شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ
When the victory of Allah has come and the conquest,
جب خدا کی مدد آ پہنچی اور فتح (حاصل ہو گئی)
وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا
And you see the people entering into the religion of Allah in multitudes,
اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ غول کے غول خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا
Then exalt [Him] with praise of your Lord and ask forgiveness of Him. Indeed, He is ever Accepting of repentance.
تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ معاف کرنے والا ہے
فتح مکّہ کا وعدہ:
بڑی فیصلہ کن چیز یہ تھی کہ مکہ معظمہ ( جو گویا زمین پر اللہ کا دارالسلطنت ہے) فتح ہو جائے۔ اسی پر اکثر قبائل عرب کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے ایک ایک دو دو آدمی اسلام میں داخل ہوتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جوق در جوق داخل ہونے لگے۔ حتّٰی کہ سارا جزیرہ عرب اسلام کا کلمہ پڑھنے لگا۔ اور جو مقصد نبی کریم ﷺ کی بعثت سے تھا پورا ہوا۔
بڑی فیصلہ کن چیز یہ تھی کہ مکہ معظمہ ( جو گویا زمین پر اللہ کا دارالسلطنت ہے) فتح ہو جائے۔ اسی پر اکثر قبائل عرب کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے ایک ایک دو دو آدمی اسلام میں داخل ہوتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جوق در جوق داخل ہونے لگے۔ حتّٰی کہ سارا جزیرہ عرب اسلام کا کلمہ پڑھنے لگا۔ اور جو مقصد نبی کریم ﷺ کی بعثت سے تھا پورا ہوا۔
غلبہ دین کا وعدہ اور تسبیح و تحمید کی تاکید:
یعنی سمجھ لیجیے کہ مقصود بعثت کا اور دنیا میں رہنے کا (جو تکمیل دین و تمہید خلافت کبریٰ ہے) پورا ہوا، اب سفر آخرت قریب ہے۔ لہٰذا ادھر سے فارغ ہو کر ہمہ تن ادھر ہی لگ جائیے۔ اور پہلے سے بھی زیادہ کثرت سے اللہ کی تسبیح و تحمید اور ان فتوحات اور کامیابیوں پر اس کا شکر ادا کیجیے۔
یعنی سمجھ لیجیے کہ مقصود بعثت کا اور دنیا میں رہنے کا (جو تکمیل دین و تمہید خلافت کبریٰ ہے) پورا ہوا، اب سفر آخرت قریب ہے۔ لہٰذا ادھر سے فارغ ہو کر ہمہ تن ادھر ہی لگ جائیے۔ اور پہلے سے بھی زیادہ کثرت سے اللہ کی تسبیح و تحمید اور ان فتوحات اور کامیابیوں پر اس کا شکر ادا کیجیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کا حکم:
یعنی اپنے لئے اور امت کے لئے استغفار کیجیے۔ (تنبیہ) نبی کریم ﷺ کا اپنے لئے استغفار کرنا پہلے کئ جگہ بیان ہوچکا ہے، وہیں دیکھ لیا جائے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں " یعنی قرآن میں ہر جگہ وعدہ ہے فیصلہ کا، اور کافر شتابی کرتے تھے۔ حضرت ﷺ کی آخر عمر میں مکہ فتح ہوچکا، قبائل عرب دَل کے دَل مسلمان ہونے لگے۔ وعدہ سچا ہوا اب امت کے گناہ بخشوایا کر کہ درجہ شفاعت کا بھی ملے۔ یہ سورت اتری آخر عمر میں، حضرت ﷺ نے جانا کہ میرا جو کام تھا دنیا میں کرچکا اب سفر ہے آخرت کا۔
نام :پہلی آیت اذا جآءَ نصر اللہ کے لفظ نصر کو اِس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہ قرآن مجید کی آخری سورت ہے، یعنی اس کے بعد کوئی مکمل سورت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل نہیں ہوئی حوالہ: مسلم، نسائی، طبرانی، ابن ابی شیبہ، ابن مردویہ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ یہ سورت حجۃ الوداع کے موقع پر ایامِ تشریق کے وسط میں بمقامِ منٰی نازل ہوئی اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹنی پر سوار ہو کر اپنا مشہور خطبہ ارشاد فرمایا حوالہ: ترمذی، بزار، بیہقی، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابو یعلٰی، ابن مردویہ۔ بیہقی نے کتاب الحج میں حضرت سراء بن بنہان کی روایت سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وہ خطبہ نقل کیا ہے جو آپ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ:
