جو لوگ ( بارش یا اور کسی آفت میں ) مسجد میں آجائیں تو کیا امام ان کے ساتھ نماز پڑھ لے اور برسات میں جمعہ کے دن خطبہ پڑھے یا نہیں ؟
حدیث نمبر : 668
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، قال حدثنا حماد بن زيد، قال حدثنا عبد الحميد، صاحب الزيادي قال سمعت عبد الله بن الحارث، قال خطبنا ابن عباس في يوم ذي ردغ، فأمر المؤذن لما بلغ حى على الصلاة. قال قل الصلاة في الرحال، فنظر بعضهم إلى بعض، فكأنهم أنكروا فقال كأنكم أنكرتم هذا إن هذا فعله من هو خير مني ـ يعني النبي صلى الله عليه وسلم ـ إنها عزمة، وإني كرهت أن أحرجكم. وعن حماد عن عاصم عن عبد الله بن الحارث عن ابن عباس نحوه، غير أنه قال كرهت أن أؤثمكم، فتجيئون تدوسون الطين إلى ركبكم.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب بصری نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبدالحمید صاحب الزیادی نے بیان کیا کہ کہا میں نے عبداللہ بن حارث بن نوفل سے سنا ، انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب کہ بارش کی وجہ سے کیچڑ ہو رہی تھی خطبہ سنایا ۔ پھر مؤذن کو حکم دیا اور جب وہ حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ آج یوں پکار دو کہ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لو ۔ لوگ ایک دوسرے کو ( حیرت کی وجہ سے ) دیکھنے لگے ۔ جیسے اس کو انھوں نے ناجائز سمجھا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے ۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا ۔ بے شک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ حی علی الصلوٰۃ کہہ کر تمہیں باہر نکالوں ( اور تکلیف میں مبتلا کروں ) اور حماد عاصم سے ، وہ عبداللہ بن حارث سے ، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ، اسی طرح روایت کرتے ہیں ۔ البتہ انھوں نے اتنا اور کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گنہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو
Tuesday, January 25, 2011
بارش اور کسی عذر کی وجہ سے گھر میں نماز پڑھ لینے کی اجازت کا بیان
حدیث نمبر : 666
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، أن ابن عمر، أذن بالصلاة في ليلة ذات برد وريح ثم قال ألا صلوا في الرحال. ثم قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمر المؤذن إذا كانت ليلة ذات برد ومطر يقول ألا صلوا في الرحال.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی ، پھر یوں پکار کر کہہ دیا کہ لوگو ! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو ۔ پھر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو ۔
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، أن ابن عمر، أذن بالصلاة في ليلة ذات برد وريح ثم قال ألا صلوا في الرحال. ثم قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمر المؤذن إذا كانت ليلة ذات برد ومطر يقول ألا صلوا في الرحال.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی ، پھر یوں پکار کر کہہ دیا کہ لوگو ! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو ۔ پھر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو ۔
عشاء کی نماز باجماعت کی فضیلت کے بیان میں
حدیث نمبر : 657
حدثنا عمر بن حفص، قال حدثنا أبي قال، حدثنا الأعمش، قال حدثني أبو صالح، عن أبي هريرة، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم " ليس صلاة أثقل على المنافقين من الفجر والعشاء، ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبوا، لقد هممت أن آمر المؤذن فيقيم، ثم آمر رجلا يؤم الناس، ثم آخذ شعلا من نار فأحرق على من لا يخرج إلى الصلاة بعد ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ مجھ سے ابوصالح ذکوان نے بیان کیا ، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ، انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر انھیں معلوم ہوتا کہ ان کا ثواب کتنا زیادہ ہے ( اور چل نہ سکتے ) تو گھٹنوں کے بل گھسیٹ کر آتے اور میرا تو ارادہ ہو گیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے ، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور خود آگ کی چنگاریاں لے کر ان سب کے گھروں کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلے ۔
حدثنا عمر بن حفص، قال حدثنا أبي قال، حدثنا الأعمش، قال حدثني أبو صالح، عن أبي هريرة، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم " ليس صلاة أثقل على المنافقين من الفجر والعشاء، ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبوا، لقد هممت أن آمر المؤذن فيقيم، ثم آمر رجلا يؤم الناس، ثم آخذ شعلا من نار فأحرق على من لا يخرج إلى الصلاة بعد ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ مجھ سے ابوصالح ذکوان نے بیان کیا ، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ، انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر انھیں معلوم ہوتا کہ ان کا ثواب کتنا زیادہ ہے ( اور چل نہ سکتے ) تو گھٹنوں کے بل گھسیٹ کر آتے اور میرا تو ارادہ ہو گیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے ، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور خود آگ کی چنگاریاں لے کر ان سب کے گھروں کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلے ۔
ظہر کی نماز کے لیے سویرے جانے کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر : 652
حدثنا قتيبة، عن مالك، عن سمى، مولى أبي بكر عن أبي صالح السمان، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " بينما رجل يمشي بطريق وجد غصن شوك على الطريق فأخره، فشكر الله له، فغفر له ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے امام مالک سے بیان کیا ، انھوں نے ابوبکر بن عبدالرحمن کے غلام سمی نامی سے ، انھوں نے ابوصالح سمان سے ، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص کہیں جا رہا تھا ۔ راستے میں اس نے کانٹوں کی بھری ہوئی ایک ٹہنی دیکھی ، پس اسے راستے سے دور کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ ( صرف اسی بات پر ) راضی ہو گیا اور اس کی بخشش کر دی ۔
حدثنا قتيبة، عن مالك، عن سمى، مولى أبي بكر عن أبي صالح السمان، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " بينما رجل يمشي بطريق وجد غصن شوك على الطريق فأخره، فشكر الله له، فغفر له ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے امام مالک سے بیان کیا ، انھوں نے ابوبکر بن عبدالرحمن کے غلام سمی نامی سے ، انھوں نے ابوصالح سمان سے ، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص کہیں جا رہا تھا ۔ راستے میں اس نے کانٹوں کی بھری ہوئی ایک ٹہنی دیکھی ، پس اسے راستے سے دور کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ ( صرف اسی بات پر ) راضی ہو گیا اور اس کی بخشش کر دی ۔
فجر کی نماز باجماعت پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں
حدیث نمبر : 648
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سعيد بن المسيب، وأبو سلمة بن عبد الرحمن أن أبا هريرة، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " تفضل صلاة الجميع صلاة أحدكم وحده بخمس وعشرين جزءا، وتجتمع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر ". ثم يقول أبو هريرة فاقرءوا إن شئتم {إن قرآن الفجر كان مشهودا}
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، ،انہوں نے کہا کہ ہم سے شعیب نے، انھوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ مجھے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جماعت سے نماز اکیلے پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ بہتر ہے ۔ اور رات دن کے فرشتے فجر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں ۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم پڑھنا چاہو تو ( سورہ بنی اسرائیل ) کی یہ آیت پڑھو ان قرآن الفجر کان مشہودا یعنی فجر میں قرآن پاک کی تلاوت پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سعيد بن المسيب، وأبو سلمة بن عبد الرحمن أن أبا هريرة، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " تفضل صلاة الجميع صلاة أحدكم وحده بخمس وعشرين جزءا، وتجتمع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر ". ثم يقول أبو هريرة فاقرءوا إن شئتم {إن قرآن الفجر كان مشهودا}
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، ،انہوں نے کہا کہ ہم سے شعیب نے، انھوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ مجھے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جماعت سے نماز اکیلے پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ بہتر ہے ۔ اور رات دن کے فرشتے فجر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں ۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم پڑھنا چاہو تو ( سورہ بنی اسرائیل ) کی یہ آیت پڑھو ان قرآن الفجر کان مشہودا یعنی فجر میں قرآن پاک کی تلاوت پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔
اذان کی دعا کے بارے میں
حدیث نمبر : 614
حدثنا علي بن عياش، قال حدثنا شعيب بن أبي حمزة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " من قال حين يسمع النداء اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة ".
ہم سے علی بن عیاش ہمدانی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا ، انھوں نے محمد بن المنکدر سے بیان کیا ، انھوں نے فرمایا کہ جو شخص اذان سن کر یہ کہے اللہم رب ہذہ الدعوة التامة والصلوٰة القائمة آت محمدا الوسیلة والفضیلة وابعثہ مقاما محموداً الذی وعدتہ اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی ۔
حدثنا علي بن عياش، قال حدثنا شعيب بن أبي حمزة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " من قال حين يسمع النداء اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة ".
