Friday, May 27, 2011

تفسیر سور فاتحہ

بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِيم

(1) الحمد للہ رب العلمین(2) الرحمن الرحیم (3) ملک یوم الدین(4) ایاک نعبد وایاک نستعین (5) اھدنا الصراط المستقیم (6) صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین(7)

ترجمہ: اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحم والا
”سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے والوں کا بہت مہربان رحمت والا روزِ جزا کا مالک ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں ہم کو سیدھا راستہ چلا راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا“
۔
خطبۂ مسنونہ:

ترجمہ:

 تمام خوبیاں اللہ کو، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس سے مدد مانگتے ہیں اور اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہم اللہ کی پناہ لیتے ہیں اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے بُرے اعمال سے، جسے اللہ راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے گمراہ کرے اسے کوئی راہ دینے والا نہیں، اور ہم گواہی دیتے ہیں کے اللہ کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے سردار ،ہمارے نبی، ہمارے محبوب ہمارے شفیع ہمارے (بیمار) دلوں کے طبیب اور ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں تمام انسانوں اور تمام کائنات کے لیے خوشخبری دینے اور ڈر سُنانے والا بنا کر قیامت سے پہلے بھیجا گیا۔)

قال اللہ تعالیٰ فی شان حبیبہ: (ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما)

(ترجمہ: اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک کی شان میں فرماتا ہے: ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر، اے ایمان والو! اُن پر دُرود اور خوب سلام بھیجو“۔)

اللھم صل وسلم علیہ وزد وتفضل وبارک علی سید السادات وافضل الموجودات واشرف الموجودات واحسن الموجودات واکرم الموجودات واجمل الموجودات واکمل الموجودات سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی جمیع الانبیاء والمرسلین وعلی جمیع ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ جمیع الانبیاء والمرسلین وعلی جمیع ملئکتہ المعصومین وعلی جمیع عبادہ الصالحین
۔
(ترجمہ: اے اللہ دُرود وسلام، خوب رحمتیں اور برکتیں نازل فرما اُن پر جو تمام سرداروں کے سردار، تمام موجودات (کائنات) میں سب سے افضل ، سب سے زیادہ شرف والے، سب سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ عزت والے، سب سے زیادہ جمیل اور سب سے زیادہ کامل ہیں ، یعنی ہمارے آقا ومولیٰ جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ اُن پر ، تمام نبیوں اور رسولوں پر، تمام معصوم فرشتوں پر اور اپنے تمام نیک بندوں پر رحمت نازل فرمائے۔
)
اما بعد: لقد قال اللہ تبارك وتعالي في كلامہ القديم العظيم:
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّہ)

صدق اللہ مولانا العظیم وبلغ رسولہ النبی الحبیب الکریم ونحن علی ذلک من الشاہدین والشاکرین
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کا ثمر

جو آیت تلاوت کی گئی اس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
:
(قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّہ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّہُ غَفُور رَّحِيمٌ) (سورۂ آل عمران: آیت: 31)

ترجمہ: ”اے محبوب! تم فرما دو کہ لوگو! اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے“

۔
یعنی: اپنی نظریں، توجہ، دل، جذبات اور احساسات میری پیروی کرنے میں لگا دو، نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا دوست بنا لے گا۔یہ آیت مسلمان کی اللہ تعالیٰ سے اور اللہ تعالیٰ کی مسلمان سے محبت کے بارے میں بتاتی ہے،

 اس کا کیا معنی ہے؟ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر ہم ایک سچے معبود ، اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں تو ہم اس سے اپنا تعلق بھی جوڑ سکتے ہیں ، ہم کسی ایسی ہستی پر ایمان نہیں لائے جس سے رحمتیں اور انعام حاصل نہیں کر سکتے، نہ ہی کسی ایسی ہستی پر ایمان لائے ہیں جو محض دُور ایک قوت یا طاقت ہے جسے ہم سے کوئی سروکار نہیں ہے، یا اگر کوئی سروکار بھی ہے تو صرف ایسا جیسا کہ ایک حاکم کو اپنی رعایا کے ساتھ۔نہیں۔۔۔! نہیں۔۔۔!ایسا نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ حاکم، خالق ، بدیع (یعنی: بغیر کسی نمونے کے چیزوں کو پیدا کرنے والا) اور ہادی ہے، کائنات کی ہر چیز پر اس کا اختیار ہے، وہ بہت بلند، عظیم، لا محدود اور ہم سے بہت مختلف ہے، اِن صفات کے باوجود بھی وہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ وہ ہم سے محبت اس لیے کرتا ہے کیونکہ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔

 اسے ایک آسان مثال سے سمجھئے کہ اگر کوئی کاریگر (آرٹسٹ) کوئی فن پارہ پوری عقیدت ومحبت سے بناتا ہے تو وہ کبھی بھی اپنے فن پارے کو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں ہونے دے گا،اسی طرح اگر ہم کچھ بناتے یا اپنے پاس رکھتے ہیں تو اسے کسی بھی قسم کا نقصان ہونے سے بچاتے ہیں کیونکہ ہم اس میں اپنی توانائی، دل اور روح کو دخل دیتے ہیں ہمیں اس چیز سے شعوری یا لا شعوری طور پر محبت ہو تی ہے۔ پھر ہم کیسے یہ تصور کر سکتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اور اچھی صورت پر بنایا،
-جیسے کہ وہ ارشاد فرماتا ہے: (لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِي اَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (4)) (ترجمہ: ”بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا“۔) (سورۂ تین: آیت: 4) – مگر وہ نہ تو ہم سے محبت کرتا ہے اور نہ اسے ہم سے کوئی سروکار ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح پیدا فرمایا ہے تو یقیناًوہ اس سے محبت کرے گا اور وہ محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا انسانوں سے تعلق، رحمت ومحبت کا ہے
۔
سورۂ فاتحہ اور صفاتِ باری تعالیٰ

