شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ
Indeed, We have granted you, [O Muhammad], al-Kawthar.
(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو کوثر عطا فرمائی ہے
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
So pray to your Lord and sacrifice [to Him alone].
تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو
إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ
Indeed, your enemy is the one cut off.
بیشک جو دشمن ہے تیرا وہی رہ گیا پیچھا کٹا
کوثر کے معنیٰ اور مفاہیم
:
"کوثر " کے معنی "خیر کثیر" کے ہیں۔ یعنی بہت زیادہ بھلائی اور بہتری۔ یہاں اس سے کیا چیز مراد ہے؟ "البحر المحیط" میں اس کے متعلق چھبیس اقوال ذکر کیے ہیں اور اخیر میں اس کو ترجیح دی ہے کہ اس لفظ کے تحت میں ہر قسم کی دینی و دنیوی دولتیں اور حسّی و معنوی نعمتیں داخل ہیں۔ جو آپ کو یا آپ کے طفیل میں امّت مرحومہ کو ملنے والی تھیں۔ ان نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت وہ "حوض کوثر" بھی ہے جو اسی نام سے مسلمانوں میں مشہور ہے اور جس کے پانی سے آپ ﷺ اپنی امت کو محشر میں سیراب فرمائیں گے (اے ارحم الراحمین! تو اس خطا کار روسیاہ کو بھی اس سے سیراب کیجیے)۔(تنبیہ) حوضِ کوثر: " حوضِ کوثر" کا ثبوت بعض محدثین کے نزدیک حد تواتر تک پہنچ چکا ہے ہر مسلمان کو اس پر اعتقاد رکھنا لازم ہے۔ احادیث میں اس کی عجیب و غریب خوبیاں بیان ہوئی ہیں۔ بعض روایات سے اس کا محشر میں ہونا اور اکثر سے جنت میں ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اکثر علماء نے تطبیق یوں دی ہے کہ اصل نہر جنت میں ہوگی اور اسی کا پانی میدانِ حشر میں لا کر کسی حوض میں جمع کر دیا جائیگا۔ دونوں کو "کوثر" ہی کہتے ہونگے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
نماز اور قربانی کی تاکید
:
یعنی اتنے بڑے انعام و احسان کا شکر بھی بہت بڑا ہونا چاہیئے۔ تو چاہیئے کہ آپ اپنی روح، بدن اور مال سے برابر اپنے رب کی عبادت میں لگے رہیں، بدنی و روحی عبادات میں سب سے بڑی چیز نماز ہے۔ اور مالی عبادات میں قربانی ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ قربانی کی اصل حقیقت جان کا قربان کرنا تھا۔ جانور کی قربانی کو بعض حکمتوں اور مصلحتوں کی بناء پر اس کے قائم مقام کر دیا گیا۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کے قصہ سے ظاہر ہے اسی لئے قرآن میں دوسری جگہ بھی نماز اور قربانی کا ذکر ساتھ ساتھ کیا ہے۔ قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ لَا شَرِیۡکَ لَہٗ ۚ وَ بِذٰلِکَ اُمِرۡتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (انعام۔۱۶۲،۱۶۳) (تنبیہ) بعض روایات میں "وانحر" کے معنی سینہ پر ہاتھ باندھنے کے آئے ہیں۔ مگر ابن کثیرؒ نے ان روایات میں کلام کیا ہے۔ اور ترجیح اس قول کو دی ہے کہ "نحر" کے معنی قربان کرنے کے ہیں۔ گویا اس میں مشرکین پر تعریض ہوئی کہ وہ نماز اور قربانی بتوں کے لئے کرتے تھے۔ مسلمانوں کو یہ کام خالص خدائے واحد کے لئے کرنے چاہئیں
۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہی ابتر ہے
:
بعض کفار حضور ﷺ کی شان میں کہتے تھے کہ اس شخص کے کوئی بیٹا نہیں۔ بس زندگی تک اس کا نام ہے پیچھے کون نام لیگا۔ ایسے شخص کو ان کے محاورات میں "ابتر" کہتے تھے ۔ "ابتر" اصل میں دم کٹے جانور کو کہتے ہیں۔ جس کے پیچھے کوئی نام لینے والا نہ رہے۔ گویا اس کی دم کٹ گئی۔ قرآن نے بتلایا کہ جس شخص کو اللہ خیر کثیر عنایت فرمائے اور ابدالآباد تک نام روشن کرے اسے "ابتر" کہنا پرلے درجہ کی حماقت ہے۔ حقیقت میں "ابتر" وہ ہے جو ایسی مقدس و مقبول ہستی سے بغض و عناد اور عداوت رکھے اور اپنے پیچھے کوئی ذکرِ خیر اور اثر نیک نہ چھوڑے۔ آج ساڑھے تیرہ سو برس کے بعد ماشاء اللہ حضور ﷺ کی روحانی اولاد سے دنیا پٹی پڑی ہے اور جسمانی دختری اولاد بھی بکثرت ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ کا دین، آپ ﷺ کے آثار صالحہ، عالم میں چمک رہے ہیں۔ آپ ﷺ کی یاد نیک نامی اور محبت و عقیدت کے ساتھ کروڑوں انسانوں کے دلوں کو گرما رہی ہے۔ دوست دشمن سب آپ ﷺ کے اصلاحی کارناموں کا صدق دل سے اعتراف کر رہے ہیں۔ پھر دنیا سے گزر کر آخرت میں جس مقام محمود پر آپ ﷺ کھڑے ہونگے اور جو مقبولیت و متبوعیت عامہ آپ ﷺ کو علی رؤس الاشہاد حاصل ہوگی وہ الگ رہی۔ کیا ایسی دائم البرکۃ ہستی کو (العیاذباللہ) "ابتر" کہاجاسکتا ہے؟ اس کے مقابل اس گستاخ کو خیال کرو جس نے یہ کلمہ زبان سے نکالا تھا۔ اس کا نام و نشان کہیں باقی نہیں، نہ آج بھلائی کے ساتھ اسے کوئی یاد کرنے والا ہے۔ یہ ہی حال ان تمام گستاخوں کا ہوا، جنہوں نے کسی زمانہ میں آپ ﷺ کے بغض و عداوت پر کمر باندھی اور آپ ﷺ کی شان مبارک میں گستاخی کی اور اسی طرح آئندہ ہوتا رہیگا۔
نام :
انآ اعطینٰک الکوثر کے لفظ الکوثر کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول :
ابن مردویہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن الزبیر اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے کہ یہ سورت مکی ہے، کلبی اور مقاتل بھی اسے مکی کہتے ہیں اور جمہور مفسرین کا قول بھی یہی ہے۔ لیکن حضرت حسن بصری، عکرمہ، مجاہد اور قتادہ اس کو مدنی قرار دیتے ہیں۔ امام سیوطی نے اتقان میں اسی قول کو صحیح ٹھیرایا ہے، اور امام نووی نے شرح مسلم میں اسی کو ترجیح دی ہے۔ وجہ اس کی وہ روایت ہے جو امام احمد، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ابی شیبہ، ابن المنذر، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ محدثین نے حضرت انس بھی مالک سے نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے۔ اتنے میں آپ پر کچھ اونگھ سی طاری ہو ہوئی، پھر آپ نے مسکراتے ہوئے سرِ مبارک اٹھایا۔ بعض روایات میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا آپ کس بات پر تبسم فرما رہے ہیں؟ اور بعض میں ہے کہ آپ نے خود لوگوں سے فرمایا اِس وقت میرے اوپر ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر آپ نے سورۂ کوثر پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے پوچھا جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے۔ فرمایا وہ ایک نہر ہے جو میرے رب نے مجھے جنت میں عطا کی ہے ۔ اس روایت سے اس سورہ کے مدنی ہونے پر اس وجہ سے استدلال کیا گیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ مکہ میں نہیں بلکہ مدینے میں تھے، اور ان کا یہ کہنا کہ ہماری موجودگی میں یہ سورت نازل ہوئی، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مدنی ہے۔ مگر اول تو انہی حضرت انس سے امام احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور ابن جریر نے یہ روایات نقل کی ہیں کہ جنت کی یہ نہر (کوثر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معراج میں دکھائی جا چکی تھی، اور سب کو معلوم ہے کہ معراج ہجرت سے پہلے مکہ میں ہوئی تھی۔ دوسرے، جب معراج میں آپ کو اللہ تعالٰی کے اِس عطیہ کی نہ صرف خبر دی جا چکی تھی بلکہ اس کا مشاہدہ بھی کرا دیا گیا تھا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ حضور کو اُس کی خوشخبری دینے کے لیے مدینۂ طیبہ میں سورۂ کوثر نازل کی جاتی۔ تیسرے، اگر صحابہ ایک مجمع میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود سورۂ کوثر کے نزول کی خبر دی ہوتی جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مذکورۂ بالا روایت میں بیان ہوئی ہے اور اُس کا مطلب یہ ہوتا کہ پہلی مرتبہ یہ سورت اِسی وقت نازل ہوئی ہے، تو کس طرح ممکن تھا کہ حضرت عائشہ، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے باخبر صحابہ اس سورت کو مکی قرار دیتے اور جمہور مفسرین اس کے مکی ہونے کے قائل ہو جاتے؟ اس معاملہ پر غور کیا جائے تو حضرت انس کی روایت میں خلا صاف محسوس ہوتا ہے کہ اُس میں یہ تفصیل بیان نہیں ہوئی ہے کہ جس مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی اُس میں پہلے سے کیا گفتگو چل رہی تھی۔ ممکن ہے کہ اُس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی مسئلے پر کچھ ارشاد فرما رہے ہوں، اُس کے دوران میں وحی کے ذریعہ آپ کو مطلع کیا گیا ہو کہ اِس مسئلے پر سورۂ کوثر سے روشنی پڑتی ہے، اور آپ نے اِسی بات کا ذکر یوں فرمایا ہو کہ مجھ پر یہ سورۃ نازل ہوئی ہے۔ اِس قسم کے واقعات متعدد مواقع پر پیش آئے ہیں جن کی بنا پر مفسرین نے بعض آیات کے متعلق کہا ہے کہ وہ دو مرتبہ نازل ہوئی ہیں۔ اس دوسرے نزول کا مطلب دراصل یہ ہوتا ہے کہ آیت تو پہلے نازل ہوچکی تھی، مگر دوسری بار کسی موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بذریعۂ وحی اُسی آیت کی طرف توجہ دلائی گئی۔ ایسی روایات میں کسی آیت کے نزول کا ذکر یہ فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا کہ وہ مکی ہے یا مدنی، اور اس کا اصل نزول فی الواقع کسی زمانے میں ہوا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اگر شک پیدا کرنے کی موجب نہ ہو تو سورۂ کوثر کا پورا مضمون بجائے خود اِس امر کی شہادت دیتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ میں نازل ہوئی تھی اور اُس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو انتہائی دل شکن حالات سے سابقہ درپیش تھا
۔
تاریخی پس منظر :
اس سے پہلے سروۂ ضحٰی اور سورۂ الم نشرح میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ نبوت کے ابتدائی دور میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شدید ترین مشکلات سے گزر رہے تھے، پوری قوم دشمنی پر تلی ہوئی تھی، مزاحمتوں کے پہاڑ راستے میں حائل تھے، مخالفت کا طوفان ہر طرف برپا تھا، اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے چند مٹھی بھر ساتھیوں کو دور دور تک کہیں کامیابی کے آثار نظر نہیں آتے تھے، اُس وقت آپ کو تسلی دینے اور آپ کی ہمت بندھانے کے لیے اللہ تعالٰی نے متعدد آیات نازل فرمائیں۔ سورۂ ضحٰی میں فرمایا
” اور یقیناً تمہارے لیے بعد کا دور (یعنی ہر بعد کا دور) پہلے دور سے بہتر ہے اور عنقریب تمہارا رب تمہیں وہ کچھ دے گا جس سے تم خوش ہو جاؤ گے “
اور الم نشرح میں فرمایا
” اور ہم نے تمہارا آوازہ بلند کر دیا “
یعنی دشمن تمہیں ملک بھر میں بدنام کرتے پھر رہے ہیں مگر ہم نے ان کے علی الرغم تمہارا نام روشن کرنے اور تمہیں ناموری عطا کرنے کا سامان کر دیا ہے اور
” پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے، یقیناً تسگی کے ساتھ فراخی بھی ہے “
یعنی اِس وقت حالات کی سختیوں سے پریشان نہ ہو، عنقریب یہ مصائب کا دور ختم ہونے والا ہے اور کامیابیوں کا دور آنے ہی والا ہے۔
ایسے ہی حالات تھے جن میں سورۂ کوثر نازل کر کے اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تسلی بھی دی اور آپ کے مخالفین کے تباہ و برباد ہونے کی پیشینگوئی بھی فرمائی۔ قریش کے کفار کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ساری قوم سے کٹ گئے ہیں اور اُن کی حیثیت ایک بے کس اور بے یار و مددگار انسان کی سی ہو گئی ہے۔ عکرمہ کی روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نبی بنائے گئے اور آپ نے قریش کو اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو قریش کے لوگ کہنے لگے "محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنی قوم سے کٹ کر ایسے ہو گئے ہیں جیسے کوئی درخت اپنی جڑ سے کٹ گیا ہو اور متوقع یہی ہے کہ کچھ مدت بعد وہ سوکھ کر پیوند خاک ہو جائیں گے" حوالہ: ابن جریر۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ مکہ کے سردار عاص بن وائل سہمی کے سامنے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتا "اجی چھوڑو انہیں، وہ تو ایک ابتر (جڑ کٹے) آدمی ہیں، ان کی کوئی اولاد نرینہ نہیں، مر جائیں گے تو کوئی ان کا نام لیوا بھی نہ ہوگا"۔ شمر بن عطیہ کا بیان ہے کہ عقبہ بن ابی معیط بھی ایسی ہی باتیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق کہا کرتا تھا حوالہ: ابن جریر۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ کعب بن اشرف (مدینہ کا یہودی سردار) مکہ آیا تو قریش کے سرداروں نے اس سے کہا "بھلا دیکھو تو سہی، اس لڑکے کو جو اپنی قوم سے کٹ گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ ہم سے بہتر ہے، حالانکہ ہم حج اور سدانت اور سقایات کے منتظم ہیں حوالہ: بزار۔ اسی واقعہ کے متعلق عکرمہ کی روایت یہ ہے کہ قریش والوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے "کمزور، بے یار و مددگار اور بے اولاد آدمی جو اپنی قوم سے کٹ گیا ہے" کے الفاظ استعمال کیے تھے حوالہ: ابن جریر۔ ابن سعد اور ابن عساکر کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سب سے بڑے صاحب زادے قاسم رضی اللہ عنہ تھے، ان سے چھوٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھیں، ان سے چھوٹے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ تھے، پھر علی الترتیب تین صاحبزادیاں ام کلثوم، فاطمہ اور رقیہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ ان میں سے پہلے حضرت قاسم کا انتقال ہوا، پھر حضرت عبد اللہ نے بھی وفات پائی۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا کہ "اُن کی نسل ختم ہو گئی۔ اب وہ ابتر ہیں" (یعنی ان کی جڑ کٹ گئی)۔ بعض روایات میں یہ اضافہ ہے کہ عاص نے کہا "محمد ابتر ہیں، ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے جو ان کا قائم مقام بنے، جب وہ مر جائیں گے تو ان کا نام دنیا سے مٹ جائے گا اور ان سے تمہارا پیچھا چھوٹ جائے گا"۔ عبد بن حمید نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی جو روایت نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صاحبزادے عبد اللہ کی وفات پر ابو جہل نے بھی ایسی ہی باتیں کہی تھیں۔ شمر بن عطیہ سے ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس غم پر خوشی مناتے ہوئے ایسے ہی کمینہ پن کا مظاہرہ عقبہ بن ابی معیط نے کیا تھا۔ عطاء کہتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دوسرے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اپنا چچا ابو لہب (جس کا گھر بالکل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر سے متصل تھا) دوڑا ہوا مشرکین کے پاس گیا اور اُن کو یہ "خوشخبری" دی کہ "آج رات محمد لا ولد ہو گئے یا ان کی جڑ کٹ گئی" یہ تھے وہ انتہائی دلشکن حالات جن میں سورۂ کوثر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل کی گئی۔ قریش اس لیے آپ سے بگڑے تھے کہ آپ صرف الل ہی کی بندگی و عبادت کرتے تھے اور ان کے شرک کو آپ نے علانیہ رد کر دیا تھا۔ اِسی وجہ سے پوری قوم میں جو مرتبہ و مقام آپ کو نبوت سے پہلے حاصل تھا وہ آپ سے چھین لیا گیا تھا اور آپ گویا برادری سے کاٹ پھینکے گئے تھے۔ آپ کے چند مٹھی بھر ساتھی بھی سب بے یار و مددگار تھے اور مارے کھدیڑے جا رہے تھے۔ اس پر مزید آپ پر ایک کے بعد ایک بیٹے کی وفات سے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اس موقع پر عزیزوں، رشتہ داروں، قبیلے اور برادری کے لوگوں اور ہمسایوں کی طرف سے ہمدردی و تعزیت کے بجائے وہ خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور وہ باتیں بنائی جا رہی تھیں جو ایک ایسے شریف انسان کے لیے دل توڑ دینے والی باتیں تھیں جس نے اپنے تو اپنے غیروں تک سے ہمیشہ انتہائی نیک سلوک کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالٰی نے آپ کو اِس مختصر ترین سورت کے ایک فقرے میں وہ خوش خبری دی ہے جس سے بڑی خوش خبری دنیا کے کسی انسان کو کبھی نہیں دی گئی۔ اور ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ آپ کی مخالفت کرنے والوں ہی کی جڑ کٹ جائے گی۔