ہم سے علی بن عیاش ہمدانی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا ، انھوں نے محمد بن المنکدر سے بیان کیا ، انھوں نے فرمایا کہ جو شخص اذان سن کر یہ کہے اللہم رب ہذہ الدعوة التامة والصلوٰة القائمة آت محمدا الوسیلة والفضیلة وابعثہ مقاما محموداً الذی وعدتہ اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی ۔
اذان کا جواب کس طرح دینا چاہیے
اس بارے میں کہ اذان کا جواب کس طرح دینا چاہیے
حدیث نمبر : 611
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابن شہاب زہری سے خبر دی ، انھوں نے عطاء بن یزید لیثی سے ، انھوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ، انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب تم اذان سنو تو جس طرح مؤذن کہتا ہے اسی طرح تم بھی کہو ۔
حدیث نمبر : 611
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابن شہاب زہری سے خبر دی ، انھوں نے عطاء بن یزید لیثی سے ، انھوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ، انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب تم اذان سنو تو جس طرح مؤذن کہتا ہے اسی طرح تم بھی کہو ۔
اذان دینے کی فضیلت کے بیان میں
حدیث نمبر : 608
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان وله ضراط حتى لا يسمع التأذين، فإذا قضى النداء أقبل، حتى إذا ثوب بالصلاة أدبر، حتى إذا قضى التثويب أقبل حتى يخطر بين المرء ونفسه، يقول اذكر كذا، اذكر كذا. لما لم يكن يذكر، حتى يظل الرجل لا يدري كم صلى ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، کہا ہمیں امام مالک نے ابولزناد سے خبر دی ، انھوں نے اعرج سے ، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کے کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پادتا ہوا بڑی تیزی کے ساتھ پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے ۔ تا کہ اذان کی آواز نہ سن سکے اور جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ جاتا ہے ۔ لیکن جوں ہی تکبیر شروع ہوئی وہ پھر پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے ۔ جب تکبیر بھی ختم ہو جاتی ہے تو شیطان دوبارہ آ جاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے ۔ کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر فلاں بات یاد کر ۔ ان باتوں کی شیطان یاددہانی کراتا ہے جن کا اسے خیال بھی نہ تھا اور اس طرح اس شخص کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ۔
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان وله ضراط حتى لا يسمع التأذين، فإذا قضى النداء أقبل، حتى إذا ثوب بالصلاة أدبر، حتى إذا قضى التثويب أقبل حتى يخطر بين المرء ونفسه، يقول اذكر كذا، اذكر كذا. لما لم يكن يذكر، حتى يظل الرجل لا يدري كم صلى ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، کہا ہمیں امام مالک نے ابولزناد سے خبر دی ، انھوں نے اعرج سے ، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کے کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پادتا ہوا بڑی تیزی کے ساتھ پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے ۔ تا کہ اذان کی آواز نہ سن سکے اور جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ جاتا ہے ۔ لیکن جوں ہی تکبیر شروع ہوئی وہ پھر پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے ۔ جب تکبیر بھی ختم ہو جاتی ہے تو شیطان دوبارہ آ جاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے ۔ کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر فلاں بات یاد کر ۔ ان باتوں کی شیطان یاددہانی کراتا ہے جن کا اسے خیال بھی نہ تھا اور اس طرح اس شخص کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ۔
اپنی بیوی یا مہمان سے رات کو ( عشاء کے بعد ) گفتگو کرنا
حدیث نمبر : 602
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا معتمر بن سليمان، قال حدثنا أبي، حدثنا أبو عثمان، عن عبد الرحمن بن أبي بكر، أن أصحاب الصفة، كانوا أناسا فقراء، وأن النبي صلى الله عليه وسلم قال " من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث، وإن أربع فخامس أو سادس ". وأن أبا بكر جاء بثلاثة فانطلق النبي صلى الله عليه وسلم بعشرة، قال فهو أنا وأبي وأمي، فلا أدري قال وامرأتي وخادم بيننا وبين بيت أبي بكر. وإن أبا بكر تعشى عند النبي صلى الله عليه وسلم ثم لبث حيث صليت العشاء، ثم رجع فلبث حتى تعشى النبي صلى الله عليه وسلم فجاء بعد ما مضى من الليل ما شاء الله، قالت له امرأته وما حبسك عن أضيافك ـ أو قالت ضيفك ـ قال أوما عشيتيهم قالت أبوا حتى تجيء، قد عرضوا فأبوا. قال فذهبت أنا فاختبأت فقال يا غنثر، فجدع وسب، وقال كلوا لا هنيئا. فقال والله لا أطعمه أبدا، وايم الله ما كنا نأخذ من لقمة إلا ربا من أسفلها أكثر منها. قال يعني حتى شبعوا وصارت أكثر مما كانت قبل ذلك، فنظر إليها أبو بكر فإذا هي كما هي أو أكثر منها. فقال لامرأته يا أخت بني فراس ما هذا قالت لا وقرة عيني لهي الآن أكثر منها قبل ذلك بثلاث مرات. فأكل منها أبو بكر وقال إنما كان ذلك من الشيطان ـ يعني يمينه ـ ثم أكل منها لقمة، ثم حملها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأصبحت عنده، وكان بيننا وبين قوم عقد، فمضى الأجل، ففرقنا اثنا عشر رجلا، مع كل رجل منهم أناس، الله أعلم كم مع كل رجل فأكلوا منها أجمعون، أو كما قال.
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا ، ان سے ان کے باپ سلیمان بن طرخان نے ، کہا کہ ہم سے ابوعثمان نہدی نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کی کہ اصحاب صفہ نادار مسکین لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے ( اصحاب صفہ میں سے کسی ) کو اپنے ساتھ لیتا جائے ۔ اور جس کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہے تو وہ پانچویں یا چھٹے آدمی کو سائبان والوں میں سے اپنے ساتھ لے جائے ۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمی اپنے ساتھ لائے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ گھر کے افراد میں اس وقت باپ ، ماں اور میں تھا ۔ ابوعثمان راوی کا بیان ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ عبدالرحمن بن ابی بکر نے یہ کہا یا نہیں کہ میری بیوی اور ایک خادم جو میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے گھر کے لیے تھا یہ بھی تھے ۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ٹھہر گئے ۔ ( اور غالباً ) کھانا بھی وہیں کھایا ۔ صورت یہ ہوئی کہ ) نماز عشاء تک وہیں رہے ۔ پھر ( مسجد سے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں آئے اور وہیں ٹھہرے رہے تاآنکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کھانا کھا لیا ۔ اور رات کا ایک حصہ گزر جانے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی ( ام رومان ) نے کہا کہ کیا بات پیش آئی کہ مہمانوں کی خبر بھی آپ نے نہ لی ، یا یہ کہ مہمان کی خبر نہ لی ۔ آپ نے پوچھا ، کیا تم نے ابھی انھیں رات کا کھانا نہیں کھلایا ۔ ام رومان نے کہا کہ میں کیا کروں آپ کے آنے تک انھوں نے کھانے سے انکار کیا ۔ کھانے کے لیے ان سے کہا گیا تھا لیکن وہ نہ مانے ۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ڈر کر چھپ گیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پکارا اے غنثر ! ( یعنی او پاجی ) آپ نے برا بھلا کہا اور کوسنے دئیے ۔ فرمایا کہ کھاؤ تمہیں مبارک نہ ہو ! خدا کی قسم ! میں اس کھانے کو کبھی نہیں کھاؤں گا ۔ ( آخر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا ) ( عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا ) خدا گواہ ہے کہ ہم ادھر ایک لقمہ لیتے تھے اور نیچے سے پہلے سے بھی زیادہ کھانا ہو جاتا تھا ۔ بیان کیا کہ سب لوگ شکم سیر ہو گئے ۔ اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ گیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو کھانا پہلے ہی اتنا یا اس سے بھی زیادہ تھا ۔ اپنی بیوی سے بولے ۔ بنوفراس کی بہن ! یہ کیا بات ہے ؟ انھوں نے کہا کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم ! یہ تو پہلے سے تین گنا ہے ۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہ کھانا کھایا اور کہا کہ میرا قسم کھانا ایک شیطانی وسوسہ تھا ۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بقیہ کھانا لے گئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ وہ صبح تک آپ کے پاس رکھا رہا ۔ عبدالرحمن نے کہا کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے قبیلے کے لوگوں سے معاہدہ تھا ۔ اور معاہدہ کی مدت پوری ہو چکی تھی ۔ ( اس قبیلہ کا وفد معاہدہ سے متعلق بات چیت کرنے مدینہ میں آیا ہوا تھا ) ہم نے ان میں سے بارہ آدمی جدا کئے اور ہر ایک کے ساتھ کتنے آدمی تھے اللہ کو ہی معلوم ہے ان سبھوں نے ان میں سے کھایا ۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کچھ ایسا ہی کہا ۔
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا معتمر بن سليمان، قال حدثنا أبي، حدثنا أبو عثمان، عن عبد الرحمن بن أبي بكر، أن أصحاب الصفة، كانوا أناسا فقراء، وأن النبي صلى الله عليه وسلم قال " من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث، وإن أربع فخامس أو سادس ". وأن أبا بكر جاء بثلاثة فانطلق النبي صلى الله عليه وسلم بعشرة، قال فهو أنا وأبي وأمي، فلا أدري قال وامرأتي وخادم بيننا وبين بيت أبي بكر. وإن أبا بكر تعشى عند النبي صلى الله عليه وسلم ثم لبث حيث صليت العشاء، ثم رجع فلبث حتى تعشى النبي صلى الله عليه وسلم فجاء بعد ما مضى من الليل ما شاء الله، قالت له امرأته وما حبسك عن أضيافك ـ أو قالت ضيفك ـ قال أوما عشيتيهم قالت أبوا حتى تجيء، قد عرضوا فأبوا. قال فذهبت أنا فاختبأت فقال يا غنثر، فجدع وسب، وقال كلوا لا هنيئا. فقال والله لا أطعمه أبدا، وايم الله ما كنا نأخذ من لقمة إلا ربا من أسفلها أكثر منها. قال يعني حتى شبعوا وصارت أكثر مما كانت قبل ذلك، فنظر إليها أبو بكر فإذا هي كما هي أو أكثر منها. فقال لامرأته يا أخت بني فراس ما هذا قالت لا وقرة عيني لهي الآن أكثر منها قبل ذلك بثلاث مرات. فأكل منها أبو بكر وقال إنما كان ذلك من الشيطان ـ يعني يمينه ـ ثم أكل منها لقمة، ثم حملها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأصبحت عنده، وكان بيننا وبين قوم عقد، فمضى الأجل، ففرقنا اثنا عشر رجلا، مع كل رجل منهم أناس، الله أعلم كم مع كل رجل فأكلوا منها أجمعون، أو كما قال.