قرآن مجید کی ابتدا میں بسم اللہ شریف میں اللہ تعالیٰ اپنی ذات کو محبت والی صفات کے ذریعہ اس طرح سے متعارف کرتا ہے کہ وہ (الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ) (یعنی وہ نہایت مہربان اور رحم والا )ہے۔ دوسری آیت میں وہ ارشاد فرماتا ہے:

(الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ(2)) (ترجمہ: ’’سب خوبیاں اللہ کو جو پروردگار سارے جہان کا‘‘۔) یہاں دوبارہ ہم صفتِ محبت کو دیکھتے ہیں کیونکہ لفظِ ’’رب‘‘ کا معنی ہے پروردگار، پالنے والا، حفاظت کرنے والا، پرورش کرنے والا اور مقصد کی طرف رہنمائی کرنے والا وغیرہ۔ یہ ’’رب‘‘ کے وظائف ہیں اور یہ وظائف محبت کے بھی ہیں،

 پھر وہ تیسری آیت میں دوبارہ دُہراتا ہے کہ وہ (الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ (3)) (نہایت مہربان رحم والا)ہے۔

چوتھی آیت میں ارشاد فرماتا ہے کہ وہ (مٰلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4)) (روزِ جزا کا مالک) ہے، وہ اس دن ہمارے اُن اعمال کا حساب لینے والا ہے، جنہیں ہم نے دنیا میں کیا۔ پھر وہ ہمیں اسی سورۂ فاتحہ ہمیں میں بُلاتا ہے کہ ہم اس کی بارگاہ میں پہنچیں اور اس کی رحمتیں لیں، اور وہ ہمیں تسلی دیتا ہے کہ ’’مجھے کسی ایسے انسان کی طرح گمان نہ کرنا جو اونچے مرتبہ پر پہنچ گیا اور اس سے رابطہ نا ممکن ہو گیا ہو، باوجود اس حقیقت کے کہ میں ہمیشہ سے بلند وبرتر ہوں اور یہ کہ میں تمہارا مالک اور معبود ہوں، میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ تم میری بارگاہ میں آتے ہو‘‘

۔مؤذن کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی طرف روزانہ ، ہر مسجد سے بلاتا ہے ”حَیَّ عَلیٰ الصَّلوٰۃِ“ (آؤ نماز کی طرف) ”حَیَّ عَلی الفَلاَحِ“(آؤ فلاح کی طرف) میں، مؤذن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاتا ہے کہ ہم اس کی بارگاہ میں پہنچیں اور خیر کا سوال کریں۔

 اسی طرح ہمیں سورۂ فاتحہ کی پانچویں آیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے: (اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (5)) (ترجمہ: ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں)۔ ہم یہاں اللہ تعالیٰ سے اپنی وفاداری کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہم باغی نہیں ہیں ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس آیت کے ذریعے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں، پھر ہم اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتے ہیں مدد کس چیز میں۔۔۔۔؟ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ ہی سے ہر چیز کا سوال کریں اگرچہ بہت معمولی سی ہی ہو۔ مگر یہاں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سکھا رہا ہے کہ ہم اس سے اعلیٰ خواہش کا سوال کریں جبکہ ادنی کو ہمارے اختیار پر چھوڑ دیا، وہ اعلیٰ خواہش

 آیت نمبر چھ میں ہے: (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6)) (ترجمہ: ’’ہم کو سیدھا راستہ چلا‘‘) یعنی: ہمیں برزگی، کامیابی حکمت اور خوبصورتی کے راستے پر چلا۔
یاد رہے: ”اِھدِنَا “ کا معنی صرف ’’ہمیں راستہ چلا‘‘ ہی نہیں ہے کیونکہ ہدایت کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو معنی یہ ہو تا ہے کہ اس راہ پر بھی ہماری راہنمائی فرما کہ ہم اس ’’مقصد‘‘ تک پہنچنے کے قابل ہوں، اور مقصد کیا ہے۔۔۔؟
انعام یافتہ بندے

وہ ’’مقصد‘‘سورۂ فاتحہ کی ساتویں آیت میں ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ (صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْھمْ) (ترجمہ: ’’راستہ اُن کا جن پر تو نے احسان کیا‘‘)، کون ہیں یہ اِحسان وانعام یافتہ لوگ؟ قرآن مجید واضح طور پر بتاتا ہے:

 ( وَ مَن یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُولَ فَاُؤلٰٓئِکَ مَعَ الَّذِینَ اَنْعَمَ اللَّہُ عَلَيْہِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيقًا) ۔
(ترجمہ: ’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں‘‘۔) (سورۂ نساء: آیت: 69)

(1) وہ انعام یافتہ بندے، حضراتِ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام ہیں جن میں آخری نبی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

(2) اور اِن کے بعد دوسرے درجہ میں صدیقین ہیں، وہ لوگ جو اپنے افکار، اقوال وافعال میں سچائی کا مجسمہ ہوتے ہیں، یہ لوگ نبی نہیں ہوتے بلکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی ’’سچائی‘‘ کو اس حد تک اپنی ذات میں سمایا کہ ان میں کوئی کمی ونقص نہیں ملتا۔


(3) تیسرا درجہ ’’شہداء‘‘ کا ہے ، وہ لوگ جنہوں نے حق کی خاطر، محبت سے سرشار ہو کر اپنی جانیں، اللہ تعالیٰ کے لیے قربان کر دیں
۔
(4) چوتھا درجہ ’’صالحین‘‘ (نیک لوگوں) کا ہے،جنہوں نے اپنی زندگیاں اچھے طریقے سے، خدائی ضابطۂ حیات کے مطابق گزاریں
۔
اسلام کا مقصد۔۔۔!

