100 ریال
ہمیں اتنی بڑی رقم لگتی ہے جب ہم مسجد ساتھ لے کر جاتے ہیں صدقہ دینے کے لیے
مگر
بڑی معمولی رقم لگتی ہے جب ہم بازار لے کر جاتے ہیں
کسی وزیر یا بادشاہ کے دربار میں حاضری کو خوش نصیبی اور اعزاز تصور کرتے ہیں ان کے دربار میں ہمارےادب و احترام کی کوئی مثال نہیں ملتی
مگر
اللہ کے سامنے حاضری ہی بھاری لگتی ہے اور پھر اللہ کے دربار میں جمائی ، سستی، اور کاہلی کی کوئی مثال نہیں ملتی
عجیب
دو گھنٹے
ہمیں بہت طویل لگتے ہیں مسجد میں
مگر
یھی دو گھنٹے بہت قصیر لگتے ہیں سینما میں
عــــــــــــــــــــــــ ــــــــجیب
ایک گھنٹہ
ہمیں بہت طویل لگتا ہے اللہ کی عبادت میں
مگر
یہی ایک گھنٹہ بہت معولی لگتا ہے انٹرنٹ پر یا ٹی وی کے آگے
عــــــــــــــــــــــــ ــــجیب
ہمیں قرآن کے دو صفحے پڑھنا بے حد مشکل لگتا ہے
مگر
اس کے برعکس
ناولز کی کتابیں پڑھنا بے حد آسان۔۔۔۔
عــــــــــــــــــــــــ جیب
ہم میڈیا و اخبارات کی باتوں پر تصدیق کرنے میں دیر نہیں کرتے
مگر
قرآن جو کہتا ہے اس پر شک و شبہات میں پڑے ہیں
عــــــــــــــــــــــــ جیب
کیسے یک دم ہم مغرب کے تہذیب میں رنگ جاتے ہیں اور ان کے طریقے اپنا لیتے ہیں
مگر
پنے رسول عليه الصلاة والسلام کے طریقے (سنت) کو اپنانا گوارا نہیں !
عــــــــــــــــــــــــ ــجیب
ہمیں دعاء کے وقت ہر بات یاد نہیں آتی
مگر
دوستوں سے گپے مارتے ہوۓ دنیا جہاں کی باتیں یاد آتی ہیں
؟
عجییب
ہر پارٹی یہ مجمع میں لوگو کی کثرت آگے نظر آتی ہے
مگر
مسجد میں پہلی صف کی رغبت نظر نہیں آتی
لوگو کی کثرت آخری صف میں نظر آتی ہے
عجـــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــیب
ہمیں قرآن کی دو آیتیں یاد کرنا بہت مشکل لگتاہے
مگر
گانے اور ترانے یک دم یاد کر لیتے ہیں
آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"جنت ناگوار چیزوں سے گھیری گئی ہے اور جھنم خوشگوار چیزوں سے گھیری گئی ہے "
(جو انسانی نفس کو خوشگوار لگتی ہے)
رواہ مسلم
اور آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"دنیا کی مٹھاس آخرت کی کڑواہٹ ہے اور دنیا کی کڑواہٹ آخرت کی مٹھاس ہے
"
رواہ احمد و الحاکم
فَأَمَّا مَن طَغَى
تو جس [شخص] نے سر کشی کی ہوگی
وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا
اور دنيوی زندگی کو ترجيح دی ہوگی
فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى
تو اس کا ٹھکانا جھنم ہی ہے
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى
ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کہرے ہونے
سے ڈرتا رہا ہو گا اور اپنے نفس کو نفسی خواہش سے روکتا رہا ہوگا
فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى
تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے
وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ
اور اپنے
نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی
آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں
کل حساب کا دن ہوگا عمل کا نہیں
سنا تھا ہم نے لوگوں سے ۔۔۔۔۔
محبت چیز ایسی ہے ۔۔۔
چھپاۓ چھپ نہیں سکتی ۔۔۔
یہ آنکھوں میں چمکتی ہے ۔۔
۔ یہ چہروں پر دمکتی ہے ۔۔۔
دلوں تک کو رلاتی ہے ۔۔۔۔
مگر
اگر یہ سب سچ ہے ۔۔۔
تو پھر ہمیں اپنے رب
سے بھلا کیسی محبت ہے
نہ آنکھوں سے جھلکتی ہے
نا چہروں پر دمکتی ہے ۔۔
نا لہجوں میں سلگتی ہے
نا دلوں کو آزماتی ہے
نا راتوں کو رلاتی ہے
یہ کیسی محبت ہے ۔۔۔
??????
Saturday, January 29, 2011
محبت كا تہوار" ويلنٹائن ڈے"
کتاب وسنت کی روشنی میں
بسم اللہ الرحمن الرحيم
الحمد للہ وحدہ والصلاة والسلام علی نبينا محمد وعلى آلہ وأصحابہ ومن تبعہم بإحسان إلي يوم الدين وبعد:
اللہ تعالى كا ارشاد ہے ﴿ [ البقرۃ : 120]" آپ سے یہود ونصارى ہرگزراضی نہیں ہونگے جب تک کہ آپ انکے مذہب کے تابع نہ بن جائیں "
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "تم اپنے سے پہلی امتوں کےطریقوں کی ضرور
باضرور پیروی کروگے, بالشت دربالشت, ہاتہ درہاتہ ’حتی کہ اگر وہ گوہ کےبل میں داخل ہوئے ہونگے تو تم بھی ان کی پیروی میں اسمیں داخل ہوگے, ہم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا یہود اورنصارى؟ آپ نے فرمایا: پھراور کون؟ !"
(صحيح بخاري كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة :8/151)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (مَن تَشَبّہ بِقَومٍ فَہُوَ مِنھُم) "جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے " (مسند احمد ك2/50)
قارئين كرام! رب كريم كا ہم پر لا کہ لاکہ شکرو احسان ہے کہ ہمیں اس دنیائے آب وگل میں پیدا کرنے کے بعد ہماري رشدوہدایت کے لئے أنبیاء ورسل کا سلسلہ جاری کیا ,جوحسب ضرورت وقتا فوقتا ًہر قوم میں خدائی پیغام کو پہنچاتے رہے ,اوراس سلسلہ نبوت کے آخری کڑی احمد مجتبى'محمد مصطفے' صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جوکسی خاص قوم کیلئے نہیں ,بلکہ ساری انسانیت کے لئے رشدوہدایت کا چراغ بن کرآئے , جنہوں نے راہ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم کے روشن شاہراہ پرلا کر گامزن کیا, اورتیئیس سالہ دور نبوت کے اندر رب کریم نے دین کومکمل کردیا اور یہ فرما ن جاری کردیا کہ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا ﴾ (سورۃ المائدہ: 3 ) " آج میںنے تمہارےلئے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پورکردیا اور تمہارے لئےاسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا "
يہ آیت کریمہ حجۃ الوداع کے موقع پر جمعہ کے دن عرفہ کی تاریخ کو نازل ہوئی
اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ شریعت کی تکمیل کا اعلان کردیا گیا ,لہذا اب دین میں کسی کمی وزیادتی کی ضرورت باقی نہ رہی ,اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ :"لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہوگے گمراہ نہیں ہوگے, ایک کتاب اللہ دوسری میری سنت یعنی حدیث " پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چند مہینے کے بعد انتقال ہوگیا ,اور لوگ چند صدیوں تک دین کے صحیح شاہراہ پر قائم رہے یہاں تک کہ خیرالقرون کا دور ختم ہوگیا , اوررفتہ رفتہ عہد رسالت سے دوری ہوتی گئی اورجہالت عام ہونے لگی , اور دین سے لگاؤ کم ہوتا گیا , مختلف گمراہ اور باطل فرقے جنم لینا شروع کردئیے , یہودو نصارى اور أعداء اسلام کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ تیز پکڑتا گیا اور بہت سارے باطل رسم ورواج اورغیر دینی شعائر مسلمانوں نے یہودونصاری کی اندہی تقلید میں اپنا نا شروع کردیا ,چنانچہ انہیں باطل رسم رواج اورغیر
دینی شعائر میں سے عید الحب (ویلنٹائن ڈے ) یا محبت اورعشق وعاشقی کا تہوار ہے
جسکوموجودہ دورمیں ذرائع إبلاغ ( انٹرنٹ, ٹیلی ویژن, ریڈیو, اخباروجرائد ) کے ذریعہ پوری دنیا میں بڑے ہی خوشنما اورمہذب انداز میں پیش کیا جارہاہے ,جسمیںنوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کاباہم سرخ لباس میں ملبوس ہوکر گلابی پھولوں, عشقیہ کارڈوں, چاکلیٹ اورمبارکبادی وغیرہ کے تبادلے کے ذریعے عشق ومحبت کا کھلّم کھلا اظہارہوتا ہے ,اوربے حیائی وفحاشی اورزناکاری کے راستوں کو ہموارکیا جاتا ہے ,اوررومی وثنیت اورعیسائیت کے باطل عقیدے اورتہوارکو فروغ وتقویت دی جاتی ہے,اور مسلمان کافروں کی اند ھی تقلید کرکے اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غضب وناراضگی کا مستحق ہوتا ہے.
آئیے ہم آپ کو اس تہو ار کی حقیقت وپس منظر اور اسلامی نقطہ نظرسے اسکے حکم کے بارے میں بتاتے چلیں تاکہ اس اندھی رسم ورواج کا مسلم معاشرے سےجو ایک ناسور کی طرح پھیلتا چلا جارہا ہے ,اورنوخیز عمرکے لڑکوں اور لڑکیوں کو فحاشی و زناکاری کی طرف دعوت دے رہا ہے, اسکا علاج ا ورخاتمہ ہوسکے .
ویلنٹائن ڈے (یوم محبت ) کا پس منظر:
يوم محبت رومن بت پرستوں کے تہواروں میں سے ایک تہوارہے, جبکہ رومیوں کے یہاں بت پرستی سترہ صدیوں سے زیادہ مدت سے رائج تھی, اوریہ¬( تہوار)رومی بت پرستی
کے مفہوم میں حب الہی سے عبار ت ہے .
اس بت پرست تہوار کے سلسلے میں رومیوں اوران کے وارثین عیسائیوں کے یہا ں بہت ساری داستانیں اورکہانیاں مشہورہیں
لیکن ان میں سب سے زیادہ مشہوریہ ہے کہ:"رومیوں کےاعتقاد کے مطابق شہرروما کے مؤسِّس (روملیوس) کو ایک دن کسی مادہ بھیڑیا نے دودہ پلایا جس کی وجہ سے اسے قوت فکری اور حلم وبردباری حاصل ہوگئی ,
لہذارومی لوگ اس حادثہ کی وجہ سے ہرسال فروری کے وسط میں اس تہوار کو منایا کرتے ہیں,اسکا طریقہ یہ تھا کہ کتا اور بکری ذبح کرتے اور دو طاقتور مضبوط نوجوان اپنے جسم پر کتے اور بکری کے خون کا لیپ کرتے,اور پھر اس خون کو دودہ سے دہوتے,اور اسکے بعد ایک بہت بڑا قافلہ سڑکوں پرنکلتا جسکی قیادت دونوں نوجوانوں کے ہاتہ میں ہوتی, اوردونوں نوجوان اپنےساتہ ہاتہ میں چمڑے کے دو ٹکڑے لئے رہتے, جو بھی انہیں ملتا اسے اس ٹکڑے سے مارتے اور رومی عورتیں بڑی خوشی سے اس ٹکڑے کی مار اس اعتقاد سے کھاتیں کہ اس سے شفا اور بانجھ پن دور ہو جاتا ہے ,
سینٹ"ویلنٹائن "کا اس تہوار سے تعلق :
سینٹ ویلنٹائن نصرانی کنیسہ کے دو قدیم قربان ہونے والے اشخاص کا نام ہے, اورایک قول کے مطابق ایک ہی شخص تھا جو شہنشاہ" کلاودیس " کےتعذیب کی تاب نہ لا کر 296ء میں ہلاک ہوگیا .اور جس جگہ ہلاک ہوا اسی جگہ 350میلادی میں بطور یادگار ایک کنیسہ تیار کردیا گیا .
جب رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی تو وہ اپنے اس سابقہ تہوار کو مناتے رہے لیکن انہوں نے اسے بت پرستی(محبت الہی) کے مفہوم سے نکا ل کر دوسرے مفہوم "محبت کے شہداء" میںتبدیل کر دیا ,اورانہوں نے اسے محبت وسلامتی کی دعوت دینے والے"سینٹ ویلنٹائن"کے نام کردیا جسے وہ اپنی گمان کے مطابق اسے اس راستے میں شہید گردانتے ہیں .
اور اسے عاشقوں کی عید اورتہوار کا نام بھی دیتے ہیں, اورسینٹ ویلنٹائن کو عاشقوں کا شفارشی اور ان کا نگراں شمار کرتے ہیں.
اس تہوار کےسلسلے میں ان کے باطل اعتقاد ات میں سے یہ تھی کہ: نوجوان اور شادی کی عمر میں پہنچنے والی لڑکیوں کے نام کاغذ کے ٹکڑوں پرلکھکر ایک برتن میں ڈالتے اوراسے ٹیبل پر رکھ دیا جاتا,اور شادی کی رغبت رکھنے والے نوجوان لڑکوں کو دعوت دی جاتی کہ ا ن میں سے ہرشخص ایک پرچی کونکا لے ,لہذا جس کا نام اس قرعہ میں نکلتا وہ اس لڑکی کی ایک سال تک خدمت کرتا اور وہ ایک دوسرے کے اخلاق کا تجربہ کرتے, پھر بعد میں شادی کرلیتے ,یاپھر آئندہ سال اسی تہوار یوم محبت میں دوبارہ قرعہ اندازی کرتے,
لیکن دین نصرانی کےعلماء اس رسم کے بہت زیادہ مخالف تھے,اوراسے نوجوان لڑکے لڑکیوں کےاخلاق خراب کرنے کا سبب قرار دیا,لہذا اٹلی جہاں پر اسے بہت شہرت حاصل تھی,اسے باطل وناجائز قراردے دیا گیا , پھر بعد میں اٹھارہ اورانیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیا گیا , وہ اس طرح کہ کچہ یوروپی ممالک میں کچھ بکڈپوں پر ایک کتاب (ویلنٹائن کے نام ) کی فروخت شروع ہوئی,جس میں عشق ومحبت کے اشعار تہے ,جسے عاشق قسم کے لوگ اپنی محبوبہ کو خطوط میں لکھنے کیلئے استعمال کرتے تھے,اوراس میں عشق ومحبت کے خطوط لکھنے کے بارہ میں چند ایک تجاویزبھی درج تھے.
2- ا س تہوار کاایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ :
"جب رومی بت پرستوںنےنصرانیت قبول کرلی ,اور عیسائیت کے ظہور کےبعد اس میں داخل ہوگئے توتیسری صدی میلادی میں رومانی بادشاہ" کلاودیس دوم" نے اپنی فوج کے لوگوں پر شادی کرنے کی پابندی لگادی کیونکہ وہ بیویوں کی وجہ سے اسکےساتہ جنگوں میں نہیں جاتے تھے .
لیکن سینٹ ولنٹائن نے اس فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے چوری چھپے فوجیوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا,اور جب کلاودیس کو اس کا علم ہوا تو اسنے سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا ,اور اسے پھانسی کی سزا دے دی , کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران ہی سینٹ ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور سب کچہ خفیہ ہوا, کیونکہ پادریوں اور راہبوں پر عیسائیوں کے نزدیک شادی کرنا اورمحبت کے تعلقات قائم کرنا حرام ہیں , نصاری کے یہاں اس کی شفارش کی گئی کہ نصرانیت پر قائم رہے , اورشہنشاہ نے اسے عیسائیت ترک کرکے رومی(بت پرستی) دین قبول کرنے کو کہا کہ اگر وہ عیسائیت تر ک کردے تو اسے معاف کردیا جائیگا اور وہ اسے اپنا داماد بنا نے کے ساتھ اپنےمقربین میں شامل کرلے گا ,
لیکن ویلنٹائن نے اس سے انکار کردیا اورعیسائیت کو ترجیح دی اوراسی پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا, تو چودہ فروری 270ء کے دن اور پندرہ فروری کی رات اسے پھانسی دے دی گئی , اور اسی دن سے اسے" قدیس" یعنی پاکباز بشب کا خطاب دے دیا گیا .
اسی قصہ کوبعض مصادر نے چند تبدیلی کے سا تہ اس طرح ذکرکیا ہے : ( کہ پادری ویلنٹائن تیسری صدی عیسوی کے اواخرمیں رومانی بادشاہ "کلاودیس ثانی" کے زیر اہتمام رہتا تھا , کسی نافرمانی کی بنا پر بادشاہ نے پادری کو جیل کےحوالے کردیا ,جیل میں جیل کے ایک چوکیدار کی لڑکی سے اس کی شناسائی ہوگئی اور وہ اس کا عاشق ہوگیا , یہاں تک کہ اس لڑکی نے نصرانیت قبول کرلیا اور اس کے ساتہ اس کے 46/رشتہ دار بھی نصرانی ہوگئے , وہ لڑکی ایک سرخ گلاب کا پھول لے کر اس کی زیارت کے لئے آتی تھی , جب بادشاہ نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے پھانسی دینے کا حکم صادر کردیا , پادری کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے یہ ارادہ کیا کہ اس کا آخری لمحہ اس کی معشوقہ کے ساتہ ہو ,چنانچہ اس نے اس کے پاس ایک کارڈ ارسال کیا جس پر لکھا ہوا تھا " نجات دہندہ ویلنٹائن کی طرف سے "پھر اسے 14/فروري 270ء كو پھانسی دے دی گئی –اس کے بعد یورپ کی بہت ساری بستیوں میں ہر سال اس دن لڑکوں کی طرف سے لڑکیوں کوکارڈ بھییجنے کا رواج چل پڑا , ایک زمانہ کے بعد پادریوں نے سابقہ عبارت کو اس طرح بدل دیا "پادری ویلنٹائن کےنام سے " انہوں نے ایسا اسلئے کیا تاکہ پادری ویلنٹائن اور اس کی معشوقہ کی یادگارکو زندہ جاوید کردیں )
اور کتاب" قصۃ الحضارۃ" میں ہے کہ : کنیسہ نے گرجا گھر کی ایک ایسی ڈائری تیارکی ہے جس میں ہر دن کسی نہ کسی پادری(قدیس) کا تہوارمقرر کیاجاتا ہے ,اورانگلینڈ میں سینٹ ویلنٹائن کا تہوار موسم سرما کے آخر میں منایا جاتا ہے اورجب یہ دن آتا ہے تو ان کے کہنے کے مطابق جنگلوں میں پرندے بڑی گرمجوشی کے ساتہ آپس میں شادیاں کرتے ہیں , اورنوجوان اپنی محبوبہ لڑکیوں کے گھروں کی دہلیزپرسرخ گلاب کے پھول رکھتے ہیں ,(قصۃ الحضارۃ تالیف: ول ڈیورنٹ (15-33)
" ویلنٹائن ڈے " کے أہم ترین شعار :
1-دیگر تہواروں کی طرح خوشی وسرور کا اظہار
2- سرخ گلاب کے پھولوں کا تبا دلہ اوروہ یہ کام بت پرستوں کی حب الہی اورنصاری کے باب عشق کی تعبیرمیں کرتے ہیں .اوراسی لئے اسکا نام بھی عاشقوں کا تہوار ہے
3 – اس کی خوشی میں کارڈوں کی تقسیم , اور بعض کارڈوں میں کیوبڈ کی تصویر ہوتی ہے جو ایک بچے کی خیالی تصویر بنائی گئی ہے اس کے دوپیر ہیں اور اس نے تیر کمان اٹھا رکھا ہے ,جسے رومی بت پرست قوم,محبت کا الہ مانتے ہیں ,
4-کارڈوں میں محبت وعشقیہ کلمات کا تبادلہ جو اشعار,یا نثر,یا چھوٹے چھوٹے جملوں کی شکل میں ہوتے ہیں , اور بعض کارڈوں میں گندے قسم کے أقوال اور ہنسانے والی تصویریں ہوتی ہیں , اور عام طورپر اس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ"ولنٹائینی ہو جاؤ" جو کہ بت پرستی کے مفہوم سے منتقل ہو کر نصرانی مفہوم کی تمثیل بنتی ہے ,
5-بہت سے نصرانی علاقوں میں دن کے وقت بھی محفلیں سجائی جاتی ہیں ,اوررات کو بھی عورتوں اورمردوں کا رقص وسرور ہوتا ہے ,اور بہت سے لوگ پھول , چاکلیٹ کے پیکٹ وغیرہ بطورتحفہ محبت کرنے والوں , شوہروں اور دوست واحباب کو بھیجتے ہیں .
مذکورہ بالا کہانیوں کے تناظرمیں یہ کہا حاسکتا ھےکہ:
* یہ تہوار اصلاً رومی بت پرستوں کا عقیدہ ہےجسے وہ محبت کے الہ سے تعبیرکرتے ہیں.
*اوررومیوں کے یہاں اس تہوارکی ابتدا قصے کہانیوں اورخرافات پرمشتمل تھی جیسے: مادہ بھیڑیےکا" شہرروم کے مؤسِّس"کودودھ پلانا جو حلم وبردباری اورقوت فکرمیں زیادتی کا سبب بنا ,یہ عقل کے خلاف ہے,کیونکہ حلم وبردباری اورقرت وفکر میں اضافہ کا مالک اللہ تعالى ہے نہ کہ بھیڑیا ,اوراسی طرح یہ عقیدہ کہ ان کے بت برائی اورمصیبت کو دفع کرتے ہیں اورجانوروں کو بھیڑیوں کی شر سے دوررکھتے ہیں باطل اور شرکیہ عقیدہ ہے.
*اس تہوار سے بشب ویلنٹائن کے مرتبط ہونے میں کئی ایک مصادر نے شک کا اظہارکیا ہے اوراسے وہ صحیح شمارنہیں کرتے ,
* کیتھولیک فرقہ کے عیسائی علماء نےاس تہوارکو اٹلی میںمنانے پر پابندی لگا دی , کیونکہ اس سے گندے اخلاق کی اشاعت , اورلڑکوں و لڑکیوں کی عقلوں پر برا اثر پڑتا ہے , اورفحاشی وزناکاری کا دروازہ کھلتا ہے .
مسلمانون کے لئے اس تہوارکا منانا کئی وجہوں سے نا جائزہے :
1-اسلام میں عیدوں کی تعداد محدود و ثابت(زیادتی وکمی ممکن نہیں) اور توقیفی ہیں ,
ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں (عیدین اورتہوارشرع اورمنا ہج ومناسک میں سے ہیں جن کے بارےمیں اللہ تعالى کا فرمان ھے:(ہم نے ہر ایک کیلئے طریقہ اور شریعت مقررکی
ہے) اورایک دوسری آیت میں اسطرح ہے : ( ہم نے ہرقوم کے لئے ایک طریقہ مقرر کیا ہے جس پروہ چلنتےہیں ) مثلا: قبلہ, نمازاور روزے, لہذا ان کا عید اورباقی مناہج میں شریک ہونے میں کوئی فرق نہیں ,اسلئے کہ سارے تہوار میں موافقت کفر میں موافقت ہے, اوراسکے بعض فروعات میں موافقت کفر کی بعض شاخوں میں موافقت ہے,بلکہ عیدین اورتہوار ہی ایسی چیزیں ہیں جن سے شریعتوں کی تمییز ہوتی ہے, اور جن کی ظاہری شعائر ہوتی ہیں, تو اس میں کفارکی موافقت کرنا گویاکہ کفرکے خاص طریقے اور شعار کی موافقت ہے,اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری شروط کے ساتہ اس میں موافقت کفرتک پہنچا سکتی ہے,اور اس کی ابتداء میں کم ازکم حالت یہ ہے کہ یہ معصیت وگناہ کا سبب ہے , اوراسی کی جانب ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں اشارہ کیا ہے:
"یقیناً ہر قوم کےلئے ایک عید اور تہوار ہے اور یہ ہماری عید ہے" ( صحیح بخاری ح -52 9صحیح مسلم ح /893 )دیکہیں الإقتضاء (11/471-472)
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے کفار,بت پرست رومیوں اورعیسائیوں کے ساتہ مشابہت ہے اورکفار چاہے وہ بت پرست ہوں یا اہل کتاب ان سے عمومی مشابہت اختیارکرنا حرام ہے,چاہے وہ مشابہت عقیدہ میں ہو,یا ان کی عادات ورسم ورواج ,یا عید وتہوارمیں , اللہ کا فرما ن ہے ( اورتم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیںآجانےکے بعد تفرقہ ڈالا اوراختلاف کیا انہیں لوگوں کیلئے بہت بڑا عذاب ہوگا )[آل عمران :105]
2- اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیارکی وہ انہیں میں سے ہے "مسند احمد (2/50)
شیخ الإسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :"اس حدیث کی کم ازکم حالت ان سے مشابہت کرنے کی تحریم کا تقاضا کرتی ہے , اگر چہ حدیث کا ظاہرمشابہت کرنے والےکے کفر کا متقاضی ہے جیسا کہ اللہ تعالى کا فرمان ہے ( اورجو بھی تم میں سے ان کے ساتہ دوستی کرے یقیناَ وہ انہیں میں سے ہے " (الإقتضاء1/314,)
اجما ع :ابن تيميہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ :"کفار کی عیدوں اورتہواروں میں مشابہت اختیارکرنے کی حرمت پر تما م صحابہ کرام کے وقت سے لیکر اجما ع ہے ,جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اسپر علماء کرام کا اجما ع نقل کیا ہے , (الإقتضاء 1/454) اور أحكام أہل الذمة لإبن القيم :2/722-723)
3-اس دورمیں یوم محبت منانے کا مقصد لوگوں کے مابین محبت کی اشاعت ہے چاہے وہ مومن ہوں یا کافر ,حالانکہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ کفار سے محبت ومودت اوردوستی کرنا حرا م ہے اللہ کا ارشاد ہے ( اللہ تعالى اورقیامت کے دن پر ایما ن رکھنے والوں کو آپ ,اللہ تعالى اوراسکے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت کرتے ہوئے ہرگز نہیں پائیں گے ,اگر چہ وہ کافر ان کے باپ , یا بیٹے, یا ان کے بھائی, یا ان کے قبیلے کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں )[ المجادلة :22)
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں "اللہ سبحانہ وتعالى نے اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ کوئی بھی مومن ایسا نہیں پایا جاتا جو کافرسے محبت کرتا ہو, لہذا جو مومن بھی کافر سے محبت کرتا اوردوستی لگاتا ہے وہ مومن نہیں, اور ظاہری مشابہت بھی کفارسے محبت کی غماز ہے لہذا یہ بھی حرام ہوگی "( الإقتضاء (1/490)
اسلئے مذکورہ بالادلائل کی روشنی میں یہ ثابت ہوا کہ :
1-اس تہوار کامنانا یا منا نے والوں کی محفل میں شرکت ناجائز ہے, حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ " جب یہودیوں کی خاص عید ہے اور عیسائیوں کی اپنی خاص عید تو پھر جس طرح ان کی شریعت اور قبلہ میں مسلمان شخص شریک نہیں, اسی طرح ان کے تہواروں میں بھی شریک نہیں ہوسکتا " (مجلۃ الحکمۃ 3/193)
2- اس تہوار کومنا نے یا انکی محفلوں میں شرکت کرنے سے ان کی مشابہت , انہیں خوشی وسرور,اورانکی تعداد میں بڑھوتری اورزیلدتی حاصل ہوتی ہے جوناجائز ہے,
اللہ تعالى کا ارشاد ہے ( اے ایمان والو!تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ , یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں , یقیناًاللہ تعالى ظالموں کو ہوگز ہدایت نہیں دکھاتا ) [المائدہ:51]
اور شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
"مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ کفارسے ان کے خصوصی تہواروں میں ان کے لباس ,کھانے, پینے, غسل کرنے, آگ جلانے ,اور اپنی کوئی عبادت اور کام وغیرہ, یا عبادت سے چھٹی کرنے میں ان کفار کی مشابہت کریں . مختصر طور پریہ کہ :ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ کفار کے کسی خاص تہوار کو ان کے کسی شعار کے ساتہ خصوصیت دیں ,بلکہ ان کے تہوار کا دن, مسلمانوں کے یہاں باقی عام دنوں جیسا ہی ہونا چاہئیے" (مجموع الفتاوى :35/329)
3-مسلمانون میں سے جو بھی اس تہوارکو منا تا ہے اس کی معاونت نہ کی جائے بلکہ اسے اس سے روکنا واجب ہے , کیونکہ مسلمانوں کا کفارکے تہوار کو منانا ایک منکر اور برائی ہے جسے روکنا واجب ہے,
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ " اور جس طرح ہم ان کے تہواروں میں کفارکی مشابہت نہیں کرتے , تو اس طرح مسلمانوں کی اس سلسلے میں مدد واعانت بھی نہیں کی جائیگی بلکہ انہیں اس سے روکا جائیگا ) الإقتضاء 2/519-520)
تو شیخ الإسلام کے فیصلے کی بنا پر مسلمان تاجروں کے لیے جائز نہیں کہ وہ یوم محبت کے تحفے و تحائف کی تجارت کریں, چاہے وہ کوئی معین قسم کا لباس ہو,یا سرخ گلاب کے پھول وغیرہ,اور اسی طرح اگرکسی شخص کو یوم محبت میں کوئی تحفہ دیا جائےتو اس تحفہ کو قبول کرنا بھی جائز نہیں, کیونکہ اسے قبر ل کرنے میں اس تہوار کا اقرار اور اسے صحیح تسلیم کرنا ہے, اور باطل ومعصیت میں مدد ہے, اللہ تعالى کا فرمان ہے "نيكي اورپرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گنا ہ اور ظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو "[ المائدۃ:3]
4-یوم محبت کی مبارکبادی کا تبادلہ نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ نہ تو یہ مسلمانوں کا تہوار ہے اور نہ ہی عید , اور اگر کوئی مسلمان کسی کو اسکی مبارکبادی بھی دے تو اسے جوابا مبارکبادی بہی نہیں دینی چاہئیے,
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:" اورکفارکے خصوصی شعارجو صرف ان کے ساتہ ہی خاص ہیں ان کی مبارکبادی دینا متفقہ طور پر حرام ہے مثلا :انہیں ان کے تہواروں, یاروزے کی مبارکبادی دیتے ہوئے یہ کہا جائے :آپ کو عید مبارک ,یا آپ کو یہ تہوار مبارک ہو , لہذا اگر اسے کہنے والا کفرسے بچ جائے تو پھر بھی یہ حرام کردہ اشیاء میں سے ہے , اوریہ اسی طرح ہے کہ صلیب کو سجدہ کرنے والے کسی شخص کو مبارکبادی دی جائے , بلکہ یہ اللہ تعالى کے نزدیک شراب نوشی اور بے گناہ شخص کو قتل کرنے اور زنا کرنے سے بھی زیادہ عظیم اور اللہ کو ناراض کرنے والی ہے , اوربہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے یہاں دین کی کوئی قدر وقیمت نہیں, وہ اس کا ارتکا ب کر تے ہیں, اور انہیں یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ انہوں نے کتنا بڑا قبیح جرم کیا ہے , لہذا جس نے بھی کسی کو معصیت اور نافرمانی’ یا کفروبدعت پر مبارکبادی دی اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالى کے غصہ اورناراضگی پر پیش کردیا" (أحکام أہل الذمۃ 1/441-442)
"يوم محبت" كے بارے میں عصر حاضر کے علماء کرام کا فتوى :
سوال 1- : فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمن حفظہ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ: کچہ عرصہ سے یوم محبت کا تہوار منایا جانے لگا ہے ,اور خاص کر طالبات میں اس کا اہتمام زیادہ ہوتا ہے . جو نصاری کے تہواروں میں سے ایک تہوارہے اس دن پورا لباس ہی سرخ پہنا جاتا ہے اور جوتے تک سرخ ہوتے ہیں , اور آپس میں سرخ گلاب کے پھولوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے ,ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس طرح کے تہوارمنانے کا حکم بیان کریں اور اس طرح کےمعاملات میں آپ مسلمانوں کو کیا نصیحت کرتے ہیں ؟ اللہ تعالى آپ کی حفاظت کرے -
جواب : وعليكم السلام ورحمة اللہ وبركاتہ وبعد : يوم محبت كا تہوار كئي وجوہات کی بنا پر ناجائز اور حرام ہے :
1-یہ بدعي تہوار ہے اور اسکی شریعت میں کوئی اصل نہیں
2-یہ تہوار عشق ومحبت کی طرف دعوت دیتا ہے
3- یہ تہوار دل کو اس طرح کے سطحی رذیل امور میں مشغول کردیتا ہے جو سلف صالحین کے طریقے سے ہٹ کر ہے, لہذا اس دن اس تہوار کی کوئی علامت اور شعار ظاہر کرنا جائزنہیں ’چاہے وہ کھانے پینے میں ہو, یا لباس ,یا تحفے تحائف کے تبادلہ کی شکل میں ہو, یا اسکے علاوہ کسی اور شکل میں ہو ,
اور مسلمان شخص کو چاہئے کہ اپنے دین کو عزیز سمجھے, اورایسا شخص نہ بنے کہ ہر ھانک لگانے والےکے پیچھے چلنا شروع کردے(یعنی ہر ایک کے رائے وقول کی صحیح و غلط کی تمییزکئے بغیر پیروی اوراتباع کرنے لگے) ,میری اللہ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو ہرطرح کے ظاہری وباطنی فتنوں سے محفوظ رکھے اورہمیں اپنی ولایت میں لے اور توفیق سے نوازے واللہ تعالى أعلم ,
مستقل کمیٹی برائے تحقیقات وافتاء کا فتوى :
سوال : بعض لوگ ہر سال چودہ فروری کو یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) کا تہوار مناتے ہیں اور اس دن آپس میں ایک دوسرے کو سرخ گلاب کے پھول ہدیہ میں دیتے ہیں اور سرخ رنگ کا لباس پہنتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکبادی بھی دیتے ہیں, اوربعض مٹھا ئی کی د کان والے سرخ رنگ کی مٹھائی تیارکرکے اس پر دل کا نشان بناتے ہیں , اوربعض دکانداراپنے مال پراس دن خصوصی اعلانات بھی چسپاں کرتے ہیں , تو اس سلسلےمیں آپ کی کیارائےہے؟
جواب: سوال پرغورفکر کرنےکے بعد مستقل کمیٹی نے کہا کہ :کتاب وسنت کی واضح دلائل ,اورسلف صالحین کے اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں کوئی تیسرا نہیں ,ایک عید الفطر اور دوسرا عید الأضحى,ان دونوں کے علاوہ جوبھی تہواریاعید چاہے کسی عظیم شخصیت سے متعلق ہو,یا جماعت سے ,یا کسی واقعہ سے ,یا اورکسی معنی سے تعلق ہو سب بدعی تہوارہیں ,مسلمان کیلئے انکا منانا, یا اقرار کرنا ,یااس تہوارسے خوش ہونا ,یا اس تہوارکا کسی بھی چیزکے ذریعہ تعاون کرناجائزنہیں ,اسلئے کہ یہ اللہ کے حدود میں زیادتی ہے اورجو شخص بھی حدوداللہ میں زیادتی پید ا کرے گا تو وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرے گا
اورجب ایجاد کردہ تہوار کے ساتہ یہ مل گیا کہ یہ کفارکے تہواروں میں سے ہے تویہ گنا ہ اورمعصیت ہے اسلئے کہ اس میں کفار کی مشابہت اورموالات ودوستی پائی جاتی ہے , اوراللہ تعالى نے مومنوں کو کفارکی مشابہت اوران سے مودت ومحبت کرنے سے اپنے کتاب عزیز میں منع فرمایا ہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا یہ فرمان ثابت ہے کہ:(من تشبہ بقوم فہومنہم) "جوشخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ہو انھیں میں سے ہے".