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا ، ان سے ان کے باپ سلیمان بن طرخان نے ، کہا کہ ہم سے ابوعثمان نہدی نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کی کہ اصحاب صفہ نادار مسکین لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے ( اصحاب صفہ میں سے کسی ) کو اپنے ساتھ لیتا جائے ۔ اور جس کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہے تو وہ پانچویں یا چھٹے آدمی کو سائبان والوں میں سے اپنے ساتھ لے جائے ۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمی اپنے ساتھ لائے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ گھر کے افراد میں اس وقت باپ ، ماں اور میں تھا ۔ ابوعثمان راوی کا بیان ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ عبدالرحمن بن ابی بکر نے یہ کہا یا نہیں کہ میری بیوی اور ایک خادم جو میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے گھر کے لیے تھا یہ بھی تھے ۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ٹھہر گئے ۔ ( اور غالباً ) کھانا بھی وہیں کھایا ۔ صورت یہ ہوئی کہ ) نماز عشاء تک وہیں رہے ۔ پھر ( مسجد سے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں آئے اور وہیں ٹھہرے رہے تاآنکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کھانا کھا لیا ۔ اور رات کا ایک حصہ گزر جانے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی ( ام رومان ) نے کہا کہ کیا بات پیش آئی کہ مہمانوں کی خبر بھی آپ نے نہ لی ، یا یہ کہ مہمان کی خبر نہ لی ۔ آپ نے پوچھا ، کیا تم نے ابھی انھیں رات کا کھانا نہیں کھلایا ۔ ام رومان نے کہا کہ میں کیا کروں آپ کے آنے تک انھوں نے کھانے سے انکار کیا ۔ کھانے کے لیے ان سے کہا گیا تھا لیکن وہ نہ مانے ۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ڈر کر چھپ گیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پکارا اے غنثر ! ( یعنی او پاجی ) آپ نے برا بھلا کہا اور کوسنے دئیے ۔ فرمایا کہ کھاؤ تمہیں مبارک نہ ہو ! خدا کی قسم ! میں اس کھانے کو کبھی نہیں کھاؤں گا ۔ ( آخر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا ) ( عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا ) خدا گواہ ہے کہ ہم ادھر ایک لقمہ لیتے تھے اور نیچے سے پہلے سے بھی زیادہ کھانا ہو جاتا تھا ۔ بیان کیا کہ سب لوگ شکم سیر ہو گئے ۔ اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ گیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو کھانا پہلے ہی اتنا یا اس سے بھی زیادہ تھا ۔ اپنی بیوی سے بولے ۔ بنوفراس کی بہن ! یہ کیا بات ہے ؟ انھوں نے کہا کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم ! یہ تو پہلے سے تین گنا ہے ۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہ کھانا کھایا اور کہا کہ میرا قسم کھانا ایک شیطانی وسوسہ تھا ۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بقیہ کھانا لے گئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ وہ صبح تک آپ کے پاس رکھا رہا ۔ عبدالرحمن نے کہا کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے قبیلے کے لوگوں سے معاہدہ تھا ۔ اور معاہدہ کی مدت پوری ہو چکی تھی ۔ ( اس قبیلہ کا وفد معاہدہ سے متعلق بات چیت کرنے مدینہ میں آیا ہوا تھا ) ہم نے ان میں سے بارہ آدمی جدا کئے اور ہر ایک کے ساتھ کتنے آدمی تھے اللہ کو ہی معلوم ہے ان سبھوں نے ان میں سے کھایا ۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کچھ ایسا ہی کہا ۔
مسائل کی باتیں
اس بارے میں کہ مسئلے مسائل کی باتیں اور نیک باتیں عشاء کے بعد بھی کرنا درست ہے
حدیث نمبر : 600
حدثنا عبد الله بن الصباح، قال حدثنا أبو علي الحنفي، حدثنا قرة بن خالد، قال انتظرنا الحسن وراث علينا حتى قربنا من وقت قيامه، فجاء فقال دعانا جيراننا هؤلاء. ثم قال قال أنس نظرنا النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة حتى كان شطر الليل يبلغه، فجاء فصلى لنا، ثم خطبنا فقال " ألا إن الناس قد صلوا ثم رقدوا، وإنكم لم تزالوا في صلاة ما انتظرتم الصلاة ". قال الحسن وإن القوم لا يزالون بخير ما انتظروا الخير. قال قرة هو من حديث أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعلی عبیداللہ حنفی نے ، کہا ہم سے قرہ بن خالد سدوسی نے ، انھوں نے کہا کہ ایک دن حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے بڑی دیر کی ۔ اور ہم آپ کا انتظار کرتے رہے ۔ جب ان کے اٹھنے کا وقت قریب ہو گیا تو آپ آئے اور ( بطور معذرت ) فرمایا کہ میرے ان پڑوسیوں نے مجھے بلا لیا تھا ( اس لیے دیر ہو گئی ) پھر بتلایا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ہم ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے ۔ تقریباً آدھی رات ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، پھر ہمیں نماز پڑھائی ۔ اس کے بعد خطبہ دیا ۔ پس آپ نے فرمایا کہ دوسروں نے نماز پڑھ لی اور سو گئے ۔ لیکن تم لوگ جب تک نماز کے انتظار میں رہے ہو گویا نماز ہی کی حالت میں رہے ہو ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی خیر کے انتظار میں بیٹھے رہیں تو وہ بھی خیر کی حالت ہی میں ہیں ۔ قرہ بن خالد نے کہا کہ حسن کا یہ قول بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ہے جو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۔
حدیث نمبر : 600
حدثنا عبد الله بن الصباح، قال حدثنا أبو علي الحنفي، حدثنا قرة بن خالد، قال انتظرنا الحسن وراث علينا حتى قربنا من وقت قيامه، فجاء فقال دعانا جيراننا هؤلاء. ثم قال قال أنس نظرنا النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة حتى كان شطر الليل يبلغه، فجاء فصلى لنا، ثم خطبنا فقال " ألا إن الناس قد صلوا ثم رقدوا، وإنكم لم تزالوا في صلاة ما انتظرتم الصلاة ". قال الحسن وإن القوم لا يزالون بخير ما انتظروا الخير. قال قرة هو من حديث أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعلی عبیداللہ حنفی نے ، کہا ہم سے قرہ بن خالد سدوسی نے ، انھوں نے کہا کہ ایک دن حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے بڑی دیر کی ۔ اور ہم آپ کا انتظار کرتے رہے ۔ جب ان کے اٹھنے کا وقت قریب ہو گیا تو آپ آئے اور ( بطور معذرت ) فرمایا کہ میرے ان پڑوسیوں نے مجھے بلا لیا تھا ( اس لیے دیر ہو گئی ) پھر بتلایا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ہم ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے ۔ تقریباً آدھی رات ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، پھر ہمیں نماز پڑھائی ۔ اس کے بعد خطبہ دیا ۔ پس آپ نے فرمایا کہ دوسروں نے نماز پڑھ لی اور سو گئے ۔ لیکن تم لوگ جب تک نماز کے انتظار میں رہے ہو گویا نماز ہی کی حالت میں رہے ہو ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی خیر کے انتظار میں بیٹھے رہیں تو وہ بھی خیر کی حالت ہی میں ہیں ۔ قرہ بن خالد نے کہا کہ حسن کا یہ قول بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ہے جو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۔
نمازیں قضاء
اگر کئی نمازیں قضاء ہو جائیں تو ان کو ترتیب کے ساتھ پڑھنا
حدیث نمبر : 598
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن هشام، قال حدثنا يحيى ـ هو ابن أبي كثير ـ عن أبي سلمة، عن جابر، قال جعل عمر يوم الخندق يسب كفارهم وقال ما كدت أصلي العصر حتى غربت. قال فنزلنا بطحان، فصلى بعد ما غربت الشمس، ثم صلى المغرب.
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے حدیث بیان کی ، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے جو ابی کثیر کے بیٹے ہیں حدیث بیان کی ابوسلمہ سے ، انھوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے ، انھوں نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر ( ایک دن ) کفار کو برا بھلا کہنے لگے ۔ فرمایا کہ سورج غروب ہو گیا ، لیکن میں ( لڑائی کی وجہ سے ) نماز عصر نہ پڑھ سکا ۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم وادی بطحان کی طرف گئے ۔ اور ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز ) غروب شمس کے بعد پڑھی اس کے بعد مغرب پڑھی ۔
حدیث نمبر : 598
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن هشام، قال حدثنا يحيى ـ هو ابن أبي كثير ـ عن أبي سلمة، عن جابر، قال جعل عمر يوم الخندق يسب كفارهم وقال ما كدت أصلي العصر حتى غربت. قال فنزلنا بطحان، فصلى بعد ما غربت الشمس، ثم صلى المغرب.
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے حدیث بیان کی ، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے جو ابی کثیر کے بیٹے ہیں حدیث بیان کی ابوسلمہ سے ، انھوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے ، انھوں نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر ( ایک دن ) کفار کو برا بھلا کہنے لگے ۔ فرمایا کہ سورج غروب ہو گیا ، لیکن میں ( لڑائی کی وجہ سے ) نماز عصر نہ پڑھ سکا ۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم وادی بطحان کی طرف گئے ۔ اور ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز ) غروب شمس کے بعد پڑھی اس کے بعد مغرب پڑھی ۔
قضاء نماز لوگوں کے ساتھ جماعت
اس کے بارے میں جس نے وقت نکل جانے کے بعد قضاء نماز لوگوں کے ساتھ جماعت سے پڑھی
حدیث نمبر : 596
حدثنا معاذ بن فضالة، قال حدثنا هشام، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن جابر بن عبد الله، أن عمر بن الخطاب، جاء يوم الخندق بعد ما غربت الشمس، فجعل يسب كفار قريش قال يا رسول الله ما كدت أصلي العصر حتى كادت الشمس تغرب. قال النبي صلى الله عليه وسلم " والله ما صليتها ". فقمنا إلى بطحان، فتوضأ للصلاة، وتوضأنا لها فصلى العصر بعد ما غربت الشمس، ثم صلى بعدها المغرب.
ہم سے معاذ بن فضالہ نے حدیث نقل کی ، انھوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا ، انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کیا ، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے ، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر ( ایک مرتبہ ) سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے ۔ اور آپ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! سورج غروب ہو گیا ، اور نماز عصر پڑھنا میرے لیے ممکن نہ ہو سکا ۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں نے بھی نہیں پڑھی ۔ پھر ہم وادی بطحان میں گئے اور آپ نے وہاں نماز کے لیے وضو کیا ، ہم نے بھی وضو بنایا ۔ اس وقت سورج ڈوب چکا تھا ۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی ۔
حدیث نمبر : 596
حدثنا معاذ بن فضالة، قال حدثنا هشام، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن جابر بن عبد الله، أن عمر بن الخطاب، جاء يوم الخندق بعد ما غربت الشمس، فجعل يسب كفار قريش قال يا رسول الله ما كدت أصلي العصر حتى كادت الشمس تغرب. قال النبي صلى الله عليه وسلم " والله ما صليتها ". فقمنا إلى بطحان، فتوضأ للصلاة، وتوضأنا لها فصلى العصر بعد ما غربت الشمس، ثم صلى بعدها المغرب.
ہم سے معاذ بن فضالہ نے حدیث نقل کی ، انھوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا ، انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کیا ، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے ، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر ( ایک مرتبہ ) سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے ۔ اور آپ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! سورج غروب ہو گیا ، اور نماز عصر پڑھنا میرے لیے ممکن نہ ہو سکا ۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں نے بھی نہیں پڑھی ۔ پھر ہم وادی بطحان میں گئے اور آپ نے وہاں نماز کے لیے وضو کیا ، ہم نے بھی وضو بنایا ۔ اس وقت سورج ڈوب چکا تھا ۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی ۔
وقت نکل جانے کے بعد نماز پڑھتے وقت اذان دینا
حدیث نمبر : 595
حدثنا عمران بن ميسرة، قال حدثنا محمد بن فضيل، قال حدثنا حصين، عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه، قال سرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ليلة فقال بعض القوم لو عرست بنا يا رسول الله. قال " أخاف أن تناموا عن الصلاة ". قال بلال أنا أوقظكم. فاضطجعوا وأسند بلال ظهره إلى راحلته، فغلبته عيناه فنام، فاستيقظ النبي صلى الله عليه وسلم وقد طلع حاجب الشمس فقال " يا بلال أين ما قلت ". قال ما ألقيت على نومة مثلها قط. قال " إن الله قبض أرواحكم حين شاء، وردها عليكم حين شاء، يا بلال قم فأذن بالناس بالصلاة ". فتوضأ فلما ارتفعت الشمس وابياضت قام فصلى.
