Saturday, January 29, 2011

سورة یٰسٓ فہم و تدبر کے آئینہ میں

”یٰس، قسم ہے پر حکمت قرآن کی کہ تم یقینا رسولوں میں سے ہو ،(اس بات پر بھی) کہ تم ایک نہایت سیدھی راہ پر ہو۔ (یہ قرآن )غالب و رحیم ہستی کا نازل کردہ ہے تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گیے تھے اِس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوے ہیں۔“
یٰسٓ ۔ یہ حروفِ مقطعات میں سے ہے (الٓم ، حٰم ، المص وغیرہ) چونکہ مختلف سورتوں کے شروع میں آنے والے ان حروف کو کاٹ کاٹ کر یا الگ الگ پڑھا جاتا ہے اس لیے ان کو حروفِ مقطعات کہتے ہیں ۔
ان حروف کے سلسلہ میں قدیم وجدیدمفسرینِ کرام دو گروہوں میں بٹے ہوے ہیں۔
ایک گروہ کہتا ہے کہ ان کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ،لہذااُنہوں نے ان کی کوئی تفسیر نہیں کی ۔ قرطبی نے اپنی تفسیر میں حضرت ابوبکر ، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی اور حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہم کے ناموں کو اسی گروہ میں نقل کیا ہے۔


علمائے تفسیر کا دوسرا گروہ اگر چہ ان حروف کی تفسیر و تشریح کو غلط نہیں سمجھتا مگر معنی کی تعیین میں اُن میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔اس سلسلہ میں کچھ مشہور اقوال اس طرح ہیں:
(1) ان حروف کوا للہ تعالیٰ نے فواتح کے طور پر استعمال کیا ہے جن سے سورة شروع کردی جائے۔
(2) یہ سورتوں کے نام ہیں۔( قرآنِ مجید کی بعض سورتیں اِنہیں ناموں سے مشہور بھی ہیں۔ جیسے یٰس۔ طہٰ۔ حم السجدہ وغیرہ )
(3) یہ ا للہ تعالیٰ کے نام ہیں۔
(4) یہ قرآنِ مجید کے نام ہیں۔
سید قطب شہید رحمه الله نے اپنی تفسیر ”فی ظلال القرآن“ میں لکھا ہے کہ ” یہ سادہ حروف ہیں جنہیں کچھ سورتوں کے آغاز میں لاکربتایاگیا ہے کہ یہ قرآن، جوحیرت انگیز نظم و ضبط اور مفہوم و معانی کے ذریعہ اپنے پڑھنے اور سننے والے کو لاجوا ب کردیتا ہے ، وہ انہیں متفرق اور الگ الگ حروف سے ربط پاکر بنا ہے۔“
و القرآن الحکیم انک لمن المرسلین قرآنِ مجید، حکیم (پر حکمت ، مضبوط) ہے اس لیے کہ ایک حکیم ہستی نے اُسے نازل کیا ہے۔ باطل کسی طور اس میں دخل اندازی نہیں کر سکتا ۔ اسکی آیتیں نظم و معانی کے حیرت انگیز رشتے سے بندھی ہوی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے:﴾و انّہ لکتاب عزیز لا یأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید﴿ اورحقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے۔ باطل سامنے سے اس پر آسکتا ہے نہ پیچھے سے ، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔ (حم السجدہ:۱۴۔۲۴)
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: کتٰب احکمت اٰیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر ”(یہ ایک ) فرمان ہے ، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوی ہیں، ایک دانا اور با خبر ہستی کی طرف سے“ (ہود : ۱)
قرآن اپنے اندر عقلی دلائل کی ٹھوس بنیاد بھی رکھتا ہے اور احساسات و جذبات پر بھی حاوی ہوتا ہے۔
انک لمن المرسلین اللہ تعالی نے اس پر حکمت کتاب کی قسم کھاکر دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ آپ کی نبوت و رسالت کی تصدیق کے لیے خود یہ کتاب کافی ہے، کیوں کہ اس جیسی کتاب کو پیش کرنا جن و انس میں سے کسی کے بس کی بات نہیں ﴿ ”کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کراس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں گے تو نہ لا سکےں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔“(الاسراء:۸۸)
انک لرسول کہنے کے بجائے انک لمن المرسلین کہہ کر اس بات سے بھی پردہ ہٹایا گیا کہ نہ آپ پہلے رسول ہیں اور نہ اسلام کوئی نیا دین ہے ، بلکہ رسالت کا ایک سلسلہ اول روز ہی سے چلا آرہا ہے اور آپ اسی کی ایک کڑی ہیں۔
علی صراط مستقیم در اصل’ صراط مستقیم‘ اس سیدھے راستہ کو کہتے ہیں جو آدمی کو مقصود و مطلوب تک پہنچائے۔ اس آیت میں گویا اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ قرآن کا پیش کردہ نظامِ حیات ہی درست اور صحیح نظام ہے۔سورة الاسراءمیں کہا گیا ان ھذاالقرآن یھدي للتي هي أقوم ” حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے “ بلکہ یہ کتاب ہی خود ایسی ہے کہ اسمیں ٹیڑھ ہے ہی نہیں۔ الحمد للہ الذي أنزل علی عبدہ الکتاب ولم یجعل لہ عوجا،قیما ”تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی، ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب
(الکہف :۲۔۱)
یہ تو وہی راہِ فطرت ہے جس پر کاروانِ کل کائنات رواں دواں ہے ۔ سورة الشوریٰ میں اسی بات کو اس طرح کہی گئی ہے : وانک لتھدي الی صراط مستقیم۔ صراط اللہ الذي لہ ما فی السمٰوات وما فی الارض۔ الا الی اللہ تصیر الأمور ” یقینا تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو ، اُس خدا کے راستے کی طرف جو زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے ۔ خبردار رہو سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔“ (الشوریٰ : ۲۵۔۳۵)
یہ ایسا سیدھا راستہ ہے کہ جس پر چل کر شہری ہو یا دیہاتی، امیر ہو یا غریب، عالم ہو یا ان پڑھ ،محل میں رہنے والا ہو یا جھونپڑ ی میں رہنے والا ہر ایک اپنی منزل پا سکتاہے اور گوہرِ مراد کو حاصل کر سکتا ہے ۔