” میں نے حجۃ الوداع میں حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ لوگو جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا یہ ایامِ تشریق کے بیچ کا دن ہے۔ پھر آپ نے پوچھا جانتے ہو یہ کون سا مقام ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا یہ مشعرِ حرام ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا، شاید اس کے بعد میں تم سے نہ مل سکوں۔ خبردار رہو، تمہارے خون اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اُسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن اور یہ مقام حرام ہے، یہاں تک کہ تم اپنے رب کے سامنے حاضر ہو اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے۔ سنو، یہ بات تم میں سے قریب والا دور والے تک پہنچا دے۔ سنو، کیا میں نے تمہیں پہنچا دیا؟ اس کے بعد جب ہم لوگ مدینہ واپس ہوئے تو کچھ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہو گیا “
ان دونوں روایتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ نصر کے نزول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے درمیان تین مہینے کچھ دن کا فصل تھا، کیونکہ تاریخ کی رو سے حجۃ الوداع اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وِصال کے درمیان اتنا ہی زمانہ گزرا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے میری وفات کی خبر دے دی گئی ہے اور میرا وقت آن پورا ہوا حوالہ: مسند احمد، ابن جریر، ابن المنذر، ابن مردویہ۔ دوسری روایات جو حضرت عبد اللہ بن عباس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہوئی ہیں اُن میں بیان کیا گیا ہے کہ اِس سورت کے نزول سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ آپ کو دنیا سے رخصت ہونے کی اطلاع دے دی گئی ہے حوالہ: مسند احمد، ابن جریر، نسائی ابن ابی حاتم، ابن مردویہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس سال میرا انتقال ہونے والا ہے۔ یہ بات سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رو دیں۔ اس پر آپ نے فرمایا میرے خاندان میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملو گی۔ یہ سن کر وہ ہنس دیں حوالہ ابن ابی حاتم، ابن مردویہ۔ قریب قریب اِسی مضمون کی روایت بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجھے غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے بڑے بڑے شیوح کے ساتھ اپنی مجلس میں بلاتے تھے۔ یہ بات بعض بزرگوں کو ناگوار گزری اور انہوں نے کہا ہمارے لڑکے بھی تو اسی لڑکے جیسے ہیں، اس کو خاص طور پر کیوں ہمارے ساتھ شریکِ مجلس کیا جاتا ہے؟ (امام بخاری اور ابن جریر نے تصریح کی ہے کہ یہ بات کہنے والے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ علم کے لحاظ سے اس کا جو مقام ہے وہ آپ لوگ جانتے ہیں۔ پھر ایک روز انہوں نے شیوخِ بدر کو بلایا اور مجھے بھی اُن کے ساتھ بلا لیا۔ میں سمجھ گیا کہ آج مجھےیہ دکھانے کے لیے بلایا گیا ہے کہ مجھ کو ان کی مجلس میں کیوں شریک کیا جاتا ہے۔ دورانِ گفتگو میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شیوخ بدر رضی اللہ عنہم اجمعین سے پوچھا کہ آپ حضرات اذا جآءَ نصر اللہ والفتح کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ بعض نے کہا اس میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب اللہ کی نصرت آئے اور ہم کو فتح نصیب ہو تو ہم اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کریں۔ بعض نے کہا اس سے مراد شہروں اور قلعوں کی فتح ہے۔ بعض خاموش رہے۔ اس کے بعد حضرت رضی اللہ عنہ نے کہا ابن عباس رضی اللہ عنہ، کیا تم بھی یہی کہتے ہو؟ میں نے کہا، نہیں۔ انہوں نے پوچھا پھر تم کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اجل ہے۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر دی گئی ہے جب اللہ کی نصرت آ جائے اور فتح نصیب ہو جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وقت آن پورا ہوا، اس کے بعد آپ اللہ کی حمد اور استغفار کریں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بھی اُس کے سوا کچھ نہیں جانتا جو تم نے کہا ہے۔ ایک روایت میں اس پر یہ اضافہ ہے کہ حضرت عمر نے شیوخِ بدر سے فرمایا آپ لوگ مجھے کیسے ملامت کرتے ہیں جبکہ اِس لڑکے کو اس مجلس میں شریک کرنے کی وجہ آ نے دیکھ لی حوالہ: بخاری، مسند احمد، ترمذی، ابن جریر، ابن مردویہ، بغوی، بیہقی، ابن المنذر
