکیں کہ جسے اللہ کی محبت حاصل ہو جائے اللہ اسے عذاب نہ دے گا ۔
Subscribe to:
Posts (Atom)