اسلام اس لیے نہیں آیا تھا کہ اس کے ماننے والے ایسے ہوں جو صرف نام کے یا رَسماً ”مسلمان “ ہوں کہ بعض عبادات بجا لاتے ہیں، یا وہ مسلمان، کچھ عقائد کے نقطۂ نظر سے ہوں، مگر اِن کی بنیاد پر وہ عمل نہ کریں، جس کا یہ عقائد تقاضا کرتے ہیں۔ اسلام اس لیے آیا تھا کہ انسان کی خراب حالت کو تبدیل کرے تاکہ وہ ان مذکورہ چار درجات میں سے کسی ایک درجہ والوں کا ”رفیق وہم نشین“ ہو سکے۔ آدمی اپنی سنگت سے پہچانا جاتا ہے، اسی لیے ان چار درجات میں سے کسی ایک کے ساتھ ہونے کے لیے، فرد کو اللہ تعالیٰ کا بندۂ صادق ہونا پڑے گا۔ کچھ لوگ اس مذکورہ آیت کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ ایک اچھا مسلمان بننے سے کوئی شخص (خود سے) نبی بھی بن سکتا ہے۔ یہ لوگ گمراہ ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ’’نُبوت‘‘ ختم ہو چکی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری نبی مبعوث کیے گئے ہیں۔ کوئی بھی شخص اپنے ’’مجاہدات‘‘ (عبادات وریاضات) سے نبی نہیں بن سکتا کہ نُبوت محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے نبیِ آخر الزمان خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کو عطا کی گئی

۔
رفاقت وہم نشینی کا معنی۔۔۔!


بلکہ اس آیت میں مراد ’’رفاقت وہم نشینی‘‘ہے، مثلاً اگر لوہے کا ایک ٹکڑا مقناطیس کے ساتھ رہے تو وہ مقناطیسی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ کچھ نئی صفات حاصل کر لیتا ہے۔ اسی طرح ایک مالی، خوشبودار پھولوں میں رہے تو وہ خود ان پھولوں میں رہنے کی وجہ سے خوشبو پاتا ہے، یہ ہے معنی ”رفاقت وہم نشینی“ کا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم دیا گیا ہے

 وہ یہ ہے کہ اس سے سوال کریں (صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْھِمْ) (ترجمہ: ’’راستہ اُن کا جن پر تو نے احسان کیا‘‘)۔ میرے عزیز دوستو! موضوع بہت مشکل ہے مگر میں کوشش کر رہا ہوں کہ آپ اسے آسانی سے سمجھ لیں اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں اور بار بار غور وفکر کریں

۔
کیا اسلام صرف اس لیے آیا تھا کہ ہم پر فرض نماز کی بے سمجھے، ادائیگی مقرر کرے؟ یا ہم کچھ مذہبی رسموں (مثلِ روزہ ونماز) کی ادائیگی کریں اور اپنے اندر کوئی تبدیلی نہ پائیں باوجود یہ کہ نماز پڑھ چکے ہیں؟ کیا اسلام اس لیے آیا تھا کہ رمضان کے مہینے میں ہم پر روزوں کی مشقت نافذ کرے، معاذ اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہمیں مشقت میں ڈال کر خوش ہوتا ہے؟


 اس نے قرآن میں واضح ارشاد فرما دیا :


(وجاھدوا في اللہِ حَقَّ جہادہ واجْتباكم وما جعلَ عليكم فِي الدِّينِ مِنْ حرجٍ ملۃ اَبيكمْ اِبْرَاھِیْمَ وَ سماكُمُ الْمسْلِمِينَ مِنْ قَبلُ وَفِيہ ذا لِيَكُونَ الرَّسولُ شَہيدا عَلَيكُمْ وَتَكُونُوا شُہدَآءَ عَلٰی النَّاسِ)۔

(ترجمہ: ’’اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا حق ہے جہاد کرنے کا اس نے تمہیں پسند کیا اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی تمہارے باپ ابراہیم کا دین اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اگلی کتابوں میں اور اس قرآن میں تاکہ رسول تمہارا نگہبان وگواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہی دو‘‘۔) (سورۂ حج: آیت: 78)

اللہ تعالیٰ نے اسلام اس لیے بھیجا تاکہ اس کے ماننے والے اللہ تعالیٰ کے وُجود کے گواہ بن سکیں اور اس روحانی نظم وضبط کے گواہ جو اس دنیا میں ہے۔ شہداء شہید،شاہد، مشاہدہ، شہود، مشہود جیسے تمام الفاظ ’’شَہِدَ‘‘ (بمعنی گواہی دینا) سے بنے ہیں۔ کوئی آدمی اس وقت تک (کسی چیز کا) گواہ نہیں ہو سکتا جب تک اس نے ”اُس چیز“ کا مشاہدہ نہ کیا ہو۔ کورٹ میں قاضی، گواہ سے پوچھتا ہے کہ تم جس امر کی گواہی دے رہے ہو کیا تم نے اسے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ہے یا یہ محض الزام ہے؟ اگر وہ گواہ کہے کہ میں نے اسے خود دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا ہے، پھر تو اس کی گواہی قابل سماعت ہوتی ورنہ نہیں

۔
پھر انسان ، کس کو اسلام کی صداقت کا ”گواہ“ تسلیم کرے گا؟ یقیناً اسے کہ جو صفاتِ باری تعالیٰ کے جلووں کا دیدار کر لینے کا دعویٰ کرے اگرچہ اس نے ذات باری تعالیٰ کا دیدار نہ کیا ہو، ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے افعال (صفات) کا گواہ ہے۔جب تک کوئی شخص اس ”مرتبہ“ کو نہ پہنچ جائے اس وقت تک اس نے اسلام کی اس شرط کو پورا نہیں کیا جس کے لیے اسلام آیا ہے یعنی (وَتَكُونُوا شُھدَآءَ عَلٰی النَّاسِ) (اور تم لوگوں پر گواہی دو)۔

فرائض کی ادائیگی کا مقصد۔۔۔!