تنزیل العزیز الرحیم ” (یہ قرآن )غالب و رحیم ہستی کا نازل کردہ ہے “
’تنزیل‘ کسی چیز کو درجہ بدرجہ نہایت اہتمام کے ساتھ اتارنے کو بھی کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو نہایت اہتمام اور تدریج کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس پر غور کریں اسکو سمجھیں اوراس سے اپنی زندگی کے لیے صحیح راہ و منزل متعیّن کر لیں۔
’ العزیز‘ کی صفت لاکر گویا متنبہ کیا گیا ہے کہ لوگ اس کتاب کے تئیں سنجیدہ ہوجائیں اور طبیعت کی لا اُبالی پن کو چھوڑ دیں۔ جب یہ کتاب تمہارے لیے نازل کی گئی ہے تو تمہیں اسکی حقیقت و حقّانیت کا ادراک بھی ہونا چاہیے اور یہ سمجھ لیناچاہیے کہ اس کتاب کو اتارنے والا غالب اور زبردست ہے، اس سے انحراف کی روش اختیار کرنے والوں سے انتقام لینے پر نہ یہ کہ وہ مکمل قدرت رکھتا ہے بلکہ وہ یقینا ان کے لیے نہایت سخت بنے گا
’ الرحیم‘ ‘ کی صفت سے ظاہرہے کہ جو لوگ قرآن کی دعوت کو مان کر سپردگی کی زندگی گذاریں گے وہ اُنہیں اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازے گا۔سورة الحجرمیں ان دونوں صفات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ﴾ونبیءعبادی انّي انا الغفوو الرحیم وان عذابي ھو العذاب الالیم ” اور(اے نبی) میرے بندوں کو خبر دو کہ میں بہت در گذر کرنے والا اور رحیم ہوں۔ مگر اس کے ساتھ میرا عذاب بھی نہایت دردناک عذاب ہے۔ (الحجر : ۹۴۔ ۰۵)