اور"محبت کا تہوار"بعینہ مذکورہ بالاجنس یاقبیل سے ہے اسلئے کہ یہ بت پرست نصرانیت کے تہواروں میں سے ہے ,لہذا کسی مسلمان کلمہ گوشخص کیلئے جو اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہواس تہوارکو منانا, یا اقرارکرنا, یا اسکی مبارکبادی دینا جائزنہیں ,بلکہ اللہ ورسول کی دعوت پر لبیک کہتےہوئے ,اورانکی غضب وناراضگی سے دوررہتے ہوئے اس تہوار کا چھوڑنا اوراس سے بچنا ضروری ہے ,اسی طرح مسلمان کیلئے اس تہواریا دیگرحرام تہواروں میں کسی بھی طرح کی اعانت کرنا حرام ہے چا ہے وہ تعاون کھانے,یاپینے, یا خرید وفروخت,یا صنا عت, یا ہدیہ وتحفہ, یا خط وکتابت یا اعلانات وغیرہ کے ذریعہ ہو ,اسلئے کہ یہ سب گناہ وسرکشی میں تعاون, اوراللہ ورسول کی نافرما نی کے قبیل سے ہیں ,اور اللہ تعالى کا فرمان ہے :
"نیکی اور پرہیزگاری کے معاملے میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اورگناہ اورظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو , اوراللہ تعالى سے ڈرتے رہو ,بے شک اللہ تعالى سخت سزا دینے والا ہے " .[ المائدہ:4]
اورمسلمان کیلئے ہوحالت میں کتاب وسنت کو پکڑے رہنا خا ص طورسے فتنہ وکثرت فساد کے اوقات میں لازم وضروری ہے , اسی طرح ان لوگوں کی گمراہیوں میں واقع ہونے سے بچاؤ اورہوشیاری اختیارکرنا بھی ضروری ہے جن پر اللہ کا غضب ہوا اورجو گمراہ ہیں (یعنی یہود ونصاری), اوران فاسقوں سے بھی جو اللہ کی قدروپاس نہیں رکھتےاورنہ ہی اسلام کی سربلندی چاہتے ,
اورمسلمان کے لئے ضروری کہ وہ ہدایت اوراس پے ثابت قدمی کے لئے اللہ ہی کی طرف رجوع کرے کیونکہ ہدایت کا مالک صرف اللہ ہے اور اسی کے ہاتہ میں توفیق ہے ,اوراللہ ہمارے نبی محمد انکے آل وأصحاب پر درودوسلام نازل فرمائے آمین !
(دائمی کمیٹی برائے تحقیقات وافتاء ,فتو ى نمبر:) 21203) بتاریخ 23/11/1420 ھ
*نوٹ:( اس مقالہ كا اكثر مواد چند تبدیلیوں کے سا تہ "www.islamQA.com" سے مأخوذ ہے )
بسم اللہ الرحمن الرحيم
الحمد للہ وحدہ والصلاة والسلام علی نبينا محمد وعلى آلہ وأصحابہ ومن تبعہم بإحسان إلي يوم الدين وبعد:
اللہ تعالى كا ارشاد ہے ﴿ [ البقرۃ : 120]" آپ سے یہود ونصارى ہرگزراضی نہیں ہونگے جب تک کہ آپ انکے مذہب کے تابع نہ بن جائیں "
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "تم اپنے سے پہلی امتوں کےطریقوں کی ضرور
باضرور پیروی کروگے, بالشت دربالشت, ہاتہ درہاتہ ’حتی کہ اگر وہ گوہ کےبل میں داخل ہوئے ہونگے تو تم بھی ان کی پیروی میں اسمیں داخل ہوگے, ہم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا یہود اورنصارى؟ آپ نے فرمایا: پھراور کون؟ !"
(صحيح بخاري كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة :8/151)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (مَن تَشَبّہ بِقَومٍ فَہُوَ مِنھُم) "جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے " (مسند احمد ك2/50)
قارئين كرام! رب كريم كا ہم پر لا کہ لاکہ شکرو احسان ہے کہ ہمیں اس دنیائے آب وگل میں پیدا کرنے کے بعد ہماري رشدوہدایت کے لئے أنبیاء ورسل کا سلسلہ جاری کیا ,جوحسب ضرورت وقتا فوقتا ًہر قوم میں خدائی پیغام کو پہنچاتے رہے ,اوراس سلسلہ نبوت کے آخری کڑی احمد مجتبى'محمد مصطفے' صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جوکسی خاص قوم کیلئے نہیں ,بلکہ ساری انسانیت کے لئے رشدوہدایت کا چراغ بن کرآئے , جنہوں نے راہ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم کے روشن شاہراہ پرلا کر گامزن کیا, اورتیئیس سالہ دور نبوت کے اندر رب کریم نے دین کومکمل کردیا اور یہ فرما ن جاری کردیا کہ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا ﴾ (سورۃ المائدہ: 3 ) " آج میںنے تمہارےلئے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پورکردیا اور تمہارے لئےاسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا "
يہ آیت کریمہ حجۃ الوداع کے موقع پر جمعہ کے دن عرفہ کی تاریخ کو نازل ہوئی
اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ شریعت کی تکمیل کا اعلان کردیا گیا ,لہذا اب دین میں کسی کمی وزیادتی کی ضرورت باقی نہ رہی ,اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ :"لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہوگے گمراہ نہیں ہوگے, ایک کتاب اللہ دوسری میری سنت یعنی حدیث " پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چند مہینے کے بعد انتقال ہوگیا ,اور لوگ چند صدیوں تک دین کے صحیح شاہراہ پر قائم رہے یہاں تک کہ خیرالقرون کا دور ختم ہوگیا , اوررفتہ رفتہ عہد رسالت سے دوری ہوتی گئی اورجہالت عام ہونے لگی , اور دین سے لگاؤ کم ہوتا گیا , مختلف گمراہ اور باطل فرقے جنم لینا شروع کردئیے , یہودو نصارى اور أعداء اسلام کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ تیز پکڑتا گیا اور بہت سارے باطل رسم ورواج اورغیر دینی شعائر مسلمانوں نے یہودونصاری کی اندہی تقلید میں اپنا نا شروع کردیا ,چنانچہ انہیں باطل رسم رواج اورغیر
دینی شعائر میں سے عید الحب (ویلنٹائن ڈے ) یا محبت اورعشق وعاشقی کا تہوار ہے
جسکوموجودہ دورمیں ذرائع إبلاغ ( انٹرنٹ, ٹیلی ویژن, ریڈیو, اخباروجرائد ) کے ذریعہ پوری دنیا میں بڑے ہی خوشنما اورمہذب انداز میں پیش کیا جارہاہے ,جسمیںنوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کاباہم سرخ لباس میں ملبوس ہوکر گلابی پھولوں, عشقیہ کارڈوں, چاکلیٹ اورمبارکبادی وغیرہ کے تبادلے کے ذریعے عشق ومحبت کا کھلّم کھلا اظہارہوتا ہے ,اوربے حیائی وفحاشی اورزناکاری کے راستوں کو ہموارکیا جاتا ہے ,اوررومی وثنیت اورعیسائیت کے باطل عقیدے اورتہوارکو فروغ وتقویت دی جاتی ہے,اور مسلمان کافروں کی اند ھی تقلید کرکے اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غضب وناراضگی کا مستحق ہوتا ہے.
آئیے ہم آپ کو اس تہو ار کی حقیقت وپس منظر اور اسلامی نقطہ نظرسے اسکے حکم کے بارے میں بتاتے چلیں تاکہ اس اندھی رسم ورواج کا مسلم معاشرے سےجو ایک ناسور کی طرح پھیلتا چلا جارہا ہے ,اورنوخیز عمرکے لڑکوں اور لڑکیوں کو فحاشی و زناکاری کی طرف دعوت دے رہا ہے, اسکا علاج ا ورخاتمہ ہوسکے .
ویلنٹائن ڈے (یوم محبت ) کا پس منظر:
يوم محبت رومن بت پرستوں کے تہواروں میں سے ایک تہوارہے, جبکہ رومیوں کے یہاں بت پرستی سترہ صدیوں سے زیادہ مدت سے رائج تھی, اوریہ¬( تہوار)رومی بت پرستی
کے مفہوم میں حب الہی سے عبار ت ہے .
اس بت پرست تہوار کے سلسلے میں رومیوں اوران کے وارثین عیسائیوں کے یہا ں بہت ساری داستانیں اورکہانیاں مشہورہیں
لیکن ان میں سب سے زیادہ مشہوریہ ہے کہ:"رومیوں کےاعتقاد کے مطابق شہرروما کے مؤسِّس (روملیوس) کو ایک دن کسی مادہ بھیڑیا نے دودہ پلایا جس کی وجہ سے اسے قوت فکری اور حلم وبردباری حاصل ہوگئی ,
لہذارومی لوگ اس حادثہ کی وجہ سے ہرسال فروری کے وسط میں اس تہوار کو منایا کرتے ہیں,اسکا طریقہ یہ تھا کہ کتا اور بکری ذبح کرتے اور دو طاقتور مضبوط نوجوان اپنے جسم پر کتے اور بکری کے خون کا لیپ کرتے,اور پھر اس خون کو دودہ سے دہوتے,اور اسکے بعد ایک بہت بڑا قافلہ سڑکوں پرنکلتا جسکی قیادت دونوں نوجوانوں کے ہاتہ میں ہوتی, اوردونوں نوجوان اپنےساتہ ہاتہ میں چمڑے کے دو ٹکڑے لئے رہتے, جو بھی انہیں ملتا اسے اس ٹکڑے سے مارتے اور رومی عورتیں بڑی خوشی سے اس ٹکڑے کی مار اس اعتقاد سے کھاتیں کہ اس سے شفا اور بانجھ پن دور ہو جاتا ہے ,
سینٹ"ویلنٹائن "کا اس تہوار سے تعلق :
سینٹ ویلنٹائن نصرانی کنیسہ کے دو قدیم قربان ہونے والے اشخاص کا نام ہے, اورایک قول کے مطابق ایک ہی شخص تھا جو شہنشاہ" کلاودیس " کےتعذیب کی تاب نہ لا کر 296ء میں ہلاک ہوگیا .اور جس جگہ ہلاک ہوا اسی جگہ 350میلادی میں بطور یادگار ایک کنیسہ تیار کردیا گیا .
جب رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی تو وہ اپنے اس سابقہ تہوار کو مناتے رہے لیکن انہوں نے اسے بت پرستی(محبت الہی) کے مفہوم سے نکا ل کر دوسرے مفہوم "محبت کے شہداء" میںتبدیل کر دیا ,اورانہوں نے اسے محبت وسلامتی کی دعوت دینے والے"سینٹ ویلنٹائن"کے نام کردیا جسے وہ اپنی گمان کے مطابق اسے اس راستے میں شہید گردانتے ہیں .
اور اسے عاشقوں کی عید اورتہوار کا نام بھی دیتے ہیں, اورسینٹ ویلنٹائن کو عاشقوں کا شفارشی اور ان کا نگراں شمار کرتے ہیں.
اس تہوار کےسلسلے میں ان کے باطل اعتقاد ات میں سے یہ تھی کہ: نوجوان اور شادی کی عمر میں پہنچنے والی لڑکیوں کے نام کاغذ کے ٹکڑوں پرلکھکر ایک برتن میں ڈالتے اوراسے ٹیبل پر رکھ دیا جاتا,اور شادی کی رغبت رکھنے والے نوجوان لڑکوں کو دعوت دی جاتی کہ ا ن میں سے ہرشخص ایک پرچی کونکا لے ,لہذا جس کا نام اس قرعہ میں نکلتا وہ اس لڑکی کی ایک سال تک خدمت کرتا اور وہ ایک دوسرے کے اخلاق کا تجربہ کرتے, پھر بعد میں شادی کرلیتے ,یاپھر آئندہ سال اسی تہوار یوم محبت میں دوبارہ قرعہ اندازی کرتے,
لیکن دین نصرانی کےعلماء اس رسم کے بہت زیادہ مخالف تھے,اوراسے نوجوان لڑکے لڑکیوں کےاخلاق خراب کرنے کا سبب قرار دیا,لہذا اٹلی جہاں پر اسے بہت شہرت حاصل تھی,اسے باطل وناجائز قراردے دیا گیا , پھر بعد میں اٹھارہ اورانیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیا گیا , وہ اس طرح کہ کچہ یوروپی ممالک میں کچھ بکڈپوں پر ایک کتاب (ویلنٹائن کے نام ) کی فروخت شروع ہوئی,جس میں عشق ومحبت کے اشعار تہے ,جسے عاشق قسم کے لوگ اپنی محبوبہ کو خطوط میں لکھنے کیلئے استعمال کرتے تھے,اوراس میں عشق ومحبت کے خطوط لکھنے کے بارہ میں چند ایک تجاویزبھی درج تھے.
2- ا س تہوار کاایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ :
"جب رومی بت پرستوںنےنصرانیت قبول کرلی ,اور عیسائیت کے ظہور کےبعد اس میں داخل ہوگئے توتیسری صدی میلادی میں رومانی بادشاہ" کلاودیس دوم" نے اپنی فوج کے لوگوں پر شادی کرنے کی پابندی لگادی کیونکہ وہ بیویوں کی وجہ سے اسکےساتہ جنگوں میں نہیں جاتے تھے .
لیکن سینٹ ولنٹائن نے اس فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے چوری چھپے فوجیوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا,اور جب کلاودیس کو اس کا علم ہوا تو اسنے سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا ,اور اسے پھانسی کی سزا دے دی , کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران ہی سینٹ ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور سب کچہ خفیہ ہوا, کیونکہ پادریوں اور راہبوں پر عیسائیوں کے نزدیک شادی کرنا اورمحبت کے تعلقات قائم کرنا حرام ہیں , نصاری کے یہاں اس کی شفارش کی گئی کہ نصرانیت پر قائم رہے , اورشہنشاہ نے اسے عیسائیت ترک کرکے رومی(بت پرستی) دین قبول کرنے کو کہا کہ اگر وہ عیسائیت تر ک کردے تو اسے معاف کردیا جائیگا اور وہ اسے اپنا داماد بنا نے کے ساتھ اپنےمقربین میں شامل کرلے گا ,
لیکن ویلنٹائن نے اس سے انکار کردیا اورعیسائیت کو ترجیح دی اوراسی پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا, تو چودہ فروری 270ء کے دن اور پندرہ فروری کی رات اسے پھانسی دے دی گئی , اور اسی دن سے اسے" قدیس" یعنی پاکباز بشب کا خطاب دے دیا گیا .
اسی قصہ کوبعض مصادر نے چند تبدیلی کے سا تہ اس طرح ذکرکیا ہے : ( کہ پادری ویلنٹائن تیسری صدی عیسوی کے اواخرمیں رومانی بادشاہ "کلاودیس ثانی" کے زیر اہتمام رہتا تھا , کسی نافرمانی کی بنا پر بادشاہ نے پادری کو جیل کےحوالے کردیا ,جیل میں جیل کے ایک چوکیدار کی لڑکی سے اس کی شناسائی ہوگئی اور وہ اس کا عاشق ہوگیا , یہاں تک کہ اس لڑکی نے نصرانیت قبول کرلیا اور اس کے ساتہ اس کے 46/رشتہ دار بھی نصرانی ہوگئے , وہ لڑکی ایک سرخ گلاب کا پھول لے کر اس کی زیارت کے لئے آتی تھی , جب بادشاہ نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے پھانسی دینے کا حکم صادر کردیا , پادری کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے یہ ارادہ کیا کہ اس کا آخری لمحہ اس کی معشوقہ کے ساتہ ہو ,چنانچہ اس نے اس کے پاس ایک کارڈ ارسال کیا جس پر لکھا ہوا تھا " نجات دہندہ ویلنٹائن کی طرف سے "پھر اسے 14/فروري 270ء كو پھانسی دے دی گئی –اس کے بعد یورپ کی بہت ساری بستیوں میں ہر سال اس دن لڑکوں کی طرف سے لڑکیوں کوکارڈ بھییجنے کا رواج چل پڑا , ایک زمانہ کے بعد پادریوں نے سابقہ عبارت کو اس طرح بدل دیا "پادری ویلنٹائن کےنام سے " انہوں نے ایسا اسلئے کیا تاکہ پادری ویلنٹائن اور اس کی معشوقہ کی یادگارکو زندہ جاوید کردیں )
اور کتاب" قصۃ الحضارۃ" میں ہے کہ : کنیسہ نے گرجا گھر کی ایک ایسی ڈائری تیارکی ہے جس میں ہر دن کسی نہ کسی پادری(قدیس) کا تہوارمقرر کیاجاتا ہے ,اورانگلینڈ میں سینٹ ویلنٹائن کا تہوار موسم سرما کے آخر میں منایا جاتا ہے اورجب یہ دن آتا ہے تو ان کے کہنے کے مطابق جنگلوں میں پرندے بڑی گرمجوشی کے ساتہ آپس میں شادیاں کرتے ہیں , اورنوجوان اپنی محبوبہ لڑکیوں کے گھروں کی دہلیزپرسرخ گلاب کے پھول رکھتے ہیں ,(قصۃ الحضارۃ تالیف: ول ڈیورنٹ (15-33)
" ویلنٹائن ڈے " کے أہم ترین شعار :
1-دیگر تہواروں کی طرح خوشی وسرور کا اظہار
2- سرخ گلاب کے پھولوں کا تبا دلہ اوروہ یہ کام بت پرستوں کی حب الہی اورنصاری کے باب عشق کی تعبیرمیں کرتے ہیں .اوراسی لئے اسکا نام بھی عاشقوں کا تہوار ہے
3 – اس کی خوشی میں کارڈوں کی تقسیم , اور بعض کارڈوں میں کیوبڈ کی تصویر ہوتی ہے جو ایک بچے کی خیالی تصویر بنائی گئی ہے اس کے دوپیر ہیں اور اس نے تیر کمان اٹھا رکھا ہے ,جسے رومی بت پرست قوم,محبت کا الہ مانتے ہیں ,
4-کارڈوں میں محبت وعشقیہ کلمات کا تبادلہ جو اشعار,یا نثر,یا چھوٹے چھوٹے جملوں کی شکل میں ہوتے ہیں , اور بعض کارڈوں میں گندے قسم کے أقوال اور ہنسانے والی تصویریں ہوتی ہیں , اور عام طورپر اس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ"ولنٹائینی ہو جاؤ" جو کہ بت پرستی کے مفہوم سے منتقل ہو کر نصرانی مفہوم کی تمثیل بنتی ہے ,
5-بہت سے نصرانی علاقوں میں دن کے وقت بھی محفلیں سجائی جاتی ہیں ,اوررات کو بھی عورتوں اورمردوں کا رقص وسرور ہوتا ہے ,اور بہت سے لوگ پھول , چاکلیٹ کے پیکٹ وغیرہ بطورتحفہ محبت کرنے والوں , شوہروں اور دوست واحباب کو بھیجتے ہیں .
مذکورہ بالا کہانیوں کے تناظرمیں یہ کہا حاسکتا ھےکہ:
* یہ تہوار اصلاً رومی بت پرستوں کا عقیدہ ہےجسے وہ محبت کے الہ سے تعبیرکرتے ہیں.
*اوررومیوں کے یہاں اس تہوارکی ابتدا قصے کہانیوں اورخرافات پرمشتمل تھی جیسے: مادہ بھیڑیےکا" شہرروم کے مؤسِّس"کودودھ پلانا جو حلم وبردباری اورقوت فکرمیں زیادتی کا سبب بنا ,یہ عقل کے خلاف ہے,کیونکہ حلم وبردباری اورقرت وفکر میں اضافہ کا مالک اللہ تعالى ہے نہ کہ بھیڑیا ,اوراسی طرح یہ عقیدہ کہ ان کے بت برائی اورمصیبت کو دفع کرتے ہیں اورجانوروں کو بھیڑیوں کی شر سے دوررکھتے ہیں باطل اور شرکیہ عقیدہ ہے.
*اس تہوار سے بشب ویلنٹائن کے مرتبط ہونے میں کئی ایک مصادر نے شک کا اظہارکیا ہے اوراسے وہ صحیح شمارنہیں کرتے ,
* کیتھولیک فرقہ کے عیسائی علماء نےاس تہوارکو اٹلی میںمنانے پر پابندی لگا دی , کیونکہ اس سے گندے اخلاق کی اشاعت , اورلڑکوں و لڑکیوں کی عقلوں پر برا اثر پڑتا ہے , اورفحاشی وزناکاری کا دروازہ کھلتا ہے .
مسلمانون کے لئے اس تہوارکا منانا کئی وجہوں سے نا جائزہے :
1-اسلام میں عیدوں کی تعداد محدود و ثابت(زیادتی وکمی ممکن نہیں) اور توقیفی ہیں ,
ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں (عیدین اورتہوارشرع اورمنا ہج ومناسک میں سے ہیں جن کے بارےمیں اللہ تعالى کا فرمان ھے:(ہم نے ہر ایک کیلئے طریقہ اور شریعت مقررکی
ہے) اورایک دوسری آیت میں اسطرح ہے : ( ہم نے ہرقوم کے لئے ایک طریقہ مقرر کیا ہے جس پروہ چلنتےہیں ) مثلا: قبلہ, نمازاور روزے, لہذا ان کا عید اورباقی مناہج میں شریک ہونے میں کوئی فرق نہیں ,اسلئے کہ سارے تہوار میں موافقت کفر میں موافقت ہے, اوراسکے بعض فروعات میں موافقت کفر کی بعض شاخوں میں موافقت ہے,بلکہ عیدین اورتہوار ہی ایسی چیزیں ہیں جن سے شریعتوں کی تمییز ہوتی ہے, اور جن کی ظاہری شعائر ہوتی ہیں, تو اس میں کفارکی موافقت کرنا گویاکہ کفرکے خاص طریقے اور شعار کی موافقت ہے,اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری شروط کے ساتہ اس میں موافقت کفرتک پہنچا سکتی ہے,اور اس کی ابتداء میں کم ازکم حالت یہ ہے کہ یہ معصیت وگناہ کا سبب ہے , اوراسی کی جانب ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں اشارہ کیا ہے:
"یقیناً ہر قوم کےلئے ایک عید اور تہوار ہے اور یہ ہماری عید ہے" ( صحیح بخاری ح -52 9صحیح مسلم ح /893 )دیکہیں الإقتضاء (11/471-472)
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے کفار,بت پرست رومیوں اورعیسائیوں کے ساتہ مشابہت ہے اورکفار چاہے وہ بت پرست ہوں یا اہل کتاب ان سے عمومی مشابہت اختیارکرنا حرام ہے,چاہے وہ مشابہت عقیدہ میں ہو,یا ان کی عادات ورسم ورواج ,یا عید وتہوارمیں , اللہ کا فرما ن ہے ( اورتم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیںآجانےکے بعد تفرقہ ڈالا اوراختلاف کیا انہیں لوگوں کیلئے بہت بڑا عذاب ہوگا )[آل عمران :105]
2- اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیارکی وہ انہیں میں سے ہے "مسند احمد (2/50)
شیخ الإسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :"اس حدیث کی کم ازکم حالت ان سے مشابہت کرنے کی تحریم کا تقاضا کرتی ہے , اگر چہ حدیث کا ظاہرمشابہت کرنے والےکے کفر کا متقاضی ہے جیسا کہ اللہ تعالى کا فرمان ہے ( اورجو بھی تم میں سے ان کے ساتہ دوستی کرے یقیناَ وہ انہیں میں سے ہے " (الإقتضاء1/314,)
اجما ع :ابن تيميہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ :"کفار کی عیدوں اورتہواروں میں مشابہت اختیارکرنے کی حرمت پر تما م صحابہ کرام کے وقت سے لیکر اجما ع ہے ,جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اسپر علماء کرام کا اجما ع نقل کیا ہے , (الإقتضاء 1/454) اور أحكام أہل الذمة لإبن القيم :2/722-723)
3-اس دورمیں یوم محبت منانے کا مقصد لوگوں کے مابین محبت کی اشاعت ہے چاہے وہ مومن ہوں یا کافر ,حالانکہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ کفار سے محبت ومودت اوردوستی کرنا حرا م ہے اللہ کا ارشاد ہے ( اللہ تعالى اورقیامت کے دن پر ایما ن رکھنے والوں کو آپ ,اللہ تعالى اوراسکے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت کرتے ہوئے ہرگز نہیں پائیں گے ,اگر چہ وہ کافر ان کے باپ , یا بیٹے, یا ان کے بھائی, یا ان کے قبیلے کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں )[ المجادلة :22)
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں "اللہ سبحانہ وتعالى نے اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ کوئی بھی مومن ایسا نہیں پایا جاتا جو کافرسے محبت کرتا ہو, لہذا جو مومن بھی کافر سے محبت کرتا اوردوستی لگاتا ہے وہ مومن نہیں, اور ظاہری مشابہت بھی کفارسے محبت کی غماز ہے لہذا یہ بھی حرام ہوگی "( الإقتضاء (1/490)
اسلئے مذکورہ بالادلائل کی روشنی میں یہ ثابت ہوا کہ :
1-اس تہوار کامنانا یا منا نے والوں کی محفل میں شرکت ناجائز ہے, حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ " جب یہودیوں کی خاص عید ہے اور عیسائیوں کی اپنی خاص عید تو پھر جس طرح ان کی شریعت اور قبلہ میں مسلمان شخص شریک نہیں, اسی طرح ان کے تہواروں میں بھی شریک نہیں ہوسکتا " (مجلۃ الحکمۃ 3/193)
2- اس تہوار کومنا نے یا انکی محفلوں میں شرکت کرنے سے ان کی مشابہت , انہیں خوشی وسرور,اورانکی تعداد میں بڑھوتری اورزیلدتی حاصل ہوتی ہے جوناجائز ہے,
اللہ تعالى کا ارشاد ہے ( اے ایمان والو!تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ , یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں , یقیناًاللہ تعالى ظالموں کو ہوگز ہدایت نہیں دکھاتا ) [المائدہ:51]
اور شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
"مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ کفارسے ان کے خصوصی تہواروں میں ان کے لباس ,کھانے, پینے, غسل کرنے, آگ جلانے ,اور اپنی کوئی عبادت اور کام وغیرہ, یا عبادت سے چھٹی کرنے میں ان کفار کی مشابہت کریں . مختصر طور پریہ کہ :ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ کفار کے کسی خاص تہوار کو ان کے کسی شعار کے ساتہ خصوصیت دیں ,بلکہ ان کے تہوار کا دن, مسلمانوں کے یہاں باقی عام دنوں جیسا ہی ہونا چاہئیے" (مجموع الفتاوى :35/329)
3-مسلمانون میں سے جو بھی اس تہوارکو منا تا ہے اس کی معاونت نہ کی جائے بلکہ اسے اس سے روکنا واجب ہے , کیونکہ مسلمانوں کا کفارکے تہوار کو منانا ایک منکر اور برائی ہے جسے روکنا واجب ہے,
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ " اور جس طرح ہم ان کے تہواروں میں کفارکی مشابہت نہیں کرتے , تو اس طرح مسلمانوں کی اس سلسلے میں مدد واعانت بھی نہیں کی جائیگی بلکہ انہیں اس سے روکا جائیگا ) الإقتضاء 2/519-520)
تو شیخ الإسلام کے فیصلے کی بنا پر مسلمان تاجروں کے لیے جائز نہیں کہ وہ یوم محبت کے تحفے و تحائف کی تجارت کریں, چاہے وہ کوئی معین قسم کا لباس ہو,یا سرخ گلاب کے پھول وغیرہ,اور اسی طرح اگرکسی شخص کو یوم محبت میں کوئی تحفہ دیا جائےتو اس تحفہ کو قبول کرنا بھی جائز نہیں, کیونکہ اسے قبر ل کرنے میں اس تہوار کا اقرار اور اسے صحیح تسلیم کرنا ہے, اور باطل ومعصیت میں مدد ہے, اللہ تعالى کا فرمان ہے "نيكي اورپرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گنا ہ اور ظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو "[ المائدۃ:3]
4-یوم محبت کی مبارکبادی کا تبادلہ نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ نہ تو یہ مسلمانوں کا تہوار ہے اور نہ ہی عید , اور اگر کوئی مسلمان کسی کو اسکی مبارکبادی بھی دے تو اسے جوابا مبارکبادی بہی نہیں دینی چاہئیے,
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:" اورکفارکے خصوصی شعارجو صرف ان کے ساتہ ہی خاص ہیں ان کی مبارکبادی دینا متفقہ طور پر حرام ہے مثلا :انہیں ان کے تہواروں, یاروزے کی مبارکبادی دیتے ہوئے یہ کہا جائے :آپ کو عید مبارک ,یا آپ کو یہ تہوار مبارک ہو , لہذا اگر اسے کہنے والا کفرسے بچ جائے تو پھر بھی یہ حرام کردہ اشیاء میں سے ہے , اوریہ اسی طرح ہے کہ صلیب کو سجدہ کرنے والے کسی شخص کو مبارکبادی دی جائے , بلکہ یہ اللہ تعالى کے نزدیک شراب نوشی اور بے گناہ شخص کو قتل کرنے اور زنا کرنے سے بھی زیادہ عظیم اور اللہ کو ناراض کرنے والی ہے , اوربہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے یہاں دین کی کوئی قدر وقیمت نہیں, وہ اس کا ارتکا ب کر تے ہیں, اور انہیں یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ انہوں نے کتنا بڑا قبیح جرم کیا ہے , لہذا جس نے بھی کسی کو معصیت اور نافرمانی’ یا کفروبدعت پر مبارکبادی دی اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالى کے غصہ اورناراضگی پر پیش کردیا" (أحکام أہل الذمۃ 1/441-442)
"يوم محبت" كے بارے میں عصر حاضر کے علماء کرام کا فتوى :
سوال 1- : فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمن حفظہ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ: کچہ عرصہ سے یوم محبت کا تہوار منایا جانے لگا ہے ,اور خاص کر طالبات میں اس کا اہتمام زیادہ ہوتا ہے . جو نصاری کے تہواروں میں سے ایک تہوارہے اس دن پورا لباس ہی سرخ پہنا جاتا ہے اور جوتے تک سرخ ہوتے ہیں , اور آپس میں سرخ گلاب کے پھولوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے ,ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس طرح کے تہوارمنانے کا حکم بیان کریں اور اس طرح کےمعاملات میں آپ مسلمانوں کو کیا نصیحت کرتے ہیں ؟ اللہ تعالى آپ کی حفاظت کرے -
جواب : وعليكم السلام ورحمة اللہ وبركاتہ وبعد : يوم محبت كا تہوار كئي وجوہات کی بنا پر ناجائز اور حرام ہے :
1-یہ بدعي تہوار ہے اور اسکی شریعت میں کوئی اصل نہیں
2-یہ تہوار عشق ومحبت کی طرف دعوت دیتا ہے
3- یہ تہوار دل کو اس طرح کے سطحی رذیل امور میں مشغول کردیتا ہے جو سلف صالحین کے طریقے سے ہٹ کر ہے, لہذا اس دن اس تہوار کی کوئی علامت اور شعار ظاہر کرنا جائزنہیں ’چاہے وہ کھانے پینے میں ہو, یا لباس ,یا تحفے تحائف کے تبادلہ کی شکل میں ہو, یا اسکے علاوہ کسی اور شکل میں ہو ,
اور مسلمان شخص کو چاہئے کہ اپنے دین کو عزیز سمجھے, اورایسا شخص نہ بنے کہ ہر ھانک لگانے والےکے پیچھے چلنا شروع کردے(یعنی ہر ایک کے رائے وقول کی صحیح و غلط کی تمییزکئے بغیر پیروی اوراتباع کرنے لگے) ,میری اللہ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو ہرطرح کے ظاہری وباطنی فتنوں سے محفوظ رکھے اورہمیں اپنی ولایت میں لے اور توفیق سے نوازے واللہ تعالى أعلم ,
مستقل کمیٹی برائے تحقیقات وافتاء کا فتوى :
سوال : بعض لوگ ہر سال چودہ فروری کو یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) کا تہوار مناتے ہیں اور اس دن آپس میں ایک دوسرے کو سرخ گلاب کے پھول ہدیہ میں دیتے ہیں اور سرخ رنگ کا لباس پہنتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکبادی بھی دیتے ہیں, اوربعض مٹھا ئی کی د کان والے سرخ رنگ کی مٹھائی تیارکرکے اس پر دل کا نشان بناتے ہیں , اوربعض دکانداراپنے مال پراس دن خصوصی اعلانات بھی چسپاں کرتے ہیں , تو اس سلسلےمیں آپ کی کیارائےہے؟
جواب: سوال پرغورفکر کرنےکے بعد مستقل کمیٹی نے کہا کہ :کتاب وسنت کی واضح دلائل ,اورسلف صالحین کے اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں کوئی تیسرا نہیں ,ایک عید الفطر اور دوسرا عید الأضحى,ان دونوں کے علاوہ جوبھی تہواریاعید چاہے کسی عظیم شخصیت سے متعلق ہو,یا جماعت سے ,یا کسی واقعہ سے ,یا اورکسی معنی سے تعلق ہو سب بدعی تہوارہیں ,مسلمان کیلئے انکا منانا, یا اقرار کرنا ,یااس تہوارسے خوش ہونا ,یا اس تہوارکا کسی بھی چیزکے ذریعہ تعاون کرناجائزنہیں ,اسلئے کہ یہ اللہ کے حدود میں زیادتی ہے اورجو شخص بھی حدوداللہ میں زیادتی پید ا کرے گا تو وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرے گا
اورجب ایجاد کردہ تہوار کے ساتہ یہ مل گیا کہ یہ کفارکے تہواروں میں سے ہے تویہ گنا ہ اورمعصیت ہے اسلئے کہ اس میں کفار کی مشابہت اورموالات ودوستی پائی جاتی ہے , اوراللہ تعالى نے مومنوں کو کفارکی مشابہت اوران سے مودت ومحبت کرنے سے اپنے کتاب عزیز میں منع فرمایا ہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا یہ فرمان ثابت ہے کہ:(من تشبہ بقوم فہومنہم) "جوشخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ہو انھیں میں سے ہے".