ہمارا کام نماز اور ماہِ رمضان کے روزوں کو محض رسماً ادا کرنا نہیں، یقیناً یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرائض ہیں بلکہ ہمیں (لوگوں پر) گواہ بننے، ذاتی اور براہِ راست مشاہدۂ حق سبحانہ وتعالیٰ کے لیے اِن کو ادا کرنا ضروری ہےاور یہی وجہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہوئے ہیں۔

حضرت سیدنا جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور ایک مؤذن

آئیے تاریخ سے اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں، بغداد میں سلسلۂ قادریہ کے ایک بزرگ اور اللہ تعالی کے ایک بہت بڑے ولی سیدنا جنید رَحمۃُ اللہ عَلَیہِ وَقَدَّسَ اللہُ تَعَالیٰ سِرَّہٗ (910ء/297ھ) رہا کرتے تھے ایک دن آپ رحمۃ اللہ علیہ مسجد کے پاس سے گزر رہے تھے کہ آپ نے اَذان سُنی،

جب مؤذن نے ’’اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ‘‘ کہا، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جا کر مؤذن کو گردن سے پکڑا اور فرمایا: ’’تُو جھوٹا ہے‘‘، مؤذن کانپنے لگا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حضرت سیدنا جنید رحمۃ اللہ علیہ ایک عالمِ دین اور اللہ کے ولی ہیں، آپ نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اللہ کو دیکھا ہے تم یہ کیسے کہتے ہو کہ ’’میں گواہی دیتا ہوں‘‘ کیونکہ گواہی دینا ”ذاتی مشاہدہ“ پر ہوتا ہے، اور اگر تم نے مشاہدہ نہیں کیا تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم کہو ’’میں گواہی دیتا ہوں‘‘، آپ رحمۃ اللہ علیہ جس وقت مؤذن کے پاس تشریف لائے تو اس وقت ’’حال‘‘ (وجد کی حالت) میں تھے (لہٰذا آپ رحمۃ اللہ علیہ پر کوئی مؤاخذہ نہیں)۔ ایک دانا شخص نے، جو یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، مؤذن سے کہا: انہیں یہ جواب دو کہ میں یہ اعلان اس ذاتِ گرامی کی طرف سے کر رہا ہوں جس نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے، لہٰذا میں جھوٹا نہیں ہوں‘‘
۔
قرآن کریم کی اس آیت کو دوبارہ پڑھیں

:
(قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی يُحْبِبْكُمُ اللَّہُ)۔

(ترجمہ: ’’اے محبوب! تم فرما دو کہ لوگو! اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا‘‘۔)
(سورۂ آلِ عمران: آیت: 31)


محبوبانِ خدا کی ہم نشینی کی برکات


یہ تمام درجے، محبوب لوگوں کے ہیں جو حضراتِ اَنبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ السلام، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں، انسان میں کیا تبدیلی آتی ہے جب وہ (عورت یا مرد) اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں (دوستوں) میں سے ہو جاتا ہے؟

 یہ امر بہت اہم ہے، اسے ایک حدیث ِ قدسی میں بتایا گیا جسے صحاح ستہ ودیگر کتب حدیث میں محدثین نے روایت کیا کہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ((وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی أُحِبَّہُ فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ كُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِيْ يَسْمَعُ بِہِ وَبَصَرَہُ الَّذِيْ يُبْصِرُ بِہِ وَيَدَہُ الَّتِيْ يَبْطِشُ بِہَا وَرِجْلَہُ الَّتِيْ يَمْشِيْ بِہَا وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّہُ))

 یعنی: ”میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قُرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے دوست بنا لیتا ہوں، پس جب اسے دوست بنا لیتا ہوں تو اس کے کان (کی قدرت) بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اس کی آنکھ (کی طاقت) بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ (کی قوت)بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں (کی طاقت)بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں ضرور عطا فرماتا ہوں“۔(أخرجہ البخاري في صحيحہ في الرقاق).امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ زائد الفاظ روایت کیے: ((وَلِسَانَہُ الَّذِي يَنْطِقُ بِہِ، وَقَلْبَہُ الَّذِي يَعْقِلُ بِہِ)) یعنی: ”اور اس کی زبان (کی قوت) بن جاتا ہوں جس سے وہ بات کرتا ہے اور اس کا دل بن جاتا ہوں جس سے وہ سوچتا ہے“

۔
اللہ تعالیٰ کا بندے کے اعضاء (کی طاقت وقدرت )بننے کا معنی ۔۔۔!


ہم مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لا محدود اور غیر منقسم ہے وہ کسی میں حلول نہیں کرتا، بلکہ اُس کا ”آنکھ (کی طاقت) بن جانے“ سے مراد یہ ہےکہ پھر کوئی چیز کائنات میں اُس آنکھ سے پوشیدہ نہیں رہتی ، اُس کا ”کان (کی قدرت)بننے“ سے مراد یہ ہے کہ پھر کائنات میں کوئی آواز اس کان سے پوشیدہ نہیں رہتی، جب اللہ تعالیٰ ”پاؤں (کی طاقت) بن جائے“ تو پھر کائنات میں کوئی ایسی جگہ نہیں رہتی جہاں وہ ”پاؤں“ نہ جا سکیں،جب وہ ”زبان (کی قوت) بن جائے“ تو پھر وہ زبان اگر کہے کہ ایسا ایسا ہونے والا ہے تو وہ ضرور ہوتا ہے
۔
میرے عزیز دوستو! یاد رکھئے یہ ہے اسلام کا ”مقصد“ ، جو ہمارے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ نہ سمجھئے گا کہ اس میں کسی قسم کے ”شرک“ کا نام ونشان ہے کیونکہ انسان، انسان ہی رہتا ہے اور خدا، خدا، اللہ تعالیٰ کی ذات سے کچھ بھی کم نہیں ہوتا۔ (بلا تشبیہ وتمثیل)