لتنذر قوما ما انذر آبائھم فھم غٰفلون ” تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گیے تھے ۔اِس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوے ہیں۔“
آپ کے ہاتھوں اس پر حکمت کتاب کو دیکر بھیجنے کا مقصد اس قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا تھا جن میں ایک طویل عرصہ سے کوئی منذر(ڈرانے والا) اور جگانے والا نہیں آیا تھا۔ مار گَزیدہ، تریاق سے چنگا ہوجاتاہے اور غافل کے لیے انذار(ڈرانا اور تنبیہ کرنا) ہی تریاق ہوتا ہے ۔
عموما انبیاءو مرسلین کی بعثت دو حیثیت سے ہوتی رہی ہے ۔ ایک بحیثیت بشیر اور دوسری بحیثیت نذیر ۔
جب رسو ل، اللہ تعالیٰ کی وحدت وعبودیت کی دعوت دیتا ہے اور اپنے چاروں طرف علم و ہدایت کی روشنی بکھیرتا ہے تو انسانی نفوس کے اندھیارے چھٹنے لگتے ہیں اورجب اجالے سے دلوں کی سیاہی دھلتی ہے تو پیغمبر انہیں رحمتوں کی نوید سناتا ہے ، ان نفوسِ قدسیہ کو باغ و بہارِ بہشت کی بشارت اور فوز و فلاحِ دارین کی خوشخبری دی جاتی ہے۔یہاں رسول کے بشیر ہونے کی حیثیت نمایاں رہتی ہے۔ اورجن کے دلوں میں ضلالت و جہالت کا دبیز پردہ پڑا رہتا ہے ، رسول اسکو انذار کی لاٹھی ہی سے چاک کرتا ہے۔ وہ اُنہیں اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کا خوف دلاتا ہے، آخرت کی ہولناکیوں اور باز پرس کی سنگینیوں سے ڈراتا ہے ، کفر و بدی کے رسواکن انجام کی پیشینگوئی دیتا ہے یہاںنذیر کی حیثیت نمایاں ہوتی ہے۔
غفلت،دل کی بیماریوں میں سب سے بڑی ہوتی ہے۔غافل دل میں زندگی نہیں ہوتی۔انبیاءو رسل کی تعلیمات مردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونکتی ہے۔ اس بات کی وضاحت قرآنِ مجید یوں کرتا ہے یٰاَیّھا الّذینَ اٰمَنُوا استَجِیبُوا لِلّٰہِ وَ لِلرّسُولِ اِذَا دَعَاکُم لِما یُحیِیکُم ” اے ایمان لانے والو ،اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسول تمہیں اُس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔“ (الانفال : ۴۲) بقولِ اقبال
دلِ مردہ دل نہیں ہے ، اُسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
اسی مرضِ کہن کے علاج کے لیے انبیائے کرام ز ندگی کے اسٹیج پر نمودار ہوتے رہے ہیں ۔اللہ کی آیتیں ، اللہ کی باتیں اور اللہ کی یاد دل کی زندگی کا سامان مہیّا کرتی ہیںبالکل اُسی طرح جس طرح بارشوں کے بعد سوکھی زمین لہلہانے لگتی ہے ۔ قرآن جا بجا اس بات کو دہراتا ہے کہ جب دل اللہ کی یاد سے غافل اور اس کی آیتوں سے تجاہل برتتا ہے تو اس میں مردنی چھاتی ہے اور اس میں سختی آجاتی ہے۔
اَلم یَأنِ لِلَّذِینََ اٰمَنُوا اَن تَخشَعَ قُلُوبھم لِذِکرِ اللہ وَما نَزَلَ مِنَ الحَقِّ وَلا یَکُونوا کالَّذِ ینَ اُوتو الکِتابَ مِن قَبلُ فَطالَ علَیھِمُ الاَمَدُفَقَسَتَ قُلُوبھم وَ کثیر منھُم فٰسِقُون اِعلَمُوا اَنَّ اللہ یُحیِی الارض بَعدَ مَوتِھا قَد بَیَّنَّالَکُمُا الاٰیاتِ لَعَلَّکم تَعقِلُونَ ” کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدّت ان پر گذر گئی تو انکے دل سخت ہوگئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوے ہیں ۔خوب جان لو کہ اللہ زمین کواُس کی موت کے بعدزندگی بخشتا ہے، ہم نے نشانیاں تم کو صاف صاف دکھا دی ہیں ۔ شاید کہ تم عقل سے کام لو ۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے ”مثل الذي یذکر ربّہ والذي لایذکر ہ کمثل الحي وا لمیت“ وہ شخص جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور وہ جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا ہے ، ان کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے ( بخاری)