اور"محبت کا تہوار"بعینہ مذکورہ بالاجنس یاقبیل سے ہے اسلئے کہ یہ بت پرست نصرانیت کے تہواروں میں سے ہے ,لہذا کسی مسلمان کلمہ گوشخص کیلئے جو اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہواس تہوارکو منانا, یا اقرارکرنا, یا اسکی مبارکبادی دینا جائزنہیں ,بلکہ اللہ ورسول کی دعوت پر لبیک کہتےہوئے ,اورانکی غضب وناراضگی سے دوررہتے ہوئے اس تہوار کا چھوڑنا اوراس سے بچنا ضروری ہے ,اسی طرح مسلمان کیلئے اس تہواریا دیگرحرام تہواروں میں کسی بھی طرح کی اعانت کرنا حرام ہے چا ہے وہ تعاون کھانے,یاپینے, یا خرید وفروخت,یا صنا عت, یا ہدیہ وتحفہ, یا خط وکتابت یا اعلانات وغیرہ کے ذریعہ ہو ,اسلئے کہ یہ سب گناہ وسرکشی میں تعاون, اوراللہ ورسول کی نافرما نی کے قبیل سے ہیں ,اور اللہ تعالى کا فرمان ہے :
"نیکی اور پرہیزگاری کے معاملے میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اورگناہ اورظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو , اوراللہ تعالى سے ڈرتے رہو ,بے شک اللہ تعالى سخت سزا دینے والا ہے " .[ المائدہ:4]
اورمسلمان کیلئے ہوحالت میں کتاب وسنت کو پکڑے رہنا خا ص طورسے فتنہ وکثرت فساد کے اوقات میں لازم وضروری ہے , اسی طرح ان لوگوں کی گمراہیوں میں واقع ہونے سے بچاؤ اورہوشیاری اختیارکرنا بھی ضروری ہے جن پر اللہ کا غضب ہوا اورجو گمراہ ہیں (یعنی یہود ونصاری), اوران فاسقوں سے بھی جو اللہ کی قدروپاس نہیں رکھتےاورنہ ہی اسلام کی سربلندی چاہتے ,
اورمسلمان کے لئے ضروری کہ وہ ہدایت اوراس پے ثابت قدمی کے لئے اللہ ہی کی طرف رجوع کرے کیونکہ ہدایت کا مالک صرف اللہ ہے اور اسی کے ہاتہ میں توفیق ہے ,اوراللہ ہمارے نبی محمد انکے آل وأصحاب پر درودوسلام نازل فرمائے آمین !
(دائمی کمیٹی برائے تحقیقات وافتاء ,فتو ى نمبر:) 21203) بتاریخ 23/11/1420 ھ
*نوٹ:( اس مقالہ كا اكثر مواد چند تبدیلیوں کے سا تہ "www.islamQA.com" سے مأخوذ ہے )
نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ کتنا ہے ؟
حدیث نمبر : 510
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي النضر، مولى عمر بن عبيد الله عن بسر بن سعيد، أن زيد بن خالد، أرسله إلى أبي جهيم يسأله ماذا سمع من، رسول الله صلى الله عليه وسلم في المار بين يدى المصلي فقال أبو جهيم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " لو يعلم المار بين يدى المصلي ماذا عليه لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمر بين يديه ". قال أبو النضر لا أدري أقال أربعين يوما أو شهرا أو سنة.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے امام مالک نے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابونضر سالم بن ابی امیہ سے خبر دی ۔ انھوں نے بسر بن سعید سے کہ زید بن خالد نے انھیں ابوجہیم عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان سے یہ بات پوچھنے کے لیے بھیجا کہ انھوں نے نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزرنے والے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے ۔ ابوجہیم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے سامنے سے گزرنے پر چالیس تک وہیں کھڑے رہنے کو ترجیح دیتا ۔ ابوالنضر نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ بسر بن سعید نے چالیس دن کہا یا مہینہ یا سال ۔
صحیح بخاری
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي النضر، مولى عمر بن عبيد الله عن بسر بن سعيد، أن زيد بن خالد، أرسله إلى أبي جهيم يسأله ماذا سمع من، رسول الله صلى الله عليه وسلم في المار بين يدى المصلي فقال أبو جهيم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " لو يعلم المار بين يدى المصلي ماذا عليه لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمر بين يديه ". قال أبو النضر لا أدري أقال أربعين يوما أو شهرا أو سنة.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے امام مالک نے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابونضر سالم بن ابی امیہ سے خبر دی ۔ انھوں نے بسر بن سعید سے کہ زید بن خالد نے انھیں ابوجہیم عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان سے یہ بات پوچھنے کے لیے بھیجا کہ انھوں نے نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزرنے والے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے ۔ ابوجہیم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے سامنے سے گزرنے پر چالیس تک وہیں کھڑے رہنے کو ترجیح دیتا ۔ ابوالنضر نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ بسر بن سعید نے چالیس دن کہا یا مہینہ یا سال ۔
صحیح بخاری
جس نے مسجد بنائی اس کے اجر و ثواب کا بیان
حدیث نمبر : 450
حدثنا يحيى بن سليمان، حدثني ابن وهب، أخبرني عمرو، أن بكيرا، حدثه أن عاصم بن عمر بن قتادة حدثه أنه، سمع عبيد الله الخولاني، أنه سمع عثمان بن عفان، يقول عند قول الناس فيه حين بنى مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم إنكم أكثرتم، وإني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول " من بنى مسجدا ـ قال بكير حسبت أنه قال ـ يبتغي به وجه الله، بنى الله له مثله في الجنة ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن حارث نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے بکیر بن عبداللہ نے بیان کیا ، ان سے عاصم بن عمرو بن قتادہ نے بیان کیا ، انھوں نے عبیداللہ بن اسود خولانی سے سنا ، انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے سنا کہ مسجد نبوی کی تعمیر کے متعلق لوگوں کی باتوں کو سن کر آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے بہت زیادہ باتیں کی ہیں ۔ حالانکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس نے مسجد بنائی بکیر ( راوی ) نے کہا میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہو ، تو اللہ تعالیٰ ایسا ہی ایک مکان جنت میں اس کے لیے بنائے گا ۔
صحیح بخاری
حدثنا يحيى بن سليمان، حدثني ابن وهب، أخبرني عمرو، أن بكيرا، حدثه أن عاصم بن عمر بن قتادة حدثه أنه، سمع عبيد الله الخولاني، أنه سمع عثمان بن عفان، يقول عند قول الناس فيه حين بنى مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم إنكم أكثرتم، وإني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول " من بنى مسجدا ـ قال بكير حسبت أنه قال ـ يبتغي به وجه الله، بنى الله له مثله في الجنة ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن حارث نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے بکیر بن عبداللہ نے بیان کیا ، ان سے عاصم بن عمرو بن قتادہ نے بیان کیا ، انھوں نے عبیداللہ بن اسود خولانی سے سنا ، انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے سنا کہ مسجد نبوی کی تعمیر کے متعلق لوگوں کی باتوں کو سن کر آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے بہت زیادہ باتیں کی ہیں ۔ حالانکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس نے مسجد بنائی بکیر ( راوی ) نے کہا میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہو ، تو اللہ تعالیٰ ایسا ہی ایک مکان جنت میں اس کے لیے بنائے گا ۔
صحیح بخاری
آمین کہنے کی فضیلت
حدیث نمبر : 781
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " إذا قال أحدكم آمين. وقالت الملائكة في السماء آمين. فوافقت إحداهما الأخرى، غفر له ما تقدم من ذنبه ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی ، انہوں نے اعرج سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے آمین کہے اور فرشتوں نے بھی اسی وقت آسمان پر آمین کہی ۔ اس طرح ایک کی آمین دوسرے کے آمین کے ساتھ مل گئی تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔
صحیح بخاری
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " إذا قال أحدكم آمين. وقالت الملائكة في السماء آمين. فوافقت إحداهما الأخرى، غفر له ما تقدم من ذنبه ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی ، انہوں نے اعرج سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے آمین کہے اور فرشتوں نے بھی اسی وقت آسمان پر آمین کہی ۔ اس طرح ایک کی آمین دوسرے کے آمین کے ساتھ مل گئی تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔
صحیح بخاری
فجر کی نماز میں بلند آواز سے قرآن مجید پڑھنا
حدیث نمبر : 773
حدثنا مسدد، قال حدثنا أبو عوانة، عن أبي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال انطلق النبي صلى الله عليه وسلم في طائفة من أصحابه عامدين إلى سوق عكاظ، وقد حيل بين الشياطين وبين خبر السماء، وأرسلت عليهم الشهب، فرجعت الشياطين إلى قومهم. فقالوا ما لكم فقالوا حيل بيننا وبين خبر السماء، وأرسلت علينا الشهب. قالوا ما حال بينكم وبين خبر السماء إلا شىء حدث، فاضربوا مشارق الأرض ومغاربها، فانظروا ما هذا الذي حال بينكم وبين خبر السماء فانصرف أولئك الذين توجهوا نحو تهامة إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو بنخلة، عامدين إلى سوق عكاظ وهو يصلي بأصحابه صلاة الفجر، فلما سمعوا القرآن استمعوا له فقالوا هذا والله الذي حال بينكم وبين خبر السماء. فهنالك حين رجعوا إلى قومهم وقالوا يا قومنا {إنا سمعنا قرآنا عجبا * يهدي إلى الرشد فآمنا به ولن نشرك بربنا أحدا} فأنزل الله على نبيه صلى الله عليه وسلم {قل أوحي إلى} وإنما أوحي إليه قول الجن.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے ابوبشر سے بیان کیا ، انہوں نے سعید بن جبیر سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عکاظ کے بازار کی طرف گئے ۔ ان دنوں شیاطین کو آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا تھا اور ان پر انگارے ( شہاب ثاقب ) پھینکے جانے لگے تھے ۔ تو وہ شیاطین اپنی قوم کے پاس آئے اور پوچھا کہ بات کیا ہوئی ۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا ہے اور ( جب ہم آسمان کی طرف جاتے ہیں تو ) ہم پر شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں ۔ شیاطین نے کہا کہ آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کی کوئی نئی وجہ ہوئی ہے ۔ اس لیے تم مشرق و مغرب میں ہر طرف پھیل جاؤ اور اس سبب کو معلوم کرو جو تمہیں آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کا سبب ہوا ہے ۔ وجہ معلوم کرنے کے لیے نکلے ہوئے شیاطین تہامہ کی طرف گئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے بازار کو جاتے ہوئے مقام نخلہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ نماز فجر پڑھ رہے تھے ۔ جب قرآن مجید انہوں نے سنا تو غور سے اس کی طرف کان لگا دئیے ۔ پھر کہا ۔ خدا کی قسم یہی ہے جو آسمان کی خبریں سننے سے روکنے کا باعث بنا ہے ۔ پھر وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہا قوم کے لوگو ! ہم نے حیرت انگیز قرآن سنا جو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔ اس لیے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ( قل اوحی الی ) ( آپ کہیئے کہ مجھے وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہے ) اور آپ پر جنوں کی گفتگو وحی کی گئی تھی ۔
صحیح بخاری
حدثنا مسدد، قال حدثنا أبو عوانة، عن أبي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال انطلق النبي صلى الله عليه وسلم في طائفة من أصحابه عامدين إلى سوق عكاظ، وقد حيل بين الشياطين وبين خبر السماء، وأرسلت عليهم الشهب، فرجعت الشياطين إلى قومهم. فقالوا ما لكم فقالوا حيل بيننا وبين خبر السماء، وأرسلت علينا الشهب. قالوا ما حال بينكم وبين خبر السماء إلا شىء حدث، فاضربوا مشارق الأرض ومغاربها، فانظروا ما هذا الذي حال بينكم وبين خبر السماء فانصرف أولئك الذين توجهوا نحو تهامة إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو بنخلة، عامدين إلى سوق عكاظ وهو يصلي بأصحابه صلاة الفجر، فلما سمعوا القرآن استمعوا له فقالوا هذا والله الذي حال بينكم وبين خبر السماء. فهنالك حين رجعوا إلى قومهم وقالوا يا قومنا {إنا سمعنا قرآنا عجبا * يهدي إلى الرشد فآمنا به ولن نشرك بربنا أحدا} فأنزل الله على نبيه صلى الله عليه وسلم {قل أوحي إلى} وإنما أوحي إليه قول الجن.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے ابوبشر سے بیان کیا ، انہوں نے سعید بن جبیر سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عکاظ کے بازار کی طرف گئے ۔ ان دنوں شیاطین کو آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا تھا اور ان پر انگارے ( شہاب ثاقب ) پھینکے جانے لگے تھے ۔ تو وہ شیاطین اپنی قوم کے پاس آئے اور پوچھا کہ بات کیا ہوئی ۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا ہے اور ( جب ہم آسمان کی طرف جاتے ہیں تو ) ہم پر شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں ۔ شیاطین نے کہا کہ آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کی کوئی نئی وجہ ہوئی ہے ۔ اس لیے تم مشرق و مغرب میں ہر طرف پھیل جاؤ اور اس سبب کو معلوم کرو جو تمہیں آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کا سبب ہوا ہے ۔ وجہ معلوم کرنے کے لیے نکلے ہوئے شیاطین تہامہ کی طرف گئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے بازار کو جاتے ہوئے مقام نخلہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ نماز فجر پڑھ رہے تھے ۔ جب قرآن مجید انہوں نے سنا تو غور سے اس کی طرف کان لگا دئیے ۔ پھر کہا ۔ خدا کی قسم یہی ہے جو آسمان کی خبریں سننے سے روکنے کا باعث بنا ہے ۔ پھر وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہا قوم کے لوگو ! ہم نے حیرت انگیز قرآن سنا جو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔ اس لیے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ( قل اوحی الی ) ( آپ کہیئے کہ مجھے وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہے ) اور آپ پر جنوں کی گفتگو وحی کی گئی تھی ۔
صحیح بخاری
سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔
46 : سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر اپنے والد ( سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو بڑا کبیرہ گناہ نہ بتلاؤں؟ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ( پھر فرمایا کہ ) اللہ کے ساتھ شرک کرنا ( یہ تو ظاہر ہے کہ سب سے بڑا کبیرہ گناہ ہے ) دوسرے اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرنا، تیسرے جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور بار بار یہ فرمانے لگے ( تاکہ لوگ خوب آگاہ ہو جائیں اور ان کاموں سے باز رہیں ) حتیٰ کہ ہم نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جائیں۔ ( تاکہ آپ کو زیادہ رنج نہ ہو ان گناہوں کا خیال کر کے کہ لوگ ان کو کیا کرتے ہیں )۔
47 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات گناہوں سے بچو جو ایمان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 1۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ 2۔ اور جادو کرنا۔ 3۔ اور اس جان کو مارنا جس کا مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے، لیکن حق پر مارنا درست ہے۔ 4۔ اور سود کھانا۔ 5۔ اور یتیم کا مال کھا جانا۔ 6۔ اور لڑائی کے دن کافروں کے سامنے سے بھاگنا۔ 7۔ اور شادی شدہ ایماندار، پاک دامن عورتوں کو جو بدکاری سے واقف نہیں، عیب لگانا۔
صحیح مسلم
47 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات گناہوں سے بچو جو ایمان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 1۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ 2۔ اور جادو کرنا۔ 3۔ اور اس جان کو مارنا جس کا مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے، لیکن حق پر مارنا درست ہے۔ 4۔ اور سود کھانا۔ 5۔ اور یتیم کا مال کھا جانا۔ 6۔ اور لڑائی کے دن کافروں کے سامنے سے بھاگنا۔ 7۔ اور شادی شدہ ایماندار، پاک دامن عورتوں کو جو بدکاری سے واقف نہیں، عیب لگانا۔
صحیح مسلم
حیاء ایمان میں سے ہے۔
30 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ستر پر کئی یا ساٹھ پر کئی شاخیں ہیں۔ ان سب میں افضل لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے اور ان سب میں ادنیٰ، راہ میں سے موذی چیز کا ہٹانا ہے اور حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔
31 : سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے پاس ایک رہط ( دس سے کم مردوں کی جماعت کو رہط کہتے ہیں ) میں تھے اور ہم میں بشیر بن کعب بھی تھے۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ نے اس دن حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیاء خیر ہے بالکل، یا حیاء بالکل خیر ہے۔ بشیر بن کعب نے کہا کہ ہم نے بعض کتابوں میں یا حکمت میں دیکھا ہے کہ حیاء کی ایک قسم تو سکینہ اور وقار ہے اللہ تعالیٰ کیلئے اور ایک حیاء ضعف نفس ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمران رضی اللہ عنہ کو اتنا غصہ آیا کہ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور انہوں نے کہا کہ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو اس کے خلاف بیان کرتا ہے۔ سیدنا ابوقتادہ نے کہا کہ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ نے پھر دوبارہ اسی حدیث کو بیان کیا۔ بشیر نے پھر دوبارہ وہی بات کہی تو سیدنا عمران غصہ ہوئے ( اور انہوں نے بشیر کو سزا دینے کا قصد کیا ) تو ہم سب نے کہا کہ اے ابونجید ! ( یہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے ) بشیر ہم میں سے ہے ( یعنی مسلمان ہے ) اس میں کوئی عیب نہیں۔ ( یعنی وہ منافق یا بے دین یا بدعتی نہیں ہے جیسے تم نے خیال کیا )۔
صحیح مسلم
31 : سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے پاس ایک رہط ( دس سے کم مردوں کی جماعت کو رہط کہتے ہیں ) میں تھے اور ہم میں بشیر بن کعب بھی تھے۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ نے اس دن حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیاء خیر ہے بالکل، یا حیاء بالکل خیر ہے۔ بشیر بن کعب نے کہا کہ ہم نے بعض کتابوں میں یا حکمت میں دیکھا ہے کہ حیاء کی ایک قسم تو سکینہ اور وقار ہے اللہ تعالیٰ کیلئے اور ایک حیاء ضعف نفس ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمران رضی اللہ عنہ کو اتنا غصہ آیا کہ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور انہوں نے کہا کہ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو اس کے خلاف بیان کرتا ہے۔ سیدنا ابوقتادہ نے کہا کہ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ نے پھر دوبارہ اسی حدیث کو بیان کیا۔ بشیر نے پھر دوبارہ وہی بات کہی تو سیدنا عمران غصہ ہوئے ( اور انہوں نے بشیر کو سزا دینے کا قصد کیا ) تو ہم سب نے کہا کہ اے ابونجید ! ( یہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے ) بشیر ہم میں سے ہے ( یعنی مسلمان ہے ) اس میں کوئی عیب نہیں۔ ( یعنی وہ منافق یا بے دین یا بدعتی نہیں ہے جیسے تم نے خیال کیا )۔
صحیح مسلم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور ان پر ایمان لانے کے متعلق۔
19 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ایک پیغمبر کو وہی معجزے ملے ہیں جو اس سے پہلے دوسرے پیغمبر کو مل چکے تھے پھر ایمان لائے اس پر آدمی لیکن مجھے جو معجزہ ملا وہ قرآن ہے جو اللہ نے میرے پاس بھیجا ( ایسا معجزہ کسی پیغمبر کو نہیں ملا ) اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ میری پیروی کرنے والے قیامت کے دن سب سے زیادہ ہوں گے۔
20 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ( میرے اس زمانہ سے قیامت تک ) کوئی یہودی یا نصرانی ( یا اور کوئی دین والا ) میرا حال سنے پھر اس پر ایمان نہ لائے جو کہ میں دے کر بھیجا گیا ہوں ( یعنی قرآن و سنت پر ) تو وہ جہنم میں جائے گا۔
21 : سیدنا صالح بن صالح الہمدانی، شعبی سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا جو کہ خراسان کا رہنے والا تھا اس نے شعبی سے پوچھا کہ ہمارے ملک کے لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص اپنی لونڈی کو آزاد کرکے پھر اس سے نکاح کر لے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی قربانی کے جانور پر سواری کرے۔ شعبی نے کہا کہ مجھ سے ابوبردہ بن ابی موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (( تین قسم کے آدمیوں کو دوہرا ثواب ملے گا۔ (( ایک تو وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہو )) ( یعنی یہودی یا نصرانی ) اپنے پیغمبر پر ایمان لایا ہو اور پھر میرا زمانہ پائے اور مجھ پر بھی ایمان لائے، میری پیروی کرے اور مجھے سچا جانے گا تو اس کو دوہرا ثواب ہے۔ اور ایک اس غلام کو جو اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی، اس کو دوہرا ثواب ہے۔ اور ایک اس شخص کو جس کے پاس ایک لونڈی ہو، پھر اچھی طرح اس کو کھلائے اور پلائے اس کے بعد اچھی طرح تعلیم و تربیت کرے، پھر اس کو آزاد کرکے اس سے نکاح کر لے تو اس کو بھی دوہرا ثواب ہے۔ پھر شعبی نے خراسانی سے کہا کہ تو یہ حدیث بغیر محنت کئے لے لے، نہیں تو ایک شخص اس سے چھوٹی حدیث کیلئے مدینے تک سفر کیا کرتا تھا۔
صحیح مسلم
20 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ( میرے اس زمانہ سے قیامت تک ) کوئی یہودی یا نصرانی ( یا اور کوئی دین والا ) میرا حال سنے پھر اس پر ایمان نہ لائے جو کہ میں دے کر بھیجا گیا ہوں ( یعنی قرآن و سنت پر ) تو وہ جہنم میں جائے گا۔
21 : سیدنا صالح بن صالح الہمدانی، شعبی سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا جو کہ خراسان کا رہنے والا تھا اس نے شعبی سے پوچھا کہ ہمارے ملک کے لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص اپنی لونڈی کو آزاد کرکے پھر اس سے نکاح کر لے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی قربانی کے جانور پر سواری کرے۔ شعبی نے کہا کہ مجھ سے ابوبردہ بن ابی موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (( تین قسم کے آدمیوں کو دوہرا ثواب ملے گا۔ (( ایک تو وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہو )) ( یعنی یہودی یا نصرانی ) اپنے پیغمبر پر ایمان لایا ہو اور پھر میرا زمانہ پائے اور مجھ پر بھی ایمان لائے، میری پیروی کرے اور مجھے سچا جانے گا تو اس کو دوہرا ثواب ہے۔ اور ایک اس غلام کو جو اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی، اس کو دوہرا ثواب ہے۔ اور ایک اس شخص کو جس کے پاس ایک لونڈی ہو، پھر اچھی طرح اس کو کھلائے اور پلائے اس کے بعد اچھی طرح تعلیم و تربیت کرے، پھر اس کو آزاد کرکے اس سے نکاح کر لے تو اس کو بھی دوہرا ثواب ہے۔ پھر شعبی نے خراسانی سے کہا کہ تو یہ حدیث بغیر محنت کئے لے لے، نہیں تو ایک شخص اس سے چھوٹی حدیث کیلئے مدینے تک سفر کیا کرتا تھا۔
صحیح مسلم
ایمان کا پہلا رکن لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے۔
1 : ابوجمرہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کے اور لوگوں کے بیچ میں مترجم تھا ( یعنی اوروں کی بات کو عربی میں ترجمہ کر کے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کو سمجھاتا ) اتنے میں ایک عورت آئی اور گھڑے کے نبیذ کے بارہ میں پوچھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عبدالقیس کے وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ وفد کون ہیں؟ یا کس قوم کے لوگ ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ربیعہ کے لوگ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرحبا ہو قوم یا وفد کو جو نہ رسوا ہوئے نہ شرمندہ ہوئے ( کیونکہ بغیر لڑائی کے خود مسلمان ہونے کیلئے آئے، اگر لڑائی کے بعد مسلمان ہوتے تو وہ رسوا ہوتے، لونڈی غلام بنائے جاتے، مال لٹ جاتا تو شرمندہ ہوتے ) ان لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم آپ کے پاس دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں اور ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں کافروں کا قبیلہ مضر ہے تو ہم نہیں آ سکتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک، مگر حرمت والے مہینہ میں ( جب لوٹ مار نہیں ہوتی ) اس لئے ہم کو حکم کیجئے ایک صاف بات کا جس کو ہم بتلائیں اور لوگوں کو بھی اور جائیں اس کے سبب سے جنت میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم کیا اور چار باتوں سے منع فرمایا۔ ان کو حکم کیا اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانے کا اور ان سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ ایمان کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان گواہی دینا ہے اس بات کی کہ سوا اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور نماز کا قائم کرنا اور زکوٰۃ کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنا ( یہ چار باتیں ہو گئیں، اب ایک پانچویں بات اور ہے ) اور غنیمت کے مال میں سے پانچویں حصہ کا ادا کرنا ( یعنی کفار کی سپاہ یا مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں سے جو مال حاصل ہو مال غنیمت کہلاتا ہے ) اور منع فرمایا ان کو کدو کے برتن، سبز گھڑے اور روغنی برتن سے۔ ( شعبہ نے ) کبھی یوں کہا اور نقیر سے اور کبھی کہا مقیر سے۔ ( یعنی لکڑی سے بنائے ہوئے برتن ہیں )۔ اور فرمایا کہ اس کو یاد رکھو اور ان باتوں کی ان لوگوں کو بھی خبر دو جو تمہارے پیچھے ہیں۔ اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے من وّرآئکم کہا بدلے من ورآئکم کے۔ ( ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے )۔ اور سیدنا ابن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں اپنے باپ سے اتنا زیادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالقیس کے اشج سے ( جس کا نام منذر بن حارث بن زیاد تھا یا منذر بن عبید یا عائذ بن منذر یا عبداللہ بن عوف تھا ) فرمایا کہ تجھ میں دو عادتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، ایک تو عقل مندی، دوسرے دیر میں سوچ سمجھ کر کام کرنا جلدی نہ کرنا۔
2 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایمان کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے دل سے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس سے ملنے پر اور اس کے پیغمبروں پر اور یقین کرے قیامت میں زندہ ہونے پر۔ پھر وہ شخص بولا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تو اللہ جل جلالہ کو پوجے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور قائم کرے تو فرض نماز کو اور دے تو زکوٰۃ کو جس قدر فرض ہے اور روزے رکھے رمضان کے۔ پھر وہ شخص بولا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! احسان کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو عبادت کرے اللہ کی جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اگر تو اس کو نہیں دیکھتا ( یعنی توجہ کا یہ درجہ نہ ہو سکے ) تو اتنا تو ہو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر وہ شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! قیامت کب ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے پوچھتے ہو قیامت کو وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن اس کی نشانیاں میں تجھ سے بیان کرتا ہوں کہ جب لونڈی اپنے مالک کو جنے تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب ننگے بدن ننگے پاؤں پھرنے والے لوگ سردار بنیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب بکریاں یا بھیڑیں چرانے والے بڑی بڑی عمارتیں بنائیں تو یہ بھی قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کو کوئی نہیں جانتا سوا اللہ تعالیٰ کے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ (( اللہ ہی جانتا ہے قیامت کو اور وہی اتارتا ہے پانی کو اور جانتا ہے جو کچھ ماں کے رحم میں ہے ( یعنی مولود نیک ہے یا بد، رزق کتنا ہے، عمر کتنی ہے وغیرہ ) اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس ملک میں مرے گا۔ اللہ ہی جاننے والا اور خبردار ہے ))۔ ( لقمان : 34 ) پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو پھر واپس لے آؤ۔ لوگ اس کو لینے چلے لیکن وہاں کچھ نہ پایا ( یعنی اس شخص کا نشان بھی نہ ملا ) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے، تم کو دین کی باتیں سکھلانے آئے تھے۔
3 : سعید بن مسیب ( جو مشہور تابعین میں سے ہیں ) اپنے والد ( سیدنا مسیب رضی اللہ عنہ بن حزن بن عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم قرشی مخزومی، جو کہ صحابی ہیں ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب ابوطالب بن عبدالمطلب ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا اور مربی ) مرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور وہاں ابوجہل ( عمرو بن ہشام ) اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو بیٹھا دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے چچا تم ایک کلمہ لا الٰہ الا اللہ کہہ دو، میں اللہ کے پاس اس کا گواہ رہوں گا تمہارے لئے ( یعنی اللہ عزوجل سے قیامت کے روز عرض کروں گا کہ ابوطالب موحد تھے اور ان کو جہنم سے نجات ہونی چاہئے انہوں نے آخر وقت میں کلمہ توحید کا اقرار کیا تھا )۔ ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کہ اے ابوطالب ! عبدالمطلب کا دین چھوڑتے ہو؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر یہی بات ان سے کہتے رہے ( یعنی کلمہ توحید پڑھنے کیلئے اور ادھر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ اپنی بات بکتے رہے ) یہاں تک کہ ابوطالب نے اخیر بات جو کی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں اور انکار کیا لا الٰہ الا اللہ کہنے سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لئے دعا کرونگا ( بخشش کی ) جب تک کہ منع نہ ہو۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (( پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں )) ( التوبۃ : 113 ) اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت اتاری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ (( آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے )) ( القصص : 56 )۔