موضوع اور مضمون :
جیسا کہ مندرجۂ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے، اِس سورہ میں اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ بتا دیا تھا کہ جب عرب میں اسلام کی فتح مکمل ہو جائے اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کام مکمل ہو گیا ہے جس کے لیے آپ دنیا میں بھیجے گئے تھے۔ اس کے بعد آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ اللہ کی حمد اور اس کی تسبیح کرنے میں مشغول ہو جائیں کہ اُس کے فضل سے آپ اتنا بڑا کام انجام دینے میں کامیاب ہوئے، اور اُس سے دعا کریں کہ اِس خدمت کی انجام دہی میں جو بھول چوک یا کوتاہی بھی آپ سے ہوئی ہو اُسے وہ معاف فرما دے۔ اس مقام پر آدمی غور کرے تو دیکھ سکتا ہے کہ ایک نبی اور ایک عام دنیوی رہنما کے درمیان کتنا عظیم فرق ہے۔ کسی دنیی رہنما کو اگر اپنی زندگی ہی میں وہ انقلاب عظیم برپا کرنے میں کامیابی نصیب ہو جائے جس کے لیے وہ کام کرنے اٹھا ہو تو اس کے لیے یہ حشن منانے اور اپنی قیادت پر فخر کرنے کا موقع ہوتا ہے لیکن یہاں اللہ کے پیغمبر کو ہم دیکھتے ہیں کہ اُس نے 23 سال کی مختصر مدت میں ایک پوری قوم کے عقائد، افکار، عادات، اخلاق، تمدن، تہذیب، معاشرت، معیشت، سیاست اور حربی قابلیت کو بالکل بدل ڈالا اور جہالت و جاہلیت میں ڈوبی ہوئی قوم کو اٹھا کر اس قابل بنا دیا کہ وہ دنیا کو مسخر کر ڈالے اور اقوامِ عالم کی امام بن جائے، مگر ایسا عظیم کارنامہ اُس کے ہاتھوں انجام پانے کے بعد اُسے جشن منانے کا نہیں بلکہ اللہ کی حمد اور تسبیح کرنے اور اُس سے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، اور وہ پوری عاجزی کے ساتھ اِس حکم کی تعمیل میں لگ جاتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی وفات سے پہلے سبحٰنک اللھم و بحمدک استغفرک و اتوب الیک (بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں سبحان اللہ و بحمدہ استغفر اللہ و اتوب الیہ) کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیسے کلمات ہیں جو آپ نے اب پڑھنے شروع کر دیے ہیں؟ فرمایا میرے لیے ایک علامت مقرر کر دی گئی ہے کہ جب میں اُسے دیکھوں تو یہ الفاظ کروں اور وہ ہے اذا جآءق نصر اللہ والفتح حوالہ مسند احمد، ابن جریر، ابن المنذر، ابن مردویہ۔ اسی سے ملتی جلتی بعض روایات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے رکوع و سجود میں بکثرت یہ الفاظ کہتے تھے سبحٰنک اللھم و بحمدک اللھم اغفرلی۔ یہ قرآن (یعنی سورۂ نصر) کی تاویل تھی جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمائی تھی حوالہ: بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانِ مبارک پر آپ کے آخری زمانۂ حیات میں اٹھتے بیٹھتے اور جاتے آتے یہ الفاظ جاری رہتے: سبحان اللہ و بحمدہ میں نے ایک روز پوچھا یا رسول اللہ، آپ کثرت سے یہ ذکر کیوں کرتے رہتے ہیں؟ فرمایا مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے پھر آپ نے یہ سورت پڑھی حوالہ ابن جریر۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کثرت سے یہ ذکر فرماتے رہتے: سبحانک اللھم و بحمدک اللھم اغفرلی، سبحانک ربنا و بحمدک، اللھم اغفرلی، انک انت التواب الغفور حوالہ ابن جریر، مسند احمد، ابن ابی حاتم ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخرت کے لیے محنت و ریاضت کرنے میں اِس قدر شدت کے ساتھ مشغول ہو گئے جتنے اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے حوالہ: نسائی، طبرانی، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ ۔
This Surah informs of the Completion of the Life of Allah's Messenger
Al-Bukhari recorded from Ibn `Abbas that he said, "Umar used to bring me into the gatherings with the old men of (the battle of) Badr. However, it was as if one of them felt something in himself (against my attending). So he said, `Why do you (`Umar) bring this (youth) to sit with us when we have children like him (i.e., his age)' So `Umar replied, `Verily, he is among those whom you know. Then one day he called them and invited me to sit with them, and I do not think that he invited me to be among them that day except to show them. So he said, `What do you say about Allah's statement,