”ان میں سے اکثر فیصلہ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں ۔ اسی لیے وہ ایمان نہیں لاتے۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دئے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں۔ پس ان کے سر اس طرح اُٹھے ہوے ہیں کہ جھک گئی ہیں ۔ ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے اورایک دیوار ان کے پیچھے، اس طرح ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے۔انہیں اب کچھ نہیں سوجھتا ۔ آپ کا ا ن کو ڈرانا اور نہ ڈرانا دونوں برابر ہے۔ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔ تم تو پس اسی کو ڈراسکتے ہو جو نصیحت پر دھیان کرے اور غیب میںخدائے رحمن سے ڈرے۔ پس ایسے شخص کو مغفرت اور اجرِ عظیم کی بشارت دے دو“


لَقَد حَقَّ القَولُ عَلیٰ اكثَرِھِم فَھُم لایُومِنُونَ ”ان میں سے اکثر فیصلہ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں ۔ اسی لیے وہ ایمان نہیں لاتے“
اللہ تعالیٰ علیم بذات الصدور ہے ۔ رازہائے نہاں خانہ دل سے بخوبی واقف ہے۔لوگوں کی طبیعتوں اور فطرتوں کا علم رکھنے والا ہے۔ سب کے نتائج اور انجام سے بھی وہ باخبر ہے ۔ اسی لیے رسول کی اپنی ذمّہ داری کو بتانے کے بعد اس امر کو بھی اس نے واضح کردیا کہ ” ضروری نہیں کہ انذار سے ہر کسی کی غفلت دور ہوجائے بلکہ ان میں کثیر کی تعدایسوں کی ہےجن پر آپ کی اصلاح کی ساری کوششیں نہ یہ کہ بے اثر ثابت ہوںگی بلکہ ان پر طاری غفلت سرکشی میں بدل جائے گی۔“ یہ بات رسول کو اس تسلی کےلیے سنائی گئی کہ مدعو کی اس روش سے داعی کی ہمت کہیں پست نہ ہوجائے بلکہ اسے خدائی فیصلہ سمجھ کر صبر کا دامن تھامے رہے، اور یہ جان لے کہ ہدایت سے محرومی کی ذمّہ داری اس پر نہیں ہے ، یہ تو خود اُن کی خرابی قسمت کا نتیجہ ہے۔اسی مضمون کو سورة الاعراف میں اس طرح بیان کیاگیا ہے۔ وَلَقَد ذَرَانَا لِجَھَنَّمَ کَثِیرا مِّنَ الجِنِّ وَالاِنسِ لَھُم قُلُوب لَا یَفقَھُونَ بِھا وَلَھُم اَعیُن لَا یُبصِرُونَ بِھا وَلَھُم اٰذَان لَا یَسمَعُونَ بِھَا اُولٰئِکَ کَالاَنعَامِ بَل ھُم اَضَلُّ اُولٰئِکَ َھُم َالغٰفِلُونَ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔انکے پاس دل ہیں مر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گذرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔(الاعراف :۹۷۱)
اس سلسلے کی ایک حدیث امام بخاری رحمه الله نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنهما سے روایت کی ہے الله كے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:
” تم میں سے کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں(نطفہ کی شکل میں)جگہ بنائے رہتا ہے ، اس کے بعد اتنی ہی مدت تک ایک چپکنے والی چیز کی شکل میں رہتاہے، پھر گوشت کے ٹکڑے کا روپ پاتاہے اور اتنے ہی مدت تک رہتا ہے۔اس مدّت کے گذر جانے کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو چار باتوں کا حکم دیکر بھیجتا ہے جو اس کے رزق ، عرصہ حیات اوراسکی شقاوت و سعادت کی تفصیلات لیے ہوتا ہے “ [کتاب القدر ،فتح الباری ، ص ۸۲۵ ،ج ۱۱]
اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کی نیک بختی اور بد بختی کا فیصلہ اُسی وقت ہوتا ہے جب وہ شکمِ مادر میں ہوتا ہے اور اس حقیقت کے باوجود کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد کے بارے میںفیصلہ ہوچکاہے کہ وہ ایمان و یقین کا راستہ نہیں اپنائیں گے ، اللہ تعالیٰ محض اتمامِ حجّت کے لیے اُن کے پاس ڈرانے والوں کو بھیجتا ہے۔ ”ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دئے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں۔