 ایک مثال سے سمجھئے Convex lens (یعنی: محدّب عدسے/انعطافی شیشہ) میں نہ تو روشنی ہوتی ہے اور نہ ہی حرارت کہ وہ ایک بے جان اور تاریک چیز ہے۔ اس (Convex lens) کو سورج کے سامنے کریں تو ایک چھوٹا سا سورج ظاہر ہوگا، آپ اپنی ہتھیلی یا کاغذ اُس کے نیچے کریں تو وہ ہاتھ یا کاغذ کو جلانے لگے گا۔ یہ چھوٹا سورج جو ہتھیلی پر بنا، در اصل، اصلی سورج کی شبیہ ہے اپنی شکل وعمل میں چندھیانے والی چمک کہ جس پر ہم اپنی آنکھیں نہیں جما سکتے کہ یہ اِن کے لیے مضر ہیں، مگر اپنی حقیقت میں یہ ایسا نہیں ہے، یہ تو صرف ایک شبیہ ہے جو ہاتھ کی سطح پر بنی ہے۔

 ہم جانتے ہیں کہ سورج، روشنی اور حرارت رکھتا ہے، یہ چھوٹا سورج بھی، روشنی اور حرارت رکھتا ہے مگر خود سے وجود نہیں رکھتا(یعنی:قائم بالذات نہیں)۔ یہ حقیقی سورج کے رہنے تک رہتا ہے، جب تک حقیقی سورج ، Convex lens کو غذا (روشنی وحرارت) دیتا رہے یہ مصنوعی سورج رہے گا، اور اگر Convex lens کو ہٹا لیا جائے تو یہ بھی چھپ جائے گا۔
اسی طرح جب وہ Convex lens، جو یہاں (ہمارے بدن میں) ہے

-یعنی روحانی دل، اور یقیناً جسمانی دل بھی- اللہ تعالیٰ کی محبت اور ”لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ“ کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں، اس لینس کے ارتکاز اور عکس کی طاقت بڑھتی ہے، یہ آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ (کی بارگاہ) سے نور وتابانی لیتا ہے اور اسے (اپنے اندر)جذب کرتا ہے، جیسا کہ اس امر کے بارے میں کہا گیا کہ ”قَلْبُ المُؤْمِنِ عَرْشُ اللہِ“ یعنی: مؤمن کا دل، اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور اسے لازماً ایک متحرک عرش بنانا چاہیے

کہ یہ اسلام کا ”مقصد“ ہے۔ جب یہ صفات آہستہ آہستہ باقاعدہ طریقہ سے جذب ہو جائینگی جیسا کہ

 اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (وَأَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِكْرِي) (ترجمہ: ”اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ“۔) (سورۂ طہٰ: آیت 14

 اور فرماتا ہے: (فَاذْكُرُونِي اَذْكُرْكُمْ) (ترجمہ: ”تم میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کرونگا“۔) (سورۂ بقرہ: آیت 152)


اللہ تعالیٰ کی بندے سے محبت کی تجلی


محبت طرفین میں باہمی وایک دوسرے پر منحصر ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ہم سے شدید محبت کا نتیجہ ہے کہ اس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم (گناہگاروں) کو یہ بتایا کہ اے حبیب! میرے بندوں سے کہہ دو کہ جب وہ میری جانب ایک قدم بڑھتے ہیں تو میری رحمت ان کی طرف دس قدم بڑھ کر آتی ہے، یہ ”حقیقی محبت“ ہے اور وہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے۔ یقیناً ہم میں بہت سے اس کی محبت کے لائق نہیں ہیں، یہ ہمارا اپنا ”نقصانِ عظیم“ ہے۔ ہم نہ تو اُسے کوئی نقصان دے سکتے ہیں نہ ہی اُس کی عظمت وبزرگی میں کچھ کمی یا زیادتی کر سکتے ہیں، وہ بے نیاز ، بادشاہِ مطلق اور ہر چیز سے غنی ہے
۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس راستہ کو بیان فرمایا وہ یہ ہے ”تَخَلَّقُوا بِاخلاَقِ اللہِ“ یعنی: ”اللہ تعالیٰ کے اخلاق (صفات) اپناؤ“۔ یہ شرک نہیں بلکہ حقیقی توحید ہے جو اپنی صحیح معرفت کا تقاضا کرتی ہے یہ کام خلیفۃ اللہ کا ہے جیسا کہ Convex lens سورج خلیفہ کا ہے ۔ جب آدمی ”خلیفۃ اللہ“ بنتا ہے تو وہ اپنے مرتبۂ طاقت کو محسوس کرتا ہے علمِ نباتات میں ہر ”بیج“ اپنے سے نکلنے والے پودے پر مشتمل ہوتا ہے یعنی صلاحیت رکھتا ہے، اسی طرح انسان میں خلیفۃ اللہ ہونے کی صلاحیت ہے، ایک مرد یا عورت کو خلیفۃ اللہ بننے کے لیے اپنے آپ کو اسلامی ضابطۂ ہدایت کے تحت تعمیر کرنا پڑے گا
۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق میں اللہ تعالیٰ کے خلیفۂ اعظم ہیں

اسلام اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا خزانہ ہے ہم اس لا زوال خزانہ سے صرف اُس وقت فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جبکہ ہم محبوبِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں اُن سے شدید محبت کریں اور آپ علیہ السلام کے حقیقی اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے والے بن جائیں، ایک مسلمان حقیقی معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اتباع کرنے والا ہے

 اس کے سوا پھر کیا ہے؟

 اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے
:
(لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ)

(ترجمہ: ”بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے“۔) (سورۂ احزاب: آیت 21)


(آیت میں مذکور) ”اُسوہ یا نمونہ“ وہ چیز ہے جس کی پیروی کی جائے، اس جذبہ کے تحت کہ اس جیسا ہوا جائے،

