Tuesday, November 29, 2011

محرم الحرام کے نوافل

اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے ۔ محرم کو محرم اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں جنگ و قتال حرام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور اس مہینہ میں عاشورہ کا دن بہت معظم ہے یعنی دسویں محرم کا دن ۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٢٥١)

محرم کی پہلی رات کے نوافل:

ماہِ محرم کی پہلی شب میں چھ رکعات تین سلام کے ساتھ ادا کرے ۔ اس کی ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورۃ اخلاص اور تین بار سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسٌ پڑھے۔ اس کا بہت زیادہ ثواب ہے۔ پھرمحرم کے مہینے کی ہر شب سوبار پڑھے:

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، لَا شَرِیْکَ لَہ، ۔ لَہ، الْمُلْکُ وَلَہ، الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَ حَیٌّ الَّا یَمُوْتُ اَبْدًا ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ اَللّٰہُمَ لَا مَانِعُ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذُالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُ

(ترجمہ) سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ملک اُسی کا ہے، تعریف اُسی کے لیے ہے۔ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ وہ زندہ ہے اور نہیں مرے گا۔ صاحبِ جلا ل اور اکرام ہے ۔ اے اللہ اس چیز کا جو تونے دی کوئی مانع نہیں ہے اور جس چیز کو تونے روک دیا اسے کوئی نہیں دے سکتا اور صاحب دولت کو تجھ سے بے نیاز ہونا کوئی نفع نہیں دیتا۔ (لطائف اشرفی، صفحہ ٣٣٢)

تمام سال کی حفاظت اور برکت

یکم محرم شریف کے دن دو رکعت نماز نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین بار سورۃ الاخلاص پڑھے۔ سلام کے بعد ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھے:

اَللّٰہُمَّ اَنْتَ اللّٰہُ الْاَبَدُ الْقَدِیْمُ ہٰذِہ سَنَہٌ جَدِیْدَۃٌ اَسْئَلُکَ فِیْہَا الْعِصْمَۃَ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ وَالْاَمَانَ مِنَ السُّلْطَانِ الْجَابِرِ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ ذِیْ شَرٍّ وَّمِنَ الْبَلَاءِ وَ الْاٰفَاتِ وَاَسْئَلُکَ الْعَوْنَ وَالْعَدْلَ عَلٰی ہٰذِہِ النَّفْسِ الْاَمَّارَۃِ بِالسُّوْءِ وَالْاِشْتِغَالِ بِمَا یُقَرِّبُنِیْ اِلَیْکَ یَا بَرُّ یَا رَءُ وْفُ یَا رَحِیْمُ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔


جو شخص اس نماز کو پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کے اوپر دو فرشتے مقرر فرمادے گا تاکہ وہ اس کے کاروبار میں اس کی مدد کریں۔ اور شیطان لعین کہتا ہے کہ افسوس میں اس شخص سے تمام سال ناامید ہوا۔ (فضائل الایام والشہور ، صفحہ ٢٦٨، ٢٦٩)

دعائے محرم الحرام:

پہلی محرم الحرام کو جو یہ دعا پڑھے تو شیطانِ لعین سے محفوظ رہے اور سارا سال دو فرشتے اس کی حفاظت پر مقرر ہوںگے ۔ دعا یہ ہے:

اَللّٰہُمَّ اَنْتَ الْاَبَدِیُّ الْقَدِیْمُ وَہٰذِہ سَنَۃٌ جَدِیْدَۃٌ اَسْئَلُکَ فِیْہَا الْعِصْمَۃَ مِنَ الشَّیْطٰنِ وَاَوْلِیَائِہ وَالْعَوْنَ عَلٰی ہٰذِہِ النَّفْسِ الْاَمَّارَۃِ بِالسُّوْءِ وَالْاِ شْتِغَالَ بِمَا یُقَرِّ بُنِیْ اِلَیْکَ یَا کَرِیْمُ (فضائل الایام الشہور صفحہ ٢٦٧، بحوالہ نزہۃ المجالس)

 

یومِ عاشورہ

عاشورہ کی وجہ تسمیہ میں علما ء کا اختلاف ہے اس کی وجہ مختلف طور پر بیان کی گئی ہے ، اکثر علماء کا قول ہے کہ چونکہ یہ محرم کا دسواں دن ہوتا ہے اس لئے اس کو عاشورہ کہا گیا، بعض کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بزرگیاں دنوں کے اعتبار سے امت محمدیہ کو عطا فرمائی ہیں اس میں یہ دن دسویں بزرگی ہے اسی مناسبت سے اس کو عاشورہ کہتے ہیں ۔