The Enemy of the Prophet is Cut Off
﴿إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الاٌّبْتَرُ ﴾
(For he who hates you, he will be cut off.) meaning, `indeed he who hates you, O Muhammad, and he hates what you have come with of guidance, truth, clear proof and manifest light, he is the most cut off, meanest, lowliest person who will not be remembered. Ibn `Abbas, Mujahid, Sa`id bin Jubayr and Qatadah all said, "This Ayah was revealed about Al-`As bin Wa'il. Whenever the Messenger of Allah would be mentioned (in his presence) he would say, `Leave him, for indeed he is a man who is cut off having no descendants. So when he dies he will not be remembered.' Therefore, Allah revealed this Surah.'' Shamir bin `Atiyah said, "This Surah was revealed concerning `Uqbah bin Abi Mu`ayt.'' Ibn `Abbas and `Ikrimah have both said, "This Surah was revealed about Ka`b bin Al-Ashraf and a group of the disbelievers of the Quraysh.'' Al-Bazzar recorded that Ibn `Abbas said, "Ka`b bin Al-Ashraf came to Makkah and the Quraysh said to him, `You are the leader of them (the people). What do you think about this worthless man who is cut off from his people He claims that he is better than us while we are the people of the place of pilgrimage, the people of custodianship (of the Ka`bah), and the people who supply water to the pilgrims.' He replied, `You all are better than him.' So Allah revealed,﴿إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الاٌّبْتَرُ ﴾
(For he who hates you, he will be cut off.)'' This is how Al-Bazzar recorded this incident and its chain of narration is authentic. It has been reported that `Ata' said, "This Surah was revealed about Abu Lahab when a son of the Messenger of Allah died. Abu Lahab went to the idolators and said, `Muhammad has been cut off (i.e., from progeny) tonight.' So concerning this Allah revealed,﴿إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الاٌّبْتَرُ ﴾
(For he who hates you, he will be cut off.)'' As-Suddi said, "When the male sons of a man died the people used to say, `He has been cut off.' So, when the sons of the Messenger of Allahdied they said, `Muhammad has been cut off.' Thus, Allah revealed,
﴿إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الاٌّبْتَرُ ﴾
(For he who hates you, he will be cut off.)'' So they thought in their ignorance that if his sons died, his remembrance would be cut off. Allah forbid! To the contrary, Allah preserved his remembrance for all the world to see, and He obligated all the servants to follow his Law. This will continue for all of time until the Day of Gathering and the coming of the Hereafter. May the blessings of Allah and His peace be upon him forever until the Day of Assembling. This is the end of the Tafsir of Surat Al-Kawthar, and all praise and blessings are due to Allah.