ہم سے عمران بن میسرہ نے روایت کیا ، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمن نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے ، انھوں نے اپنے باپ سے ، کہا ہم ( خیبر سے لوٹ کر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات میں سفر کر رہے تھے ۔ کسی نے کہا کہ حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اب پڑاؤ ڈال دیتے تو بہتر ہوتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں نماز کے وقت بھی تم سوتے نہ رہ جاؤ ۔ اس پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ بولے کہ میں آپ سب لوگوں کو جگا دوں گا ۔ چنانچہ سب لوگ لیٹ گئے ۔ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی پیٹھ کجاوہ سے لگا لی ۔ اور ان کی بھی آنکھ لگ گئی اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو سورج کے اوپر کا حصہ نکل چکا تھا ۔ آپ نے فرمایا بلال ! تو نے کیا کہا تھا ۔ وہ بولے آج جیسی نیند مجھے کبھی نہیں آئی ۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ارواح کو جب چاہتا ہے قبض کر لیتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے واپس کر دیتا ہے ۔ اے بلال ! اٹھ اور اذان دے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جب سورج بلند ہو کر روشن ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی ۔
حدثنا عمران بن ميسرة، قال حدثنا محمد بن فضيل، قال حدثنا حصين، عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه، قال سرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ليلة فقال بعض القوم لو عرست بنا يا رسول الله. قال " أخاف أن تناموا عن الصلاة ". قال بلال أنا أوقظكم. فاضطجعوا وأسند بلال ظهره إلى راحلته، فغلبته عيناه فنام، فاستيقظ النبي صلى الله عليه وسلم وقد طلع حاجب الشمس فقال " يا بلال أين ما قلت ". قال ما ألقيت على نومة مثلها قط. قال " إن الله قبض أرواحكم حين شاء، وردها عليكم حين شاء، يا بلال قم فأذن بالناس بالصلاة ". فتوضأ فلما ارتفعت الشمس وابياضت قام فصلى.
ہم سے عمران بن میسرہ نے روایت کیا ، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمن نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے ، انھوں نے اپنے باپ سے ، کہا ہم ( خیبر سے لوٹ کر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات میں سفر کر رہے تھے ۔ کسی نے کہا کہ حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اب پڑاؤ ڈال دیتے تو بہتر ہوتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں نماز کے وقت بھی تم سوتے نہ رہ جاؤ ۔ اس پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ بولے کہ میں آپ سب لوگوں کو جگا دوں گا ۔ چنانچہ سب لوگ لیٹ گئے ۔ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی پیٹھ کجاوہ سے لگا لی ۔ اور ان کی بھی آنکھ لگ گئی اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو سورج کے اوپر کا حصہ نکل چکا تھا ۔ آپ نے فرمایا بلال ! تو نے کیا کہا تھا ۔ وہ بولے آج جیسی نیند مجھے کبھی نہیں آئی ۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ارواح کو جب چاہتا ہے قبض کر لیتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے واپس کر دیتا ہے ۔ اے بلال ! اٹھ اور اذان دے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جب سورج بلند ہو کر روشن ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی ۔
نماز کے لیے جلدی کرنا
ابر کے دنوں میں نماز کے لیے جلدی کرنا ( یعنی سویرے پڑھنا
حدیث نمبر : 594
حدثنا معاذ بن فضالة، قال حدثنا هشام، عن يحيى ـ هو ابن أبي كثير ـ عن أبي قلابة، أن أبا المليح، حدثه قال كنا مع بريدة في يوم ذي غيم فقال بكروا بالصلاة فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال " من ترك صلاة العصر حبط عمله ".
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا ، وہ قلابہ سے نقل کرتے ہیں کہ ابوالملیح عامر بن اسامہ ہذلی نے ان سے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم ابر کے دن ایک مرتبہ بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ صحابی کے ساتھ تھے ، انھوں نے فرمایا کہ نماز سویرے پڑھا کرو ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑی اس کا عمل اکارت ہو گیا ۔
حدیث نمبر : 594
حدثنا معاذ بن فضالة، قال حدثنا هشام، عن يحيى ـ هو ابن أبي كثير ـ عن أبي قلابة، أن أبا المليح، حدثه قال كنا مع بريدة في يوم ذي غيم فقال بكروا بالصلاة فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال " من ترك صلاة العصر حبط عمله ".
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا ، وہ قلابہ سے نقل کرتے ہیں کہ ابوالملیح عامر بن اسامہ ہذلی نے ان سے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم ابر کے دن ایک مرتبہ بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ صحابی کے ساتھ تھے ، انھوں نے فرمایا کہ نماز سویرے پڑھا کرو ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑی اس کا عمل اکارت ہو گیا ۔
صبح کی نماز کے بعد
اس بیان میں کہ صبح کی نماز کے بعد سورج بلند ہونے تک نماز پڑھنے کے متعلق کیا حکم ہے ؟
حدیث نمبر : 581
حدثنا حفص بن عمر، قال حدثنا هشام، عن قتادة، عن أبي العالية، عن ابن عباس، قال شهد عندي رجال مرضيون وأرضاهم عندي عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الصلاة بعد الصبح حتى تشرق الشمس، وبعد العصر حتى تغرب. حدثنا مسدد قال: حدثنا يحيى، عن شعبة، عن قتادة: سمعت أبا العالية، عن ابن عباس قال: حدثني ناس بهذا
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا ، انھوں نے قتادہ بن دعامہ سے ، انھوں نے ابوالعالیہ رفیع سے ، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ، فرمایا کہ میرے سامنے چند معتبر حضرات نے گواہی دی ، جن میں سب سے زیادہ معتبر میرے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے ، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔ ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے شعبہ سے، انھوں نے قتادہ سے کہ میں نے ابوالعالیہ سے سنا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ انھوں نے فرمایا کہ مجھ سے چند لوگوں نے یہ حدیث بیان کی۔ ( جو اوپر ذکر ہوئی
اس بارے میں کہ سورج چھپنے سے پہلے قصد کر کے نماز نہ پڑھے
حدیث نمبر : 581
حدثنا حفص بن عمر، قال حدثنا هشام، عن قتادة، عن أبي العالية، عن ابن عباس، قال شهد عندي رجال مرضيون وأرضاهم عندي عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الصلاة بعد الصبح حتى تشرق الشمس، وبعد العصر حتى تغرب. حدثنا مسدد قال: حدثنا يحيى، عن شعبة، عن قتادة: سمعت أبا العالية، عن ابن عباس قال: حدثني ناس بهذا
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا ، انھوں نے قتادہ بن دعامہ سے ، انھوں نے ابوالعالیہ رفیع سے ، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ، فرمایا کہ میرے سامنے چند معتبر حضرات نے گواہی دی ، جن میں سب سے زیادہ معتبر میرے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے ، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔ ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے شعبہ سے، انھوں نے قتادہ سے کہ میں نے ابوالعالیہ سے سنا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ انھوں نے فرمایا کہ مجھ سے چند لوگوں نے یہ حدیث بیان کی۔ ( جو اوپر ذکر ہوئی
اس بارے میں کہ سورج چھپنے سے پہلے قصد کر کے نماز نہ پڑھے
حدیث نمبر : 585
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " لا يتحرى أحدكم فيصلي عند طلوع الشمس ولا عند غروبها ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، کہ کہا ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی ، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی تم میں سے انتظار میں نہ بیٹھا رہے کہ سورج طلوع ہوتے ہی نماز کے لیے کھڑا ہو جائے ۔ اسی طرح سورج کے ڈوبنے کے انتظار میں بھی نہ رہنا چاہیے ۔
فجر کی ایک رکعت کا پانے والا
حدیث نمبر : 579
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، وعن بسر بن سعيد، وعن الأعرج، يحدثونه عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " من أدرك من الصبح ركعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح، ومن أدرك ركعة من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك العصر ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک سے ، انھوں نے زید بن اسلم سے ، انھوں نے عطاء بن یسار اور بسر بن سعید اور عبدالرحمن بن ہرمز اعرج سے ، ان تینوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے فجر کی ایک رکعت ( جماعت کے ساتھ ) سورج نکلنے سے پہلے پا لی اس نے فجر کی نماز ( باجماعت کا ثواب ) پا لیا ۔ اور جس نے عصر کی ایک رکعت ( جماعت کے ساتھ ) سورج ڈوبنے سے پہلے پا لی ، اس نے عصر کی نماز ( باجماعت کا ثواب ) پا لیا ۔
جو کوئی کسی نماز کی ایک رکعت پالے ، اس نے وہ نماز پالی
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، وعن بسر بن سعيد، وعن الأعرج، يحدثونه عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " من أدرك من الصبح ركعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح، ومن أدرك ركعة من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك العصر ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک سے ، انھوں نے زید بن اسلم سے ، انھوں نے عطاء بن یسار اور بسر بن سعید اور عبدالرحمن بن ہرمز اعرج سے ، ان تینوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے فجر کی ایک رکعت ( جماعت کے ساتھ ) سورج نکلنے سے پہلے پا لی اس نے فجر کی نماز ( باجماعت کا ثواب ) پا لیا ۔ اور جس نے عصر کی ایک رکعت ( جماعت کے ساتھ ) سورج ڈوبنے سے پہلے پا لی ، اس نے عصر کی نماز ( باجماعت کا ثواب ) پا لیا ۔
جو کوئی کسی نماز کی ایک رکعت پالے ، اس نے وہ نماز پالی
حدیث نمبر : 580
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے ابن شہاب سے ، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایک رکعت نماز ( باجماعت ) پا لی اس نے نماز ( باجماعت کا ثواب ) پا لیا ۔
نماز فجر کا وقت
حدیث نمبر : 575
حدثنا عمرو بن عاصم، قال حدثنا همام، عن قتادة، عن أنس، أن زيد بن ثابت، حدثه أنهم، تسحروا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم قاموا إلى الصلاة. قلت كم بينهما قال قدر خمسين أو ستين ـ يعني آية ـ ح.