یوم عاشورہ کی فضیلت

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورا کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا : اس دن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا کیا۔ ہم اس کی تعظیم کرتے ہوئے اس کا روزہ رکھتے ہیں ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہم موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں، چنانچہ آپ نے اس کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (مکاشفۃ القلوب، صفحہ ٦٩٨ از امام محمد غزالی علیہ الرحمہ )

یومِ عاشورہ کے فضائل میں بکثرت روایات آتی ہیں ۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اس دن ان کی پیدائش ہوئی، اسی دن جنت میں داخل کیے گئے۔ اسی دن عرش، کرسی ، آسمان وزمین، سورج ، چاند ستارے اور جنت پیدا ہوئے۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پیداہوئے، اسی دن انہیں آگ سے نجات ملی، اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو نجات ملی اور فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوئے ۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ، اور اسی دن وہ آسمان پر اٹھالیے گئے۔ اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مقام (آسمان) پراٹھالیا گیا۔ اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر لگی۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی ۔ اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو عظیم سلطنت عطا ہوئی ۔اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس ہوئی ۔ اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف دُور ہوئی۔ اسی دن زمین پر آسمان سے پہلی بارش ہوئی۔ (مکاشفۃ القلوب ، صفحہ ٦٩٩)

نوافل برائے شبِ عاشورہ:

٭ جو شخص اس رات میں چار رکعات نماز پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد پچاس ٥٠ مرتبہ سورہئ اخلاص پڑھے تو اللہ عزوجل اس کے پچاس برس گزشتہ اور پچاس سال آئندہ کے گناہ بخش دیتا ہے۔ اور اس کے لئے ملاءِ اعلیٰ میں ایک محل تیار کرتا ہے۔

٭ اس رات دو ٢ رکعات نفل قبر کی روشنی کے واسطے پڑھے جاتے ہیں جن کی ترکیب یہ ہے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے۔ جو آدمی اس رات میںیہ نماز پڑھے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت تک ا س کی قبر روشن رکھے گا۔

عاشورے کے روزے رکھنے کی فضیلت:

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اگر مومن اللہ کی راہ میں روئے زمین پر مال خرچ کرے تو اسے (اس قدر) بزرگی حاصل نہ ہوگی جس قدر کوئی عاشورے کے روز روزہ رکھے۔ اس کے لیے جنت کے آٹھ دروازے کھل جائیں ، وہ جس دروازے سے داخل ہونا پسند کرے گا داخل ہوگا۔ (لطائف اشرفی ، صفحہ ٣٣٦)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: جو شخص عاشورے کے دن روزہ رکھے پس شب و روز کی ساعتوں میں ہر ساعت اللہ تعالیٰ اُن ساعتوں کی ہر ساعت کے بدلے اس پر سات لاکھ فرشتے نازل فرمائے گا جو قیامت تک دعا اور استغفار کریں گے اور بے شک اللہ تعالیٰ کی آٹھ جنتیں ہیں، اللہ تعالیٰ ہر بہشت میں ساٹھ لاکھ فرشتے مقرر کرے گا کہ (عاشورے کے روزے دار کےلئے ) روزہ رکھنے کے دن سے اس بندے اور بندی کی موت تک محلات اور شہر تعمیر کرے ، درخت اُگائیں، نہریں جاری کریں۔ (لطائف اشرفی ، صفحہ ٣٣٦)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اس کا اجر توریت، انجیل ، زبور اور قرآن میں جتنے حرف ہیں ان کی تعداد کے مطابق ہر حرف پر بیس نیکیاں ہونگی۔ جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اسے ایک ہزار شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ (لطائف اشرفی ، صفحہ ٣٣٦)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا خاموشی اور سکوت میں وہ روزہ اس کے اُس سال کے گناہوں اور خطاؤں کا کفارہ ہوگا، اور جو شخص کامل قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ دو رکعت نماز خضوع سے پڑھے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس بندے کی جزا کیا ہونی چاہیے پس فرشتے عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ تو ہی خوب جانتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کے حساب میں ہزار ہزار نیکیاں لکھی جائیں اور ہزار ہزار بدی مٹادی جائیں۔ اس کارتبہ ہزار ہزار درجے بلند کیا جائے۔ ہم نے اپنی بزرگی کے ہزار ہزار دروازے کھول دیے ہیں جو اس پر کبھی بند نہ کیے جائیں گے۔ (لطائف اشرفی ، صفحہ ٣٣٦)