صحیح مسلم
2 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایمان کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے دل سے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس سے ملنے پر اور اس کے پیغمبروں پر اور یقین کرے قیامت میں زندہ ہونے پر۔ پھر وہ شخص بولا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تو اللہ جل جلالہ کو پوجے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور قائم کرے تو فرض نماز کو اور دے تو زکوٰۃ کو جس قدر فرض ہے اور روزے رکھے رمضان کے۔ پھر وہ شخص بولا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! احسان کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو عبادت کرے اللہ کی جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اگر تو اس کو نہیں دیکھتا ( یعنی توجہ کا یہ درجہ نہ ہو سکے ) تو اتنا تو ہو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر وہ شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! قیامت کب ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے پوچھتے ہو قیامت کو وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن اس کی نشانیاں میں تجھ سے بیان کرتا ہوں کہ جب لونڈی اپنے مالک کو جنے تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب ننگے بدن ننگے پاؤں پھرنے والے لوگ سردار بنیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب بکریاں یا بھیڑیں چرانے والے بڑی بڑی عمارتیں بنائیں تو یہ بھی قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کو کوئی نہیں جانتا سوا اللہ تعالیٰ کے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ (( اللہ ہی جانتا ہے قیامت کو اور وہی اتارتا ہے پانی کو اور جانتا ہے جو کچھ ماں کے رحم میں ہے ( یعنی مولود نیک ہے یا بد، رزق کتنا ہے، عمر کتنی ہے وغیرہ ) اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس ملک میں مرے گا۔ اللہ ہی جاننے والا اور خبردار ہے ))۔ ( لقمان : 34 ) پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو پھر واپس لے آؤ۔ لوگ اس کو لینے چلے لیکن وہاں کچھ نہ پایا ( یعنی اس شخص کا نشان بھی نہ ملا ) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے، تم کو دین کی باتیں سکھلانے آئے تھے۔
3 : سعید بن مسیب ( جو مشہور تابعین میں سے ہیں ) اپنے والد ( سیدنا مسیب رضی اللہ عنہ بن حزن بن عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم قرشی مخزومی، جو کہ صحابی ہیں ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب ابوطالب بن عبدالمطلب ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا اور مربی ) مرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور وہاں ابوجہل ( عمرو بن ہشام ) اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو بیٹھا دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے چچا تم ایک کلمہ لا الٰہ الا اللہ کہہ دو، میں اللہ کے پاس اس کا گواہ رہوں گا تمہارے لئے ( یعنی اللہ عزوجل سے قیامت کے روز عرض کروں گا کہ ابوطالب موحد تھے اور ان کو جہنم سے نجات ہونی چاہئے انہوں نے آخر وقت میں کلمہ توحید کا اقرار کیا تھا )۔ ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کہ اے ابوطالب ! عبدالمطلب کا دین چھوڑتے ہو؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر یہی بات ان سے کہتے رہے ( یعنی کلمہ توحید پڑھنے کیلئے اور ادھر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ اپنی بات بکتے رہے ) یہاں تک کہ ابوطالب نے اخیر بات جو کی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں اور انکار کیا لا الٰہ الا اللہ کہنے سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لئے دعا کرونگا ( بخشش کی ) جب تک کہ منع نہ ہو۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (( پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں )) ( التوبۃ : 113 ) اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت اتاری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ (( آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے )) ( القصص : 56 )۔
صحیح مسلم
جس شخص میں چار باتیں موجود ہوں ، وہ خالصتًا منافق ہے۔
صحیح مسلم26 :
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چار باتیں جس میں ہوں گی وہ تو خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے ایک خصلت ہو گی، تو اس میں نفاق کی ایک ہی عادت ہے، یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے۔ ایک تو یہ کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، دوسری یہ کہ جب معاہدہ کرے تو اس کے خلاف کرے، تیسری یہ کہ جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، چوتھی یہ کہ جب جھگڑا کرے تو بدکلامی کرے یا گالی گلوچ کرے۔ اور سفیان کی روایت میں (( خلہ )) کی جگہ (( خصلۃ )) کا لفظ ہے۔
27 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹی بات کرے، جب وعدہ کرے تو وعدہ کے خلاف کرے اور جب اسے امانت سونپی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چار باتیں جس میں ہوں گی وہ تو خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے ایک خصلت ہو گی، تو اس میں نفاق کی ایک ہی عادت ہے، یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے۔ ایک تو یہ کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، دوسری یہ کہ جب معاہدہ کرے تو اس کے خلاف کرے، تیسری یہ کہ جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، چوتھی یہ کہ جب جھگڑا کرے تو بدکلامی کرے یا گالی گلوچ کرے۔ اور سفیان کی روایت میں (( خلہ )) کی جگہ (( خصلۃ )) کا لفظ ہے۔
27 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹی بات کرے، جب وعدہ کرے تو وعدہ کے خلاف کرے اور جب اسے امانت سونپی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
بخار گناہوں کو دور کرتا ہے۔
صحیح مسلم1469 :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سائب ( یا ام مسیب ) رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، تو فرمایا کہ اے ام سائب ( یا ام مسیب ) ! تو لرز رہی ہے تجھے کیا ہوا؟ وہ بولیں کہ بخار ہے، اللہ تعالیٰ اس کو برکت نہ دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخار کو برا مت کہہ، کیونکہ وہ آدمیوں کے گناہوں کو ایسے دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو دور کر دیتی ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سائب ( یا ام مسیب ) رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، تو فرمایا کہ اے ام سائب ( یا ام مسیب ) ! تو لرز رہی ہے تجھے کیا ہوا؟ وہ بولیں کہ بخار ہے، اللہ تعالیٰ اس کو برکت نہ دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخار کو برا مت کہہ، کیونکہ وہ آدمیوں کے گناہوں کو ایسے دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو دور کر دیتی ہے۔
جو درد اور مرض مومن کو پہنچتی ہے اس کے ثواب کا بیان۔
1463 : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار تھا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو تو سخت بخار آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اتنا بخار آتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو آئے۔ میں نے کہا کہ کیا یہ اس لئے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دہرا اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کو بیماری یا کچھ اور تکلیف پہنچی، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ ایسے گرا دیتا ہے جیسے درخت ( سوکھے ) پتے گرا دیتا ہے۔
صحیح مسلم
صحیح مسلم
اذان کی دعا کے بارے میں
حدیث نمبر : 614
حدثنا علي بن عياش، قال حدثنا شعيب بن أبي حمزة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " من قال حين يسمع النداء اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة "
.
ہم سے علی بن عیاش ہمدانی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا ، انھوں نے محمد بن المنکدر سے بیان کیا ، انھوں نے فرمایا کہ جو شخص اذان سن کر یہ کہے اللہم رب ہذہ الدعوة التامة والصلوٰة القائمة آت محمدا الوسیلة والفضیلة وابعثہ مقاما محموداً الذی وعدتہ اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی ۔
حدثنا علي بن عياش، قال حدثنا شعيب بن أبي حمزة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " من قال حين يسمع النداء اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة "
.
ہم سے علی بن عیاش ہمدانی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا ، انھوں نے محمد بن المنکدر سے بیان کیا ، انھوں نے فرمایا کہ جو شخص اذان سن کر یہ کہے اللہم رب ہذہ الدعوة التامة والصلوٰة القائمة آت محمدا الوسیلة والفضیلة وابعثہ مقاما محموداً الذی وعدتہ اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی ۔
ہم مُسلمان ہیں ۔ ہم بخشے جائینگے
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیاوی کاموں میں ایسے لوگوں کا نظریہ بالکل اس کے بر عکس ہے ۔ ذہین سے ذہین طالب علم کے متعلق بھی یہ کوئی نہیں کہے گا کہ وہ بغیر تمام مضامین اچھی طرح سے پڑھے کامیاب ہو جائے گا ۔ یا کوئی شخص بغیر محنت کئے تجارت میں منافع حاصل کرے گا ۔ یا بغیر محنت سے کام کئے دفتر میں ترقی پا جائے گا
قرآن شریف کے ذریعہ عمل کیلئے دیئے گئے تمام احکامات کے ساتھ کوئی نا کوئی شرط ہے جس کی وجہ سے کُلی یا جزوی یا وقتی استثنٰی مِل جاتا ہے سوائے نماز کے جس کی سوائے بیہوشی کی حالت کے کسی صورت معافی نہیں ۔ ہمارے ہموطن ایسے بھی ہیں جو نماز نہیں پڑھتے اور دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور چونکہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اسلئے اُنہیں کوئی کچھ نہیں سِکھا سکتا ۔ کیا اس سائنسی دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریاضی اچھی طرح پڑھے بغیر کوئی ریاضی دان بن جائے یا کیمسٹری اچھی طرح پڑھے بغیر کوئی کیمسٹ بن جائے ۔ علٰی ھٰذالقیاس ؟
اگر ہم اللہ کی کتاب کا بغور مطالعہ کریں تو ہم ہر لغو خیال سے بچ سکتے ہیں ۔
سُورة 29 ۔ الْعَنْکَبُوْت ۔ آیة 45 ۔ اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ
ترجمہ ۔ جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھیں اور نماز قائم کریں ۔ یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔ بیشک اﷲ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ۔تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اﷲ خبردار ہے
تبصرہ ۔ اگر نماز پڑھنے والا بے حیائی اور بُرائی میں ملوث رہتا ہے تو اس میں نماز کا نہیں بلکہ نماز پڑھنے والے کا قصور ہے یعنی وہ نماز صرف عادت کے طور پر یا بے مقصد پڑھتا ہے ۔ نماز میں جو کچھ پڑھتا ہے اُسے سمجھ کر نہیں پڑھتا ۔
مسلمان ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے اُس کا ہر عمل اللہ کے حکم کی بجا آوری میں ہو اور اللہ ہی کی خوشنودی کیلئے ہو یہاں تک کہ وہ مَرے بھی تو اللہ کی خوشنودی کیلئے ۔
سُورة ۔ 6 ۔ الْأَنْعَام ۔ آیة ۔ 162 ۔ قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
ترجمہ ۔ کہہ دیں کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اﷲ ہی کا ہے جو سارے جہانوں کا مالک ہے
سورة ۔ 29 ۔ الْعَنْکَبُوْت ۔ آیة 2 ۔ أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ
ترجمہ ۔ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھ ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے ۔
تبصرہ ۔ یہاں آزمانے سے مُراد امتحان لینا ہی ہے جس میں کامیابی کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جیسے ہر دنیاوی کام یا علم کیلئے امتحان اور مشکل مراحل میں صبر و تحمل اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر ہم دین کو اس سے مستثنٰی کیوں سمجھتے ہیں ؟
سورة ۔ 2 ۔ الْبَقَرَة ۔ آیة 208 ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
ترجمہ ۔ اے ایمان والو ۔ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو ۔ بیشک وہ تمہارا کھُلا دشمن ہے
وضاحت ۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے تمام احکامات کی پابندی کرو ۔
حرفِ آخر ۔ میں نے مُسلمان کے فرائض کا احاطہ نہیں کیا وہ پوری زندگی ۔ سلوک اور لین دین کے متعلق ہیں اور قرآن شریف میں واضح طور پر مرقوم ہیں
قرآن شریف کے ذریعہ عمل کیلئے دیئے گئے تمام احکامات کے ساتھ کوئی نا کوئی شرط ہے جس کی وجہ سے کُلی یا جزوی یا وقتی استثنٰی مِل جاتا ہے سوائے نماز کے جس کی سوائے بیہوشی کی حالت کے کسی صورت معافی نہیں ۔ ہمارے ہموطن ایسے بھی ہیں جو نماز نہیں پڑھتے اور دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور چونکہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اسلئے اُنہیں کوئی کچھ نہیں سِکھا سکتا ۔ کیا اس سائنسی دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریاضی اچھی طرح پڑھے بغیر کوئی ریاضی دان بن جائے یا کیمسٹری اچھی طرح پڑھے بغیر کوئی کیمسٹ بن جائے ۔ علٰی ھٰذالقیاس ؟
اگر ہم اللہ کی کتاب کا بغور مطالعہ کریں تو ہم ہر لغو خیال سے بچ سکتے ہیں ۔
سُورة 29 ۔ الْعَنْکَبُوْت ۔ آیة 45 ۔ اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ
ترجمہ ۔ جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھیں اور نماز قائم کریں ۔ یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔ بیشک اﷲ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ۔تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اﷲ خبردار ہے
تبصرہ ۔ اگر نماز پڑھنے والا بے حیائی اور بُرائی میں ملوث رہتا ہے تو اس میں نماز کا نہیں بلکہ نماز پڑھنے والے کا قصور ہے یعنی وہ نماز صرف عادت کے طور پر یا بے مقصد پڑھتا ہے ۔ نماز میں جو کچھ پڑھتا ہے اُسے سمجھ کر نہیں پڑھتا ۔
مسلمان ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے اُس کا ہر عمل اللہ کے حکم کی بجا آوری میں ہو اور اللہ ہی کی خوشنودی کیلئے ہو یہاں تک کہ وہ مَرے بھی تو اللہ کی خوشنودی کیلئے ۔
سُورة ۔ 6 ۔ الْأَنْعَام ۔ آیة ۔ 162 ۔ قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
ترجمہ ۔ کہہ دیں کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اﷲ ہی کا ہے جو سارے جہانوں کا مالک ہے
سورة ۔ 29 ۔ الْعَنْکَبُوْت ۔ آیة 2 ۔ أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ
ترجمہ ۔ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھ ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے ۔
تبصرہ ۔ یہاں آزمانے سے مُراد امتحان لینا ہی ہے جس میں کامیابی کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جیسے ہر دنیاوی کام یا علم کیلئے امتحان اور مشکل مراحل میں صبر و تحمل اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر ہم دین کو اس سے مستثنٰی کیوں سمجھتے ہیں ؟
سورة ۔ 2 ۔ الْبَقَرَة ۔ آیة 208 ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
ترجمہ ۔ اے ایمان والو ۔ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو ۔ بیشک وہ تمہارا کھُلا دشمن ہے
وضاحت ۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے تمام احکامات کی پابندی کرو ۔
حرفِ آخر ۔ میں نے مُسلمان کے فرائض کا احاطہ نہیں کیا وہ پوری زندگی ۔ سلوک اور لین دین کے متعلق ہیں اور قرآن شریف میں واضح طور پر مرقوم ہیں
میں قرآن میں کہاں ہوں
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
مشہور محدث اور امام احمد بن حنبل کے شاگرد رشید شیخ الاسلام ابو عبداللہ محمد بن نصر مروزی بغدادی (202....294ھ) نے اپنی کتاب قیام اللیل میں ایک عبرت انگیز قصہ نقل کیا ہے جس سے اس آیت کے فہم میں مدد ملتی ہے، اور سلف کے فہم قرآن اور تدبر قرآن پر روشنی پڑتی ہے۔
جلیل القدر تابعی اور عرب سردار احنف بن قیس ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے یہ آیت پڑھی:
لَقَد اَنزَلنَآ اِلَیکُم کِتٰبًا فِیہِ ذِکرُکُم اَفَلاَ تَعقِلُونَ (سورہ الانبیاء۔ ع۔ ١)
ترجمہ) ”ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی جس میں تمہارا تذکرہ ہے، کیا تم نہیں سمجھتے ہو“۔
وہ چونک پڑے اور کہا کہ ذرا قرآن مجید تو لانا اس میں، میں اپنا تذکرہ تلاش کروں، اور دیکھوں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں، اور کن سے مجھے مشابہت ہے؟ انہوں نے قرآن مجید کھولا، کچھ لوگوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا، جن کی تعریف یہ کی گئی تھی:
کَانُوا قَلِیلاً مِّن اللَّیلِ مَا یَھجَعُونَ o وَبِالاَسحَارِھُم یَستَغفِرُونَ o وَفِی اَموَالِھِم حَقّ لِّلسَّائِلِ وَالمَحرُومِ (الذریٰت۔ ع۔ ١)
ترجمہ) ”رات کے تھوڑے حصے میں سوتے تھے، اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے، اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا“۔
کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:
تَتَجَافٰی جُنُوبُھُم عَنِ المَضَاجِعِ یَدعُونَ رَبَّھُم خَوفاً وَّطَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقنٰھُم یُنفِقُونَ (السجدہ۔ ع۔ ٢)
ترجمہ) ”ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُمید سے پکارتے ہیں۔ اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں“۔
کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:
یَبِیتُونَ لِرَبِّھِم سُجَّدًا وَقِیَاماً (الفرقان۔ ع۔ ٦)
ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے اور (عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں“۔
اور کچھ لوگ نظر آئے جن کا تذکرہ اِن الفاظ میں ہے:
اَلَّذِینَ یُنفِقُونَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالکٰظِمِینَ الغَیظِ وَالعَافِینَ عَنِ النَّاسِ وَاﷲُ یُحِبُّ المُحسِنِینَ (اٰل عمران۔ ع۔ ١٤)
ترجمہ) ”جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، اور غصہ کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں، اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے“۔
اور کچھ لوگ ملے جن کی حالت یہ تھی:
یُؤثِرُونَ عَلیٰ اَنفُسِھِم وَلَو کَانَ بِھِم خَصَاصَہ ط قف وَمَن یَّوقَ شُحَّ نَفسِہ فَاُولئِکَ ھُمُ المُفلِحُونَ (الحشر۔ ع۔ ١)
ترجمہ) ”(اور) دوسروں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو، اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مُراد پانے والے ہوتے ہیں“۔
اور کچھ لوگوں کی زیارت ہوئی جن کے اخلاق یہ تھے:
وَالَّذِینَ یَجتَنِبُونَ کَبٰئِرَ الاِثمِ وَالفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوا ھُم یَغفِرُونَ (الشوریٰ۔ ع۔ ٤)
ترجمہ) ”اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں، اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں“۔
وَالَّذِینَ استَجَابُوا لِرَبِّھِم وَاَقَامُوا الصَّلوٰہَ ص وَاَمرُھُم شُورٰی بَینَھُم ص وَمِمَّا رَزَقنٰھُم یُنفِقُونَ (الشوریٰ۔ ع۔ ٤)
ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں، اور اپنے کام آپس کے مشورہ سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں“۔
وہ یہاں پہونچ کر ٹھٹک کر رہ گئے اور کہا اے اللہ میں اپنے حال سے واقف ہوں، میں تو ان لوگوں میں نظر نہیں آتا!
پھر انہوں نے ایک دوسرا راستہ لیا، اب ان کو کچھ لوگ نظر آئے، جن کا حال یہ تھا:
اِنَّھُم کَانُوا اِذَا قِیلَ لَھُم لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ یَستَکبِرُونَ oلا وَیَقُولُونَ ئَ اِنَّا لَتَارِکُوا اٰلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجنُونٍ (سورہ صافات۔ ع۔ ٢)
ترجمہ) ”ان کا یہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو غرور کرتے تھے، اور کہتے تھے، کہ بھلا ہم ایک دیوانہ شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں؟
پھر اُن لوگوں کا سامنا ہوا جن کی حالت یہ تھی:
وَاِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَحدَہُ اشمَاَرَّتُ قُلُوبُ الَّذِینَ لاَ یُؤمِنُونَ بِالاٰخِرَہِ ج وَاِذَا ذُکِرَ الَّذِینَ مِن دُونِہ اِذَا ھُم یَستَبشِرُونَ (الزمر۔ ع۔ ٥)
ترجمہ) ”اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انکے دل منقبض ہو جاتے ہیں، اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُن کے چہرے کھل اُٹھتے ہیں“۔
کچھ اور لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جن سے جب پوچھا گیا:
مَا سَلَکَکُم فِی سَقَرَ o قَالُوا لَم نَکَ مِنَ المُصَلِّینَ o وَلَم نَکُ نُطعِمُ المِسکِینَ o وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الخَآئِضِینَ o وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَومِ الدِّینِ o حَتّٰی اَتٰنَا الیَقِینَ (المدثر۔ ع۔ ٢)
ترجمہ) ”کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم جھوٹ سچ باتیں بنانے والوں کے ساتھ باتیں بنایا کرتے اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا“۔
یہاں بھی پہونچ کر وہ تھوڑی دیر کے لئے دم بخود کھڑے رہے پھر کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا، اے اللہ! ان لوگوں سے تیری پناہ! میں ان لوگوںسے بری ہوں۔
اب وہ قرآن مجید کے ورقوں کوا ُلٹ رہے تھے، اور اپنا تذکرہ تلاش کر رہے تھے، یہاں تک کہ اس آیت پر جا کر ٹھہرے:
وَاٰخِرُونَ اعتَرَفُوا بِذُنُوبِھِم خَلَطُوا عَمَلاً صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا عَسَی اﷲُ اَن یَّتُوبَ عَلَیھِم ط اِنَّ اﷲُ غَفُور رَّحِیم (التوبہ۔ ع۔ ١٣)
ترجمہ) ”اور کچھ اور لوگ ہیں جن کو اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار ہے، انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا قریب ہے کہ خدا ان پرمہربانی سے توجہ فرمائے، بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے“۔
اس موقع پر اُن کی زبان سے بے ساختہ نکلا، ہاں ہاں! یہ بے شک میرا حال ہے۔
مشہور محدث اور امام احمد بن حنبل کے شاگرد رشید شیخ الاسلام ابو عبداللہ محمد بن نصر مروزی بغدادی (202....294ھ) نے اپنی کتاب قیام اللیل میں ایک عبرت انگیز قصہ نقل کیا ہے جس سے اس آیت کے فہم میں مدد ملتی ہے، اور سلف کے فہم قرآن اور تدبر قرآن پر روشنی پڑتی ہے۔
جلیل القدر تابعی اور عرب سردار احنف بن قیس ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے یہ آیت پڑھی:
لَقَد اَنزَلنَآ اِلَیکُم کِتٰبًا فِیہِ ذِکرُکُم اَفَلاَ تَعقِلُونَ (سورہ الانبیاء۔ ع۔ ١)
ترجمہ) ”ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی جس میں تمہارا تذکرہ ہے، کیا تم نہیں سمجھتے ہو“۔
وہ چونک پڑے اور کہا کہ ذرا قرآن مجید تو لانا اس میں، میں اپنا تذکرہ تلاش کروں، اور دیکھوں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں، اور کن سے مجھے مشابہت ہے؟ انہوں نے قرآن مجید کھولا، کچھ لوگوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا، جن کی تعریف یہ کی گئی تھی:
کَانُوا قَلِیلاً مِّن اللَّیلِ مَا یَھجَعُونَ o وَبِالاَسحَارِھُم یَستَغفِرُونَ o وَفِی اَموَالِھِم حَقّ لِّلسَّائِلِ وَالمَحرُومِ (الذریٰت۔ ع۔ ١)
ترجمہ) ”رات کے تھوڑے حصے میں سوتے تھے، اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے، اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا“۔
کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:
تَتَجَافٰی جُنُوبُھُم عَنِ المَضَاجِعِ یَدعُونَ رَبَّھُم خَوفاً وَّطَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقنٰھُم یُنفِقُونَ (السجدہ۔ ع۔ ٢)
ترجمہ) ”ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُمید سے پکارتے ہیں۔ اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں“۔
کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:
یَبِیتُونَ لِرَبِّھِم سُجَّدًا وَقِیَاماً (الفرقان۔ ع۔ ٦)
ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے اور (عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں“۔
اور کچھ لوگ نظر آئے جن کا تذکرہ اِن الفاظ میں ہے:
اَلَّذِینَ یُنفِقُونَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالکٰظِمِینَ الغَیظِ وَالعَافِینَ عَنِ النَّاسِ وَاﷲُ یُحِبُّ المُحسِنِینَ (اٰل عمران۔ ع۔ ١٤)
ترجمہ) ”جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، اور غصہ کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں، اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے“۔
اور کچھ لوگ ملے جن کی حالت یہ تھی:
یُؤثِرُونَ عَلیٰ اَنفُسِھِم وَلَو کَانَ بِھِم خَصَاصَہ ط قف وَمَن یَّوقَ شُحَّ نَفسِہ فَاُولئِکَ ھُمُ المُفلِحُونَ (الحشر۔ ع۔ ١)
ترجمہ) ”(اور) دوسروں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو، اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مُراد پانے والے ہوتے ہیں“۔
اور کچھ لوگوں کی زیارت ہوئی جن کے اخلاق یہ تھے:
وَالَّذِینَ یَجتَنِبُونَ کَبٰئِرَ الاِثمِ وَالفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوا ھُم یَغفِرُونَ (الشوریٰ۔ ع۔ ٤)
ترجمہ) ”اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں، اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں“۔
وَالَّذِینَ استَجَابُوا لِرَبِّھِم وَاَقَامُوا الصَّلوٰہَ ص وَاَمرُھُم شُورٰی بَینَھُم ص وَمِمَّا رَزَقنٰھُم یُنفِقُونَ (الشوریٰ۔ ع۔ ٤)
ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں، اور اپنے کام آپس کے مشورہ سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں“۔
وہ یہاں پہونچ کر ٹھٹک کر رہ گئے اور کہا اے اللہ میں اپنے حال سے واقف ہوں، میں تو ان لوگوں میں نظر نہیں آتا!
پھر انہوں نے ایک دوسرا راستہ لیا، اب ان کو کچھ لوگ نظر آئے، جن کا حال یہ تھا:
اِنَّھُم کَانُوا اِذَا قِیلَ لَھُم لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ یَستَکبِرُونَ oلا وَیَقُولُونَ ئَ اِنَّا لَتَارِکُوا اٰلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجنُونٍ (سورہ صافات۔ ع۔ ٢)
ترجمہ) ”ان کا یہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو غرور کرتے تھے، اور کہتے تھے، کہ بھلا ہم ایک دیوانہ شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں؟
پھر اُن لوگوں کا سامنا ہوا جن کی حالت یہ تھی:
وَاِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَحدَہُ اشمَاَرَّتُ قُلُوبُ الَّذِینَ لاَ یُؤمِنُونَ بِالاٰخِرَہِ ج وَاِذَا ذُکِرَ الَّذِینَ مِن دُونِہ اِذَا ھُم یَستَبشِرُونَ (الزمر۔ ع۔ ٥)
ترجمہ) ”اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انکے دل منقبض ہو جاتے ہیں، اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُن کے چہرے کھل اُٹھتے ہیں“۔
کچھ اور لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جن سے جب پوچھا گیا:
مَا سَلَکَکُم فِی سَقَرَ o قَالُوا لَم نَکَ مِنَ المُصَلِّینَ o وَلَم نَکُ نُطعِمُ المِسکِینَ o وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الخَآئِضِینَ o وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَومِ الدِّینِ o حَتّٰی اَتٰنَا الیَقِینَ (المدثر۔ ع۔ ٢)
ترجمہ) ”کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم جھوٹ سچ باتیں بنانے والوں کے ساتھ باتیں بنایا کرتے اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا“۔
یہاں بھی پہونچ کر وہ تھوڑی دیر کے لئے دم بخود کھڑے رہے پھر کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا، اے اللہ! ان لوگوں سے تیری پناہ! میں ان لوگوںسے بری ہوں۔
اب وہ قرآن مجید کے ورقوں کوا ُلٹ رہے تھے، اور اپنا تذکرہ تلاش کر رہے تھے، یہاں تک کہ اس آیت پر جا کر ٹھہرے:
وَاٰخِرُونَ اعتَرَفُوا بِذُنُوبِھِم خَلَطُوا عَمَلاً صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا عَسَی اﷲُ اَن یَّتُوبَ عَلَیھِم ط اِنَّ اﷲُ غَفُور رَّحِیم (التوبہ۔ ع۔ ١٣)
ترجمہ) ”اور کچھ اور لوگ ہیں جن کو اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار ہے، انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا قریب ہے کہ خدا ان پرمہربانی سے توجہ فرمائے، بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے“۔
اس موقع پر اُن کی زبان سے بے ساختہ نکلا، ہاں ہاں! یہ بے شک میرا حال ہے۔
Common Errors in Prayer That MUST Be Avoided
1.Reciting Surat al-Fatiha fast without pausing after each verse.
The Prophet (SAW) used to pause after each verse of this surah. (Abu Dawood)
2.Sticking the arms to the sides of the body, in rukoo' or sujood, and sticking the belly to the thighs in sujood.