ہم سے عمرو بن عاصم نے یہ حدیث بیان کی ، کہا ہم سے ہمام نے یہ حدیث بیان کی قتادہ سے ، انھوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ ان لوگوں نے ( ایک مرتبہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی ، پھر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ میں نے دریافت کیا کہ ان دونوں کے درمیان کس قدر فاصلہ رہا ہو گا ۔ فرمایا کہ جتنا پچاس یا ساٹھ آیت پڑھنے میں صرف ہوتا ہے اتنا فاصلہ تھا ۔
حدثنا عمرو بن عاصم، قال حدثنا همام، عن قتادة، عن أنس، أن زيد بن ثابت، حدثه أنهم، تسحروا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم قاموا إلى الصلاة. قلت كم بينهما قال قدر خمسين أو ستين ـ يعني آية ـ ح.
ہم سے عمرو بن عاصم نے یہ حدیث بیان کی ، کہا ہم سے ہمام نے یہ حدیث بیان کی قتادہ سے ، انھوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ ان لوگوں نے ( ایک مرتبہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی ، پھر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ میں نے دریافت کیا کہ ان دونوں کے درمیان کس قدر فاصلہ رہا ہو گا ۔ فرمایا کہ جتنا پچاس یا ساٹھ آیت پڑھنے میں صرف ہوتا ہے اتنا فاصلہ تھا ۔
نماز فجر کی فضیلت کے بیان میں
حدیث نمبر : 573
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن إسماعيل، حدثنا قيس، قال لي جرير بن عبد الله كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ نظر إلى القمر ليلة البدر فقال " أما إنكم سترون ربكم كما ترون هذا، لا تضامون ـ أو لا تضاهون ـ في رؤيته، فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس، وقبل غروبها فافعلوا ". ثم قال " فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها "
.
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے اسماعیل سے ، کہا ہم سے قیس نے بیان کیا ، کہا مجھ سے جریر بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا ۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بے ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو ( اسے دیکھنے میں تم کو کسی قسم کی بھی مزاحمت نہ ہو گی ) یا یہ فرمایا کہ تمہیں اس کے دیدار میں مطلق شبہ نہ ہو گا اس لیے اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے ( فجر اور عصر ) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو ۔ ( کیونکہ ان ہی کے طفیل دیدار الٰہی نصیب ہو گا یا ان ہی وقتوں میں یہ رویت ملے گی ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ پس اپنے رب کے حمد کی تسبیح پڑھ سورج کے نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے ۔ ‘‘ امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ ابن شہاب نے اسماعیل کے واسطہ سے جو قیس سے بواسطہ جریر ( راوی ہیں ) یہ زیادتی نقل کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ تم اپنے رب کو صاف دیکھو گے ۔ ‘‘
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن إسماعيل، حدثنا قيس، قال لي جرير بن عبد الله كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ نظر إلى القمر ليلة البدر فقال " أما إنكم سترون ربكم كما ترون هذا، لا تضامون ـ أو لا تضاهون ـ في رؤيته، فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس، وقبل غروبها فافعلوا ". ثم قال " فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها "
.
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے اسماعیل سے ، کہا ہم سے قیس نے بیان کیا ، کہا مجھ سے جریر بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا ۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بے ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو ( اسے دیکھنے میں تم کو کسی قسم کی بھی مزاحمت نہ ہو گی ) یا یہ فرمایا کہ تمہیں اس کے دیدار میں مطلق شبہ نہ ہو گا اس لیے اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے ( فجر اور عصر ) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو ۔ ( کیونکہ ان ہی کے طفیل دیدار الٰہی نصیب ہو گا یا ان ہی وقتوں میں یہ رویت ملے گی ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ پس اپنے رب کے حمد کی تسبیح پڑھ سورج کے نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے ۔ ‘‘ امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ ابن شہاب نے اسماعیل کے واسطہ سے جو قیس سے بواسطہ جریر ( راوی ہیں ) یہ زیادتی نقل کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ تم اپنے رب کو صاف دیکھو گے ۔ ‘‘
نماز عشاء پڑھنے سے پہلے سونا
اس بیان میں کہ نماز عشاء پڑھنے سے پہلے سونا ناپسند ہے
حدیث نمبر : 568
حدثنا محمد بن سلام، قال أخبرنا عبد الوهاب الثقفي، قال حدثنا خالد الحذاء، عن أبي المنهال، عن أبي برزة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يكره النوم قبل العشاء والحديث بعدها.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا ابوالمنہال سے ، انھوں نے ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے
اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے
اگرنیند کا غلبہ ہو جائے تو عشاء سے پہلے بھی سونا درست ہے
حدیث نمبر : 568
حدثنا محمد بن سلام، قال أخبرنا عبد الوهاب الثقفي، قال حدثنا خالد الحذاء، عن أبي المنهال، عن أبي برزة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يكره النوم قبل العشاء والحديث بعدها.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا ابوالمنہال سے ، انھوں نے ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے
اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے
اگرنیند کا غلبہ ہو جائے تو عشاء سے پہلے بھی سونا درست ہے
حدیث نمبر : 569
حدثنا أيوب بن سليمان، قال حدثني أبو بكر، عن سليمان، قال صالح بن كيسان أخبرني ابن شهاب، عن عروة، أن عائشة، قالت أعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعشاء حتى ناداه عمر الصلاة، نام النساء والصبيان. فخرج فقال " ما ينتظرها أحد من أهل الأرض غيركم ". قال ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة، وكانوا يصلون فيما بين أن يغيب الشفق إلى ثلث الليل الأول.
ہم سے ایوب بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوبکر نے سلیمان سے ، ان سے صالح بن کیسان نے بیان کیا کہ مجھے ابن شہاب نے عروہ سے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عشاء کی نماز میں دیر فرمائی ۔ یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ نے پکارا ، نماز ! عورتیں اور بچے سب سو گئے ۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین پر تمہارے علاوہ اور کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کرتا ۔ راوی نے کہا ، اس وقت یہ نماز ( باجماعت ) مدینہ کے سوا اور کہیں نہیں پڑھی جاتی تھی ۔ صحابہ اس نماز کو شام کی سرخی کے غائب ہونے کے بعد رات کے پہلے تہائی حصہ تک ( کسی وقت بھی ) پڑھتے تھے ۔
اس بارے میں کہ عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے
اس بارے میں کہ عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے
وقال أبو برزة كان النبي صلى الله عليه وسلم يستحب تأخيرها.
اور ابوبرزہ رضی اللہ عنہ صحابی نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں دیر کرنا پسند فرمایا کرتے تھے ۔
نماز عشاء ( کے لیے انتظار کرنے ) کی فضیلت
حدیث نمبر : 566
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، أن عائشة، أخبرته قالت، أعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بالعشاء، وذلك قبل أن يفشو الإسلام، فلم يخرج حتى قال عمر نام النساء والصبيان. فخرج فقال لأهل المسجد " ما ينتظرها أحد من أهل الأرض غيركم ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطے سے بیان کیا ، انھوں نے ابن شہاب سے ، انھوں نے عروہ سے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خبر دی کہ ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز دیر سے پڑھی ۔ یہ اسلام کے پھیلنے سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک باہر تشریف نہیں لائے جب تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہ فرمایا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے علاوہ دنیا میں کوئی بھی انسان اس نماز کا انتظار نہیں کرتا ۔
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، أن عائشة، أخبرته قالت، أعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بالعشاء، وذلك قبل أن يفشو الإسلام، فلم يخرج حتى قال عمر نام النساء والصبيان. فخرج فقال لأهل المسجد " ما ينتظرها أحد من أهل الأرض غيركم ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطے سے بیان کیا ، انھوں نے ابن شہاب سے ، انھوں نے عروہ سے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خبر دی کہ ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز دیر سے پڑھی ۔ یہ اسلام کے پھیلنے سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک باہر تشریف نہیں لائے جب تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہ فرمایا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے علاوہ دنیا میں کوئی بھی انسان اس نماز کا انتظار نہیں کرتا ۔
عشاء اور عتمہ کا بیان
عشاء اور عتمہ کا بیان اور جو یہ دونوں نام لینے میں کوئی ہرج نہیں خیال کرتے
قال أبو هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم " أثقل الصلاة على المنافقين العشاء والفجر ". وقال " لو يعلمون ما في العتمة والفجر ". قال أبو عبد الله والاختيار أن يقول العشاء لقوله تعالى {ومن بعد صلاة العشاء}. ويذكر عن أبي موسى قال كنا نتناوب النبي صلى الله عليه وسلم عند صلاة العشاء فأعتم بها. وقال ابن عباس وعائشة أعتم النبي صلى الله عليه وسلم بالعشاء. وقال بعضهم عن عائشة أعتم النبي صلى الله عليه وسلم بالعتمة. وقال جابر كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي العشاء. وقال أبو برزة كان النبي صلى الله عليه وسلم يؤخر العشاء. وقال أنس أخر النبي صلى الله عليه وسلم العشاء الآخرة. وقال ابن عمر وأبو أيوب وابن عباس ـرضى الله عنهم ـ صلى النبي صلى الله عليه وسلم المغرب والعشاء
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر کے فرمایا ، کہ منافقین پر عشاء اور فجر تمام نمازوں سے زیادہ بھاری ہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاش ! وہ سمجھ سکتے کہ عتمہ ( عشاء ) اور فجر کی نمازوں میں کتنا ثواب ہے ۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) کہتے ہیں کہ عشاء کہنا ہی بہتر ہے ۔ کیونکہ ارشاد باری ہے ومن بعد صلوٰۃ العشاء ( میں قرآن نے اس کا نام عشاء رکھ دیا ہے ) ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے عشاء کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں پڑھنے کے لیے باری مقرر کر لی تھی ۔ ایک مرتبہ آپ نے اسے رات گئے پڑھا ۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء دیر سے پڑھی ۔ بعض نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ عتمہ ‘‘ کو دیر سے پڑھا ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ’’ عشاء ‘‘ پڑھتے تھے ۔ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں دیر کرتے تھے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشاء کو دیر میں پڑھتے تھے ۔ ابن عمر ، ابوایوب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء پڑھی ۔
قال أبو هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم " أثقل الصلاة على المنافقين العشاء والفجر ". وقال " لو يعلمون ما في العتمة والفجر ". قال أبو عبد الله والاختيار أن يقول العشاء لقوله تعالى {ومن بعد صلاة العشاء}. ويذكر عن أبي موسى قال كنا نتناوب النبي صلى الله عليه وسلم عند صلاة العشاء فأعتم بها. وقال ابن عباس وعائشة أعتم النبي صلى الله عليه وسلم بالعشاء. وقال بعضهم عن عائشة أعتم النبي صلى الله عليه وسلم بالعتمة. وقال جابر كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي العشاء. وقال أبو برزة كان النبي صلى الله عليه وسلم يؤخر العشاء. وقال أنس أخر النبي صلى الله عليه وسلم العشاء الآخرة. وقال ابن عمر وأبو أيوب وابن عباس ـرضى الله عنهم ـ صلى النبي صلى الله عليه وسلم المغرب والعشاء
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر کے فرمایا ، کہ منافقین پر عشاء اور فجر تمام نمازوں سے زیادہ بھاری ہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاش ! وہ سمجھ سکتے کہ عتمہ ( عشاء ) اور فجر کی نمازوں میں کتنا ثواب ہے ۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) کہتے ہیں کہ عشاء کہنا ہی بہتر ہے ۔ کیونکہ ارشاد باری ہے ومن بعد صلوٰۃ العشاء ( میں قرآن نے اس کا نام عشاء رکھ دیا ہے ) ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے عشاء کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں پڑھنے کے لیے باری مقرر کر لی تھی ۔ ایک مرتبہ آپ نے اسے رات گئے پڑھا ۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء دیر سے پڑھی ۔ بعض نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ عتمہ ‘‘ کو دیر سے پڑھا ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ’’ عشاء ‘‘ پڑھتے تھے ۔ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں دیر کرتے تھے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشاء کو دیر میں پڑھتے تھے ۔ ابن عمر ، ابوایوب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء پڑھی ۔
جس نے مغرب کو عشاء کہنا مکروہ جانا
حدیث نمبر : 563
حدثنا أبو معمر ـ هو عبد الله بن عمرو ـ قال حدثنا عبد الوارث، عن الحسين، قال حدثنا عبد الله بن بريدة، قال حدثني عبد الله المزني، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال " لا تغلبنكم الأعراب على اسم صلاتكم المغرب ". قال الأعراب وتقول هي العشاء.