 ایک نمونہ (Sample) کسی فیکٹری میں ایک بڑی پیداوار کے لیےدیا جاتا ہے تاکہ اس جیسی مزید پروڈکٹس تیار کی جا سکیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ایک عملی نمونہ ہے اور ایک مسلمان کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس عملی نمونہ کی طرح اپنے آپ کو بدلے۔ وہ کیا صفات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس عملی نمونہ میں رکھا ہے؟ آپ علیہ السلام سورج کو روک سکتے ہیں، چاند کو دو ٹکڑے کر سکتے ہیں، یا آپ علیہ السلام خلا کو حکم دیں تو وہ راستہ دے دیتی ہے کہ آپ علیہ السلام اپنے مالک عَزّوَجَلَّ کے حضور پہنچ جائیں۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ کامل خلیفۃ اللہ ہیں اور آپ علیہ السلام کی ذات اس چیز کو شامل ہے

 جسے قرآن کریم کہتا ہے:

(وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيعًا مِّنْہُ)

(ترجمہ: ”اور تمہارے لیے کام میں لگائے جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں“۔)

(سورۂ جاثیہ: آیت 13)

آپ علیہ السلام اس مہارت کے مجسم تھے اسی لیے خلیفۃ اللہ اور ایک مکمل عملی نمونہ ہیں ، ہر اس شخص کے لیے جو خلیفۃ اللہ بننا چاہتا ہے۔ مگر ہم مسلمان، ایک چھوٹے سے کیڑے کی طرح ہو گئے ہیں جو زیرِ زمین آبناؤں(نالیوں) میں (دنیا سے بے خبر) رینگتا ہے، نیز ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس طرح کی جہالت ولاپرواہی والی زندگی گزار کر، بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ یاد رکھیے! یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی ذمہ داری ہے کہ حقیقت کو سمجھیں

۔

غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ اور بغداد کا حاکم


یہ وہ چیز ہے جس کی تعلیم کے لیے اسلام آیا اور ہمارے اسلاف کرام نے اس کو مانا اور اس پر عمل کیا، جب ہم اپنے اسلاف کے بارے میں سُنتے ہیں جیسے سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں، تو ہم حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بغداد کے حاکم نے، جو اپنی رعایا کے ساتھ نہ تو عدل وانصاف قائم کر رہا تھا اور نہ ہی سلطنت کے اُمور سہی طور پر چلا رہا تھا ، جب حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شہرت کا چرچہ سُنا اور دیکھا کہ آپ لوگوں میں ایک بلند مقام حاصل کر چکے ہیں

 تو وہ، حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دو تھیلیاں اشرفیوں کی لے کر حاضر ہوا اور اُس نے وہ تھیلیاں حضرت کے سامنے رکھ دیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اس میں کیا ہے؟ حاکم نے عرض کی: یہ ایک حقیر سا تحفہ ہے، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ کیوں لائے ہوں؟ اُس نے عرض کی: حضور! میں یہ آپ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے لایا ہوں کیونکہ آپ روحانی بادشاہ ہیں اور میں ایک (دنیا کا) عارضی بادشاہ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: اگر تم یہ مانتے ہو کہ میں ایک روحانی بادشاہ ہوں تو پھر تمہیں مادی طریقے کے بجائے روحانی طریقے سے خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہیے۔ یہ ہیں خلیفۃ اللہ جو کسی بھی دنیاوی حاکم یا بادشاہ وغیرہ کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور آوازِ حق بلند کر دیتے تھے۔ بہر حال حاکم نے اصرار کیا کہ غوث الاعظم شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ اس کا تحفہ قبول کر لیں جبکہ حضرت جانتے تھے کہ یہ حاکم حقیقت سے لا علم ہے۔

 شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں تھیلیوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور انہیں دبایا تو ان تھیلیوں سے خون بہنے لگا۔ حاکم تھرتھرانے لگا، تو حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت سے کس قدر غافل ہو کہ اپنی رعایا کا خون چوستے ہو اور وہ خون اس کے پاس لاتے ہو جسے تم اللہ کا بندہ سمجھتے ہو، حاکم کپکپاتا رہا جب اس کے حواس بحال ہوئے تو عرض کی: حضور میں (توبہ کرتا ہوں اور) آپ کے حکم کے مطابق عمل کرونگا، یہ ہے خلیفۃ اللہ۔۔۔!

۔
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور جادوگر


سیدنا خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے اذن ملا کہ اجمیر (بھارت)میں جا کر اسلام کی تبلیغ کریں۔ وہاں کے ہندو حاکم نے اپنے سب سے بڑے ہندو جوگی اجے پال کو بلایا کہ وہ خواجہ صاحب سے ان کی اجمیر آمد پر آمنے سامنے ایک مقابلہ کرے۔ اس جوگی نے حضرت خواجہ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ کو مقابلہ کے للکارا اور کہا: میں ہوا میں اُڑ سکتا ہوں، اب دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے کون دور تک اُڑ سکتا ہے“۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مسکرا کر فرمایا: اچھا واقعی تم اُڑ سکتے ہو ، اُڑو ، کہا جاتا ہے جوگی اس کے بعد ہوا میں اُڑ گیا، حضرت سیدنا معین الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کھڑانوں (لکڑی کی چپلوں) کو اس کے پیچھے اُڑنے کا حکم دیا کہ اس کے سر پر ماریں اور اسے نیچے لائیں، یہ واقعہ حقیقتاً ہوا تھا۔ ہمیں یہ خیال آسکتا ہے کہ یہ ماضی کی کہانیاں ہیں اس کا کیا ثبوت ہے، اگر یہ تاریخ کے ثابت شدہ حقائق، من گھڑت ہیں تو پوری تاریخ من گھڑت ہے لہٰذا نہ تو اس کی تعلیم دیں اور نہ اسے سیکھیں