The Messenger of Allah (SAW) said: "Let not one of you support himself on his forearms (in sujood) like the dog. Let him rest on his palms and keep his elbows away from his body." (Sahih Muslim). The Messenger of Allah (SAW) used to keep his arms away from his body during rukoo' and sujood that the whiteness of his armpits could be seen (Sahih Muslim).
3.Gazing upward during prayer.
This may cause loss of concentration. We are commanded to lower our gaze, and look at the point at which the head rests during sujood. The Prophet (SAW) warned: "Let those who raise their gaze up during prayer stop doing so, or else their sights would not return to them. [i.e. Lose their eyesight]. " ( Muslim)
4.Resting only the tip of the head on the floor during sujood.
The Prophet (SAW) said: "I am commanded to prostrate on seven bones the forehead and the nose, the two hands [palms],the two knees, and the two feet." (Sahih Muslim) Applying the above command necessitates resting the forehead and the nose on the ground during sujood.
5.Hasty performance of prayer which does not allow repose and calmness in rukoo' or sujood.
The Messenger of Allah (SAW) saw a man who did not complete his rukoo' [bowing], and made a very short sujood [prostration] ;he(SAW) said: "If this man dies while praying in this manner, he would die upholding a religion other than the religion of Muhammad." Abu Hurairah (RA) said:"My beloved friend, Muhammad (SAW) forbade me to perform postures of prayer copying the picking of a rooster; (signifying fast performance of prayer), moving eyes around like a fox and the sitting like monkeys (i.e. to sit on thighs)." (Imam Ahmad & at-Tayalisi) . The Messenger of Allah (SAW) said:?"The worst thief is the one who steals from his own prayer."?People asked, 'Messenger of Allah! How could one steal from his own prayer?' He(SAW) said: "By not completing its rukoo' and sujood."(At- Tabarani & al-Hakim). To complete rukoo' is to stay in that posture long enough to recite 'subhana rabbiyal Adtheem' three times, SLOWLY, and'subhana rabbiyal-a'ala' three times, SLOWLY, in sujood. He (SAW) also announced: "He who does not complete his rukoo' and sujood, his prayer is void." (Abu Dawood & others)
6.Counting tasbeeh with the left hand.
The Prophet (SAW) used to count tasbeeh on the fingers of his Right hand after salah. lbn Qudamah (RA) said:?"The Messenger of Allah (SAW) used his right hand for tasbeeh." ( Abu Dawud) The above hadeeth indicates clearly that the Prophet (SAW) used only one hand for counting tasbeeh.?No Muslim with sound mind would imagine that the Prophet (SAW)?used his left hand for counting tasbeeh. Aa'ishah (RA) said that the Prophet (SAW)used his left hand only for Istinjaa', or cleaning himself after responding to the call of nature.?He never used it for tasbeeh. Yasirah (RA) reported:?The Prophet(SAW) commanded women to count Tasbeeh on their fingers. The Messenger of Allah (SAW) said:?"They (the fingers) will be made to speak, and will be questioned (on the Day of Resurrection. )" (At-Tirmithi) The above hadeeth indicates that it is preferable to count tasbeeh on the fingers of the right hand than to do so on masbahah(rosary) .
7.Crossing in front of a praying person.
The Messenger of Allah (SAW) warned:?"Were the one who crosses in front of a praying person to know the consequences of doing so, he would have waited for *forty better than to cross in front of him." (Sahih Bukhari and Muslim).*The forty in the tradition may be days months or even years. Allah knows best.
The Prophet (SAW) used to pause after each verse of this surah. (Abu Dawood)
2.Sticking the arms to the sides of the body, in rukoo' or sujood, and sticking the belly to the thighs in sujood.
The Messenger of Allah (SAW) said: "Let not one of you support himself on his forearms (in sujood) like the dog. Let him rest on his palms and keep his elbows away from his body." (Sahih Muslim). The Messenger of Allah (SAW) used to keep his arms away from his body during rukoo' and sujood that the whiteness of his armpits could be seen (Sahih Muslim).
3.Gazing upward during prayer.
This may cause loss of concentration. We are commanded to lower our gaze, and look at the point at which the head rests during sujood. The Prophet (SAW) warned: "Let those who raise their gaze up during prayer stop doing so, or else their sights would not return to them. [i.e. Lose their eyesight]. " ( Muslim)
4.Resting only the tip of the head on the floor during sujood.
The Prophet (SAW) said: "I am commanded to prostrate on seven bones the forehead and the nose, the two hands [palms],the two knees, and the two feet." (Sahih Muslim) Applying the above command necessitates resting the forehead and the nose on the ground during sujood.
5.Hasty performance of prayer which does not allow repose and calmness in rukoo' or sujood.
The Messenger of Allah (SAW) saw a man who did not complete his rukoo' [bowing], and made a very short sujood [prostration] ;he(SAW) said: "If this man dies while praying in this manner, he would die upholding a religion other than the religion of Muhammad." Abu Hurairah (RA) said:"My beloved friend, Muhammad (SAW) forbade me to perform postures of prayer copying the picking of a rooster; (signifying fast performance of prayer), moving eyes around like a fox and the sitting like monkeys (i.e. to sit on thighs)." (Imam Ahmad & at-Tayalisi) . The Messenger of Allah (SAW) said:?"The worst thief is the one who steals from his own prayer."?People asked, 'Messenger of Allah! How could one steal from his own prayer?' He(SAW) said: "By not completing its rukoo' and sujood."(At- Tabarani & al-Hakim). To complete rukoo' is to stay in that posture long enough to recite 'subhana rabbiyal Adtheem' three times, SLOWLY, and'subhana rabbiyal-a'ala' three times, SLOWLY, in sujood. He (SAW) also announced: "He who does not complete his rukoo' and sujood, his prayer is void." (Abu Dawood & others)
6.Counting tasbeeh with the left hand.
The Prophet (SAW) used to count tasbeeh on the fingers of his Right hand after salah. lbn Qudamah (RA) said:?"The Messenger of Allah (SAW) used his right hand for tasbeeh." ( Abu Dawud) The above hadeeth indicates clearly that the Prophet (SAW) used only one hand for counting tasbeeh.?No Muslim with sound mind would imagine that the Prophet (SAW)?used his left hand for counting tasbeeh. Aa'ishah (RA) said that the Prophet (SAW)used his left hand only for Istinjaa', or cleaning himself after responding to the call of nature.?He never used it for tasbeeh. Yasirah (RA) reported:?The Prophet(SAW) commanded women to count Tasbeeh on their fingers. The Messenger of Allah (SAW) said:?"They (the fingers) will be made to speak, and will be questioned (on the Day of Resurrection. )" (At-Tirmithi) The above hadeeth indicates that it is preferable to count tasbeeh on the fingers of the right hand than to do so on masbahah(rosary) .
7.Crossing in front of a praying person.
The Messenger of Allah (SAW) warned:?"Were the one who crosses in front of a praying person to know the consequences of doing so, he would have waited for *forty better than to cross in front of him." (Sahih Bukhari and Muslim).*The forty in the tradition may be days months or even years. Allah knows best.
نمازيوں کے لئے تیس خوشخبریاں
1 نماز تمام اعمال میں افضل ترین ہے:
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((الصلاۃ لوقتھا )) "نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا "(بخاری ومسلم)
2 نمازبندہ اور اس کے رب کے ما بین رابطہ اورتعلق ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا(( إذا صلی أحدکم یناجی ربّہ)) "جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھتا ہے تو اپنے رب سے سرگوشی کررہاہوتا ہے"(بخاری)
3 نما ز دین کا ستون ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا((رأس الأمر الإسلام ,وعمودہ الصلاۃ وذِروۃ سنامہ الجہاد ))"تمام امور کا اصل اسلام ہے ,اور اس کا ستون نماز ہے ,اور اس کی بلندی جہاد ہے "(ترمذی )
4نماز نور ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((الصلوۃ نور))"نماز نور ہے"(مسلم )
5 نماز نفاق سے براء ت ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا : ((ليس صلاة أثقل على المنافقين من صلاة الفجر والعشاء ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبوا))"منافقين پر فجر اور عشاء کی نمازسے زیادہ گراں کوئی اور نماز نہیں ,اور اگر انھین معلوم ہوجائے کہ ان دونوں نمازوں کے اندر کیا (فضیلت )ہے تو وہ ان دونوں نمازوں کے لئے ضرور آئیں اگر چہ انھین گھٹنوں (یا چوتڑوں) کے بل گھسٹ کرہی کیوں نہ آنا پڑے –(متفق علیہ )
6 نماز آگ سے امان اور بچاؤ ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
((لن یلج النار أحد صلی قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا:يعني الفجر والعصر))"وه شخص نار (جهنم) ميں ہرگز نہیں داخل ہوگا جو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے کی نماز پڑھتا رہا –یعنی فجر اور عصر کی نماز" (مسلم)
7 نماز بے حیائی اور منکر (ناشائستہ ) باتوں سے روکتی ہے :
فرمان الہی ہے :﴿ {اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ } "جو كتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اورنماز قائم کریں ,یقیناً نماز بے حیائی اوربرائی سے روکتی ہے –(سورۃ العنکبوت :45)
8نماز اهم كاموں میں مددگار ہے :
فرمان باري تعالي ہے : {{وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ } " تم لوگ صبرا ور نماز کے ذریعہ مدد حاصل کرو –(سورۃ البقرۃ 45)
9 نماز باجماعت ,تنہا نماز پڑھنے سے افضل ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((صلاۃ الجماعۃ أفضل من صلاۃ الفذِّ بسبع وعشرین درجۃ))
نماز باجماعت ,تنہا پڑھی جانے والی نماز سے ستائیس درجہ افضل ہے –(متفق علیہ )
10 نمازی کیلئے فرشتے رحمت ومغفرت کی دعا کرتے ہیں :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((الملائکۃ تصلی على أحدکم مادام فی مصلاہ الذی صلی فیہ مالم یحدث ,تقول : اللهم ارحمه))"جب تم ميں سے کوئی شخص اپنی نمازگاہ میں ہوتا ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے ,فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ حدث نہ کرے (یعنی اس کا وضوٹوٹ نہ جائے ) ,وہ کہتے ہیں :اے اللہ! تو اسے بخش دے ,اے اللہ !تو اس پررحم فرما"(متفق علیہ)
11 گناہوں کی مغفرت (معافی ) کی بشارت :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (( من توضأ للصلاۃ ,فأسبغ الوضوء ,ثم مشی إلی الصلاۃ المکتوبۃ فصلاّہا مع الناس أو مع الجماعۃ أو فی المسجد غفراللہ لہ ذنوبہ))" جسنے نماز کیلئے وضو کیا اور کامل وضوکیا ,پھر فرض نماز کے لئے چلا اور لوگوں کے ساتہ باجماعت کے ساتہ یا مسجد میں نماز پڑھی ,تو اللہ تعالى اس کے گناہوں کو بخش دے گا –(مسلم )
12 جسم گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا(( أرایتم لو أن نہرا ً بباب أحدکم یغتسل منہ کل یوم خمس مرّات ,ہل یبقی من درنہ شیی ء؟))قالوا:لا یبقی من درنہ شیئ,قال )فذالک مثل الصلوات الخمس یمحوا اللہ بہن الخطایا ))
"تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تم میں سے کسی شخص کے دروازہ پر ایک نہر ہو جس میں وہ ہرروز پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو, کیااس کے جسم میں کچہ میل کچیل باقی رہے گا ؟صحابہ نے جواب دیا اس کا کچہ بھی میل کچیل باقی نہیں رہے گا ,آپ نے فرمایا :بالكل يهي مثال پنج وقتہ نمازوں کی ہے کہ ان کےذریعہ اللہ تعالى گناہوں کو مٹا دیتا ہے "(متفق علیہ)
13 جنت میں ضیافت( مہمان داری )تیار کرنے کی بشارت:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((من غدا إلي المسجد أو راح ,أعد الله له في الجنة نُزُلا,كلما غدا أوراح ))"جوشخص صبح کے وقت یا شام کے وقت مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالى اس کے لئے جنت میں ضیافت تیار کرتا ہے جب بھی وہ صبح یا شام کے وقت جاتا ہے "(متفق علیہ )
14 مسجد كي طرف جانے میں ایک قدم پر ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور دوسرے قدم پر ایک درجہ بلند ہوتا ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((من تطهر في بيته ,ثم مضى ‘إلي بيت من بيوت الله ‘ليقضي فريضة من فرائض الله ‘كانت خطواته إحداها تحط خطيئة والأخرى ترفع درجة ))" جس نےاپنے گھر میں طہارت حاصل کی ,پھر اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر کا رخ کیا تاکہ اللہ کے فرائض میں سے کسی فرض نماز کی ادائیگی کرے ,تو اسکا ایک قدم ایک گناہ کو مٹاتا ہے اور دوسرا قدم ایک درجہ کو بلند کرتا ہے "(مسلم)
15 نماز کی طرف جلدی آنےوالوں کے لئے اجر عظیم کی بشارت :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((لو يعلم الناس ما في النداءوالصف الأول ‘ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا عليه ‘ولو يعلمون ما في التهجير لاستهموا إليه )"اگرلوگوں کو پتہ چل جائے کہ اذان کہنے اور پہلی صف میں نماز پڑھنے کا کیا اجروثواب اور فضیلت ہے ,پھروہ اس پر قرعہ اندازی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ پائیں تو وہ ضرور اس پر قرعہ اندازی کریں گے ,اور اگر انھیں پتہ چل جائے کہ نماز کی طرف جلدی آنے میں کیا اجروثواب ہےتو وہ اس کی طرف ضرور سبقت کریں گے "(متفق علیہ )
16 نماز کا انتظار کرنے والا برابر نماز کی حالت میں ہوتا ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا((لايزال أحدكم في صلاة ما دامت الصلاة تحبسه ‘لايمنعه أن ينقلب إلى أهله إلا الصلاة ))"تم ميں سے کوئی شخص مسلسل نماز کی حالت میں ہوتا ہے جب تک نمازاسے روکے رہتی ہے , اسے اپنے گھر واپس لوٹنے سے مانع صرف نماز ہوتی ہے "(متفق علیہ )
17 جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی اس کے سابقہ گناہ معاف کردئے جائیں گے :
أپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إذا قال أحدكم آمين وقالت الملائكة في السماء آمين فوافقت إحداهما الأخرى غفر له ما تقدم من ذنبه )) جب تم میں سے کوئی شخص آمین کہے, اور آسمان میں فرشتے بھی آمین کہیں, اور ایک کی آمین دوسرے کے آمین کہنے کے موافق ہوجائے (دونوں آمین بیک وقت ہوں ) ,تو اسکے گزشتہ گناہ معاف کردئیےجائیں گے (متفق علیہ )
18 اللہ عزوجل کے حفظ وامان کی بشارت :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((من صلى الصبح فهو في ذمة الله, فانظر يابن آدم !لايطلبنك الله من ذمته بشيء))" جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ تعالى کے ذمہ داری وپناہ میں ہے ,لہذا اے ابن آدم !دیکھ کہیں اللہ تعالى تجہ سے اپنے ذمہ میں سے کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے "(مسلم )
19 قیامت کے دن مکمل نور کی بشارت :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( بشّر المشّائين في الظلم إلى المساجد بالنّورالتام يوم القيامة ))" تاریکی میں مسجدوں کی طرف جانے والوں کو قیامت کے دن مکمل نور کی خوشخبری دے دو "(ابوداود ,ترمذی)
20 باجماعت فجر اور عصر کی نماز پابندی کرنے والوں کو جنت کی بشارت :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((من صلى البردين دخل الجنّة ))" جوشخص دو ٹھنڈی نمازیں (یعنی فجر اور عصر ) پڑھتا رہا وہ جنت میں داخل ہوگأ ) (متفق علیہ )
21 پل صراط پار کرکے جنت میں پہنچنے کی بشارت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((المسجد بيت كل تقي,وتكفل الله لمن كان المسجد بيته بالرَّوح والرحمة ,والجواز على الصراط إلى رضوان الله إلى الجنة))"مسجد ہر متقی وپرہیزگار کا گھر ہے ,اور اس شخص کیلئے جس کا گھر مسجد ہو , اللہ تعالى نے راحت ورحمت اور پل صراط پار کرکے اللہ تعالى کی رضا مندی یعنی جنت میں پہنچنے کی ضمانت ہے "(طبرانی ,علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح قراردیا ہے )
22* نمازاس کی پابندی کرنے والے کیلئے قیامت کے دن نجات کا باعث ہوگا :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ((من حافظ عليها كانت له نوراوبرهانا ونجاة يوم القيامة ,ومن لم يحافظ عليها لم يكن له نور ,ولا برهان ولانجاة ,وكان يوم القيامة مع قارون وفرعون وهامان وأبي بن خلف ))"جس نے نما ز کی حفاظت اورنگہداشت کی اس کے لئے نماز قیامت کے دن نور,دلیل اورنجات کا باعث ہوگی ,اور جس نے اسکی پابندی نہیں کی اس کیلئے نہ کوئی نور ہوگا ,نہ دلیل ہوگی اورنہ ہی کوئی نجات کا ذریعہ ہوگا ,اور وہ قیامت کے دن قارون ,فرعون ,ہامان اور ابی بن خلف کے ساتہ ہوگا "(مسند احمد ,دارمی )
23* نماز گناہوں کے لئے کفارہ ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ((الصلوات الخمس ,والجمعة إلي الجمعة ,ورمضان إلي رمضان مكفرات ما بينهن ’إذا اجتنبت الكبائز)) " پانچ وقت کی نمازیں ,ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک, اورایک رمضان دوسرے رمضان تک ان کے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کیلئے کفارہ ہے ,بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے" (مسلم )
24* نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنت میں داخل ہونے کے عظیم ترین اسباب میں سے ہے :
ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتہ رات گزارتا تھا,اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی لاتا, اور آپ کی حاجت کو سر انجام دیا کرتا تھا تو آپ نے مجہ سے فرمایا :"مانگو" تو میں نے کہا ":میں جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ,آپ نے فرمایا :"کیا اس کے علاوہ اور کوئی مانگ ہے ؟"میں نے کہا :صرف وہی ,آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"فأعني على نفسك بكثرة السجود ))
"كثرت سجود (يعني زياده سے زیادہ نفلى نمازوں ) کے ذریعہ اپنے نفس پر میری مدد کرو" (مسلم )
25* نماز کی وجہ سے اللہ تعالى دو نمازوں کے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کو معاف کردیتا ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((لا يتوضأ رجل مسلم فيحسن الوضوء ,فيصلى صلاة إلا غفر الله له ما بينه وبين الصلاة التي تليها ))
" جو مسلمان آدمی وضو کرتا ہے اور خوب اچھی طرح وضو کرتا ہے ,پھر کوئی نماز ادا کرتا ہے تو اللہ تعالى اس کی نماز اور اس کے بعد والی نماز کے ما بین سرزد ہونے والے گناہوں کو بخش دیتا ہے "(مسلم )
26* اس کے گزشتہ گناہ معاف کردئے جاتے ہیں :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((ما من أمر یءٍ مسلم تحضرہ صلاۃ مکتوبۃ ,فیحسن وضوءہا وخشوعہا ,ورکوعہاإلا کانت کفارۃ لما قبلہا من الذنوب , مالم یأت کبیرۃ , وذالک الدھر کلہ )) "جوبھی مسلمان آدمی کسی فرض نماز کے وقت کو پاتا ہے ,پھر اس کے لئے خوب اچھی طرح وضو کرتا ہے ,اس کے اندر خشوع وخضوع کا اہتمام کرتا اور اسکے رکوع کو مکمل کرتا ہے تو یہ نماز اس کے گزشتہ گناہوں کیلئے کفارہ بن جائے گی , جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گنا ہ کا ارتکاب نہ کرے ,اوریہ زندگی بھر ہوتا رہتا ہے "(مسلم )
27* نماز کا انتظار کرنا اللہ کے راستہ میں رباط ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :ألا أدلكم على ما يمحوالله به الخطايا ويرفع به الدرجات ؟قالوا: بلى يارسول الله ,قال : (( إسباغ الوضوء على المكاره ,وكثرة الخطا إلى المساجد , وانتظار الصلاة بعد الصلاة , فذالكم الرباط ,فذالكم الرباط ))" کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جس کے ذریعہ اللہ گناہوں کو معاف کردیتا ہے اوردرجات کو بلند کردیتا ہے ؟صحابہ نے کہا :اے اللہ کے رسول !کیوں نہیں ,آپ نے فرمایا :"((سردی یا بیماری میں ) کراہت وناپسندیدگی کے باوجود مکمل طور پر وضو کرنا ,مسجدوں کیطرف قدموں کی کثرت اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ,یہی رباط ہے ,یہی رباط ہے "(مسلم ) [رباط کا مطلب ہے : ( دشمنوں سے حفاظت کے لئے سرحد کی پھرہ داری کرنا ).
28* نماز كي طرف جانا محرم حاجي كے اجروثواب کےمانند ہے :
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( من خرج من بيته متطهرا إلى صلاة مكتوبة فأجره كأجر الحاج المحرم , ومن خرج إلي تسبيح الضحى لا ينصِبه إلا إياه فأجره كأجرالمعتمر,وصلاة على إثر صلاة لا لغو بينهما كتاب في عليين))
"جوشخص اپنے گھر سےبا وضو ہوکر کسی فرض نماز کے لئے نکلا تو اس کا اجر محرم حاجی کے اجروثواب کے مانند ہے ,اور جو شخص چاشت کی نماز کے لئے نکلا ,اسے صرف وہی نماز تھکاتی ہے تو اسکا اجر عمرہ کرنے والے کے اجرکے مانند ہے , اورایک نماز کے بعد دوسری نمازجس کے درمیان لغونہ ہو وہ علیین میں لکھا جاتا ہے " (ابوداود)
29* جوشخص نماز سے مسبوق ہوگیا اور وہ نمازیوں میں سے ہے تو اس کے لئے نماز باجماعت میں حاضر ہونے والوں کے مثل اجروثواب ہوگا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (( من توضأ فأحسن الوضوء ثم راح فوجد الناس قد صلوا أعطاہ اللہ – عزوجل – مثل أجر من صلاہا وحضرہا لا ینقص ذلک من أجرھم شیئا ))" جس شخص نے وضو کیا اورخوب اچھی طرح وضو کیا ,پھر نماز کیلئے گیا تو لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں ,تو اللہ تعالى اسے ان لوگوں کے مثل اجروثواب عطا فرمائے گا جنہوں نے وہ نماز جماعت کے ساتہ پڑھی ہے ,اور اس سے ان کے اجروثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی –(صحیح ابوداود)
30* جب آدمی باوضو ہو کر نماز کیلئے نکلتا ہے تو وہ واپس لوٹنے تک مسلسل نماز کی حالت میں ہوتا ہے :
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((إذا توضأ احدکم فی بیتہ ثم أتى المسجد کا ن فی صلاۃ حتى یرجع فلا یفعل: هكذا ) وشبك بين اصابعه –"جب تم ميں سے کوئی شخص اپنے گھر میں وضو کرے ,پھر مسجد میں آئے تو وہ واپس لوٹنے تک نماز ہی کی حالت میں ہوتا ہے ,لہذا وہ ایسا نہ کرے –آپ نے اپنی انگلیوں کے درمیان تشبیک ( ایک ہاتہ کی انگلیوں کو دورسرے ہاتہ کی انگلیوں میں داخل ) کیا (یعنی کوئی عبث اور لغو کا م نہ کرے ) .(صحیح ابن خزیمہ )
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((الصلاۃ لوقتھا )) "نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا "(بخاری ومسلم)
2 نمازبندہ اور اس کے رب کے ما بین رابطہ اورتعلق ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا(( إذا صلی أحدکم یناجی ربّہ)) "جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھتا ہے تو اپنے رب سے سرگوشی کررہاہوتا ہے"(بخاری)
3 نما ز دین کا ستون ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا((رأس الأمر الإسلام ,وعمودہ الصلاۃ وذِروۃ سنامہ الجہاد ))"تمام امور کا اصل اسلام ہے ,اور اس کا ستون نماز ہے ,اور اس کی بلندی جہاد ہے "(ترمذی )
4نماز نور ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((الصلوۃ نور))"نماز نور ہے"(مسلم )
5 نماز نفاق سے براء ت ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا : ((ليس صلاة أثقل على المنافقين من صلاة الفجر والعشاء ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبوا))"منافقين پر فجر اور عشاء کی نمازسے زیادہ گراں کوئی اور نماز نہیں ,اور اگر انھین معلوم ہوجائے کہ ان دونوں نمازوں کے اندر کیا (فضیلت )ہے تو وہ ان دونوں نمازوں کے لئے ضرور آئیں اگر چہ انھین گھٹنوں (یا چوتڑوں) کے بل گھسٹ کرہی کیوں نہ آنا پڑے –(متفق علیہ )
6 نماز آگ سے امان اور بچاؤ ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
((لن یلج النار أحد صلی قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا:يعني الفجر والعصر))"وه شخص نار (جهنم) ميں ہرگز نہیں داخل ہوگا جو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے کی نماز پڑھتا رہا –یعنی فجر اور عصر کی نماز" (مسلم)
7 نماز بے حیائی اور منکر (ناشائستہ ) باتوں سے روکتی ہے :
فرمان الہی ہے :﴿ {اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ } "جو كتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اورنماز قائم کریں ,یقیناً نماز بے حیائی اوربرائی سے روکتی ہے –(سورۃ العنکبوت :45)
8نماز اهم كاموں میں مددگار ہے :
فرمان باري تعالي ہے : {{وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ } " تم لوگ صبرا ور نماز کے ذریعہ مدد حاصل کرو –(سورۃ البقرۃ 45)
9 نماز باجماعت ,تنہا نماز پڑھنے سے افضل ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((صلاۃ الجماعۃ أفضل من صلاۃ الفذِّ بسبع وعشرین درجۃ))
نماز باجماعت ,تنہا پڑھی جانے والی نماز سے ستائیس درجہ افضل ہے –(متفق علیہ )
10 نمازی کیلئے فرشتے رحمت ومغفرت کی دعا کرتے ہیں :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((الملائکۃ تصلی على أحدکم مادام فی مصلاہ الذی صلی فیہ مالم یحدث ,تقول : اللهم ارحمه))"جب تم ميں سے کوئی شخص اپنی نمازگاہ میں ہوتا ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے ,فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ حدث نہ کرے (یعنی اس کا وضوٹوٹ نہ جائے ) ,وہ کہتے ہیں :اے اللہ! تو اسے بخش دے ,اے اللہ !تو اس پررحم فرما"(متفق علیہ)
11 گناہوں کی مغفرت (معافی ) کی بشارت :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (( من توضأ للصلاۃ ,فأسبغ الوضوء ,ثم مشی إلی الصلاۃ المکتوبۃ فصلاّہا مع الناس أو مع الجماعۃ أو فی المسجد غفراللہ لہ ذنوبہ))" جسنے نماز کیلئے وضو کیا اور کامل وضوکیا ,پھر فرض نماز کے لئے چلا اور لوگوں کے ساتہ باجماعت کے ساتہ یا مسجد میں نماز پڑھی ,تو اللہ تعالى اس کے گناہوں کو بخش دے گا –(مسلم )
12 جسم گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا(( أرایتم لو أن نہرا ً بباب أحدکم یغتسل منہ کل یوم خمس مرّات ,ہل یبقی من درنہ شیی ء؟))قالوا:لا یبقی من درنہ شیئ,قال )فذالک مثل الصلوات الخمس یمحوا اللہ بہن الخطایا ))
"تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تم میں سے کسی شخص کے دروازہ پر ایک نہر ہو جس میں وہ ہرروز پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو, کیااس کے جسم میں کچہ میل کچیل باقی رہے گا ؟صحابہ نے جواب دیا اس کا کچہ بھی میل کچیل باقی نہیں رہے گا ,آپ نے فرمایا :بالكل يهي مثال پنج وقتہ نمازوں کی ہے کہ ان کےذریعہ اللہ تعالى گناہوں کو مٹا دیتا ہے "(متفق علیہ)
13 جنت میں ضیافت( مہمان داری )تیار کرنے کی بشارت:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((من غدا إلي المسجد أو راح ,أعد الله له في الجنة نُزُلا,كلما غدا أوراح ))"جوشخص صبح کے وقت یا شام کے وقت مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالى اس کے لئے جنت میں ضیافت تیار کرتا ہے جب بھی وہ صبح یا شام کے وقت جاتا ہے "(متفق علیہ )
14 مسجد كي طرف جانے میں ایک قدم پر ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور دوسرے قدم پر ایک درجہ بلند ہوتا ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((من تطهر في بيته ,ثم مضى ‘إلي بيت من بيوت الله ‘ليقضي فريضة من فرائض الله ‘كانت خطواته إحداها تحط خطيئة والأخرى ترفع درجة ))" جس نےاپنے گھر میں طہارت حاصل کی ,پھر اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر کا رخ کیا تاکہ اللہ کے فرائض میں سے کسی فرض نماز کی ادائیگی کرے ,تو اسکا ایک قدم ایک گناہ کو مٹاتا ہے اور دوسرا قدم ایک درجہ کو بلند کرتا ہے "(مسلم)
15 نماز کی طرف جلدی آنےوالوں کے لئے اجر عظیم کی بشارت :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((لو يعلم الناس ما في النداءوالصف الأول ‘ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا عليه ‘ولو يعلمون ما في التهجير لاستهموا إليه )"اگرلوگوں کو پتہ چل جائے کہ اذان کہنے اور پہلی صف میں نماز پڑھنے کا کیا اجروثواب اور فضیلت ہے ,پھروہ اس پر قرعہ اندازی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ پائیں تو وہ ضرور اس پر قرعہ اندازی کریں گے ,اور اگر انھیں پتہ چل جائے کہ نماز کی طرف جلدی آنے میں کیا اجروثواب ہےتو وہ اس کی طرف ضرور سبقت کریں گے "(متفق علیہ )
16 نماز کا انتظار کرنے والا برابر نماز کی حالت میں ہوتا ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا((لايزال أحدكم في صلاة ما دامت الصلاة تحبسه ‘لايمنعه أن ينقلب إلى أهله إلا الصلاة ))"تم ميں سے کوئی شخص مسلسل نماز کی حالت میں ہوتا ہے جب تک نمازاسے روکے رہتی ہے , اسے اپنے گھر واپس لوٹنے سے مانع صرف نماز ہوتی ہے "(متفق علیہ )
17 جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی اس کے سابقہ گناہ معاف کردئے جائیں گے :
أپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إذا قال أحدكم آمين وقالت الملائكة في السماء آمين فوافقت إحداهما الأخرى غفر له ما تقدم من ذنبه )) جب تم میں سے کوئی شخص آمین کہے, اور آسمان میں فرشتے بھی آمین کہیں, اور ایک کی آمین دوسرے کے آمین کہنے کے موافق ہوجائے (دونوں آمین بیک وقت ہوں ) ,تو اسکے گزشتہ گناہ معاف کردئیےجائیں گے (متفق علیہ )
18 اللہ عزوجل کے حفظ وامان کی بشارت :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((من صلى الصبح فهو في ذمة الله, فانظر يابن آدم !لايطلبنك الله من ذمته بشيء))" جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ تعالى کے ذمہ داری وپناہ میں ہے ,لہذا اے ابن آدم !دیکھ کہیں اللہ تعالى تجہ سے اپنے ذمہ میں سے کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے "(مسلم )
19 قیامت کے دن مکمل نور کی بشارت :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( بشّر المشّائين في الظلم إلى المساجد بالنّورالتام يوم القيامة ))" تاریکی میں مسجدوں کی طرف جانے والوں کو قیامت کے دن مکمل نور کی خوشخبری دے دو "(ابوداود ,ترمذی)
20 باجماعت فجر اور عصر کی نماز پابندی کرنے والوں کو جنت کی بشارت :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((من صلى البردين دخل الجنّة ))" جوشخص دو ٹھنڈی نمازیں (یعنی فجر اور عصر ) پڑھتا رہا وہ جنت میں داخل ہوگأ ) (متفق علیہ )
21 پل صراط پار کرکے جنت میں پہنچنے کی بشارت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((المسجد بيت كل تقي,وتكفل الله لمن كان المسجد بيته بالرَّوح والرحمة ,والجواز على الصراط إلى رضوان الله إلى الجنة))"مسجد ہر متقی وپرہیزگار کا گھر ہے ,اور اس شخص کیلئے جس کا گھر مسجد ہو , اللہ تعالى نے راحت ورحمت اور پل صراط پار کرکے اللہ تعالى کی رضا مندی یعنی جنت میں پہنچنے کی ضمانت ہے "(طبرانی ,علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح قراردیا ہے )
22* نمازاس کی پابندی کرنے والے کیلئے قیامت کے دن نجات کا باعث ہوگا :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ((من حافظ عليها كانت له نوراوبرهانا ونجاة يوم القيامة ,ومن لم يحافظ عليها لم يكن له نور ,ولا برهان ولانجاة ,وكان يوم القيامة مع قارون وفرعون وهامان وأبي بن خلف ))"جس نے نما ز کی حفاظت اورنگہداشت کی اس کے لئے نماز قیامت کے دن نور,دلیل اورنجات کا باعث ہوگی ,اور جس نے اسکی پابندی نہیں کی اس کیلئے نہ کوئی نور ہوگا ,نہ دلیل ہوگی اورنہ ہی کوئی نجات کا ذریعہ ہوگا ,اور وہ قیامت کے دن قارون ,فرعون ,ہامان اور ابی بن خلف کے ساتہ ہوگا "(مسند احمد ,دارمی )
23* نماز گناہوں کے لئے کفارہ ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ((الصلوات الخمس ,والجمعة إلي الجمعة ,ورمضان إلي رمضان مكفرات ما بينهن ’إذا اجتنبت الكبائز)) " پانچ وقت کی نمازیں ,ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک, اورایک رمضان دوسرے رمضان تک ان کے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کیلئے کفارہ ہے ,بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے" (مسلم )
24* نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنت میں داخل ہونے کے عظیم ترین اسباب میں سے ہے :
ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتہ رات گزارتا تھا,اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی لاتا, اور آپ کی حاجت کو سر انجام دیا کرتا تھا تو آپ نے مجہ سے فرمایا :"مانگو" تو میں نے کہا ":میں جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ,آپ نے فرمایا :"کیا اس کے علاوہ اور کوئی مانگ ہے ؟"میں نے کہا :صرف وہی ,آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"فأعني على نفسك بكثرة السجود ))
"كثرت سجود (يعني زياده سے زیادہ نفلى نمازوں ) کے ذریعہ اپنے نفس پر میری مدد کرو" (مسلم )
25* نماز کی وجہ سے اللہ تعالى دو نمازوں کے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کو معاف کردیتا ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((لا يتوضأ رجل مسلم فيحسن الوضوء ,فيصلى صلاة إلا غفر الله له ما بينه وبين الصلاة التي تليها ))
" جو مسلمان آدمی وضو کرتا ہے اور خوب اچھی طرح وضو کرتا ہے ,پھر کوئی نماز ادا کرتا ہے تو اللہ تعالى اس کی نماز اور اس کے بعد والی نماز کے ما بین سرزد ہونے والے گناہوں کو بخش دیتا ہے "(مسلم )
26* اس کے گزشتہ گناہ معاف کردئے جاتے ہیں :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((ما من أمر یءٍ مسلم تحضرہ صلاۃ مکتوبۃ ,فیحسن وضوءہا وخشوعہا ,ورکوعہاإلا کانت کفارۃ لما قبلہا من الذنوب , مالم یأت کبیرۃ , وذالک الدھر کلہ )) "جوبھی مسلمان آدمی کسی فرض نماز کے وقت کو پاتا ہے ,پھر اس کے لئے خوب اچھی طرح وضو کرتا ہے ,اس کے اندر خشوع وخضوع کا اہتمام کرتا اور اسکے رکوع کو مکمل کرتا ہے تو یہ نماز اس کے گزشتہ گناہوں کیلئے کفارہ بن جائے گی , جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گنا ہ کا ارتکاب نہ کرے ,اوریہ زندگی بھر ہوتا رہتا ہے "(مسلم )
27* نماز کا انتظار کرنا اللہ کے راستہ میں رباط ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :ألا أدلكم على ما يمحوالله به الخطايا ويرفع به الدرجات ؟قالوا: بلى يارسول الله ,قال : (( إسباغ الوضوء على المكاره ,وكثرة الخطا إلى المساجد , وانتظار الصلاة بعد الصلاة , فذالكم الرباط ,فذالكم الرباط ))" کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جس کے ذریعہ اللہ گناہوں کو معاف کردیتا ہے اوردرجات کو بلند کردیتا ہے ؟صحابہ نے کہا :اے اللہ کے رسول !کیوں نہیں ,آپ نے فرمایا :"((سردی یا بیماری میں ) کراہت وناپسندیدگی کے باوجود مکمل طور پر وضو کرنا ,مسجدوں کیطرف قدموں کی کثرت اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ,یہی رباط ہے ,یہی رباط ہے "(مسلم ) [رباط کا مطلب ہے : ( دشمنوں سے حفاظت کے لئے سرحد کی پھرہ داری کرنا ).