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا ، جو عبداللہ بن عمرو ہیں ، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے حسین بن ذکوان سے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے ، کہا مجھ سے عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ایسا نہ ہو کہ ’’ مغرب ‘‘ کی نماز کے نام کے لیے اعراب ( یعنی دیہاتی لوگوں ) کا محاورہ تمہاری زبانوں پر چڑھ جائے ۔ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا یا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدوی مغرب کو عشاء کہتے تھے ۔
حدثنا أبو معمر ـ هو عبد الله بن عمرو ـ قال حدثنا عبد الوارث، عن الحسين، قال حدثنا عبد الله بن بريدة، قال حدثني عبد الله المزني، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال " لا تغلبنكم الأعراب على اسم صلاتكم المغرب ". قال الأعراب وتقول هي العشاء.
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا ، جو عبداللہ بن عمرو ہیں ، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے حسین بن ذکوان سے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے ، کہا مجھ سے عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ایسا نہ ہو کہ ’’ مغرب ‘‘ کی نماز کے نام کے لیے اعراب ( یعنی دیہاتی لوگوں ) کا محاورہ تمہاری زبانوں پر چڑھ جائے ۔ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا یا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدوی مغرب کو عشاء کہتے تھے ۔
عصر کی ایک رکعت
جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈو بنے سے پہلے پہلے پڑھ سکا تو اس کی نماز ادا ہوگئی
حدیث نمبر : 556
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا شيبان، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا أدرك أحدكم سجدة من صلاة العصر قبل أن تغرب الشمس فليتم صلاته، وإذا أدرك سجدة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فليتم صلاته ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے ، انھوں نے ابوسلمہ سے ، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر عصر کی نماز کی ایک رکعت بھی کوئی شخص سورج غروب ہونے سے پہلے پا سکا تو پوری نماز پڑھے ( اس کی نماز ادا ہوئی نہ قضا ) اسی طرح اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت بھی پا سکے تو پوری نماز پڑھے ۔
حدیث نمبر : 556
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا شيبان، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا أدرك أحدكم سجدة من صلاة العصر قبل أن تغرب الشمس فليتم صلاته، وإذا أدرك سجدة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فليتم صلاته ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے ، انھوں نے ابوسلمہ سے ، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر عصر کی نماز کی ایک رکعت بھی کوئی شخص سورج غروب ہونے سے پہلے پا سکا تو پوری نماز پڑھے ( اس کی نماز ادا ہوئی نہ قضا ) اسی طرح اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت بھی پا سکے تو پوری نماز پڑھے ۔
نماز عصر کی فضیلت کے بیان میں
حدیث نمبر : 554
حدثنا الحميدي، قال حدثنا مروان بن معاوية، قال حدثنا إسماعيل، عن قيس، عن جرير، قال كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فنظر إلى القمر ليلة ـ يعني البدر ـ فقال " إنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته، فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ". ثم قرأ {وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب}. قال إسماعيل افعلوا لا تفوتنكم.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے مروان بن معاویہ نے ، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے ۔ انھوں نے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے ، انھوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند پر ایک نظر ڈالی پھر فرمایا کہ تم اپنے رب کو ( آخرت میں ) اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو اب دیکھ رہے ہو ۔ اس کے دیکھنے میں تم کو کوئی زحمت بھی نہیں ہو گی ، پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز ( فجر ) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز ( عصر ) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ ’’ پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے ۔ ‘‘ اسماعیل ( راوی حدیث ) نے کہا کہ ( عصر اور فجر کی نمازیں ) تم سے چھوٹنے نہ پائیں ۔ ان کا ہمیشہ خاص طور پر دھیان رکھو ۔
حدثنا الحميدي، قال حدثنا مروان بن معاوية، قال حدثنا إسماعيل، عن قيس، عن جرير، قال كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فنظر إلى القمر ليلة ـ يعني البدر ـ فقال " إنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته، فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ". ثم قرأ {وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب}. قال إسماعيل افعلوا لا تفوتنكم.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے مروان بن معاویہ نے ، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے ۔ انھوں نے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے ، انھوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند پر ایک نظر ڈالی پھر فرمایا کہ تم اپنے رب کو ( آخرت میں ) اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو اب دیکھ رہے ہو ۔ اس کے دیکھنے میں تم کو کوئی زحمت بھی نہیں ہو گی ، پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز ( فجر ) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز ( عصر ) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ ’’ پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے ۔ ‘‘ اسماعیل ( راوی حدیث ) نے کہا کہ ( عصر اور فجر کی نمازیں ) تم سے چھوٹنے نہ پائیں ۔ ان کا ہمیشہ خاص طور پر دھیان رکھو ۔
عصر چھوٹ جانے پر کتنا گناہ ہے ؟
حدیث نمبر : 552
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " الذي تفوته صلاة العصر كأنما وتر أهله وماله ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہمیں امام مالک نے نافع کے ذریعہ سے خبر پہنچائی ، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی نماز عصر چھوٹ گئی گویا اس کا گھر اور مال سب لٹ گیا ۔ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سورہ محمد میں جو یترکم کا لفظ آیا ہے وہ وتر سے نکالا گیا ہے ۔ وتر کہتے ہیں کسی شخص کا کوئی آدمی مار ڈالنا یا اس کا مال چھین لینا
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " الذي تفوته صلاة العصر كأنما وتر أهله وماله ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہمیں امام مالک نے نافع کے ذریعہ سے خبر پہنچائی ، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی نماز عصر چھوٹ گئی گویا اس کا گھر اور مال سب لٹ گیا ۔ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سورہ محمد میں جو یترکم کا لفظ آیا ہے وہ وتر سے نکالا گیا ہے ۔ وتر کہتے ہیں کسی شخص کا کوئی آدمی مار ڈالنا یا اس کا مال چھین لینا
حدیث نمبر : 553
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، قال حدثنا يحيى بن أبي كثير، عن أبي قلابة، عن أبي المليح، قال كنا مع بريدة في غزوة في يوم ذي غيم فقال بكروا بصلاة العصر فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال " من ترك صلاة العصر فقد حبط عمله ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے بیان کیا ، کہا ہمیں یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے خبر دی ۔ انھوں نے ابوالملیح سے ، کہا ہم بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر جنگ میں تھے ۔ ابر و بارش کا دن تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ عصر کی نماز جلدی پڑھ لو ۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی ، اس کا نیک عمل ضائع ہو گیا ۔
ظہر کی نماز عصر کے وقت تک تاخیر کر کے پڑھی جا سکتی ہے
حدیث نمبر : 543
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا حماد ـ هو ابن زيد ـ عن عمرو بن دينار، عن جابر بن زيد، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى بالمدينة سبعا وثمانيا الظهر والعصر، والمغرب والعشاء. فقال أيوب لعله في ليلة مطيرة. قال عسى.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا عمرو بن دینار سے ۔ انھوں نے جابر بن زید سے ، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں رہ کر سات رکعات ( ایک ساتھ ) اور آٹھ رکعات ( ایک ساتھ ) پڑھیں ۔ ظہر اور عصر ( کی آٹھ رکعات ) اور مغرب اور عشاء ( کی سات رکعات ) ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے پوچھا شاید برسات کا موسم رہا ہو ۔ جابر بن زید نے جواب دیا کہ غالباً ایسا ہی ہو گا ۔
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا حماد ـ هو ابن زيد ـ عن عمرو بن دينار، عن جابر بن زيد، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى بالمدينة سبعا وثمانيا الظهر والعصر، والمغرب والعشاء. فقال أيوب لعله في ليلة مطيرة. قال عسى.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا عمرو بن دینار سے ۔ انھوں نے جابر بن زید سے ، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں رہ کر سات رکعات ( ایک ساتھ ) اور آٹھ رکعات ( ایک ساتھ ) پڑھیں ۔ ظہر اور عصر ( کی آٹھ رکعات ) اور مغرب اور عشاء ( کی سات رکعات ) ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے پوچھا شاید برسات کا موسم رہا ہو ۔ جابر بن زید نے جواب دیا کہ غالباً ایسا ہی ہو گا ۔
سفرمیں ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنا
حدیث نمبر : 539
حدثنا آدم بن أبي إياس، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا مهاجر أبو الحسن، مولى لبني تيم الله قال سمعت زيد بن وهب، عن أبي ذر الغفاري، قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فأراد المؤذن أن يؤذن للظهر فقال النبي صلى الله عليه وسلم " أبرد ". ثم أراد أن يؤذن فقال له " أبرد ". حتى رأينا فىء التلول، فقال النبي صلى الله عليه وسلم " إن شدة الحر من فيح جهنم، فإذا اشتد الحر فأبردوا بالصلاة ". وقال ابن عباس تتفيأ تتميل.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے بنی تیم اللہ کے غلام مہاجر ابوالحسن نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے زید بن وہب جہنی سے سنا ، وہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے کہ انھوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت کو ٹھنڈا ہونے دو ، مؤذن نے ( تھوڑی دیر بعد ) پھر چاہا کہ اذان دے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دے ۔ جب ہم نے ٹیلے کا سایہ ڈھلا ہوا دیکھ لیا ۔ ( تب اذان کہی گئی ) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ کی تیزی سے ہے ۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جایا کرے تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا یتفیئو ( کا لفظ جو سورہ نحل میں ہے ) کے معنے یتمیل ( جھکنا ، مائل ہونا ) ہیں ۔
حدثنا آدم بن أبي إياس، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا مهاجر أبو الحسن، مولى لبني تيم الله قال سمعت زيد بن وهب، عن أبي ذر الغفاري، قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فأراد المؤذن أن يؤذن للظهر فقال النبي صلى الله عليه وسلم " أبرد ". ثم أراد أن يؤذن فقال له " أبرد ". حتى رأينا فىء التلول، فقال النبي صلى الله عليه وسلم " إن شدة الحر من فيح جهنم، فإذا اشتد الحر فأبردوا بالصلاة ". وقال ابن عباس تتفيأ تتميل.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے بنی تیم اللہ کے غلام مہاجر ابوالحسن نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے زید بن وہب جہنی سے سنا ، وہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے کہ انھوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت کو ٹھنڈا ہونے دو ، مؤذن نے ( تھوڑی دیر بعد ) پھر چاہا کہ اذان دے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دے ۔ جب ہم نے ٹیلے کا سایہ ڈھلا ہوا دیکھ لیا ۔ ( تب اذان کہی گئی ) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ کی تیزی سے ہے ۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جایا کرے تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا یتفیئو ( کا لفظ جو سورہ نحل میں ہے ) کے معنے یتمیل ( جھکنا ، مائل ہونا ) ہیں ۔
سخت گرمی میں ظہر کو ذرا ٹھنڈے وقت پڑھنا
حدیث نمبر : 533-534
حدثنا أيوب بن سليمان، قال حدثنا أبو بكر، عن سليمان، قال صالح بن كيسان حدثنا الأعرج عبد الرحمن، وغيره، عن أبي هريرة ، ونافع مولى عبد الله بن عمر، عن عبد الله بن عمر: أنهما حدثناه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: (إذا اشتد الحر فأبردوا عن الصلاة، فإن شدة الحر من فيح جهنم).