اس آیت میں ان لوگوں کی تصویر پیش کی گئی ہے جن کے پاس خدا کا رسول خدا کاپیغام لاتا ہے اور رشد و ہدایت کے روشن دلائل ان کے سامنے رکھتا ہے۔ مگر وہ اس سے عداوت پر اتر آتے ہیں ۔ معرفتِ حق کی راہ میں یہی عداوت رکاوٹ بن جاتی ہے ۔ اِن کی نِخوت و تکبّر خود انکے گلے کا طوق بن جاتے ہیں۔اِس اکڑپن سے ان کا سر اتنا اوپر اُٹھتا ہے کہ نگاہیں جھک جاتی ہیں اوردیدہ سر سے وہ حق کو نہیں دیکھ سکتے۔ثبوتِ حق کی بڑی سے بڑی دلیل بھی اُنہیں اپنی خود پرستی کے مقابل ہیچ نظر آتی ہے ۔ان کے اس روش کو ”ِ فَھُم مُّقمَحُونَ“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ’اِقمَاح‘ یا ’تَقمِیح ‘ کے معنی سر اُٹھانے اور نظر جھکانے کے ہیں۔ ”بَعِیرمُقمَح “ عرب اس اونٹ کو کہتے ہیں جس کا سر اُٹھاکر باندھ دیا گیا ہو جس کی وجہ سے وہ پانی دیکھ سکتا ہے اور نہ پی سکتا ہے۔(فتح القدیر) اسی طرح یہ لوگ بھی حق کو اور حق کے دلائل کو نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ اسے قبول کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں سورة یونس میں کہا گیا کہ” جن لوگوں پر تیرے رب کا قول راست آگیا ہے اُن کے سامنے خواہ کوئی نشانی آجائے وہ کبھی ایمان لاکر نہیں دیتے جب تک کہ دردناک عذاب سامنے آتا نہ دیکھ لیں ۔
ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے اورایک دیوار ان کے پیچھے، اس طرح ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے۔انہیں اب کچھ نہیں سوجھتا “
سَدّ کے معنی روک، رکاوٹ ، دیوار وغیرہ کے آتے ہیں۔اس طرح اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ ”ان کے سامنے سے ایک روک ہے اور ان کے پیچھے سے ایک روک ہم نے کھڑی کی ہے “ مگر اس سے مراد آگے پیچھے کی دو روک نہیں ہیں بلکہ ہر سمت سے ان کے اطراف رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں ۔ اس معنی کے اظہار کے لیے یہ عربی زبان کی انوکھی تعبیر ہے۔جیسے قرآن مجید کے بارے میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے”اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے باطل نہ سامنے سے اس پر آسکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے“(حٰم السجدة : ۱۴۔۲۴) یعنی باطل کہیں سے بھی اس میں دخل اندازی نہیں کر سکتا۔
آگے کا جملہ فَا غشَیناھُم ” اس طرح ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے“ خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ چاروں جانب سے گھرے ہوے ہیں۔ قبولِ حق کی راہ میں یہ رکاوٹیں ، کبھی دنیا کی رنگینیوں اور کشش کے روپ آتی ہیں اور کبھی پیغمبر کی عداوت اور دشمنیبن کر نمودار ہوتی ہیں۔کبھی ان خود پرستوں کی نخوت و غرور سچائی کو سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ کبھی باپ دادا کی اندھی تقلید اور رسم و رواج کی پابندی انہیں حق پرستی سے باز رکھتی ہیںتو بسا اوقات ان کی ضد اور ہٹ دھرمی ہی انہیں سچائی سے منہ موڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ اسطرح وہ جہالت و جاہلیّت کے اندھیروں میں گم ہیں اور انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے فَھُم لَا یُبصِرُونَ۔
ان آیتوں سے ہویدا ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ کفار کی کج روی اور ان کی محرومِ ہدایت ہونے کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کی طرف منسوب کیا اور بتایا کہ ان کی طبیعتوں میں موجود نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ہودگی اور دینِ حق اور نبی بر حق کے خلاف ان کے دل میں اُٹھنے والے بدتریں معاندانہ جذبات نا قابلِ معافی جرم ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ کسی صورت ایمان کی راہ نہ پاسکیں۔
