اور حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”أاعلنوا النکاح ،واجعلوہ فی المساجد واضربوا علیہ بالدفوف۔“
‘(ترمذی و ابن ماجہ)ترجمہ:۔”اس نکاح کا اعلان کرو، اور اسے مسجد وں میں منعقد کرو، اور اس نکاح پر دف بجاوٴ۔
“
اور اس کی تائید ” اعلنوا النکاح “…نکاح کا اعلان کرو …والی حدیث سے بھی ہوتی ہے، (احمد اور حاکم)اور حدیث ” فصل ما بین الحلال والحرام الصوت والدف فی النکاح“…حلال اور حرام میں شہرت اور دف کافرق ہے… والی حدیث اس کی تائید کرتی ہے( اس کو احمد ،ترمذی ،نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح میں عورتوں کو دف بجانے کی اجازت دی ہے ، جس میں کسی کا اختلاف نہیں، اور بعض علماء کے نزدیک مردوں کے لئے بھی اجازت ہے، تاکہ شادی کی شہرت ہو او راس کا اعلان ہو،تاکہ اپنے اور غیر سب کو معلوم ہو کہ یہ شادی ہوئی ہے۔
اس اعلان اور تشہیر میں شریعت کے اونچے مقاصد ہیں ،ایک تو یہ کہ پاکیزہ اور حلال نکاح اورحرام اور خبیث جوڑ میں فرق کرنا ہے، جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پہلے گزر چکا:
”فصل ما بین الحلال والحرام الصوت والدف فی النکاح۔“
(احمد،ترمذی، نسائی ،ابن ماجہ)یعنی حلال اور حرام میں فرق کرنے والی چیز آواز اور دف ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ: آواز سے مراد نکاح کا علان ہے اور لوگوں میں اس کا تذکرہ ہے، اسی طرح عورتوں اور مردوں کی اس موقع پر خاص آواز ( جیسے بعض عرب ملکوں میں ہوتا ہے۔)
آپ کا عقدِ نکاح کی مجلس میں شریک ہو نا اس مطلوب اعلان کو ثابت کرتا ہے، اور نکاح پر گواہی میں قوت حاصل ہوتی ہے، اور ایک مومن بھائی یا مومن بہن کے نیک عمل میں آپ شریک ہوتے ہیں، جس کے ذریعہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنا نصف دین محفوظ کرلیا ہے، اب ان کو چاہئے کہ باقی نصف میں اللہ سے ڈرتے رہیں۔
نیز اس شرکت سے دولہا اور دلہن دونوں کی تکریم بھی ہے کہ ان کے عزیز و اقارب اور نیک دوست ان کی اس خوشی میں شریک ہیں، او ران دونوں کے لئے صلاح ،کامیابی ،برکت اور توفیق کی دعاء مانگتے ہیں ، اس کا تعلق مسلمانوں میں اسلامی اخوت کے حقوق میں سے ہے
۔
جب آپ کو شادی میں بلا یا جائے تو دعوت کے قبول کرنے میں آپ کی نیت یہ ہو نی چاہئے کہ آپ ایک مبارک دعوت میں شریک ہورہے ہیں اور ایک ایسی خوشی کی تقریب میں شرکت کررہے ہیں، جو شرعاً مطلوب ہے، اور اس میں شرکت کرنے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے،اور اس میں ان تمام آداب کا خیال رکھیں جن کی طرف پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے
۔
آپ اس پاکیزہ تقریب کے لئے شریعت کے دائرے میں رہ کر زیب و زینت اختیار کرسکتے ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب ایک دوسرے کی ملا قات کے لئے جاتے تو ظاہری زینت اختیار کرکے جاتے تھے۔
نیز جب آپ کوئی بات شروع کریں، اور کسی بات میں حصہ لیں تو اس محفل اور خوشی کی مناسبت سے کریں، ایسی بات نہ کریں جس سے حاضرین کو غم اور پریشانی ہو، یا جس سے سامعین کی سمع خراشی ہو، مومن کو عقلمند اور ہوشیار ہو نا چاہئے۔مستحب یہ ہے کہ جب آپ زوجین کو مبارک باد دیں تو ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعاء سے مبارکباد دیں !