۔
مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت


آپ کو مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بتاتا ہوں، جو ایک بہت بڑے عالمِ دین، مقرر اور عظیم مبلغ تھے۔ میں حضرت کے ساتھ 1949ء تا 1950ء کے دوران عالمی دورے پر تھا، مشرقِ وسطیٰ ، یورپ اور شمالی وجنوبی امریکہ کا دورہ کرنے کے بعد ہم فلپائن کے مشہور شہر قتابتو (Qutabatu) گئے،فلپائن ایک ایسا ملک ہے جہاں طوفانی بارش کثرت سے ہوتی ہے، ایک شام ایک کھلے میدان میں ایک محفل کا انعقاد کیا جانا تھا، جسے مغرب کے بعد شروع ہونا تھا، ایسی محفل جس میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے لیے شرکت کی اجازت تھی۔ ظہر کے بعد کالے بادل چھا گئے اور عصر تک حالات ایک بڑے طوفان کے آثار کے ساتھ خراب ہو گئے۔ ہم ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے،

 عصر کے بعد میں اپنے مرشد مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کچھ آرام فرما چکے تھے، ہم شام کی چائے پی رہے تھے اور وہاں حضرت کے پاس دیگر مقامی لوگ بھی آئے ہوئے تھے، میں نے اپنے مرشد سے کالے بادلوں، بجلی کی کڑک اور آنے والے طوفان کے بارے میں عرض کی، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور فرمایا:”میرے پیارے بیٹے تم کیوں پریشان ہو؟ ہم یہاں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے آئے ہیں، اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے، زمین اس کی ملکیت ہے اور جو لوگ آئیں گے وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اگر وہ چاہتا ہے کہ میں اس کا پیغام پہنچاؤں، تو یہ ہو گا“۔

مغرب کے بعد ہم میدان کی طرف گئے جہاں ایک بہت بڑا مجمع انتظار کر رہا تھا، جو وہاں تقریباً تین بجے کے بعد سے جمع ہونا شروع ہوا تھا، صوبہ کا گورنر جو کہ مسلمان اور صدرِمحفل تھا، وہ وہاں موجود تھا ، ایک رومن کیتھولک مہمانِ خصوصی اور دیگر مہمان بھی وہاں تھے۔ محترم المقام مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی گفتگو انگریزی زبان میں کرنا شروع کی اور ساتھ ہی ایک مترجم نے مقامی زبان میں اس کا ترجمہ کر نا شروع کیا اور میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک جانب بیٹھا تھا۔ بارش کی بڑی بڑی بوندیں گرنا شروع ہوئیں، مجمع نے بے چین ہو کر اٹھنا شروع کیا تاکہ وہ اپنے گھروں کو بھاگ سکیں، اتنا بڑا مجمع جب ایک ساتھ اٹھے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے، اس وقت تک جبکہ یہ معاملہ ہوا، مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ نے صرف عربی میں خطبۂ مسنونہ اور اس کے بعد ایک دو جملہ ہی ادا فرمائے تھے، میری حیرت کی انتہا تھی

 کیونکہ اس وقت تک میں اُس راز کو نہیں جانتا تھا جو مولانا جانتے تھے،مولانا نے فرمایا: ”میرے عزیز دوستو! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بس اب بارش رُکنے والی ہے، اور جب تک یہ محفل جاری ہے اس وقت تک بارش نہیں ہو گی، تاہم محفل ختم ہونے کے بعد آپ لوگوں کے پاس ”دس منٹ“ ہوں گے کہ آپ اپنے گھروں کو جاسکیں، پھر ایک بہت بڑا طوفان آئے گا، براہِ کرم جب محفل ختم ہوجائے تو مجھ سے مصافحہ کرنے کے لیے آگے نہ آیئے گا کیونکہ اس وقت میں نے ہوٹل واپس جانا ہے“، جب آپ نے یہ اعلان فرمایا تو بارش رُک گئی، اس کے بعد ایک قطرہ بھی بارش کا نہیں گرا ، میں اور وہ دیگر لوگ جو آج بھی زندہ ہیں ، اس کے گواہ ہیں۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے انتہائی مطمئن انداز میں، ایک بہت ہی عمدہ خطاب فرمایا، میں پریشان تھا کہ مولانا نے یہ کیسا جرأتمندانہ اعلان کر دیا ہے گویا کہ میرے سُسر کائنات میں تصرف کر سکتے ہیں اور میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ آیا مولانا بھی جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا اعلان کیا ہے اس دوران گرج چمک ہوتی رہی، اور مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک گفتگو کی،

 اس دوران مجمع آرام سے بیٹھا رہا، میں یہ بھی سمجھا تھا کہ مولانا اس اعلان کے بعد گفتگو کچھ کم کریں مگر مولانا نے طویل گفتگو کی۔ پھر دیگر کے خطاب اور صدرِ محفل کے اظہارِ تشکر کے بعد محفل ختم ہوئی۔ لوگوں نے منچ (اسٹیج) کی طرف بڑھنا شروع کیا تاکہ وہ مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ سے مصافحہ کرسکیں، تو مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے دوبارہ فرمایا: ”میرے عزیز دوستو! پہلے تو آپ لوگ یہاں سے بھاگ رہے تھے اور کیا آپ نہیں دیکھتے کہ آسمان میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا میں نے آپ کو آگاہ نہیں کیا تھا، خدارا! مہربانی فرمائیں، آپ کے پاس گھروں کو جانے کے لیے ”دس منٹ“ ہیں اور میں بھی اپنے ہوٹل جا رہا ہوں“
۔
پورے دس منٹ بعد شدید طوفان آیا اور دوسری صبح کو پانی قتابتو کی سڑکوں پر تقریباً چھ سے سات فٹ اونچا کھڑا تھا۔ اس کرامت کو دیکھ کر ہزاروں کیتھولک عیسائی، مسلمان ہوئے۔ یہ 1950ء؁ میں ہوا جس کے گواہ آج بھی زندہ ہیں۔ یہ ہے خلیفۃ اللہ ۔۔۔! اور یہ ہے اسلام کا مقصد۔۔۔!اسلام کا مقصد اور کام یہ نہیں ہے کہ (حقائق کو) اندھیرے میں ٹٹولا جائے، بلکہ اسلام کا مقصد اور کام یہ ہے، جس طرح ہمیں قرآن کریم میں بتایا گیا ہے