وَسَوَاء عَلَیھِم اَاَنذَرتَھُم اَم لَم تُنذِرھُم لاَ یُومِنُونَ ” آپ کا ا ن کو ڈرانا اور نہ ڈرانا دونوں برابر ہے۔ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں “
جن کے دل پر اللہ تعالیٰ ضلالت وگمراہی کا مہر لگا دے ، وہ کبھی ہدایت نہیں پاسکتا۔جو دل حق کے لیے ہموار نہ ہو اس کو ڈرانا اور نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں۔انذار کی لاٹھی سے صرف اُنہیں کو جگایا جا سکتا ہے جن کا دل زندہ ہو اور جو بیدار ہونا چاہتے ہیں اور جن کے ایمان کا خدا نے فیصلہ کیا ہے۔
ذکر کچھ ان کی نہیں جو سوتے ہیں ، وہ تو سوتے ہیں
مگر جو جاگتے ہیں، ان میں بھی بیدار کتنے ہیں؟
اِ نَّمَا تُنذِرُمَنِ اتَّبَعَ الذِّکرَ وَ خَشِیَ الرَّحمٰنَ بِالغَیبِ فَبَشّرہُ بِمَغفِرَةٍ وَ آجرٍ کَرِیمٍ ” تم تو پس اسی کو ڈراسکتے ہو جو نصیحت پر دھیان کرے اور غیب میںخدائے رحمن سے ڈرے۔ پس ایسے شخص کو مغفرت اور اجرِ عظیم کی بشارت دے دو۔ “
یہاں اس شخص کی دو صفات بیان کی گئی ہیں جس پر انذار کا ہتھیار کارگر ہوگا۔
پہلی صفت ’اتباع الذکر‘ ہے تو دوسری صفت ’خشیتِ رحمٰن‘ہے۔
مفسرین کرام کی ایک بڑی جماعت نے یہاں پر ’الذکر ‘ سے ’ قرآنِ مجید‘ کے معنی کو ترجیح دی ہے۔ لہذا آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ جو شخص قرآنِ مجید کو سننے اور پھر اس کے بتائے ہوے نظامِ حیات کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو اور ان دیکھے خدائے رحمٰن کا ڈر اپنے دل میں بسا کر زندگی گذارنے کے لیے تیار ہو رسول کا انذار اسی کے لیے مفید اور کارگر ہوسکتا ہے۔ قرآنِ مجید کے آغاز ہی میں اس مضمون کی وضاحت کر تے ہوے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الٓمّ ذَالِکَ الکِتَابُ لاَ رَیبَ فِیہِ ھُدیً لِلمُتَّقِینَ ”الم یہ الکتاب(اللہ کی کتاب) ہے ۔ کوئی شک (اس کے کتابِ الٰہی ہونے میں )نہیں ہے ۔ رہبرو رہنما ہے (اللہ سے ) ڈ رنے والوں کے لیے
فَبَشّرہُ بِمَغفِرَةٍ وَ اجرٍ کَرِیم یہی شخص ہے جو خود سپردگی کے عوض اپنے مہربان پرور دگار کے انعام و اکرام کا مستحق بن جاتا ہے۔ بخشش کے اعلان کے ساتھ اجرِ عظیم کی اُ سے خوش خبری دی جاتی ہے ۔ نجات اور کامیابی بھی آخر اُسی کو ملتی ہے۔ اس بات کو واضح کرنے والی ایک روایت امام بخاریؒ نے نقل کی ہے ”حضرت ابو موسی ؓ بیان کیا کہ رسو ل اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: میری اور اس چیز کی مثال جسے دیکر اللہ تعالیٰ نےمجھے مبعوث کیا ہے اس آدمی کی طرح ہے جو لوگوں کے پاس آتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ میں اپنے سر کی آنکھوں سے لشکر دیکھ آیا ہوں (کہ وہ تم پر ہلہ بولنے کی تیاری کر رہے ہیں) اب میں کھلے طور پر تنبیہ کرنا چاہتا ہوں اپنے بچاؤ کی تیاری خود کرلو۔ پھر ایسا ہوا کہ کچھ لوگوں نے اس کی بات مان لی اور راتوں رات وہاں سے نکل چلے ۔ مگر کچھ دوسرے لوگوں نے اس بات ماننے سے انکار کیا ۔ پھر صبحدم لشکر کشی ہوی اور انہیں نیست و نابود کیا گیا “ [فتح الباری ، ص ۹۴۳ ،ج ۱۱]
اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ا لٰہی اٰیات کو چراغ راہ بنالینے کے باوجود بھی بتقاضائے بشریت انسا ن سے خطائیں سرزد ہو سکتی ہیں ۔ جو بڑی بھی ہو سکتی ہیں اور چھوٹی بھی توبہ کا راستہ اسی لیے کھلا رکھا گیا

 ہے کہ انسان ٹھوکر کھانے کے بعد پھر سنبھل جائے۔

 (جاری )


اعجاز الدین عمری

No comments:

Post a Comment