”بارک اللّٰہ لک ،وبارک علیک وجمع بینکما بخیر۔“(ابو داوٴد، ترمذی، ابن ماجہ)
۔
ان الفاظ سے مبارک باد نہ دے، جن سے بعض لوگ مبارک باد دیتے ہیں۔ ( بالرفاء والبنین) آپ میں اتفاق ہو اور آپ کے بیٹے ہوں، کیونکہ یہ زمانہ جاہلیت کی مبارکباد ہے۔ اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دعاء سکھا کر اس سے مستغنی کر دیا ہے۔نیز مسنون دعاء یہ بھی ہے:
”بارک اللّٰہ لکم ، وبارک علیکم ۔“ (نسائی ، ابن ماجہ)
۔
ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میری شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو میری ماں آئیں اور مجھے ایک گھر میں پہنچا دیا، وہاں انصار کی کچھ خواتین موجود تھیں، تو انہوں نے کہا:
”علی الخیر والبرکة، وعلی خیر طائر۔“ ( بخاری)
۔شریعت نے عورتوں کو اجازت دی ہے ،شادی میں ایسے گیت گائیں جو مباح ہیں، اور اچھے اشعار اور اچھے اقوال کو دف کے ساتھ گائیں ، جن اشعار میں محبت، جمال یا حسن کے مظاہر اور بے حیائی کا ذکر نہ ہو ، بلکہ ایسے پاکیزہ اور عمدہ اقوال ہوں جن میں اس بابرکت شادی پر خوشی کا اظہار ہو۔
ام الموٴمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دلہن کو ایک انصاری کے گھر پہنچا یا گیا،
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یا عائشة ماکان معکم لہو، فان الأنصاریعجبہم اللہو“ (بخاری)
ترجمہ :”عائشہ ! تم لوگوں کے ہاں مشغولیت کا کوئی سامان نہ تھا، کیونکہ مدینہ والے انصار کو اس قسم کی چیز پسند ہے
۔“
یہاں ” لہو“ سے مراد گیت گانا اوردف بجانا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ” فتح الباری:۹/۲۳۳۶“ میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے۔کہ :طبرانی نے” الاوسط“ میں ام الموٴمنین رضی اللہ عنہا سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اس دلہن کے ساتھ کسی بچی کو نہیں بھیجا، جو گاتی اور دف بجاتی؟ تو میں نے عرض کیا : کہ وہ کیا گاتی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ یوں کہتی:
أتینا کم أتیناکم فحیّانا و حیّاکم
ولو لا الذہب الأحمر ما حلت بِوَادیکم
ولو لا الحنطة السمرأ ما سمنت عذاریکم
ولو لا الذہب الأحمر ما حلت بِوَادیکم
ولو لا الحنطة السمرأ ما سمنت عذاریکم
اس طرح کے پاکیزہ گانے اور اشعار جن کو عورتیں گاسکتی ہیں،گائے جائیں مگر عشق بازی، محبت اور بے حیائی کے اشعار اور گانے حرام اور منع ہیں
۔
یہ اسلام کے چند آداب ہیں، جن پر آپ کے باپ دادا عمل کرتے رہے ہیں، اور جن کو میں نے صاف اور سمجھ میںآ نے والے الفاظ میں پیش کر دیا ہے، تاکہ آپ ان پر عمل کریں اور ان پر چلیں،اور عمل کے لئے بہترین میدان آپ کا گھر اور آپ کے مسلمان بھائی کا گھر ہے، اور آپ کی شخصیت اور آپ کے بھائی کی شخصیت ہے، لہٰذا اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان ان پر عمل کرنے میں سستی نہ کریں، اس خیال سے کہ گھر والوں اور بھائیوں میں کوئی تکلف ہو تا نہیں ،کیونکہ وہ سب سے زیادہ آپ کی نیکی اور نرمی کے حقدار ہیں
۔
ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا ، یارسول اللہ ! کون شخص میری حسنِ معاشرت کا زیادہ حقدار ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”أمّک ، ثم أمّک ،ثم أمّک ، ثم أبو ک ،ثم أدناک أدناک۔“
)
میرے بھائی! خبر دار حسنِ معاشرت میں ایسے لوگوں کے حق میں توکوتاہی برتو جو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ حقدار ہیں، اور غیروں کے ساتھ اخلاق برتو۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو اپنے آپ کو نقصان پہنچاوٴگے اور اپنے حق میں کوتاہی کے مرتکب ہوگے ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہو ئی ہدایت سے دور ہو گے ،لہٰذا اللہ تعالیٰ سے اس کی مرضیات اور اس کی شریعت کے آداب پر چلنے کی توفیق طلب کرو، اور اللہ تعالیٰ ہی نیک لوگوں کا دوست ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کا ،آپ کے رشتہ داروں کا اور آپ سے محبت کرنے والوں کا نگہبان ہو،اور وہ آپ کی مدد فرمائے ،اپنے احکام پر عمل پیرا ہو نے اور اپنی طاعت ، اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اس کی سچی محبت کی محض اپنے احسان اور فضل و کرم سے توفیق عطاء فرمائے۔
وصلی اللّٰہ علی سیدنا و نبینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا ،والحمد للّٰہ رب العالمین۔
No comments:
Post a Comment