 کہ: (اَللہُ وَلِیُّ الَّذِینَ اٰمَنُوا لا یُخرِجُہُم مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلٰی النُّورِ)

(ترجمہ: ”اللہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے“۔)
(سورۂ بقرہ: آیت 257)


.اولیائے کرام کا بعد وفات دنیاوی اُمور میں تصرف کرنا

یعنی وہ انہیں اندھیرے میں نہیں دھکیلتا بلکہ انہیں اُس روشنی کی طرف لاتا ہے جہاں وہ ہر حقیقت کو کما حقّہ دیکھ سکتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہاں اس ملک میں کچھ لوگ غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ (1166-1077ء/ 561-470 ھ) کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں، یقیناً وہ ایسا نِری جہالت کی وجہ سے کرتے ہیں، اسلام کے عظیم مفکر شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اب تک ”اللہ تعالیٰ کے عطا سے“ اس دنیا کے اُمور میں اس طرح تصرف فرماتے ہیں جیسے کہ وہ زندگی میں فرماتے تھے، جب مقصد یہ ہے کہ خلیفۃ اللہ ہونے کے لیے، اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا رنگ چڑھائیں، تو پھر”تصرف“ فطری عمل ہے۔


سائنسدان کا تصرف کرنا

یہ ”تصرف“ کس طرح ہوتا ہے۔۔۔؟ ایک سائنسدان بھی تصرف کرتا ہے جب وہ ہوائی جہاز، راکٹ یا مائیکرو فون وغیرہ بناتا ہے ، تو وہ ایسی چیز ایجاد کرتا ہے جو وہاں پہلے نہیں تھی۔ یقیناً یہ ایجاد، ان خصوصیات کی وجہ سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اُن کے مادوں میں رکھا ہے، نیز اُس دماغ کی وجہ سے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔مگر یہ خلیفۃ اللہ، ”ایک خالق“ کی طرح کام کرتا ہے، پریشان نہ ہوں، قرآن پڑھیں کہ قرآن کریم کہتا ہے

: (فَتَبٰرَکَ اللہُ اَحسَنُ الخٰلِقِینَ)۔

(ترجمہ: ”تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا“۔)

 (سورۂ مؤمنون: آیت 14)


تصرف کی تعریف اور اس کے درجات


صرف اللہ تعالیٰ ہی ایک ”حقیقی خالق “ ہے جو پیدا کرتا ہے یعنی جس نے چیزوں کو عدم سے تخلیق کیا، انسان کا کام، ثانوی حیثیت سے ایک طرح کا خالق ہونا ہے۔ انسان نے یقیناً یہ مذکورہ چیزیں، دماغ اور اُن مادوں کی مدد سے بنائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے۔ جب انسان دنیا میں بھیجا گیا تو پکی سڑکیں، پل اور دیگر نو ایجاد کردہ چیزیں نہ تھیں، انسان نے بطور خلیفۃ اللہ یہ سڑکیں، عمارات اور پُل تعمیر کیے، اور بغیر ”تصرف“ کے یہ کام کرنا ممکن نہیں کیونکہ کسی چیز کی شکل وعمل کو تبدیل کرنا ”تصرف“ کہلاتا ہے۔یہ تصرف کم درجہ کا سائنس میں جبکہ اعلیٰ درجہ کا روحانیت میں ممکن ہے ۔ جو لوگ خلیفۃ اللہ کی خصوصیات، روحانی اور اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندوں کے طور پر حاصل کر لیتے ہیں،وہ اللہ تعالیٰ کی محبت پھیلانے والے اور ایک ایسا آئینہ بن جاتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس دکھائی دیتا ہے، پھر یہ لوگ سائنسدانوں سے بڑھ کر حیرت انگیز کام کر سکتے ہیں

۔
ڈاکٹر محمد اقبال (1938-1873ء /1357-1290ھ) نے کہا ہے
:
نگاہِ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

اگر ایک شخص حقیقی معنوں میں ”مؤمن“ ہے تو وہ تصویر نہیں بلکہ اُس ذات کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے۔ جیسے

 اقبال نےکہا:

کوئی بھی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں


غزوۂ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ


غزوۂ بدر میں، جبکہ کفار کی تعداد ایک ہزار تھی اور انکے پاس قوت زیادہ تھی، اور مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تقریباً تین سو تیرہ تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مُٹھی مٹی اٹھائی اور اُن کی طرف پھینکی، جنگ اس کے ساتھ ہی لڑی گئی جیسا کہ

 قرآن کریم کہتا ہے: (وَمَا رَمَیتَ اِذ رَمَیتَ وَلٰکِنَّ اللہَ رَمیٰ) (ترجمہ: ”اور اے محبوب! وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی“۔) (سورۂ انفال: آیت 17)

 کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس پھینکے کی نسبت اپنی طرف فرمائی
۔
میرے دوستو! میں نے جو کچھ بھی بیان کیا یہ وہ ہے جسے میں نے قرآنِ کریم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور تاریخِ اسلام کو پڑھ کر سمجھا ہے، جو کچھ بھی کہا گیا اس کا تجربہ کریں، اور کوشش کریں کہ زندگی اور وقت بے کار کاموں میں خرچ نہ ہوں اور نہ اس کام کو کل تک ملتوی کر یں

۔ ابھی عہد کریں کہ آپ پوری کوشش کریں گےکہ اسلام جس عظمت کو دینے کے لیے آیا ہے وہ حاصل کریں گے،

 اور وہ یہ ہے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ط غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْہِمْ وَلَا الضَّآلِّينَ (7)) آمین۔



خطاب: حضرت مولانا ڈاکٹر محمد فضل الرحمن انصاری رحمۃ اللہ علیہ
ترجمہ: مولانا حامد علی علیمی
(لیکچرار جامعہ علیمیہ، ریسرچ اسکالر)

No comments:

Post a Comment