یعنی اپنے لئے اور امت کے لئے استغفار کیجیے۔ (تنبیہ) نبی کریم ﷺ کا اپنے لئے استغفار کرنا پہلے کئ جگہ بیان ہوچکا ہے، وہیں دیکھ لیا جائے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں " یعنی قرآن میں ہر جگہ وعدہ ہے فیصلہ کا، اور کافر شتابی کرتے تھے۔ حضرت ﷺ کی آخر عمر میں مکہ فتح ہوچکا، قبائل عرب دَل کے دَل مسلمان ہونے لگے۔ وعدہ سچا ہوا اب امت کے گناہ بخشوایا کر کہ درجہ شفاعت کا بھی ملے۔ یہ سورت اتری آخر عمر میں، حضرت ﷺ نے جانا کہ میرا جو کام تھا دنیا میں کرچکا اب سفر ہے آخرت کا۔
نام :پہلی آیت اذا جآءَ نصر اللہ کے لفظ نصر کو اِس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہ قرآن مجید کی آخری سورت ہے، یعنی اس کے بعد کوئی مکمل سورت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل نہیں ہوئی حوالہ: مسلم، نسائی، طبرانی، ابن ابی شیبہ، ابن مردویہ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ یہ سورت حجۃ الوداع کے موقع پر ایامِ تشریق کے وسط میں بمقامِ منٰی نازل ہوئی اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹنی پر سوار ہو کر اپنا مشہور خطبہ ارشاد فرمایا حوالہ: ترمذی، بزار، بیہقی، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابو یعلٰی، ابن مردویہ۔ بیہقی نے کتاب الحج میں حضرت سراء بن بنہان کی روایت سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وہ خطبہ نقل کیا ہے جو آپ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ:
” میں نے حجۃ الوداع میں حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ لوگو جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا یہ ایامِ تشریق کے بیچ کا دن ہے۔ پھر آپ نے پوچھا جانتے ہو یہ کون سا مقام ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا یہ مشعرِ حرام ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا، شاید اس کے بعد میں تم سے نہ مل سکوں۔ خبردار رہو، تمہارے خون اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اُسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن اور یہ مقام حرام ہے، یہاں تک کہ تم اپنے رب کے سامنے حاضر ہو اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے۔ سنو، یہ بات تم میں سے قریب والا دور والے تک پہنچا دے۔ سنو، کیا میں نے تمہیں پہنچا دیا؟ اس کے بعد جب ہم لوگ مدینہ واپس ہوئے تو کچھ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہو گیا “
ان دونوں روایتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ نصر کے نزول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے درمیان تین مہینے کچھ دن کا فصل تھا، کیونکہ تاریخ کی رو سے حجۃ الوداع اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وِصال کے درمیان اتنا ہی زمانہ گزرا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے میری وفات کی خبر دے دی گئی ہے اور میرا وقت آن پورا ہوا حوالہ: مسند احمد، ابن جریر، ابن المنذر، ابن مردویہ۔ دوسری روایات جو حضرت عبد اللہ بن عباس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہوئی ہیں اُن میں بیان کیا گیا ہے کہ اِس سورت کے نزول سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ آپ کو دنیا سے رخصت ہونے کی اطلاع دے دی گئی ہے حوالہ: مسند احمد، ابن جریر، نسائی ابن ابی حاتم، ابن مردویہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس سال میرا انتقال ہونے والا ہے۔ یہ بات سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رو دیں۔ اس پر آپ نے فرمایا میرے خاندان میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملو گی۔ یہ سن کر وہ ہنس دیں حوالہ ابن ابی حاتم، ابن مردویہ۔ قریب قریب اِسی مضمون کی روایت بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجھے غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے بڑے بڑے شیوح کے ساتھ اپنی مجلس میں بلاتے تھے۔ یہ بات بعض بزرگوں کو ناگوار گزری اور انہوں نے کہا ہمارے لڑکے بھی تو اسی لڑکے جیسے ہیں، اس کو خاص طور پر کیوں ہمارے ساتھ شریکِ مجلس کیا جاتا ہے؟ (امام بخاری اور ابن جریر نے تصریح کی ہے کہ یہ بات کہنے والے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ علم کے لحاظ سے اس کا جو مقام ہے وہ آپ لوگ جانتے ہیں۔ پھر ایک روز انہوں نے شیوخِ بدر کو بلایا اور مجھے بھی اُن کے ساتھ بلا لیا۔ میں سمجھ گیا کہ آج مجھےیہ دکھانے کے لیے بلایا گیا ہے کہ مجھ کو ان کی مجلس میں کیوں شریک کیا جاتا ہے۔ دورانِ گفتگو میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شیوخ بدر رضی اللہ عنہم اجمعین سے پوچھا کہ آپ حضرات اذا جآءَ نصر اللہ والفتح کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ بعض نے کہا اس میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب اللہ کی نصرت آئے اور ہم کو فتح نصیب ہو تو ہم اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کریں۔ بعض نے کہا اس سے مراد شہروں اور قلعوں کی فتح ہے۔ بعض خاموش رہے۔ اس کے بعد حضرت رضی اللہ عنہ نے کہا ابن عباس رضی اللہ عنہ، کیا تم بھی یہی کہتے ہو؟ میں نے کہا، نہیں۔ انہوں نے پوچھا پھر تم کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اجل ہے۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر دی گئی ہے جب اللہ کی نصرت آ جائے اور فتح نصیب ہو جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وقت آن پورا ہوا، اس کے بعد آپ اللہ کی حمد اور استغفار کریں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بھی اُس کے سوا کچھ نہیں جانتا جو تم نے کہا ہے۔ ایک روایت میں اس پر یہ اضافہ ہے کہ حضرت عمر نے شیوخِ بدر سے فرمایا آپ لوگ مجھے کیسے ملامت کرتے ہیں جبکہ اِس لڑکے کو اس مجلس میں شریک کرنے کی وجہ آ نے دیکھ لی حوالہ: بخاری، مسند احمد، ترمذی، ابن جریر، ابن مردویہ، بغوی، بیہقی، ابن المنذر
موضوع اور مضمون :
جیسا کہ مندرجۂ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے، اِس سورہ میں اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ بتا دیا تھا کہ جب عرب میں اسلام کی فتح مکمل ہو جائے اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کام مکمل ہو گیا ہے جس کے لیے آپ دنیا میں بھیجے گئے تھے۔ اس کے بعد آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ اللہ کی حمد اور اس کی تسبیح کرنے میں مشغول ہو جائیں کہ اُس کے فضل سے آپ اتنا بڑا کام انجام دینے میں کامیاب ہوئے، اور اُس سے دعا کریں کہ اِس خدمت کی انجام دہی میں جو بھول چوک یا کوتاہی بھی آپ سے ہوئی ہو اُسے وہ معاف فرما دے۔ اس مقام پر آدمی غور کرے تو دیکھ سکتا ہے کہ ایک نبی اور ایک عام دنیوی رہنما کے درمیان کتنا عظیم فرق ہے۔ کسی دنیی رہنما کو اگر اپنی زندگی ہی میں وہ انقلاب عظیم برپا کرنے میں کامیابی نصیب ہو جائے جس کے لیے وہ کام کرنے اٹھا ہو تو اس کے لیے یہ حشن منانے اور اپنی قیادت پر فخر کرنے کا موقع ہوتا ہے لیکن یہاں اللہ کے پیغمبر کو ہم دیکھتے ہیں کہ اُس نے 23 سال کی مختصر مدت میں ایک پوری قوم کے عقائد، افکار، عادات، اخلاق، تمدن، تہذیب، معاشرت، معیشت، سیاست اور حربی قابلیت کو بالکل بدل ڈالا اور جہالت و جاہلیت میں ڈوبی ہوئی قوم کو اٹھا کر اس قابل بنا دیا کہ وہ دنیا کو مسخر کر ڈالے اور اقوامِ عالم کی امام بن جائے، مگر ایسا عظیم کارنامہ اُس کے ہاتھوں انجام پانے کے بعد اُسے جشن منانے کا نہیں بلکہ اللہ کی حمد اور تسبیح کرنے اور اُس سے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، اور وہ پوری عاجزی کے ساتھ اِس حکم کی تعمیل میں لگ جاتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی وفات سے پہلے سبحٰنک اللھم و بحمدک استغفرک و اتوب الیک (بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں سبحان اللہ و بحمدہ استغفر اللہ و اتوب الیہ) کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیسے کلمات ہیں جو آپ نے اب پڑھنے شروع کر دیے ہیں؟ فرمایا میرے لیے ایک علامت مقرر کر دی گئی ہے کہ جب میں اُسے دیکھوں تو یہ الفاظ کروں اور وہ ہے اذا جآءق نصر اللہ والفتح حوالہ مسند احمد، ابن جریر، ابن المنذر، ابن مردویہ۔ اسی سے ملتی جلتی بعض روایات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے رکوع و سجود میں بکثرت یہ الفاظ کہتے تھے سبحٰنک اللھم و بحمدک اللھم اغفرلی۔ یہ قرآن (یعنی سورۂ نصر) کی تاویل تھی جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمائی تھی حوالہ: بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانِ مبارک پر آپ کے آخری زمانۂ حیات میں اٹھتے بیٹھتے اور جاتے آتے یہ الفاظ جاری رہتے: سبحان اللہ و بحمدہ میں نے ایک روز پوچھا یا رسول اللہ، آپ کثرت سے یہ ذکر کیوں کرتے رہتے ہیں؟ فرمایا مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے پھر آپ نے یہ سورت پڑھی حوالہ ابن جریر۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کثرت سے یہ ذکر فرماتے رہتے: سبحانک اللھم و بحمدک اللھم اغفرلی، سبحانک ربنا و بحمدک، اللھم اغفرلی، انک انت التواب الغفور حوالہ ابن جریر، مسند احمد، ابن ابی حاتم ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخرت کے لیے محنت و ریاضت کرنے میں اِس قدر شدت کے ساتھ مشغول ہو گئے جتنے اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے حوالہ: نسائی، طبرانی، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ ۔
This Surah informs of the Completion of the Life of Allah's Messenger
Al-Bukhari recorded from Ibn `Abbas that he said, "Umar used to bring me into the gatherings with the old men of (the battle of) Badr. However, it was as if one of them felt something in himself (against my attending). So he said, `Why do you (`Umar) bring this (youth) to sit with us when we have children like him (i.e., his age)' So `Umar replied, `Verily, he is among those whom you know. Then one day he called them and invited me to sit with them, and I do not think that he invited me to be among them that day except to show them. So he said, `What do you say about Allah's statement,
﴿إِذَا جَآءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ﴾
(When there comes the help of Allah and the Conquest.)' Some of them said, `We were commanded to praise Allah and seek His forgiveness when He helps us and gives us victory.' Some of them remained silent and did not say anything. Then he (`Umar) said to me, `Is this what you say, O Ibn `Abbas' I said, `No.' He then said, `What do you say' I said, `It was the end of the life of Allah's Messenger that Allah was informing him of. Allah said,﴿إِذَا جَآءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ﴾
(When there comes the help of Allah and the Conquest.) which means, that is a sign of the end of your life.﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوِبَا ﴾
(So, glorify the praises of your Lord, and ask His forgiveness. Verily, He is the One Who accepts the repentance and Who forgives.)' So, `Umar bin Al-Khattab said, `I do not know anything about it other than what you have said.''' Al-Bukhari was alone in recording this Hadith. Imam Ahmad recorded from Ibn `Abbas that he said, "When﴿إِذَا جَآءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ﴾
(When there comes the help of Allah and the Conquest.) was revealed, the Messenger of Allah said,«نُعِيَتْ إِلَيَّ نَفْسِي»
(My death has been announced to me.) And indeed he died during that year.'' Ahmad was alone in recording this Hadith. Al-Bukhari recorded that `A'ishah said, "The Messenger of Allah used to say often in his bowing and prostrating,«سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي»