28* نماز كي طرف جانا محرم حاجي كے اجروثواب کےمانند ہے :
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( من خرج من بيته متطهرا إلى صلاة مكتوبة فأجره كأجر الحاج المحرم , ومن خرج إلي تسبيح الضحى لا ينصِبه إلا إياه فأجره كأجرالمعتمر,وصلاة على إثر صلاة لا لغو بينهما كتاب في عليين))
"جوشخص اپنے گھر سےبا وضو ہوکر کسی فرض نماز کے لئے نکلا تو اس کا اجر محرم حاجی کے اجروثواب کے مانند ہے ,اور جو شخص چاشت کی نماز کے لئے نکلا ,اسے صرف وہی نماز تھکاتی ہے تو اسکا اجر عمرہ کرنے والے کے اجرکے مانند ہے , اورایک نماز کے بعد دوسری نمازجس کے درمیان لغونہ ہو وہ علیین میں لکھا جاتا ہے " (ابوداود)
29* جوشخص نماز سے مسبوق ہوگیا اور وہ نمازیوں میں سے ہے تو اس کے لئے نماز باجماعت میں حاضر ہونے والوں کے مثل اجروثواب ہوگا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (( من توضأ فأحسن الوضوء ثم راح فوجد الناس قد صلوا أعطاہ اللہ – عزوجل – مثل أجر من صلاہا وحضرہا لا ینقص ذلک من أجرھم شیئا ))" جس شخص نے وضو کیا اورخوب اچھی طرح وضو کیا ,پھر نماز کیلئے گیا تو لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں ,تو اللہ تعالى اسے ان لوگوں کے مثل اجروثواب عطا فرمائے گا جنہوں نے وہ نماز جماعت کے ساتہ پڑھی ہے ,اور اس سے ان کے اجروثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی –(صحیح ابوداود)
30* جب آدمی باوضو ہو کر نماز کیلئے نکلتا ہے تو وہ واپس لوٹنے تک مسلسل نماز کی حالت میں ہوتا ہے :
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((إذا توضأ احدکم فی بیتہ ثم أتى المسجد کا ن فی صلاۃ حتى یرجع فلا یفعل: هكذا ) وشبك بين اصابعه –"جب تم ميں سے کوئی شخص اپنے گھر میں وضو کرے ,پھر مسجد میں آئے تو وہ واپس لوٹنے تک نماز ہی کی حالت میں ہوتا ہے ,لہذا وہ ایسا نہ کرے –آپ نے اپنی انگلیوں کے درمیان تشبیک ( ایک ہاتہ کی انگلیوں کو دورسرے ہاتہ کی انگلیوں میں داخل ) کیا (یعنی کوئی عبث اور لغو کا م نہ کرے ) .(صحیح ابن خزیمہ )
100 Questions/Answers on Holy Quran
Q) What is the meaning of the word "Qur''an"?
A) That which is Read.
Q) Where was the Qur''an revealed first?
A) In the cave of Hira (Makkah)
Q) On which night was the Qur''an first revealed?
A) Lailatul-Qadr (Night of the Power) 26th RAMAZAN NIGHT
Q) Who revealed the Qur''an?
A) Allah revealed the Qur''an
Q) Through whom was the Qur''an revealed?
A) Through Angel Jibraeel (Alaihis-Salaam)
Q) To whom was the Qur''an revealed?
A) To the last Prophet Muhammed (Sallahu Alaihi Wasallam)
Q) Who took the responsibility of keeping the Qur''an safe?
A) Allah himself
Q) What are the conditions for holding or touching the Qur''an?
A) One has to be clean and to be with wudhu (ablution)
Q) Which is the book which is read most?
A) The Qur''an
Q) What is the topic of the Qur''an?
A) Man
Q) What are the other names of the Qur''an according to the Qur''an itself?
A) Al-Furqaan, Al-Kitaab, Al-Zikr, Al-Noor, Al-Huda
Q) How many Makki Surahs (chapters) are there in the Qur''an?
A) 86
Q) How many Madani Surahs (chapters) are there in the Qur''an?
A) 28
Q) How many Manzils (stages) are there in the Qur''an?
A)7
Q) How many Paara or Juz (parts) are there in the Qur''an?
A) 30
Q) How many Surahs (chapters) are there in the Qur''an?
A) 114
Q) How many Rukoo (paragraphs) are there in the Qur''an?
A) 540
Q) How many Aayaath (verses) are there in the Qur''an?
A) 6666
Q) How many times is the word ''Allah'' repeated in the Qur''an?
A) 2698
Q) How many different types of Aayaath (verses) are there in the Qur''an?
A) 10
Q) Who is the first ''Haafiz'' of the Qur''an?
A) Prophet Muhammed (Sallalahu Alaihi Wasallam)
Q) At the time of the death of Prophet Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) how many Huffaz were there?
A) 22
Q) How many Aayaaths (verses) on Sajda (prostation) are there in the Qur''an?
A) 14
Q) In which Paara (part) and Surah (chapter) do you find the first verse about Sajda (prostation) ?
A) The 9th Paara, 7th Chapter-Surah- al-Araaf, Verse206
Q) How many times has the Qur''an stressed about Salaat or Namaaz (prayer)?
A) 700 times
Q) How many times has the Qur''an emphasized on alms or charity?
A) 150
Q) How many times in the Qur''an, is the Prophet Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) addressed as Yaa-Aiyu-Han- Nabi?
A)11 times
Q) Where in the Qur''an has Prophet Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) been named ''Ahmed''?
A)Paara 28, Surah Saff, Ayath 6
Q) How many times has the name of Rasool-ullah (Sallallahu Alaihi Wasallam) been mentioned in the Qur''an?
A) Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) - 4 times Ahmed (Sallallahu Alaihi Wasallam) - 1 time.
Q) Name the Prophet whose name is mentioned and discussed most in the Qur''an?
A) Moosa (Alahis-Salaam)
Q) Who were the Kaathibe-Wahi (copyists of the revelations) of the Qur''an?
A) Abu Bakr (Radhiallahu Anhu), Usman (Radhiallahu Anhu), Ali (Radhiallahu Anhu), Zaid Bin Harith (Radhiallahu Anhu) And Abdullah bin Masood (Radhiallahu Anhu)
Q) Who was the first person who counted the Aayaath (verses) of the Qur''an?
A) Ayesha (Radhiallahu Anha)
Q) On whose advice did Abu Bakr (Radhiallahu Anhu) decide to compile the Qur''an?
A) Omer Farooq (Radhiallahu Anhu)
Q) On whose order was the Qur''an compiled completely in written form?
A) Abu Bakr (Radhiallahu Anhu)
Q) Who confined the recitation of the Qur''an on the style of the Quraysh tribe?
A) Usman (Radhiallahu Anhu)
Q) Out of the copies of ey at present?
A) Only 2 copies. One in Tashkent and the other in Istanbul .
Q) Which Surah of the Qur''an was Prophet Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) reciting while praying, that Hazrat Jabeer Bin Muth''im Listened to and embraced Islam?
A) Surah Thoor
Q) Which was that Surah of the Qur''an which the Prophet Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) had recited when one of his enemies Utba after listening to it fell in Sajda (prostation) ?
A) The first five Ayaaths of Ham-Meem-Sajda
Q) Which is the first and the most ancient Mosque according to the Qur''an?
A) Kaaba.
Q) In Qur''an mankind is divided into two groups. Which are those two groups?
A) Believers and disbelievers.
Q) Who is the man about whom, Allah has said in the Qur''an that his body is kept as an admonishing example for future generations to come?
A) Fir''aun. (Pharaoh)
Q) Besides the body of Pharaoh, what is that thing which is kept as an admonishing example for future generations to come?
A )Noah''s Ark.
Q) After the wreckage of Prophet Noah''s Ark , which is its place of rest mentioned in the Qur''an?
A) Cave of Judi .
Q) In the Qur''an the name of which companion of Prophet Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) is mentioned?
A) Zaid Bin Harith.
Q) Who is the relative of the Prophet Muahmmed (Sallallahu Alaihi Wasallam) whose name is mentioned in the Qur''an?
A) Abu Lahab
Q) In the Qur''an there is a mention of a Prophet who has been called by his mother''s name. Who was he?
A) Jesus Prophet (Isa Alahis salaam) is mentioned as bin Maryam.
Q) Which was the agreement that was titled Fath-hum-Mubeen' ' without fighting a battle?
A) Treaty of Hudaibiya.
Q) What are the different names used for Satan or Devil in the Qur''an?
A) Iblees and Ash-Shaitaan.
Q) Which category of creature does the Qur''an put ''Iblees'' into?
A) Jinn.
Q) What were those worships and prayers that were ordered by Allah to the community of Bani Israeel and which were continued by the Muslim Ummah also?
A) Salaat and Zakaat. (Al-Baqarah: 43)
Q) The Qur''an repeatedly warns of a certain day. Can you say which day it is?
A) Youmal Qiyamah. (Doomsday)
Q) Who were those people with whom Allah was pleased and they were pleased with Him, as mentioned in the Qur''an?
A) Companions of Prophet Muhammed. (Sallallahu Alaihi Wasallam)
Q) In which Holy Book of Non-Muslims the Qur''an mentioned repeatedly?
A) In the Holy Book of Sikh Community-Granth Saheb.
Q) In which year were the vowels inserted in the Qur''an?
A) 43 Hijri.
Q) Who were the first serious students of the Qur''an? A) As-haabus Suffah.
Q) Which is the first Residential University where the faculty of the Qur''an was established for the first time?
A) Masjid-e-Nabvi. Mosque of the Prophet (Sallallahu Alaihi Wasallam)
Q) By what name did the Qur''an address those noble and pious people who were selected by Allah to convey His message to mankind?
A) Nabi (Prophet) and Rasool (Messenger).
Q) What type of a person does the Qur''an want to make?
A) A Momin.
Q) What is the scale or measure of one''s dignity according to the Qur''an?
A) Thaqwa. (Piety)
Q) What according to the Qur''an is the root cause of the evil?
A) Alcohol.
Q) What are the two most important types of kinds of Aayaaths (Verses) found in the Qur''an?
A) Muhakamaat and Muthashabihaath.
Q) Which is the longest Surah (Chapter) in the Qur''an?
A) Surah-al-Baqarah.
Q) Which is the smallest Surah in the Qur''an?
A) Surah-al-Kausar.
A) That which is Read.
Q) Where was the Qur''an revealed first?
A) In the cave of Hira (Makkah)
Q) On which night was the Qur''an first revealed?
A) Lailatul-Qadr (Night of the Power) 26th RAMAZAN NIGHT
Q) Who revealed the Qur''an?
A) Allah revealed the Qur''an
Q) Through whom was the Qur''an revealed?
A) Through Angel Jibraeel (Alaihis-Salaam)
Q) To whom was the Qur''an revealed?
A) To the last Prophet Muhammed (Sallahu Alaihi Wasallam)
Q) Who took the responsibility of keeping the Qur''an safe?
A) Allah himself
Q) What are the conditions for holding or touching the Qur''an?
A) One has to be clean and to be with wudhu (ablution)
Q) Which is the book which is read most?
A) The Qur''an
Q) What is the topic of the Qur''an?
A) Man
Q) What are the other names of the Qur''an according to the Qur''an itself?
A) Al-Furqaan, Al-Kitaab, Al-Zikr, Al-Noor, Al-Huda
Q) How many Makki Surahs (chapters) are there in the Qur''an?
A) 86
Q) How many Madani Surahs (chapters) are there in the Qur''an?
A) 28
Q) How many Manzils (stages) are there in the Qur''an?
A)7
Q) How many Paara or Juz (parts) are there in the Qur''an?
A) 30
Q) How many Surahs (chapters) are there in the Qur''an?
A) 114
Q) How many Rukoo (paragraphs) are there in the Qur''an?
A) 540
Q) How many Aayaath (verses) are there in the Qur''an?
A) 6666
Q) How many times is the word ''Allah'' repeated in the Qur''an?
A) 2698
Q) How many different types of Aayaath (verses) are there in the Qur''an?
A) 10
Q) Who is the first ''Haafiz'' of the Qur''an?
A) Prophet Muhammed (Sallalahu Alaihi Wasallam)
Q) At the time of the death of Prophet Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) how many Huffaz were there?
A) 22
Q) How many Aayaaths (verses) on Sajda (prostation) are there in the Qur''an?
A) 14
Q) In which Paara (part) and Surah (chapter) do you find the first verse about Sajda (prostation) ?
A) The 9th Paara, 7th Chapter-Surah- al-Araaf, Verse206
Q) How many times has the Qur''an stressed about Salaat or Namaaz (prayer)?
A) 700 times
Q) How many times has the Qur''an emphasized on alms or charity?
A) 150
Q) How many times in the Qur''an, is the Prophet Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) addressed as Yaa-Aiyu-Han- Nabi?
A)11 times
Q) Where in the Qur''an has Prophet Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) been named ''Ahmed''?
A)Paara 28, Surah Saff, Ayath 6
Q) How many times has the name of Rasool-ullah (Sallallahu Alaihi Wasallam) been mentioned in the Qur''an?
A) Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) - 4 times Ahmed (Sallallahu Alaihi Wasallam) - 1 time.
Q) Name the Prophet whose name is mentioned and discussed most in the Qur''an?
A) Moosa (Alahis-Salaam)
Q) Who were the Kaathibe-Wahi (copyists of the revelations) of the Qur''an?
A) Abu Bakr (Radhiallahu Anhu), Usman (Radhiallahu Anhu), Ali (Radhiallahu Anhu), Zaid Bin Harith (Radhiallahu Anhu) And Abdullah bin Masood (Radhiallahu Anhu)
Q) Who was the first person who counted the Aayaath (verses) of the Qur''an?
A) Ayesha (Radhiallahu Anha)
Q) On whose advice did Abu Bakr (Radhiallahu Anhu) decide to compile the Qur''an?
A) Omer Farooq (Radhiallahu Anhu)
Q) On whose order was the Qur''an compiled completely in written form?
A) Abu Bakr (Radhiallahu Anhu)
Q) Who confined the recitation of the Qur''an on the style of the Quraysh tribe?
A) Usman (Radhiallahu Anhu)
Q) Out of the copies of ey at present?
A) Only 2 copies. One in Tashkent and the other in Istanbul .
Q) Which Surah of the Qur''an was Prophet Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) reciting while praying, that Hazrat Jabeer Bin Muth''im Listened to and embraced Islam?
A) Surah Thoor
Q) Which was that Surah of the Qur''an which the Prophet Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) had recited when one of his enemies Utba after listening to it fell in Sajda (prostation) ?
A) The first five Ayaaths of Ham-Meem-Sajda
Q) Which is the first and the most ancient Mosque according to the Qur''an?
A) Kaaba.
Q) In Qur''an mankind is divided into two groups. Which are those two groups?
A) Believers and disbelievers.
Q) Who is the man about whom, Allah has said in the Qur''an that his body is kept as an admonishing example for future generations to come?
A) Fir''aun. (Pharaoh)
Q) Besides the body of Pharaoh, what is that thing which is kept as an admonishing example for future generations to come?
A )Noah''s Ark.
Q) After the wreckage of Prophet Noah''s Ark , which is its place of rest mentioned in the Qur''an?
A) Cave of Judi .
Q) In the Qur''an the name of which companion of Prophet Muhammed (Sallallahu Alaihi Wasallam) is mentioned?
A) Zaid Bin Harith.
Q) Who is the relative of the Prophet Muahmmed (Sallallahu Alaihi Wasallam) whose name is mentioned in the Qur''an?
A) Abu Lahab
Q) In the Qur''an there is a mention of a Prophet who has been called by his mother''s name. Who was he?
A) Jesus Prophet (Isa Alahis salaam) is mentioned as bin Maryam.
Q) Which was the agreement that was titled Fath-hum-Mubeen' ' without fighting a battle?
A) Treaty of Hudaibiya.
Q) What are the different names used for Satan or Devil in the Qur''an?
A) Iblees and Ash-Shaitaan.
Q) Which category of creature does the Qur''an put ''Iblees'' into?
A) Jinn.
Q) What were those worships and prayers that were ordered by Allah to the community of Bani Israeel and which were continued by the Muslim Ummah also?
A) Salaat and Zakaat. (Al-Baqarah: 43)
Q) The Qur''an repeatedly warns of a certain day. Can you say which day it is?
A) Youmal Qiyamah. (Doomsday)
Q) Who were those people with whom Allah was pleased and they were pleased with Him, as mentioned in the Qur''an?
A) Companions of Prophet Muhammed. (Sallallahu Alaihi Wasallam)
Q) In which Holy Book of Non-Muslims the Qur''an mentioned repeatedly?
A) In the Holy Book of Sikh Community-Granth Saheb.
Q) In which year were the vowels inserted in the Qur''an?
A) 43 Hijri.
Q) Who were the first serious students of the Qur''an? A) As-haabus Suffah.
Q) Which is the first Residential University where the faculty of the Qur''an was established for the first time?
A) Masjid-e-Nabvi. Mosque of the Prophet (Sallallahu Alaihi Wasallam)
Q) By what name did the Qur''an address those noble and pious people who were selected by Allah to convey His message to mankind?
A) Nabi (Prophet) and Rasool (Messenger).
Q) What type of a person does the Qur''an want to make?
A) A Momin.
Q) What is the scale or measure of one''s dignity according to the Qur''an?
A) Thaqwa. (Piety)
Q) What according to the Qur''an is the root cause of the evil?
A) Alcohol.
Q) What are the two most important types of kinds of Aayaaths (Verses) found in the Qur''an?
A) Muhakamaat and Muthashabihaath.
Q) Which is the longest Surah (Chapter) in the Qur''an?
A) Surah-al-Baqarah.
Q) Which is the smallest Surah in the Qur''an?
A) Surah-al-Kausar.