ہم سے ایوب بن سلیمان مدنی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوبکر عبدالحمید بن ابی اویس نے سلیمان بن بلال کے واسطہ سے کہ صالح بن کیسان نے کہا کہ ہم سے اعرج عبدالرحمن وغیرہ نے حدیث بیان کی ۔ وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مولیٰ نافع عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کی روایت کرتے تھے کہ ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو ، کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہوتی ہے ۔
حدثنا أيوب بن سليمان، قال حدثنا أبو بكر، عن سليمان، قال صالح بن كيسان حدثنا الأعرج عبد الرحمن، وغيره، عن أبي هريرة ، ونافع مولى عبد الله بن عمر، عن عبد الله بن عمر: أنهما حدثناه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: (إذا اشتد الحر فأبردوا عن الصلاة، فإن شدة الحر من فيح جهنم).
ہم سے ایوب بن سلیمان مدنی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوبکر عبدالحمید بن ابی اویس نے سلیمان بن بلال کے واسطہ سے کہ صالح بن کیسان نے کہا کہ ہم سے اعرج عبدالرحمن وغیرہ نے حدیث بیان کی ۔ وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مولیٰ نافع عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کی روایت کرتے تھے کہ ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو ، کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہوتی ہے ۔
نماز پڑھنے والا نماز میں اپنے رب سے پوشیدہ طور پر بات چیت کرتاہے
حدیث نمبر : 531
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، عن قتادة، عن أنس، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم " إن أحدكم إذا صلى يناجي ربه فلا يتفلن عن يمينه، ولكن تحت قدمه اليسرى ". وقال سعيد عن قتادة لا يتفل قدامه أو بين يديه، ولكن عن يساره أو تحت قدميه. وقال شعبة لا يبزق بين يديه ولا عن يمينه، ولكن عن يساره أو تحت قدمه. وقال حميد عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم " لا يبزق في القبلة ولا عن يمينه، ولكن عن يساره أو تحت قدمه".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے قتادہ ابن دعامہ کے واسطے سے ، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا رہتا ہے اس لیے اپنی داہنی جانب نہ تھوکنا چاہیے لیکن بائیں پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے ۔
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، عن قتادة، عن أنس، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم " إن أحدكم إذا صلى يناجي ربه فلا يتفلن عن يمينه، ولكن تحت قدمه اليسرى ". وقال سعيد عن قتادة لا يتفل قدامه أو بين يديه، ولكن عن يساره أو تحت قدميه. وقال شعبة لا يبزق بين يديه ولا عن يمينه، ولكن عن يساره أو تحت قدمه. وقال حميد عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم " لا يبزق في القبلة ولا عن يمينه، ولكن عن يساره أو تحت قدمه".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے قتادہ ابن دعامہ کے واسطے سے ، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا رہتا ہے اس لیے اپنی داہنی جانب نہ تھوکنا چاہیے لیکن بائیں پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے ۔
بے وقت نماز پڑھنا ، نماز کو ضائع کرنا ہے
حدیث نمبر : 529
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا مهدي، عن غيلان، عن أنس، قال ما أعرف شيئا مما كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم. قيل الصلاة. قال أليس ضيعتم ما ضيعتم فيها.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے غیلان بن جریر کے واسطہ سے ، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ، آپ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی بات اس زمانہ میں نہیں پاتا ۔ لوگوں نے کہا ، نماز تو ہے ۔ فرمایا اس کے اندر بھی تم نے کر رکھا ہے جو کر رکھا ہے ۔
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا مهدي، عن غيلان، عن أنس، قال ما أعرف شيئا مما كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم. قيل الصلاة. قال أليس ضيعتم ما ضيعتم فيها.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے غیلان بن جریر کے واسطہ سے ، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ، آپ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی بات اس زمانہ میں نہیں پاتا ۔ لوگوں نے کہا ، نماز تو ہے ۔ فرمایا اس کے اندر بھی تم نے کر رکھا ہے جو کر رکھا ہے ۔
پانچوں وقت کی نمازیں
اس بیان میں کہ پانچوں وقت کی نمازیں گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہیں جب کوئی ان کو جماعت سے یا اکیلا ہی اپنے وقت پر پڑھے
حدیث نمبر : 528
حدثنا إبراهيم بن حمزة، قال حدثني ابن أبي حازم، والدراوردي، عن يزيد، عن محمد بن إبراهيم، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " أرأيتم لو أن نهرا بباب أحدكم، يغتسل فيه كل يوم خمسا، ما تقول ذلك يبقي من درنه ". قالوا لا يبقي من درنه شيئا. قال " فذلك مثل الصلوات الخمس، يمحو الله بها الخطايا ".
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم اور عبدالعزیز بن محمد در اوردی نے یزید بن عبداللہ کی روایت سے ، انھوں نے محمد بن ابراہیم تیمی سے ، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے ۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے ؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ ! ہرگز نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔
حدیث نمبر : 528
حدثنا إبراهيم بن حمزة، قال حدثني ابن أبي حازم، والدراوردي، عن يزيد، عن محمد بن إبراهيم، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " أرأيتم لو أن نهرا بباب أحدكم، يغتسل فيه كل يوم خمسا، ما تقول ذلك يبقي من درنه ". قالوا لا يبقي من درنه شيئا. قال " فذلك مثل الصلوات الخمس، يمحو الله بها الخطايا ".
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم اور عبدالعزیز بن محمد در اوردی نے یزید بن عبداللہ کی روایت سے ، انھوں نے محمد بن ابراہیم تیمی سے ، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے ۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے ؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ ! ہرگز نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔
نماز وقت پر پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں
حدیث نمبر : 527
حدثنا أبو الوليد، هشام بن عبد الملك قال حدثنا شعبة، قال الوليد بن العيزار أخبرني قال سمعت أبا عمرو الشيباني، يقول حدثنا صاحب، هذه الدار وأشار إلى دار عبد الله قال سألت النبي صلى الله عليه وسلم أى العمل أحب إلى الله قال " الصلاة على وقتها ". قال ثم أى قال " ثم بر الوالدين ". قال ثم أى قال " الجهاد في سبيل الله ". قال حدثني بهن ولو استزدته لزادني.
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے ، انھوں نے کہا کہ مجھے ولید بن عیزار کوفی نے خبر دی ، کہا کہ میں نے ابوعمر و شیبانی سے سنا ، وہ کہتے تھے کہ میں نے اس گھر کے مالک سے سنا ، ( آپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف اشارہ کر رہے تھے ) انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے وقت پر نماز پڑھنا ، پھر پوچھا ، اس کے بعد ، فرمایا والدین کے ساتھ نیک معاملہ رکھنا ۔ پوچھا اس کے بعد ، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ تفصیل بتائی اور اگر میں اور سوالات کرتا تو آپ اور زیادہ بھی بتلاتے ۔ ( لیکن میں نے بطور ادب خاموشی اختیار کی ۔ )
حدثنا أبو الوليد، هشام بن عبد الملك قال حدثنا شعبة، قال الوليد بن العيزار أخبرني قال سمعت أبا عمرو الشيباني، يقول حدثنا صاحب، هذه الدار وأشار إلى دار عبد الله قال سألت النبي صلى الله عليه وسلم أى العمل أحب إلى الله قال " الصلاة على وقتها ". قال ثم أى قال " ثم بر الوالدين ". قال ثم أى قال " الجهاد في سبيل الله ". قال حدثني بهن ولو استزدته لزادني.