(Glory to You, O Allah, our Lord, and praise be to You. O Allah, forgive me.) He did this as his interpretation of the Qur'an (i.e., showing its implementation).'' The rest of the group has also recorded this Hadith except for At-Tirmidhi. Imam Ahmad recorded from Masruq that `A'ishah said, "The Messenger of Allah used to often say towards the end of his life,«سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْه»
(Glory to Allah, and praise be unto Him. I seek Allah's forgiveness and I repent to Him.) And he said,«إِنَّ رَبِّي كَانَ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَأَرَى عَلَامَةً فِي أُمَّتِي، وَأَمَرَنِي إِذَا رَأَيْتُهَا أَنْ أُسَبِّحَ بِحَمْدِهِ وَأَسْتَغْفِرَهُ، إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا، فَقَدْ رَأَيْتُهَا:
﴿إِذَا جَآءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِى دِينِ اللَّهِ أَفْوَجاً - فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوِبَا ﴾»
(Verily, my Lord has informed me that I will see a sign in my Ummah and He has commanded me that when I see it, I should glorify His praises and seek His forgiveness, for He is the One Who accepts repentance. And indeed I have seen it (i.e., the sign). (When there comes the help of Allah and the Conquest (Al-Fath). And you see that the people enter Allah's religion in crowds. So glorify the praises of your Lord, and ask His forgiveness. Verily, He is the One Who accepts the repentance and Who forgives.))'' Muslim also recorded this Hadith. The meaning of Al-Fath here is the conquest of Makkah, and there is only one view concerning it. For indeed the different areas of the Arabs were waiting for the conquest of Makkah before they would accept Islam. They said, "If he (Muhammad is victorious over his people, then he is a (true) Prophet.'' So when Allah gave him victory over Makkah, they entered into the religion of Allah (Islam) in crowds. Thus, two years did not pass (after the conquest of Makkah) before the peninsula of the Arabs was laden with faith. And there did not remain any of the tribes of the Arabs except that they professed (their acceptance) of Islam. And all praise and blessings are due to Allah. Al-Bukhari recorded in his Sahih that `Amr bin Salamah said, "When Makkah was conquered, all of the people rushed to the Messenger of Allah to profess their Islam. The various regions were delaying their acceptance of Islam until Makkah was conquered. The people used to say, `Leave him and his people alone. If he is victorious over them he is a (true) Prophet.''' We have researched the war expedition for conquest of Makkah in our book As-Surah. Therefore, whoever wishes he may review it there. And all praise and blessings are due to Allah.Imam Ahmad recorded from Abu `Ammar that a neighbor of Jabir bin `Abdullah told him, "I returned from a journey and Jabir bin `Abdullah came and greeted me. So I began to talk with him about the divisions among the people and what they had started doing. Thus, Jabir began to cry and he said, `I heard the Messenger of Allah saying,«إِنَّ النَّاسَ دَخَلُوا فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا، وَسَيَخْرُجُونَ مِنْهُ أَفْوَاجًا»
(Verily, the people have entered into the religion of Allah in crowds and they will also leave it in crowds.)'' This is the end of the Tafsir of Surat An-Nasr, and all praise and blessings are due to Allah.
No comments:
Post a Comment