اس بیان میں کہ نماز عصر چھوڑ دینے پر کتنا گناہ ہے ؟
حدیث نمبر : 553
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، قال حدثنا يحيى بن أبي كثير، عن أبي قلابة، عن أبي المليح، قال كنا مع بريدة في غزوة في يوم ذي غيم فقال بكروا بصلاة العصر فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال " من ترك صلاة العصر فقد حبط عمله ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے بیان کیا ، کہا ہمیں یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے خبر دی ۔ انھوں نے ابوالملیح سے ، کہا ہم بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر جنگ میں تھے ۔ ابر و بارش کا دن تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ عصر کی نماز جلدی پڑھ لو ۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی ، اس کا نیک عمل ضائع ہو گیا ۔
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، قال حدثنا يحيى بن أبي كثير، عن أبي قلابة، عن أبي المليح، قال كنا مع بريدة في غزوة في يوم ذي غيم فقال بكروا بصلاة العصر فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال " من ترك صلاة العصر فقد حبط عمله ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے بیان کیا ، کہا ہمیں یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے خبر دی ۔ انھوں نے ابوالملیح سے ، کہا ہم بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر جنگ میں تھے ۔ ابر و بارش کا دن تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ عصر کی نماز جلدی پڑھ لو ۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی ، اس کا نیک عمل ضائع ہو گیا ۔
سجدہ کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر : 806
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سعيد بن المسيب، وعطاء بن يزيد الليثي، أن أبا هريرة، أخبرهما أن الناس قالوا يا رسول الله، هل نرى ربنا يوم القيامة قال " هل تمارون في القمر ليلة البدر ليس دونه سحاب ". قالوا لا يا رسول الله. قال " فهل تمارون في الشمس ليس دونها سحاب ". قالوا لا. قال " فإنكم ترونه كذلك، يحشر الناس يوم القيامة، فيقول من كان يعبد شيئا فليتبع. فمنهم من يتبع الشمس، ومنهم من يتبع القمر ومنهم من يتبع الطواغيت، وتبقى هذه الأمة فيها منافقوها، فيأتيهم الله فيقول أنا ربكم فيقولون هذا مكاننا حتى يأتينا ربنا، فإذا جاء ربنا عرفناه. فيأتيهم الله فيقول أنا ربكم. فيقولون أنت ربنا. فيدعوهم فيضرب الصراط بين ظهرانى جهنم، فأكون أول من يجوز من الرسل بأمته، ولا يتكلم يومئذ أحد إلا الرسل، وكلام الرسل يومئذ اللهم سلم سلم. وفي جهنم كلاليب مثل شوك السعدان، هل رأيتم شوك السعدان ". قالوا نعم. قال " فإنها مثل شوك السعدان، غير أنه لا يعلم قدر عظمها إلا الله، تخطف الناس بأعمالهم، فمنهم من يوبق بعمله، ومنهم من يخردل ثم ينجو، حتى إذا أراد الله رحمة من أراد من أهل النار، أمر الله الملائكة أن يخرجوا من كان يعبد الله، فيخرجونهم ويعرفونهم بآثار السجود، وحرم الله على النار أن تأكل أثر السجود فيخرجون من النار، فكل ابن آدم تأكله النار إلا أثر السجود، فيخرجون من النار قد امتحشوا، فيصب عليهم ماء الحياة، فينبتون كما تنبت الحبة في حميل السيل، ثم يفرغ الله من القضاء بين العباد، ويبقى رجل بين الجنة والنار، وهو آخر أهل النار دخولا الجنة، مقبل بوجهه قبل النار فيقول يا رب اصرف وجهي عن النار، قد قشبني ريحها، وأحرقني ذكاؤها. فيقول هل عسيت إن فعل ذلك بك أن تسأل غير ذلك فيقول لا وعزتك. فيعطي الله ما يشاء من عهد وميثاق، فيصرف الله وجهه عن النار، فإذا أقبل به على الجنة رأى بهجتها سكت ما شاء الله أن يسكت، ثم قال يا رب قدمني عند باب الجنة. فيقول الله له أليس قد أعطيت العهود والمواثيق أن لا تسأل غير الذي كنت سألت فيقول يا رب لا أكون أشقى خلقك. فيقول فما عسيت إن أعطيت ذلك أن لا تسأل غيره فيقول لا وعزتك لا أسأل غير ذلك. فيعطي ربه ما شاء من عهد وميثاق، فيقدمه إلى باب الجنة، فإذا بلغ بابها، فرأى زهرتها وما فيها من النضرة والسرور، فيسكت ما شاء الله أن يسكت، فيقول يا رب أدخلني الجنة. فيقول الله ويحك يا ابن آدم ما أغدرك، أليس قد أعطيت العهد والميثاق أن لا تسأل غير الذي أعطيت فيقول يا رب لا تجعلني أشقى خلقك. فيضحك الله ـ عز وجل ـ منه، ثم يأذن له في دخول الجنة فيقول تمن. فيتمنى حتى إذا انقطعت أمنيته قال الله عز وجل تمن كذا وكذا. أقبل يذكره ربه، حتى إذا انتهت به الأماني قال الله تعالى لك ذلك ومثله معه ". قال أبو سعيد الخدري لأبي هريرة ـ رضى الله عنهما ـ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " قال الله لك ذلك وعشرة أمثاله ". قال أبو هريرة لم أحفظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قوله " لك ذلك ومثله معه ". قال أبو سعيد إني سمعته يقول " ذلك لك وعشرة أمثاله ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی ، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب اور عطاء بن یزید لیثی نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا ہم اپنے رب کو قیامت میں دیکھ سکیں گے ؟ آپ نے ( جواب کے لیے ) پوچھا ، کیا تمہیں چودھویں رات کے چاند کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے ؟ لوگ بولے ہرگز نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا اور کیا تمہیں سورج کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے ۔ لوگوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے فرمایا کہ رب العزت کو تم اسی طرح دیکھو گے ۔ لوگ قیامت کے دن جمع کئے جائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو جسے پوجتا تھا وہ اس کے ساتھ ہو جائے ۔ چنانچہ بہت سے لوگ سورج کے پیچھے ہو لیں گے ، بہت سے چاند کے اور بہت سے بتوں کے ساتھ ہو لیں گے ۔ یہ امت باقی رہ جائے گی ۔ اس میں منافقین بھی ہوں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک نئی صورت میں آئے گا اور ان سے کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ۔ وہ منافقین کہیں گے کہ ہم یہیں اپنے رب کے آنے تک کھڑے رہیں گے ۔ جب ہمارا رب آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے ۔ پھر اللہ عزوجل ان کے پاس ( ایسی صورت میں جسے وہ پہچان لیں ) آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ۔ وہ بھی کہیں گے کہ بے شک تو ہمارا رب ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ بلائے گا ۔ پل صراط جہنم کے بیچوں بیچ رکھا جائے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اپنی امت کے ساتھ اس سے گزرنے والا سب سے پہلا رسول ہوں گا ۔ اس روز سوا انبیاء کے کوئی بھی بات نہ کر سکے گا اور انبیاء بھی صرف یہ کہیں گے ۔ اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! اور جہنم میں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکس ہوں گے ۔ سعدان کے کانٹے تو تم نے دیکھے ہوں گے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہا ہاں! ( آپ نے فرمایا ) تو وہ سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے ۔ البتہ ان کے طول و عرض کو سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا ۔ یہ آنکس لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق کھینچ لیں گے ۔ بہت سے لوگ اپنے عمل کی وجہ سے ہلاک ہوں گے ۔ بہت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے ۔ پھر ان کی نجات ہوگی ۔ جہنمیوں میں سے اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمانا چاہے گا تو ملائکہ کو حکم دے گا کہ جو خالص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتے تھے انہیں باہر نکال لو ۔ چنانچہ ان کو وہ باہر نکالیں گے اور موحدوں کو سجدے کے آثار سے پہچانیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم پر سجدہ کے آثار کا جلانا حرام کر دیا ہے ۔ چنانچہ یہ سب جہنم سے نکالے جائیں گے تو اثر سجدہ کے سوا ان کے جسم کے تمام ہی حصوں کو آگ جلا چکی ہو گی ۔ جب جہنم سے باہر ہوں گے تو بالکل جل چکے ہوں گے ۔ اس لیے ان پر آب حیات ڈالا جائے گا ۔ جس سے وہ اس طرح ابھر آئیں گے ۔ جیسے سیلاب کے کوڑے کرکٹ پر سیلاب کے تھمنے کے بعد سبزہ ابھر آتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ لیکن ایک شخص جنت اور دوزخ کے درمیان اب بھی باقی رہ جائے گا ۔ یہ جنت میں داخل ہونے والا آخری دوزخی شخص ہو گا ۔ اس کا منہ دوزخ کی طرف ہوگا ۔ اس لیے کہے گا کہ اے میرے رب ! میرے منہ کو دوزخ کی طرف سے پھیر دے ۔ کیوں کہ اس کی بدبو مجھ کو مارے ڈالتی ہے اور اس کی چمک مجھے جلائے دیتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اگر تیری یہ تمنا پوری کر دوں تو تو دوبارہ کوئی نیا سوال تو نہیں کرے گا ؟ بندہ کہے گا نہیں تیری بزرگی کی قسم ! اور جیسے جیسے اللہ چاہے گا وہ قول و قرار کرے گا ۔ آخر اللہ تعالیٰ جہنم کی طرف سے اس کا منہ پھیر دے گا ۔ جب وہ جنت کی طرف منہ کرے گا اور اس کی شادابی نظروں کے سامنے آئی تو اللہ نے جتنی دیر چاہا وہ چپ رہے گا ۔ لیکن پھر بول پڑے گا اے اللہ! مجھے جنت کے دروازے کے قریب پہنچا دے ۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا تو نے عہد و پیمان نہیں باندھا تھا کہ اس ایک سوال کے سوا اور کوئی سوال تو نہیں کرے گا ۔ بندہ کہے گا اے میرے رب ! مجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ ہونا چاہئے ۔ اللہ رب العزت فرمائے گا کہ پھر کیا ضمانت ہے کہ اگر تیری یہ تمنا پوری کردی گئی تو دوسرا کوئی سوال تو نہیں کرے گا ۔ بندہ کہے گا نہیں تیری عزت کی قسم اب دوسرا سوال کوئی تجھ سے نہیں کروں گا ۔ چنانچہ اپنے رب سے ہر طرح عہد و پیمان باندھے گا اور جنت کے دروازے تک پہنچا دیا جائے گا ۔ دروازہ پر پہنچ کر جب جنت کی پنہائی ، تازگی اور مسرتوں کو دیکھے گا تو جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ بندہ چپ رہے گا ۔ لیکن آخر بول پڑے گا کہ اے اللہ! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ افسوس اے ابن آدم ! تو ایسا دغا باز کیوں بن گیا ؟ کیا ( ابھی ) تو نے عہد و پیمان نہیں باندھا تھا کہ جو کچھ مجھے دیا گیا ، اس سے زیادہ اور کچھ نہ مانگوں گا ۔ بندہ کہے گا اے رب ! مجھے اپنی سب سے زیادہ بدنصیب مخلوق نہ بنا ۔ اللہ پاک ہنس دے گا اور اسے جنت میں بھی داخلہ کی اجازت عطا فرما دے گا اور پھر فرمائے گا مانگ کیا ہے تیری تمنا ۔ چنانچہ وہ اپنی تمنائیں ( اللہ تعالیٰ کے سامنے ) رکھے گا اور جب تمام تمنائیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں چیز اور مانگو ، فلاں چیز کا مزید سوال کرو ۔ خود اللہ پاک ہی یاد دہانی کرائے گا ۔ اور جب وہ تمام تمنائیں پوری ہو جائیں گی تو فرمائے گا کہ تمہیں یہ سب اور اتنی ہی اور دی گئیں ۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اور اس سے دس گنا اور زیادہ تمہیں دی گئیں ۔ اس پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی بات صرف مجھے یاد ہے کہ تمہیں یہ تمنائیں اور اتنی ہی اور دی گئیں ۔ لیکن حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کو یہ کہتے سنا تھا کہ یہ اور اس کی دس گنا تمنائیں تجھ کو دی گئیں ۔
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سعيد بن المسيب، وعطاء بن يزيد الليثي، أن أبا هريرة، أخبرهما أن الناس قالوا يا رسول الله، هل نرى ربنا يوم القيامة قال " هل تمارون في القمر ليلة البدر ليس دونه سحاب ". قالوا لا يا رسول الله. قال " فهل تمارون في الشمس ليس دونها سحاب ". قالوا لا. قال " فإنكم ترونه كذلك، يحشر الناس يوم القيامة، فيقول من كان يعبد شيئا فليتبع. فمنهم من يتبع الشمس، ومنهم من يتبع القمر ومنهم من يتبع الطواغيت، وتبقى هذه الأمة فيها منافقوها، فيأتيهم الله فيقول أنا ربكم فيقولون هذا مكاننا حتى يأتينا ربنا، فإذا جاء ربنا عرفناه. فيأتيهم الله فيقول أنا ربكم. فيقولون أنت ربنا. فيدعوهم فيضرب الصراط بين ظهرانى جهنم، فأكون أول من يجوز من الرسل بأمته، ولا يتكلم يومئذ أحد إلا الرسل، وكلام الرسل يومئذ اللهم سلم سلم. وفي جهنم كلاليب مثل شوك السعدان، هل رأيتم شوك السعدان ". قالوا نعم. قال " فإنها مثل شوك السعدان، غير أنه لا يعلم قدر عظمها إلا الله، تخطف الناس بأعمالهم، فمنهم من يوبق بعمله، ومنهم من يخردل ثم ينجو، حتى إذا أراد الله رحمة من أراد من أهل النار، أمر الله الملائكة أن يخرجوا من كان يعبد الله، فيخرجونهم ويعرفونهم بآثار السجود، وحرم الله على النار أن تأكل أثر السجود فيخرجون من النار، فكل ابن آدم تأكله النار إلا أثر السجود، فيخرجون من النار قد امتحشوا، فيصب عليهم ماء الحياة، فينبتون كما تنبت الحبة في حميل السيل، ثم يفرغ الله من القضاء بين العباد، ويبقى رجل بين الجنة والنار، وهو آخر أهل النار دخولا الجنة، مقبل بوجهه قبل النار فيقول يا رب اصرف وجهي عن النار، قد قشبني ريحها، وأحرقني ذكاؤها. فيقول هل عسيت إن فعل ذلك بك أن تسأل غير ذلك فيقول لا وعزتك. فيعطي الله ما يشاء من عهد وميثاق، فيصرف الله وجهه عن النار، فإذا أقبل به على الجنة رأى بهجتها سكت ما شاء الله أن يسكت، ثم قال يا رب قدمني عند باب الجنة. فيقول الله له أليس قد أعطيت العهود والمواثيق أن لا تسأل غير الذي كنت سألت فيقول يا رب لا أكون أشقى خلقك. فيقول فما عسيت إن أعطيت ذلك أن لا تسأل غيره فيقول لا وعزتك لا أسأل غير ذلك. فيعطي ربه ما شاء من عهد وميثاق، فيقدمه إلى باب الجنة، فإذا بلغ بابها، فرأى زهرتها وما فيها من النضرة والسرور، فيسكت ما شاء الله أن يسكت، فيقول يا رب أدخلني الجنة. فيقول الله ويحك يا ابن آدم ما أغدرك، أليس قد أعطيت العهد والميثاق أن لا تسأل غير الذي أعطيت فيقول يا رب لا تجعلني أشقى خلقك. فيضحك الله ـ عز وجل ـ منه، ثم يأذن له في دخول الجنة فيقول تمن. فيتمنى حتى إذا انقطعت أمنيته قال الله عز وجل تمن كذا وكذا. أقبل يذكره ربه، حتى إذا انتهت به الأماني قال الله تعالى لك ذلك ومثله معه ". قال أبو سعيد الخدري لأبي هريرة ـ رضى الله عنهما ـ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " قال الله لك ذلك وعشرة أمثاله ". قال أبو هريرة لم أحفظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قوله " لك ذلك ومثله معه ". قال أبو سعيد إني سمعته يقول " ذلك لك وعشرة أمثاله ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی ، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب اور عطاء بن یزید لیثی نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا ہم اپنے رب کو قیامت میں دیکھ سکیں گے ؟ آپ نے ( جواب کے لیے ) پوچھا ، کیا تمہیں چودھویں رات کے چاند کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے ؟ لوگ بولے ہرگز نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا اور کیا تمہیں سورج کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے ۔ لوگوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے فرمایا کہ رب العزت کو تم اسی طرح دیکھو گے ۔ لوگ قیامت کے دن جمع کئے جائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو جسے پوجتا تھا وہ اس کے ساتھ ہو جائے ۔ چنانچہ بہت سے لوگ سورج کے پیچھے ہو لیں گے ، بہت سے چاند کے اور بہت سے بتوں کے ساتھ ہو لیں گے ۔ یہ امت باقی رہ جائے گی ۔ اس میں منافقین بھی ہوں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک نئی صورت میں آئے گا اور ان سے کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ۔ وہ منافقین کہیں گے کہ ہم یہیں اپنے رب کے آنے تک کھڑے رہیں گے ۔ جب ہمارا رب آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے ۔ پھر اللہ عزوجل ان کے پاس ( ایسی صورت میں جسے وہ پہچان لیں ) آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ۔ وہ بھی کہیں گے کہ بے شک تو ہمارا رب ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ بلائے گا ۔ پل صراط جہنم کے بیچوں بیچ رکھا جائے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اپنی امت کے ساتھ اس سے گزرنے والا سب سے پہلا رسول ہوں گا ۔ اس روز سوا انبیاء کے کوئی بھی بات نہ کر سکے گا اور انبیاء بھی صرف یہ کہیں گے ۔ اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! اور جہنم میں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکس ہوں گے ۔ سعدان کے کانٹے تو تم نے دیکھے ہوں گے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہا ہاں! ( آپ نے فرمایا ) تو وہ سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے ۔ البتہ ان کے طول و عرض کو سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا ۔ یہ آنکس لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق کھینچ لیں گے ۔ بہت سے لوگ اپنے عمل کی وجہ سے ہلاک ہوں گے ۔ بہت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے ۔ پھر ان کی نجات ہوگی ۔ جہنمیوں میں سے اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمانا چاہے گا تو ملائکہ کو حکم دے گا کہ جو خالص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتے تھے انہیں باہر نکال لو ۔ چنانچہ ان کو وہ باہر نکالیں گے اور موحدوں کو سجدے کے آثار سے پہچانیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم پر سجدہ کے آثار کا جلانا حرام کر دیا ہے ۔ چنانچہ یہ سب جہنم سے نکالے جائیں گے تو اثر سجدہ کے سوا ان کے جسم کے تمام ہی حصوں کو آگ جلا چکی ہو گی ۔ جب جہنم سے باہر ہوں گے تو بالکل جل چکے ہوں گے ۔ اس لیے ان پر آب حیات ڈالا جائے گا ۔ جس سے وہ اس طرح ابھر آئیں گے ۔ جیسے سیلاب کے کوڑے کرکٹ پر سیلاب کے تھمنے کے بعد سبزہ ابھر آتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ لیکن ایک شخص جنت اور دوزخ کے درمیان اب بھی باقی رہ جائے گا ۔ یہ جنت میں داخل ہونے والا آخری دوزخی شخص ہو گا ۔ اس کا منہ دوزخ کی طرف ہوگا ۔ اس لیے کہے گا کہ اے میرے رب ! میرے منہ کو دوزخ کی طرف سے پھیر دے ۔ کیوں کہ اس کی بدبو مجھ کو مارے ڈالتی ہے اور اس کی چمک مجھے جلائے دیتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اگر تیری یہ تمنا پوری کر دوں تو تو دوبارہ کوئی نیا سوال تو نہیں کرے گا ؟ بندہ کہے گا نہیں تیری بزرگی کی قسم ! اور جیسے جیسے اللہ چاہے گا وہ قول و قرار کرے گا ۔ آخر اللہ تعالیٰ جہنم کی طرف سے اس کا منہ پھیر دے گا ۔ جب وہ جنت کی طرف منہ کرے گا اور اس کی شادابی نظروں کے سامنے آئی تو اللہ نے جتنی دیر چاہا وہ چپ رہے گا ۔ لیکن پھر بول پڑے گا اے اللہ! مجھے جنت کے دروازے کے قریب پہنچا دے ۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا تو نے عہد و پیمان نہیں باندھا تھا کہ اس ایک سوال کے سوا اور کوئی سوال تو نہیں کرے گا ۔ بندہ کہے گا اے میرے رب ! مجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ ہونا چاہئے ۔ اللہ رب العزت فرمائے گا کہ پھر کیا ضمانت ہے کہ اگر تیری یہ تمنا پوری کردی گئی تو دوسرا کوئی سوال تو نہیں کرے گا ۔ بندہ کہے گا نہیں تیری عزت کی قسم اب دوسرا سوال کوئی تجھ سے نہیں کروں گا ۔ چنانچہ اپنے رب سے ہر طرح عہد و پیمان باندھے گا اور جنت کے دروازے تک پہنچا دیا جائے گا ۔ دروازہ پر پہنچ کر جب جنت کی پنہائی ، تازگی اور مسرتوں کو دیکھے گا تو جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ بندہ چپ رہے گا ۔ لیکن آخر بول پڑے گا کہ اے اللہ! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ افسوس اے ابن آدم ! تو ایسا دغا باز کیوں بن گیا ؟ کیا ( ابھی ) تو نے عہد و پیمان نہیں باندھا تھا کہ جو کچھ مجھے دیا گیا ، اس سے زیادہ اور کچھ نہ مانگوں گا ۔ بندہ کہے گا اے رب ! مجھے اپنی سب سے زیادہ بدنصیب مخلوق نہ بنا ۔ اللہ پاک ہنس دے گا اور اسے جنت میں بھی داخلہ کی اجازت عطا فرما دے گا اور پھر فرمائے گا مانگ کیا ہے تیری تمنا ۔ چنانچہ وہ اپنی تمنائیں ( اللہ تعالیٰ کے سامنے ) رکھے گا اور جب تمام تمنائیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں چیز اور مانگو ، فلاں چیز کا مزید سوال کرو ۔ خود اللہ پاک ہی یاد دہانی کرائے گا ۔ اور جب وہ تمام تمنائیں پوری ہو جائیں گی تو فرمائے گا کہ تمہیں یہ سب اور اتنی ہی اور دی گئیں ۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اور اس سے دس گنا اور زیادہ تمہیں دی گئیں ۔ اس پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی بات صرف مجھے یاد ہے کہ تمہیں یہ تمنائیں اور اتنی ہی اور دی گئیں ۔ لیکن حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کو یہ کہتے سنا تھا کہ یہ اور اس کی دس گنا تمنائیں تجھ کو دی گئیں ۔
سورہ فاتحہ اور تفسیر
''بِسْمِ اللہ ِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سورۃ فاتحہ کے اسماء ، اس سورۃ کے متعدد نام ہیں ۔ فاتحہ ، فاتحۃ الکتاب ، اُمُّ القرآن ، سورۃ الکنز ، کافیۃ ، وا فیۃ ، شافیۃ ، شفا ، سبع مثانی ، نور ، رقیۃ ، سورۃ الحمد ، سورۃ الدعا ، تعلیم المسئلہ ، سورۃ المناجاۃ ، سورۃ التفویض ، سورۃ السوال ، اُمُّ الکتاب ، فاتحۃ القرآن ، سورۃ الصلوۃ ۔ اس سورۃ میں سات آیتیں ستائیس کلمے ایک سو چالیس حرف ہیں کوئی آیت ناسخ یا منسوخ نہیں ۔
شان نزول : یہ سورۃ مکہ مکرمہ یا مدینہ منوّرہ یا دونوں میں نازل ہوئی ۔ عمرو بن شرجیل سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرمایا میں ایک ندا سنا کرتا ہوں جس میں اِقْرَأ کہا جاتا ہے ، ورقہ بن نوفل کو خبر دی گئی عرض کیا ، جب یہ ندا آئے آپ باطمینان سنیں ، اس کے بعد حضرت جبریل نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کیا فرمائیے '' بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اَلْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین '' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول میں یہ پہلی سورت ہے مگر دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سورۃ اِقْرَأ نازل ہوئی ۔ اس سورت میں تعلیماً بندوں کی زبان میں کلام فرمایا گیا ہے ۔
احکام ۔ مسئلہ : نماز میں اس سورت کا پڑھنا واجب ہے امام و منفرد کے لئے تو حقیقتاً اپنی زبان سے اور مقتدی کے لئے بقرأتِ حکمیہ یعنی امام کی زبان سے ۔ صحیح حدیث میں ہے '' قِرَاء ۃُ الاِمَامِ لَہ' قِرَاء ۃٌ '' امام کا پڑھنا ہی مقتدی کا پڑھنا ہے ۔ قرآن پاک میں مقتدی کو خاموش رہنے اور امام کی قرأت سننے کا حکم دیا ہے ۔ ( وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ٢٠٤) 7-الاعراف:204)۔ مسلم شریف کی حدیث ہے '' اِذَاقَرَأ فَانْصِتُوْا '' جب امام قرأت کرے تم خاموش رہو اور بہت احادیث میں یہی مضمون ہے ۔
مسئلہ : نمازِ جنازہ میں دعا یاد نہ ہو تو سورۃ فاتحہ بہ نیتِ دعا پڑھنا جائز ہے ، بہ نیتِ قرأت جائز نہیں (عالمگیری)
سورہ فاتحہ کے فضائل :
احادیث میں اس سورۃ کی بہت سے فضیلتیں وارد ہیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا توریت و انجیل و زبور میں اس کی مثل سورت نہ نازل ہوئی ۔ (ترمذی) ایک فرشتہ نے آسمان سے نازل ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام عرض کیا اور دو ایسے نوروں کی بشارت دی جو حضور سے پہلے کسی نبی کو عطا نہ ہوئے ، ایک سورۃ فاتحہ ، دوسرے سورۃ بقر کی آخری آیتیں ۔ (مسلم شریف) سورۃ فاتحہ ہر مرض کے لئے شفا ہے ۔ (دارمی) سورۃ فاتحہ سو مرتبہ پڑھ کر جو دعا مانگے اللہ تعالٰی قبول فرماتا ہے ۔ (دارمی)
استعاذہ ۔
مسئلہ : تلاوت سے پہلے '' اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیَطَانِ الرَّجِیم '' پڑھنا سنت ہے ۔ (خازن) لیکن شاگرد استاد سے پڑھتا ہو تو اس کے لئے سنت نہیں ۔ (شامی)
مسئلہ : نماز میں امام و منفرد کے لئے سبحان سے فارغ ہو کر آہستہ اعوذ الخ پڑھنا سنت ہے ۔ (شامی) التسمیہ
مسئلہ :'' بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم '' قرآن پاک کی آیت ہے مگر سورۃ فاتحہ یا اور کسی سورۃ کا جزو نہیں اسی لئے نماز میں جَہر کے ساتھ نہ پڑھی جائے ۔ بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت صدیق و فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہما نماز '' الْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ '' سے شروع فرماتے تھے ۔
مسئلہ : تراویح میں جو ختم کیا جاتا ہے اس میں کہیں ایک مرتبہ بسم اللہ جَہر کے ساتھ ضرور پڑھی جائے تاکہ ایک آیت باقی نہ رہ جائے ۔
مسئلہ : قرآن پاک کی ہر سورت بسم اللہ سے شروع کی جائے سوائے سورۃ برأت کے ۔
مسئلہ : سورۃ نمل میں آیت سجدہ کے بعد جو بسم اللہ آئی ہے وہ مستقل آیت نہیں بلکہ جزوِ آیت ہے بلا خلاف اس آیت کے ساتھ ضرور پڑھی جائے گی ، نماز جہری میں جہراً سری میں سراً ۔
مسئلہ : ہر مباح کام بسم اللہ سے شروع کرنا مستحب ہے ناجائز کام پر بسم اللہ پڑھنا ممنوع ہے ۔
سورہ فاتحہ کے مضامین :
اس سورت میں اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا ، ربوبیت ، رحمت ، مالکیت ، استحقاقِ عبادت ، توفیق خیر ، بندوں کی ہدایت ، توجہ الٰی اللہ ، اختصاصِ عبادت ، استعانت ، طلبِ رُشد ، آدابِ دعا ، صالحین کے حال سے موافقت ، گمراہوں سے اجتناب و نفرت ، دنیا کی زندگانی کا خاتمہ ، جزاء اور روز جزاء کا مصرَّح و مفصَّل بیان ہے اور جملہ مسائل کا اجمالاً ۔
حمد ۔
مسئلہ : ہر کام کی ابتداء میں تسمیہ کی طرح حمدِ الٰہی بجا لانا چاہیئے ۔
مسئلہ : کبھی حمد واجب ہوتی ہے جیسے خطبہ جمعہ میں ، کبھی مستحب جیسے خطبہ نکاح و دعا و ہر امرِ ذیشان میں اور ہر کھانے پینے کے بعد ، کبھی سنّتِ مؤکّدہ جیسے چھینک آنے کے بعد ۔ (طحطاوی)
'' رَبُّ الْعَالَمِیْنَ '' میں تمام کائنات کے حادث ، ممکن ، محتاج ہونے اور اللہ تعالٰی کے واجب ، قدیم ، ازلی ، ابدی ، حی ، قیوم ، قادر ، علیم ہونے کی طرف اشارہ ہے جن کو ربُّ العالمین مستلزم ہے ۔ دو لفظوں میں علمِ الٰہیات کے اہم مباحث طے ہو گئے ۔
'' مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ '' ملک کے ظہورِ تام کا بیان اور یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں کیونکہ سب اس کے مملوک ہیں اور مملوک مستحقِ عبادت نہیں ہو سکتا ۔ اسی سے معلوم ہوا کہ دنیا دار العمل ہے اور اس کے لئے ایک آخر ہے ۔ جہان کے سلسلہ کو ازلی و قدیم کہنا باطل ہے ۔ اختتامِ دنیا کے بعد ایک جزاء کا دن ہے اس سے تناسخ باطل ہو گیا ۔
'' اِیَّاکَ نَعْبُدُ '' ذکر ذات و صفات کے بعد یہ فرمانا اشارہ کرتا ہے کہ اعتقاد عمل پر مقدّم ہے اور عبادت کی مقبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے ۔
مسئلہ : '' نَعْبُدُ '' کے صیغہ جمع سے ادا بجماعت بھی مستفاد ہوتی ہے اور یہ بھی کہ عوام کی عبادتیں محبوبوں اور مقبولوں کی عبادتوں کے ساتھ درجہ قبول پاتی ہیں ۔
مسئلہ : اس میں ردِّ شرک بھی ہے کہ اللہ تعالٰی کے سوا عبادت کسی کے لئے نہیں ہو سکتی ۔
'' وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ '' میں یہ تعلیم فرمائی کہ استعانت خواہ بواسطہ ہو یا بےواسطہ ہر طرح اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے ، حقیقی مستعان وہی ہے باقی آلات و خدام و احباب وغیرہ سب عونِ الٰہی کے مَظہَر ہیں ، بندے کو چاہئے کہ اس پر نظر رکھے اور ہر چیز میں دستِ قدرت کو کارکن دیکھے ۔ اس سے یہ سمجھنا کہ اولیاء و انبیاء سے مدد چاہنا شرک ہے عقیدہ باطلہ ہے کیونکہ مقربان حق کی امداد امدادِ الٰہی ہے استعانت بالغیر نہیں ، اگر اس آیت کے وہ معنی ہوتے جو وہابیہ نے سمجھے تو قرآن پاک میں (فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُــوَّةٍ ) 18-الكهف:95) اور ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ٥٣) 2-البقرة:153) کیوں وارد ہوتا اور احادیث میں اہلُ اللہ سے استعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی ۔
'' اِھْدِنَا الصِّراط الَمُستَقِیْمَ'' معرفتِ ذات و صفات کے بعد عبادت ، اس کے بعد دعا تعلیم فرمائی اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ بندے کو عبادت کے بعد مشغولِ دعا ہونا چاہئے ۔ حدیث شریف میں بھی نماز کے بعد دعا کی تعلیم فرمائی گئی ہے ۔ (الطبرانی فی الکبیر و البیہقی فی السنن) ۔
صراطِ مستقیم سے مراد اسلام یا قرآن یا خُلقِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا حضور کے آل و اصحاب ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صراطِ مستقیم طریق اہل سنت ہے جو اہل بیت و اصحاب اور سنّت و قرآن و سوادِ اعظم سب کو مانتے ہیں ۔
''صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ '' جملہ اُولٰی کی تفسیر ہے کہ صراطِ مستقیم سے طریق مسلمین مراد ہے ، اس سے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں کہ جن امور پر بزرگان دین کا عمل رہا ہو وہ صراطِ مستقیم میں داخل ہے ۔
'' غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ '' اس میں ہدایت ہے کہ مسئلہ طالبِ حق کو دشمنان خدا سے اجتناب اور ان کے راہ و رسم ، وضع و اطوار سے پرہیز لازم ہے ۔ ترمذی کی روایت ہے کہ '' مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ '' سے یہود اور '' ضَآلِّیْنَ '' سے نصاریٰ مراد ہیں ۔
مسئلہ : ضاد اور ظاء میں مبائنت ذاتی ہے ، بعض صفات کا اشتراک انہیں متحد نہیں کر سکتا لہذا غیر المغظوب بظاء پڑھنا اگر بقصد ہو تو تحریف قرآن و کفر ہے ورنہ ناجائز ۔
مسئلہ : جو شخص ضاد کی جگہ ظا پڑھے اس کی امامت جائز نہیں ۔ (محیطِ برہانی)
'' آمِیْنَ'' اس کے معنی ہیں ایسا ہی کریا قبول فرما ۔
مسئلہ : یہ کلمہ قرآن نہیں ۔
مسئلہ : سورۃ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا سنت ہے ، نماز کے اندر بھی اور نمازکے باہر بھی ۔
مسئلہ : حضرت امامِ اعظم کا مذہب یہ ہے کہ نماز میں آمین اخفاء کے ساتھ یعنی آہستہ کہی جائے ، تمام احادیث پر نظر اور تنقید سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جَہر کی روایتوں میں صرف وائل کی روایت صحیح ہے اس میں '' مَدَّ بِھَا '' کا لفظ ہے جس کی دلالت جَہر پر قطعی نہیں جیسا جَہر کا احتمال ہے ویسا ہی بلکہ اس سے قوی مد ہمزہ کا احتمال ہے اس لئے یہ روایت جَہر کے لئے حجت نہیں ہو سکتی ، دوسری روایتیں جن میں جَہر و رفع کے الفاظ ہیں ان کی اسناد میں کلام ہے علاوہ بریں وہ روایت بالمعنی ہیں اور فہمِ راوی حدیث نہیں لہذا آمین کا آہستہ ہی پڑھنا صحیح تر ہے ۔(خزائن العرفان)۔
سورۃ فاتحہ کے اسماء ، اس سورۃ کے متعدد نام ہیں ۔ فاتحہ ، فاتحۃ الکتاب ، اُمُّ القرآن ، سورۃ الکنز ، کافیۃ ، وا فیۃ ، شافیۃ ، شفا ، سبع مثانی ، نور ، رقیۃ ، سورۃ الحمد ، سورۃ الدعا ، تعلیم المسئلہ ، سورۃ المناجاۃ ، سورۃ التفویض ، سورۃ السوال ، اُمُّ الکتاب ، فاتحۃ القرآن ، سورۃ الصلوۃ ۔ اس سورۃ میں سات آیتیں ستائیس کلمے ایک سو چالیس حرف ہیں کوئی آیت ناسخ یا منسوخ نہیں ۔
شان نزول : یہ سورۃ مکہ مکرمہ یا مدینہ منوّرہ یا دونوں میں نازل ہوئی ۔ عمرو بن شرجیل سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرمایا میں ایک ندا سنا کرتا ہوں جس میں اِقْرَأ کہا جاتا ہے ، ورقہ بن نوفل کو خبر دی گئی عرض کیا ، جب یہ ندا آئے آپ باطمینان سنیں ، اس کے بعد حضرت جبریل نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کیا فرمائیے '' بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اَلْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین '' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول میں یہ پہلی سورت ہے مگر دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سورۃ اِقْرَأ نازل ہوئی ۔ اس سورت میں تعلیماً بندوں کی زبان میں کلام فرمایا گیا ہے ۔