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے ، انھوں نے کہا کہ مجھے ولید بن عیزار کوفی نے خبر دی ، کہا کہ میں نے ابوعمر و شیبانی سے سنا ، وہ کہتے تھے کہ میں نے اس گھر کے مالک سے سنا ، ( آپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف اشارہ کر رہے تھے ) انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے وقت پر نماز پڑھنا ، پھر پوچھا ، اس کے بعد ، فرمایا والدین کے ساتھ نیک معاملہ رکھنا ۔ پوچھا اس کے بعد ، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ تفصیل بتائی اور اگر میں اور سوالات کرتا تو آپ اور زیادہ بھی بتلاتے ۔ ( لیکن میں نے بطور ادب خاموشی اختیار کی ۔ )
گناہوں کے لیے نماز کفارہ ہے
اس بیان میں کہ گناہوں کے لیے نماز کفارہ ہے ( یعنی اس سے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں )
حدیث نمبر : 525
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن الأعمش، قال حدثني شقيق، قال سمعت حذيفة، قال كنا جلوسا عند عمر ـ رضى الله عنه ـ فقال أيكم يحفظ قول رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتنة قلت أنا، كما قاله. قال إنك عليه ـ أو عليها ـ لجريء. قلت " فتنة الرجل في أهله وماله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصوم والصدقة والأمر والنهى ". قال ليس هذا أريد، ولكن الفتنة التي تموج كما يموج البحر. قال ليس عليك منها بأس يا أمير المؤمنين، إن بينك وبينها بابا مغلقا. قال أيكسر أم يفتح قال يكسر. قال إذا لا يغلق أبدا. قلنا أكان عمر يعلم الباب قال نعم، كما أن دون الغد الليلة، إني حدثته بحديث ليس بالأغاليط. فهبنا أن نسأل حذيفة، فأمرنا مسروقا فسأله فقال الباب عمر.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے اعمش کی روایت سے بیان کیا ، اعمش ( سلیمان بن مہران ) نے کہا کہ مجھ سے شقیق بن مسلمہ نے بیان کیا ، شقیق نے کہا کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنا ۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے پوچھا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث تم میں سے کسی کو یاد ہے ؟ میں بولا ، میں نے اسے ( اسی طرح یاد رکھا ہے ) جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمایا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے ، کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتن کو معلوم کرنے میں بہت بے باک تھے ۔ میں نے کہا کہ انسان کے گھر والے ، مال اولاد اور پڑوسی سب فتنہ ( کی چیز ) ہیں ۔ اور نماز ، روزہ ، صدقہ ، اچھی بات کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا ان فتنوں کا کفارہ ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتا ، مجھے تم اس فتنہ کے بارے میں بتلاؤ جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑھے گا ۔ اس پر میں نے کہا کہ یا امیرالمومنین ! آپ اس سے خوف نہ کھائیے ۔ آپ کے اور فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے ۔ پوچھا کیا وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا ( صرف ) کھولا جائے گا ۔ میں نے کہا کہ توڑ دیا جائے گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بول اٹھے ، کہ پھر تو وہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا ۔ شقیق نے کہا کہ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا ، کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس دروازہ کے متعلق کچھ علم رکھتے تھے تو انھوں نے کہا کہ ہاں ! بالکل اسی طرح جیسے دن کے بعد رات کے آنے کا ۔ میں نے تم سے ایک ایسی حدیث بیان کی ہے جو قطعاً غلط نہیں ہے ۔ ہمیں اس کے متعلق حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھنے میں ڈر ہوتا تھا ( کہ دروازہ سے کیا مراد ہے ) اس لیے ہم نے مسروق سے کہا ( کہ وہ پوچھیں ) انھوں نے دریافت کیا تو آپ نے بتایا کہ وہ دروازہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے ۔
حدیث نمبر : 525
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن الأعمش، قال حدثني شقيق، قال سمعت حذيفة، قال كنا جلوسا عند عمر ـ رضى الله عنه ـ فقال أيكم يحفظ قول رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتنة قلت أنا، كما قاله. قال إنك عليه ـ أو عليها ـ لجريء. قلت " فتنة الرجل في أهله وماله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصوم والصدقة والأمر والنهى ". قال ليس هذا أريد، ولكن الفتنة التي تموج كما يموج البحر. قال ليس عليك منها بأس يا أمير المؤمنين، إن بينك وبينها بابا مغلقا. قال أيكسر أم يفتح قال يكسر. قال إذا لا يغلق أبدا. قلنا أكان عمر يعلم الباب قال نعم، كما أن دون الغد الليلة، إني حدثته بحديث ليس بالأغاليط. فهبنا أن نسأل حذيفة، فأمرنا مسروقا فسأله فقال الباب عمر.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے اعمش کی روایت سے بیان کیا ، اعمش ( سلیمان بن مہران ) نے کہا کہ مجھ سے شقیق بن مسلمہ نے بیان کیا ، شقیق نے کہا کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنا ۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے پوچھا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث تم میں سے کسی کو یاد ہے ؟ میں بولا ، میں نے اسے ( اسی طرح یاد رکھا ہے ) جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمایا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے ، کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتن کو معلوم کرنے میں بہت بے باک تھے ۔ میں نے کہا کہ انسان کے گھر والے ، مال اولاد اور پڑوسی سب فتنہ ( کی چیز ) ہیں ۔ اور نماز ، روزہ ، صدقہ ، اچھی بات کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا ان فتنوں کا کفارہ ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتا ، مجھے تم اس فتنہ کے بارے میں بتلاؤ جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑھے گا ۔ اس پر میں نے کہا کہ یا امیرالمومنین ! آپ اس سے خوف نہ کھائیے ۔ آپ کے اور فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے ۔ پوچھا کیا وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا ( صرف ) کھولا جائے گا ۔ میں نے کہا کہ توڑ دیا جائے گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بول اٹھے ، کہ پھر تو وہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا ۔ شقیق نے کہا کہ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا ، کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس دروازہ کے متعلق کچھ علم رکھتے تھے تو انھوں نے کہا کہ ہاں ! بالکل اسی طرح جیسے دن کے بعد رات کے آنے کا ۔ میں نے تم سے ایک ایسی حدیث بیان کی ہے جو قطعاً غلط نہیں ہے ۔ ہمیں اس کے متعلق حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھنے میں ڈر ہوتا تھا ( کہ دروازہ سے کیا مراد ہے ) اس لیے ہم نے مسروق سے کہا ( کہ وہ پوچھیں ) انھوں نے دریافت کیا تو آپ نے بتایا کہ وہ دروازہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے ۔
اوقات نماز کے بیان میں
: نماز کے اوقات اور ان کے فضائل اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وضاحت وقوله {إن الصلاة كانت على المؤمنين كتابا موقوتا} وقته عليهم.
کہ مسلمانوں پر نماز وقت مقررہ میں فرض ہے ، یعنی اللہ نے ان کے لیے نمازوں کے اوقات مقرر کر دئیے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” اللہ پاک کی طرف رجوع کرنے والے ( ہوجاو ) اور اس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہوجاو ۔ “ ( سورہ روم )
حدیث نمبر : 523
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا عباد ـ هو ابن عباد ـ عن أبي جمرة، عن ابن عباس، قال قدم وفد عبد القيس على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا إنا من هذا الحى من ربيعة، ولسنا نصل إليك إلا في الشهر الحرام، فمرنا بشىء نأخذه عنك، وندعو إليه من وراءنا. فقال " آمركم بأربع، وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله ـ ثم فسرها لهم شهادة أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وأن تؤدوا إلى خمس ما غنمتم، وأنهى عن الدباء والحنتم والمقير والنقير ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے عباد بن عباد بصری نے ، اور یہ عباد کے لڑکے ہیں ، ابوجمرہ ( نصر بن عمران ) کے ذریعہ سے ، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ، انھوں نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اس ربیعہ قبیلہ سے ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی بات کا ہمیں حکم دیجیئے ، جسے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ لیں اور اپنے پیچھے رہنے والے دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں ، پہلے خدا پر ایمان لانے کا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ، اور دوسرے نماز قائم کرنے کا ، تیسرے زکوٰۃ دینے کا ، اور چوتھے جو مال تمہیں غنیمت میں ملے ، اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرنے کا اور تمہیں میں تونبڑی حنتم ، قسار اور نقیر کے استعمال سے روکتا ہوں ۔
نماز درست طریقے سے پڑھنے پر بیعت کرنا
حدیث نمبر : 524
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا يحيى، قال حدثنا إسماعيل، قال حدثنا قيس، عن جرير بن عبد الله، قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے قیس بن ابی حازم نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بیان کیا کہ جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر نماز قائم کرنے ، زکوٰۃ دینے ، اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ۔
کہ مسلمانوں پر نماز وقت مقررہ میں فرض ہے ، یعنی اللہ نے ان کے لیے نمازوں کے اوقات مقرر کر دئیے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” اللہ پاک کی طرف رجوع کرنے والے ( ہوجاو ) اور اس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہوجاو ۔ “ ( سورہ روم )
حدیث نمبر : 523
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا عباد ـ هو ابن عباد ـ عن أبي جمرة، عن ابن عباس، قال قدم وفد عبد القيس على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا إنا من هذا الحى من ربيعة، ولسنا نصل إليك إلا في الشهر الحرام، فمرنا بشىء نأخذه عنك، وندعو إليه من وراءنا. فقال " آمركم بأربع، وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله ـ ثم فسرها لهم شهادة أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وأن تؤدوا إلى خمس ما غنمتم، وأنهى عن الدباء والحنتم والمقير والنقير ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے عباد بن عباد بصری نے ، اور یہ عباد کے لڑکے ہیں ، ابوجمرہ ( نصر بن عمران ) کے ذریعہ سے ، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ، انھوں نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اس ربیعہ قبیلہ سے ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی بات کا ہمیں حکم دیجیئے ، جسے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ لیں اور اپنے پیچھے رہنے والے دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں ، پہلے خدا پر ایمان لانے کا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ، اور دوسرے نماز قائم کرنے کا ، تیسرے زکوٰۃ دینے کا ، اور چوتھے جو مال تمہیں غنیمت میں ملے ، اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرنے کا اور تمہیں میں تونبڑی حنتم ، قسار اور نقیر کے استعمال سے روکتا ہوں ۔
نماز درست طریقے سے پڑھنے پر بیعت کرنا
حدیث نمبر : 524
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا يحيى، قال حدثنا إسماعيل، قال حدثنا قيس، عن جرير بن عبد الله، قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے قیس بن ابی حازم نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بیان کیا کہ جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر نماز قائم کرنے ، زکوٰۃ دینے ، اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ۔
Subscribe to:
Posts (Atom)