احکام ۔ مسئلہ : نماز میں اس سورت کا پڑھنا واجب ہے امام و منفرد کے لئے تو حقیقتاً اپنی زبان سے اور مقتدی کے لئے بقرأتِ حکمیہ یعنی امام کی زبان سے ۔ صحیح حدیث میں ہے '' قِرَاء ۃُ الاِمَامِ لَہ' قِرَاء ۃٌ '' امام کا پڑھنا ہی مقتدی کا پڑھنا ہے ۔ قرآن پاک میں مقتدی کو خاموش رہنے اور امام کی قرأت سننے کا حکم دیا ہے ۔ ( وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ٢٠٤) 7-الاعراف:204)۔ مسلم شریف کی حدیث ہے '' اِذَاقَرَأ فَانْصِتُوْا '' جب امام قرأت کرے تم خاموش رہو اور بہت احادیث میں یہی مضمون ہے ۔
مسئلہ : نمازِ جنازہ میں دعا یاد نہ ہو تو سورۃ فاتحہ بہ نیتِ دعا پڑھنا جائز ہے ، بہ نیتِ قرأت جائز نہیں (عالمگیری)
سورہ فاتحہ کے فضائل :
احادیث میں اس سورۃ کی بہت سے فضیلتیں وارد ہیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا توریت و انجیل و زبور میں اس کی مثل سورت نہ نازل ہوئی ۔ (ترمذی) ایک فرشتہ نے آسمان سے نازل ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام عرض کیا اور دو ایسے نوروں کی بشارت دی جو حضور سے پہلے کسی نبی کو عطا نہ ہوئے ، ایک سورۃ فاتحہ ، دوسرے سورۃ بقر کی آخری آیتیں ۔ (مسلم شریف) سورۃ فاتحہ ہر مرض کے لئے شفا ہے ۔ (دارمی) سورۃ فاتحہ سو مرتبہ پڑھ کر جو دعا مانگے اللہ تعالٰی قبول فرماتا ہے ۔ (دارمی)
استعاذہ ۔
مسئلہ : تلاوت سے پہلے '' اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیَطَانِ الرَّجِیم '' پڑھنا سنت ہے ۔ (خازن) لیکن شاگرد استاد سے پڑھتا ہو تو اس کے لئے سنت نہیں ۔ (شامی)
مسئلہ : نماز میں امام و منفرد کے لئے سبحان سے فارغ ہو کر آہستہ اعوذ الخ پڑھنا سنت ہے ۔ (شامی) التسمیہ
مسئلہ :'' بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم '' قرآن پاک کی آیت ہے مگر سورۃ فاتحہ یا اور کسی سورۃ کا جزو نہیں اسی لئے نماز میں جَہر کے ساتھ نہ پڑھی جائے ۔ بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت صدیق و فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہما نماز '' الْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ '' سے شروع فرماتے تھے ۔
مسئلہ : تراویح میں جو ختم کیا جاتا ہے اس میں کہیں ایک مرتبہ بسم اللہ جَہر کے ساتھ ضرور پڑھی جائے تاکہ ایک آیت باقی نہ رہ جائے ۔
مسئلہ : قرآن پاک کی ہر سورت بسم اللہ سے شروع کی جائے سوائے سورۃ برأت کے ۔
مسئلہ : سورۃ نمل میں آیت سجدہ کے بعد جو بسم اللہ آئی ہے وہ مستقل آیت نہیں بلکہ جزوِ آیت ہے بلا خلاف اس آیت کے ساتھ ضرور پڑھی جائے گی ، نماز جہری میں جہراً سری میں سراً ۔
مسئلہ : ہر مباح کام بسم اللہ سے شروع کرنا مستحب ہے ناجائز کام پر بسم اللہ پڑھنا ممنوع ہے ۔
سورہ فاتحہ کے مضامین :
اس سورت میں اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا ، ربوبیت ، رحمت ، مالکیت ، استحقاقِ عبادت ، توفیق خیر ، بندوں کی ہدایت ، توجہ الٰی اللہ ، اختصاصِ عبادت ، استعانت ، طلبِ رُشد ، آدابِ دعا ، صالحین کے حال سے موافقت ، گمراہوں سے اجتناب و نفرت ، دنیا کی زندگانی کا خاتمہ ، جزاء اور روز جزاء کا مصرَّح و مفصَّل بیان ہے اور جملہ مسائل کا اجمالاً ۔
حمد ۔
مسئلہ : ہر کام کی ابتداء میں تسمیہ کی طرح حمدِ الٰہی بجا لانا چاہیئے ۔
مسئلہ : کبھی حمد واجب ہوتی ہے جیسے خطبہ جمعہ میں ، کبھی مستحب جیسے خطبہ نکاح و دعا و ہر امرِ ذیشان میں اور ہر کھانے پینے کے بعد ، کبھی سنّتِ مؤکّدہ جیسے چھینک آنے کے بعد ۔ (طحطاوی)
'' رَبُّ الْعَالَمِیْنَ '' میں تمام کائنات کے حادث ، ممکن ، محتاج ہونے اور اللہ تعالٰی کے واجب ، قدیم ، ازلی ، ابدی ، حی ، قیوم ، قادر ، علیم ہونے کی طرف اشارہ ہے جن کو ربُّ العالمین مستلزم ہے ۔ دو لفظوں میں علمِ الٰہیات کے اہم مباحث طے ہو گئے ۔
'' مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ '' ملک کے ظہورِ تام کا بیان اور یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں کیونکہ سب اس کے مملوک ہیں اور مملوک مستحقِ عبادت نہیں ہو سکتا ۔ اسی سے معلوم ہوا کہ دنیا دار العمل ہے اور اس کے لئے ایک آخر ہے ۔ جہان کے سلسلہ کو ازلی و قدیم کہنا باطل ہے ۔ اختتامِ دنیا کے بعد ایک جزاء کا دن ہے اس سے تناسخ باطل ہو گیا ۔
'' اِیَّاکَ نَعْبُدُ '' ذکر ذات و صفات کے بعد یہ فرمانا اشارہ کرتا ہے کہ اعتقاد عمل پر مقدّم ہے اور عبادت کی مقبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے ۔
مسئلہ : '' نَعْبُدُ '' کے صیغہ جمع سے ادا بجماعت بھی مستفاد ہوتی ہے اور یہ بھی کہ عوام کی عبادتیں محبوبوں اور مقبولوں کی عبادتوں کے ساتھ درجہ قبول پاتی ہیں ۔
مسئلہ : اس میں ردِّ شرک بھی ہے کہ اللہ تعالٰی کے سوا عبادت کسی کے لئے نہیں ہو سکتی ۔
'' وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ '' میں یہ تعلیم فرمائی کہ استعانت خواہ بواسطہ ہو یا بےواسطہ ہر طرح اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے ، حقیقی مستعان وہی ہے باقی آلات و خدام و احباب وغیرہ سب عونِ الٰہی کے مَظہَر ہیں ، بندے کو چاہئے کہ اس پر نظر رکھے اور ہر چیز میں دستِ قدرت کو کارکن دیکھے ۔ اس سے یہ سمجھنا کہ اولیاء و انبیاء سے مدد چاہنا شرک ہے عقیدہ باطلہ ہے کیونکہ مقربان حق کی امداد امدادِ الٰہی ہے استعانت بالغیر نہیں ، اگر اس آیت کے وہ معنی ہوتے جو وہابیہ نے سمجھے تو قرآن پاک میں (فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُــوَّةٍ ) 18-الكهف:95) اور ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ٥٣) 2-البقرة:153) کیوں وارد ہوتا اور احادیث میں اہلُ اللہ سے استعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی ۔
'' اِھْدِنَا الصِّراط الَمُستَقِیْمَ'' معرفتِ ذات و صفات کے بعد عبادت ، اس کے بعد دعا تعلیم فرمائی اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ بندے کو عبادت کے بعد مشغولِ دعا ہونا چاہئے ۔ حدیث شریف میں بھی نماز کے بعد دعا کی تعلیم فرمائی گئی ہے ۔ (الطبرانی فی الکبیر و البیہقی فی السنن) ۔
صراطِ مستقیم سے مراد اسلام یا قرآن یا خُلقِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا حضور کے آل و اصحاب ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صراطِ مستقیم طریق اہل سنت ہے جو اہل بیت و اصحاب اور سنّت و قرآن و سوادِ اعظم سب کو مانتے ہیں ۔
''صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ '' جملہ اُولٰی کی تفسیر ہے کہ صراطِ مستقیم سے طریق مسلمین مراد ہے ، اس سے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں کہ جن امور پر بزرگان دین کا عمل رہا ہو وہ صراطِ مستقیم میں داخل ہے ۔
'' غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ '' اس میں ہدایت ہے کہ مسئلہ طالبِ حق کو دشمنان خدا سے اجتناب اور ان کے راہ و رسم ، وضع و اطوار سے پرہیز لازم ہے ۔ ترمذی کی روایت ہے کہ '' مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ '' سے یہود اور '' ضَآلِّیْنَ '' سے نصاریٰ مراد ہیں ۔
مسئلہ : ضاد اور ظاء میں مبائنت ذاتی ہے ، بعض صفات کا اشتراک انہیں متحد نہیں کر سکتا لہذا غیر المغظوب بظاء پڑھنا اگر بقصد ہو تو تحریف قرآن و کفر ہے ورنہ ناجائز ۔
مسئلہ : جو شخص ضاد کی جگہ ظا پڑھے اس کی امامت جائز نہیں ۔ (محیطِ برہانی)
'' آمِیْنَ'' اس کے معنی ہیں ایسا ہی کریا قبول فرما ۔
مسئلہ : یہ کلمہ قرآن نہیں ۔
مسئلہ : سورۃ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا سنت ہے ، نماز کے اندر بھی اور نمازکے باہر بھی ۔
مسئلہ : حضرت امامِ اعظم کا مذہب یہ ہے کہ نماز میں آمین اخفاء کے ساتھ یعنی آہستہ کہی جائے ، تمام احادیث پر نظر اور تنقید سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جَہر کی روایتوں میں صرف وائل کی روایت صحیح ہے اس میں '' مَدَّ بِھَا '' کا لفظ ہے جس کی دلالت جَہر پر قطعی نہیں جیسا جَہر کا احتمال ہے ویسا ہی بلکہ اس سے قوی مد ہمزہ کا احتمال ہے اس لئے یہ روایت جَہر کے لئے حجت نہیں ہو سکتی ، دوسری روایتیں جن میں جَہر و رفع کے الفاظ ہیں ان کی اسناد میں کلام ہے علاوہ بریں وہ روایت بالمعنی ہیں اور فہمِ راوی حدیث نہیں لہذا آمین کا آہستہ ہی پڑھنا صحیح تر ہے ۔(خزائن العرفان)۔
سورة یٰسٓ : فہم و تدبر کے آئینہ میں
دوسري قسط
انا نحن نحيي الموتى ونكتب ما قدموا واثارهم وكل شيء احصيناه في امام مبين (يس 12) ”یقینا ہم ہی مُردوں کوزندہ کرنے والے ہیں اور ہم لکھ رہے ہیں ہر اس عمل کو جو اُنہوں نے آگے بھیجا اور ہر اس نشانی کو جسے اُنہوں نے پیچھے چھوڑا ۔ اور ہم نے ہر چیز کو ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے۔“
مردوں کو جلانے کا مسئلہ ہی قیامت ا ورآخرت کے منکرین کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مجید کے مختلف مقامات میں دلائل کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ یہ کام اس کے لیے کتنا آسان ہے:
” اور یہ کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈّیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے اُٹھائے جائیں گے؟ اُن سے کہو تم پتھر یا لوہا بھی ہوجاؤیا کوئی اور شئے جو تمہارے خیال میں اس سے بھی زیادہ سخت ہو ۔اس کے بعد وہ پوچھیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرےگا؟ جواب میں کہو ”وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا “ وہ سر ہلا ہلا کر پوچھیں گے ”اچھا!تو یہ ہوگا کب؟ تم کہدو کہ عجب نہیں کہ اس کا وقت قریب ہی آپہنچا ہو “ سورة الحج میں اللہ تعالیٰ فرمایا : ” لوگو!اگر تمہیں زندگی بعدِموت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہوکہ ہم نے تم کو مٹّی سے پیدا کیا ہے۔پھر نطفے سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے ، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ (یہ اس لیے بتایا جا رہا ہے کہ ) ہم تم پر حققیقت کو آشکارا کردیں۔پھر ایک خاص مدّت تک ہم جس( شکل) کو چاہیں رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں اور پھر ایک بچے کی صورت ہم تمہیں نکال لاتے ہیں تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو“(الحج : 5)
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے زندگی بعد موت کو پر زور اسلوب میں بیان کیا ہے کہ ”بروزِ قیامت ہم سبھی مُردوں کو خود ہی زندہ کرنے والے ہیں“
امام ابنِ کثیر رحمه الله اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ” اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتاہے کہ جن لوگوں کے دل کفر و ضلالت کی وجہ سے مردہ ہو چکے ہیںان میں سے جس کو چاہے گا اللہ تعالی ٰبذریعہ ہدایت زندہ کر دے گا۔ جیسے سورة الحدید میں ان لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد جن کے دل ہدایت سے محرومی کی وجہ سے سخت ہوچکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کہا ” جان لو کہ اللہ زمین میں جان ڈالتا ہے اس کے مر جانے کے بعد ، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں صاف صاف بتادی ہیں تاکہ سمجھ سے کام لو“( الحدید : 17)
وَنَكتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم´﴿” اور ہم لکھ رہے ہیں ہر اس عمل کو جو اُنہوں نے آگے بھیجا اور ہر اس نشانی کو جسے اُنہوں نے پیچھے چھوڑا “
مَا قَدَّمُو´ا وہ سارے نیک و بد اعمال جو انہوں نے اپنی زندگیوں میں کیے اور اب ان سے قلم اُٹھا لیا گیا ہے۔ جیسے حدیث میں آیا ہے "جب آدمی کوئی مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بھی اس سے کٹ جاتا ہے"
وَاٰثَارَھُم´ سے وہ اعمال مراد ہیں جن کا اجر و ثواب آدمی کو بعدِ مرگ بھی ملتا رہتا ہے اور انسانی سماج میں بھی ان کا اثر پھیلتا پھولتا رہتا ہے ۔یا اس سے وہ سارے برے اعمال مراد ہیں جن کی نحوست مرنے کے بعد بھی آدمی کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور انکا گناہ اس کے نامہ اعمال میں درج ہوا جاتا ہے۔ پھرسماج کا بھی یہ ناسور بن جاتا ہے۔
آثار کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
جیسے ایک شخص ایک کام کرتا ہے اچھا یا برا ، اس کا ثواب یا گناہ اس کے نامہ عمل میں درج کیا جاتا ہے ۔ پھر اس کا دیکھا دیکھی کچھ دوسرے لوگ بھی اسی (اچھے یا برے ) کام کو کرنے لگتے ہیں جس کا سلسلہ اس آدمی کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔جس کا اجر یا گناہ ان لوگوں کے دفترِ عمل میں لکھے جانے کے ساتھ ساتھ نتیجہ عمل اس شخص کی کتاب میں بھی درج کیا جاتا ہے جو اس عمل کا سبب بنا تھا۔صحیح مسلم کی روایت میں اس کی تفصیل یوں ملتی ہے
یعنی جس کسی نے بھی اسلام میں کسی اچھے طریقے کو رواج دیا اُسے اپنا اجر تو ملیگا ہی ساتھ میں لوگوں کا اجر بھی اس کے دفتر میں جمع ہوگا جو اس کے بعد بھی اس پر عمل پیرا رہے جبکہ ان کے اجر میں ذرا کمی نہیں کی جائے گی(مسلم) بالکل یہی معاملہ غلط کاموں کو رواج دینے کا بھی ہے ۔ (نوٹ: یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ سنّتِ حسنہ کو رواج دینے کا مطلب اسلام کے اندر غیر اسلامی ریت اور روایتوں کو اپنانا اور ان کو رواج دینا نہیں ہے اور نہ اس سے مراد دین میں نئے طریقوں کو ایجاد کرنا ہے ۔ اللہ کہ رسول ا نے فرمایا ہے کہ جس نے بھی ہماری اس شریعت میں کسی نئی چیزکا اضافہ کیا وہ نا قابل قبول ہے ۔ لہٰذا مذکورہ بالا حدیث سے مطلوب اس سنت کو زندہ کرنا ہے جسے لوگوں نے فراموش کردیا ہو یا کسی بدعت نے اس کی جگہ لی ہو ۔)
آثار کی ایک صورت ایک اور مشہور حدیث میں اس طرح وارد ہوی ہے۔ آپ ا نے فرمایا ” اذا مات ابن آدم انقطع عملہ الا من ثلاث ، من علم ینتفع بہ او ولد صالح یدعو لہ او صدقة جاریة من بعدہ “ جب کوئی آدمی مرجا تا ہے اس کے ساتھ ہی اس کے عمل کا سلسلہ بھی کٹ جاتا ہے (یعنی اس کا عمل نامہ بند ہوجاتا ہے اور اس میں اجر وثواب کا اندراج رک جاتا ہے) مگر تین چیزوں کا ثواب اس کے نامہ ¿ عمل میں برابر لکھا جاتا رہے گا ان میں سے ایک مرنے والے کا چھوڑا ہوا علم ہے جس سے (اس کے بعد بھی ) استفادہ کیا جائے گا۔ دوسری چیز اسکی چھوڑی ہوی نیک اور صالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے اور وہ صدقہ جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے ۔ (مسلم)
مفسّر امام ابنِ کثیر رحمه الله نے ’ آثار ‘ کا ایک مطلب اور بھی بیان کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ” اس سے مراد وہ نشانِ قدم ہیں جو اطاعت یا معصیت کی راہ میں پڑتے ہیں ۔ اس قول کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے امام مسلم نے روایت کی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ جب مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم کے ارد گرد کی کچھ زمینیں خالی ہونے لگیں تو بنو سلمہ کے لوگوں نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا ۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو اس کی خبر ہوی تو آپ نے انہیں مخاطب کرکے کہا : کہ اے بنو سلمہ ! اب جن گھروں میں ہو وہیں رہو (تم جووہاں سے چل کر مسجد آتے ہو ) تمہارا ہر ہر نقشِ قدم لکھا جارہا ہے اور تمہارا ہر نشانِ قدم (اللہ تعالیٰ کے پاس ) محفوظ ہورہا ہے۔ کچھ روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہی آیت اِنَّا نَحنُ نُحیِ المَوتیٰ وَنَكتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم نازل ہوی تھی۔
اس طرح سے وَنَکتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم کے مفہوم سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں
٭انسان خود کو شترِ بے مہار نہ سمجھے اورزمین پر من مانی کرتانہ پھرے ۔ اسے اس کی آزادی کے حدود بتائے گئے اور خبردارکیا گیا کہ اس کی حیثیت زمین کے اوپراس قیدی کی سی ہے جس کے چاروں طرف کڑی نگرانی لگائی گئی ہے ۔ نہ سونے والی نگاہیں ہمیشہ اس کی تاک میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اس پر ایسے چاق و چوبند پہرہ بٹھایا گیا ہے جو اس کی ہر حرکت کو نوٹ کر رہے ہیں اور جو اس کی سانسوں کی بھی گنتی رکھتے ہیں۔قرآن مجید نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ سورہ زخرف میں اللہ تعالیٰ نے کہا : ” کیا وہ سجھتے ہیں کہ ہم ان کا راز اور اکی سر گوشیاں سنتے نہیں ہیں؟ ہم سب کچھ سک رہے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس رہ کر لکھ رہے ہیں ‘‘(الزخرف: 80)
٭”انسان کی زبان سے نکلنے والی ہر بات نوٹ کی جارہی ہے ”(حرکات و سکنات اوراشارات و کنایات کوبھی تاڑنے والے ) فی الفور گرفت میں لانے والے دونوں ( فرشتے)نوٹ کر رہے ہیں ، ایک دائیں جانب بیٹھا ہے اور دوسرا بائیں جانب۔ زبان سے کوئی بات نہیں نکلتی مگر اس کے پاس ایک مستعد نگران موجود ہوتا ہے“
٭اس کے سارے افعال کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے ۔اور انہیں محفوظ کیا جارہا ہے اس میںکوئی شک نہیں کہ تم پر نگران مقرر ہیں ، کچھ معزز کاتبین ، وہ ہر اس چیز کوجانتے ہیں جو تم کرتے ہو ۔ (الانفطار : 10۔12) انسان کے ان ریکارڈ شدہ اعمال کو بروز قیامت اس کے سامنے پیش کیا جائےگا ۔ آیت کا پہلا حصہ اِنَّا نَحنُ نُحیِ المَوتی سے اس کی طرف اشارہ ملتاہے۔ قرآن مجیدنے مختلف مقاماتمیں متعدد پیرایوں سے اس کی وضاحت کی ہے۔مثلا ً سورة بنی اسرائیل میں بتا یا گیا : ” اور ہم نے ہر انسان کا نصیبہ اسکے گلے کے ساتھ باندھ دیا ہے اور ہم قیامت کے روز اس کے لیے ایک رجسٹر نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا ۔(پھر ہم اس سے کہیں گے ) پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔“(بنی اسرائیل : 31)
سورة الکہف میں اس کتاب کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے” اوردفتر(عمل)سامنے رکھدیا جائےگا ۔اس وقت تم دیکھوگے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ”ہائے ہماری شامت، یہ کیسی کتاب ہے!؟ ہماری چھوٹی بڑی حرکت میں سے کسی ایک کو بھی تو اس نے نہیں چھوڑی ہے سب کا سب جمع کردیا ہے! “۔ جو کچھ بھی انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہیں کرےگا“ (الکہف : ۹۴)
وَکُلَّ شَیی اَحصَینٰہُ فِی´ اِمَامٍ مُّبِینٍ
’ امام مبین‘ سے اکثر مفسّرین نے ”اللوح المحفوظ“ مراد لیا ہے یعنی وہ ’ام الکتاب’ جس میں کائنات اور اسکی ہر شی ¿ کی تفصیل موجود ہے۔قرطبی نے ’الامام’ کی تشریح کرتے ہوے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ کتاب ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے اور وہی حجت اور دلیل بھی۔ سید قطب شہید رحمه الله لکھتے ہیں کہ ” اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ازلی اور قدیم علم ہے جو کائنات کی ہر ہر چیز پر محیط ہے ” اس طرح آیت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ساری کائنات، اس کا ذرہ ذرہ اور اس میں ظہور پذیر ہونے والا ہر واقعہ لکھ کر محفوظ کردی گئی ہے۔
اعجاز الدین عمری
اہم مراجع و مصادر:
فسیر ابنِ کثیر از امام حافظ عماد الدین اسماعیل بن کثیرالدمشقی رحمه الله
تفسیر قرطبی (جامع لأحکام القرآن) از امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی رحمه الله
تفسیرطبری(جامع ا لبیان فی تفسیر القرآن) از امام ابو جعفر محمدبن جریرالطبری رحمه الله
فتح القدیر از امام محمدعلی الشوکانی رحمه الله
فتح الباری از اشہاب الدین احمد بن حجر العسقلانی رحمه الله
فی ظلال القرآن از شہید سید قطب رحمه الله
اضواءالبیان فی ایضاح القرآن از محمد الامین الشنقیطی رحمه الله
تفہیم القرآن از مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمه الله
تدبّرِ قرآن از مولانا امین احسن اصلاحی رحمه الله
انا نحن نحيي الموتى ونكتب ما قدموا واثارهم وكل شيء احصيناه في امام مبين (يس 12) ”یقینا ہم ہی مُردوں کوزندہ کرنے والے ہیں اور ہم لکھ رہے ہیں ہر اس عمل کو جو اُنہوں نے آگے بھیجا اور ہر اس نشانی کو جسے اُنہوں نے پیچھے چھوڑا ۔ اور ہم نے ہر چیز کو ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے۔“
مردوں کو جلانے کا مسئلہ ہی قیامت ا ورآخرت کے منکرین کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مجید کے مختلف مقامات میں دلائل کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ یہ کام اس کے لیے کتنا آسان ہے:
” اور یہ کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈّیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے اُٹھائے جائیں گے؟ اُن سے کہو تم پتھر یا لوہا بھی ہوجاؤیا کوئی اور شئے جو تمہارے خیال میں اس سے بھی زیادہ سخت ہو ۔اس کے بعد وہ پوچھیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرےگا؟ جواب میں کہو ”وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا “ وہ سر ہلا ہلا کر پوچھیں گے ”اچھا!تو یہ ہوگا کب؟ تم کہدو کہ عجب نہیں کہ اس کا وقت قریب ہی آپہنچا ہو “ سورة الحج میں اللہ تعالیٰ فرمایا : ” لوگو!اگر تمہیں زندگی بعدِموت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہوکہ ہم نے تم کو مٹّی سے پیدا کیا ہے۔پھر نطفے سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے ، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ (یہ اس لیے بتایا جا رہا ہے کہ ) ہم تم پر حققیقت کو آشکارا کردیں۔پھر ایک خاص مدّت تک ہم جس( شکل) کو چاہیں رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں اور پھر ایک بچے کی صورت ہم تمہیں نکال لاتے ہیں تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو“(الحج : 5)
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے زندگی بعد موت کو پر زور اسلوب میں بیان کیا ہے کہ ”بروزِ قیامت ہم سبھی مُردوں کو خود ہی زندہ کرنے والے ہیں“
امام ابنِ کثیر رحمه الله اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ” اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتاہے کہ جن لوگوں کے دل کفر و ضلالت کی وجہ سے مردہ ہو چکے ہیںان میں سے جس کو چاہے گا اللہ تعالی ٰبذریعہ ہدایت زندہ کر دے گا۔ جیسے سورة الحدید میں ان لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد جن کے دل ہدایت سے محرومی کی وجہ سے سخت ہوچکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کہا ” جان لو کہ اللہ زمین میں جان ڈالتا ہے اس کے مر جانے کے بعد ، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں صاف صاف بتادی ہیں تاکہ سمجھ سے کام لو“( الحدید : 17)
وَنَكتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم´﴿” اور ہم لکھ رہے ہیں ہر اس عمل کو جو اُنہوں نے آگے بھیجا اور ہر اس نشانی کو جسے اُنہوں نے پیچھے چھوڑا “
مَا قَدَّمُو´ا وہ سارے نیک و بد اعمال جو انہوں نے اپنی زندگیوں میں کیے اور اب ان سے قلم اُٹھا لیا گیا ہے۔ جیسے حدیث میں آیا ہے "جب آدمی کوئی مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بھی اس سے کٹ جاتا ہے"
وَاٰثَارَھُم´ سے وہ اعمال مراد ہیں جن کا اجر و ثواب آدمی کو بعدِ مرگ بھی ملتا رہتا ہے اور انسانی سماج میں بھی ان کا اثر پھیلتا پھولتا رہتا ہے ۔یا اس سے وہ سارے برے اعمال مراد ہیں جن کی نحوست مرنے کے بعد بھی آدمی کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور انکا گناہ اس کے نامہ اعمال میں درج ہوا جاتا ہے۔ پھرسماج کا بھی یہ ناسور بن جاتا ہے۔
آثار کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
جیسے ایک شخص ایک کام کرتا ہے اچھا یا برا ، اس کا ثواب یا گناہ اس کے نامہ عمل میں درج کیا جاتا ہے ۔ پھر اس کا دیکھا دیکھی کچھ دوسرے لوگ بھی اسی (اچھے یا برے ) کام کو کرنے لگتے ہیں جس کا سلسلہ اس آدمی کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔جس کا اجر یا گناہ ان لوگوں کے دفترِ عمل میں لکھے جانے کے ساتھ ساتھ نتیجہ عمل اس شخص کی کتاب میں بھی درج کیا جاتا ہے جو اس عمل کا سبب بنا تھا۔صحیح مسلم کی روایت میں اس کی تفصیل یوں ملتی ہے
یعنی جس کسی نے بھی اسلام میں کسی اچھے طریقے کو رواج دیا اُسے اپنا اجر تو ملیگا ہی ساتھ میں لوگوں کا اجر بھی اس کے دفتر میں جمع ہوگا جو اس کے بعد بھی اس پر عمل پیرا رہے جبکہ ان کے اجر میں ذرا کمی نہیں کی جائے گی(مسلم) بالکل یہی معاملہ غلط کاموں کو رواج دینے کا بھی ہے ۔ (نوٹ: یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ سنّتِ حسنہ کو رواج دینے کا مطلب اسلام کے اندر غیر اسلامی ریت اور روایتوں کو اپنانا اور ان کو رواج دینا نہیں ہے اور نہ اس سے مراد دین میں نئے طریقوں کو ایجاد کرنا ہے ۔ اللہ کہ رسول ا نے فرمایا ہے کہ جس نے بھی ہماری اس شریعت میں کسی نئی چیزکا اضافہ کیا وہ نا قابل قبول ہے ۔ لہٰذا مذکورہ بالا حدیث سے مطلوب اس سنت کو زندہ کرنا ہے جسے لوگوں نے فراموش کردیا ہو یا کسی بدعت نے اس کی جگہ لی ہو ۔)
آثار کی ایک صورت ایک اور مشہور حدیث میں اس طرح وارد ہوی ہے۔ آپ ا نے فرمایا ” اذا مات ابن آدم انقطع عملہ الا من ثلاث ، من علم ینتفع بہ او ولد صالح یدعو لہ او صدقة جاریة من بعدہ “ جب کوئی آدمی مرجا تا ہے اس کے ساتھ ہی اس کے عمل کا سلسلہ بھی کٹ جاتا ہے (یعنی اس کا عمل نامہ بند ہوجاتا ہے اور اس میں اجر وثواب کا اندراج رک جاتا ہے) مگر تین چیزوں کا ثواب اس کے نامہ ¿ عمل میں برابر لکھا جاتا رہے گا ان میں سے ایک مرنے والے کا چھوڑا ہوا علم ہے جس سے (اس کے بعد بھی ) استفادہ کیا جائے گا۔ دوسری چیز اسکی چھوڑی ہوی نیک اور صالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے اور وہ صدقہ جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے ۔ (مسلم)
مفسّر امام ابنِ کثیر رحمه الله نے ’ آثار ‘ کا ایک مطلب اور بھی بیان کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ” اس سے مراد وہ نشانِ قدم ہیں جو اطاعت یا معصیت کی راہ میں پڑتے ہیں ۔ اس قول کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے امام مسلم نے روایت کی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ جب مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم کے ارد گرد کی کچھ زمینیں خالی ہونے لگیں تو بنو سلمہ کے لوگوں نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا ۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو اس کی خبر ہوی تو آپ نے انہیں مخاطب کرکے کہا : کہ اے بنو سلمہ ! اب جن گھروں میں ہو وہیں رہو (تم جووہاں سے چل کر مسجد آتے ہو ) تمہارا ہر ہر نقشِ قدم لکھا جارہا ہے اور تمہارا ہر نشانِ قدم (اللہ تعالیٰ کے پاس ) محفوظ ہورہا ہے۔ کچھ روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہی آیت اِنَّا نَحنُ نُحیِ المَوتیٰ وَنَكتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم نازل ہوی تھی۔
اس طرح سے وَنَکتُبُ مَا قَدَّمُوا وَاٰثَارَھُم کے مفہوم سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں
٭انسان خود کو شترِ بے مہار نہ سمجھے اورزمین پر من مانی کرتانہ پھرے ۔ اسے اس کی آزادی کے حدود بتائے گئے اور خبردارکیا گیا کہ اس کی حیثیت زمین کے اوپراس قیدی کی سی ہے جس کے چاروں طرف کڑی نگرانی لگائی گئی ہے ۔ نہ سونے والی نگاہیں ہمیشہ اس کی تاک میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اس پر ایسے چاق و چوبند پہرہ بٹھایا گیا ہے جو اس کی ہر حرکت کو نوٹ کر رہے ہیں اور جو اس کی سانسوں کی بھی گنتی رکھتے ہیں۔قرآن مجید نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ سورہ زخرف میں اللہ تعالیٰ نے کہا : ” کیا وہ سجھتے ہیں کہ ہم ان کا راز اور اکی سر گوشیاں سنتے نہیں ہیں؟ ہم سب کچھ سک رہے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس رہ کر لکھ رہے ہیں ‘‘(الزخرف: 80)
٭”انسان کی زبان سے نکلنے والی ہر بات نوٹ کی جارہی ہے ”(حرکات و سکنات اوراشارات و کنایات کوبھی تاڑنے والے ) فی الفور گرفت میں لانے والے دونوں ( فرشتے)نوٹ کر رہے ہیں ، ایک دائیں جانب بیٹھا ہے اور دوسرا بائیں جانب۔ زبان سے کوئی بات نہیں نکلتی مگر اس کے پاس ایک مستعد نگران موجود ہوتا ہے“
٭اس کے سارے افعال کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے ۔اور انہیں محفوظ کیا جارہا ہے اس میںکوئی شک نہیں کہ تم پر نگران مقرر ہیں ، کچھ معزز کاتبین ، وہ ہر اس چیز کوجانتے ہیں جو تم کرتے ہو ۔ (الانفطار : 10۔12) انسان کے ان ریکارڈ شدہ اعمال کو بروز قیامت اس کے سامنے پیش کیا جائےگا ۔ آیت کا پہلا حصہ اِنَّا نَحنُ نُحیِ المَوتی سے اس کی طرف اشارہ ملتاہے۔ قرآن مجیدنے مختلف مقاماتمیں متعدد پیرایوں سے اس کی وضاحت کی ہے۔مثلا ً سورة بنی اسرائیل میں بتا یا گیا : ” اور ہم نے ہر انسان کا نصیبہ اسکے گلے کے ساتھ باندھ دیا ہے اور ہم قیامت کے روز اس کے لیے ایک رجسٹر نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا ۔(پھر ہم اس سے کہیں گے ) پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔“(بنی اسرائیل : 31)
سورة الکہف میں اس کتاب کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے” اوردفتر(عمل)سامنے رکھدیا جائےگا ۔اس وقت تم دیکھوگے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ”ہائے ہماری شامت، یہ کیسی کتاب ہے!؟ ہماری چھوٹی بڑی حرکت میں سے کسی ایک کو بھی تو اس نے نہیں چھوڑی ہے سب کا سب جمع کردیا ہے! “۔ جو کچھ بھی انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہیں کرےگا“ (الکہف : ۹۴)
وَکُلَّ شَیی اَحصَینٰہُ فِی´ اِمَامٍ مُّبِینٍ
’ امام مبین‘ سے اکثر مفسّرین نے ”اللوح المحفوظ“ مراد لیا ہے یعنی وہ ’ام الکتاب’ جس میں کائنات اور اسکی ہر شی ¿ کی تفصیل موجود ہے۔قرطبی نے ’الامام’ کی تشریح کرتے ہوے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ کتاب ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے اور وہی حجت اور دلیل بھی۔ سید قطب شہید رحمه الله لکھتے ہیں کہ ” اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ازلی اور قدیم علم ہے جو کائنات کی ہر ہر چیز پر محیط ہے ” اس طرح آیت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ساری کائنات، اس کا ذرہ ذرہ اور اس میں ظہور پذیر ہونے والا ہر واقعہ لکھ کر محفوظ کردی گئی ہے۔
اعجاز الدین عمری
اہم مراجع و مصادر:
فسیر ابنِ کثیر از امام حافظ عماد الدین اسماعیل بن کثیرالدمشقی رحمه الله
تفسیر قرطبی (جامع لأحکام القرآن) از امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی رحمه الله
تفسیرطبری(جامع ا لبیان فی تفسیر القرآن) از امام ابو جعفر محمدبن جریرالطبری رحمه الله
فتح القدیر از امام محمدعلی الشوکانی رحمه الله
فتح الباری از اشہاب الدین احمد بن حجر العسقلانی رحمه الله
فی ظلال القرآن از شہید سید قطب رحمه الله
اضواءالبیان فی ایضاح القرآن از محمد الامین الشنقیطی رحمه الله
تفہیم القرآن از مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمه الله
تدبّرِ قرآن از مولانا امین احسن اصلاحی رحمه الله
Subscribe to:
Posts (Atom)