ایصالِ ثواب برائے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

امیر المومنین امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کے ایصال ثواب کیلئے دورکعات نماز ادا کرے اور دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے بعد دس بار سورہ اخلاص پڑھے ۔ سلام کے بعد نو ٩ نو ٩ بار آیت الکرسی اور درود شریف پڑھے۔ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اس روز دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔ اس کی پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد اَلَمْ نَشْرَحْ اور دوسری میں اِذَاجَآءَ پچیس پچیس بار پڑھے۔ (لطائف اشرفی ، صفحہ ٣٣٨)

ہر حاجت پوری ہوگی (انشاء اللہ)

جو شخص عاشورے کے روز حاجت کے لیے یہ دعا مانگے اس کی حاجت پوری ہوگی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اِلٰہِیْ بُحُرْمَتِ الْحُسَیْنِ وَ اَخِیْہِ وَ اُمِّّہِ وَ اَبِیْہِ وَجَدِّہِ وَ بَنِیْہِ فَرِّجْ عَمَّا اَنَا فِیْہِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ  مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ  اَجْمَعِیْنَ

(ترجمہ) اللہ کے نام سے شروع بڑا مہربان نہایت رحم والا۔ اے اللہ! حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اُن کے بھائی، اُن کی والدہ، اُن کے والد اور اُن کے نانا کی حرمت کے واسطے سے میں جس حاجت میں ہوں وہ مجھ پر کھول دے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بہترین خلائق محمدا پر اور آپ ا کی تمام آل پر رحمت فرما۔ (لطائف اشرفی ، صفحہ ٣٣٨)

یومِ عاشورہ کے ممنوعات:

عاشورہ کے دن سیاہ کپڑے پہننا، سینہ کوبی کرنا، کپڑے پھاڑنا، بال نوچنا، نوحہ کرنا، پیٹنا، چھری چاقو سے بدن زخمی کرنا جیسا کہ رافضیوں کا طریقہ ہے حرام اور گناہ ہے اِیسے افعال شنیعہ سے اجتناب ِ کلی کرنا چاہیے۔ ایسے افعال پر سخت ترین وعیدیں آئی ہیں جن میں سے چند تحریر کی جاتی ہیں:

حدیث ١:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے کہ ہمارے طریقے پر وہ نہیں ہے جو رخساروں کو مارے اور گریبان پھاڑے اور پکارے جاہلیت کا پکارنا۔ (فضائل الایام والشہور ، صفحہ ٢٦٤۔ بحوالہ مشکوۃ صفحہ ١٥٠)

حدیث ٢:
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے فرمایا کہ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، پر بے ہوشی طاری ہوگئی پس آئی اس کی عورت جس کی کنیت ام عبداللہ تھی اس حال میں رونے کے ساتھ آواز کرتی تھی۔ جب ان کو افاقہ ہوا تو کہا کیا تو نہیں جانتی اور تھے ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جو اس کو خبر دے رہے تھے کہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: میں بیزار ہوں اس شخص سے جو بال منڈائے اور بلند آواز سے روئے اور کپڑے پھاڑے۔

حدیث ٣:
سیدنا حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چار خصلتیں میری امت میں جاہلیت کے کام سے پائی جاتی ہیں فخر کرنا، اپنے حسب میں طعن کرنا، عیب نکالنا لوگوں کی نسب میں، بارش طلب کرنا ستاروں سے اور ماتم میں نوحہ کرنا ۔ اور فرمایا نوحہ کرنے والی مرنے سے قبل توبہ نہ کرے تو قیامت کے روز کھڑی کی جائے گی اس حال میں کہ گندھک کی قمیص اس پر ہوگی اور ایک قمیص خارش والی ہوگی۔

ایک سال تک زندگی کا بیمہ (دعائے عاشورہ)

یہ دعا بہت مجرب ہے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص عاشورہ محرم کے طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک اس دعا کوپڑھ لے یا کسی سے پڑھوا کر سن لے تو ان شاء اللہ تعالیٰ یقینا سال بھر تک اس کی زندگی کا بیمہ ہو جائے گا۔ ہرگز موت نہ آئے گی اور اگر موت آنی ہی ہے تو عجیب اتفاق ہے کہ پڑھنے کی توفیق نہ ہوگی۔ وہ دعا یہ ہے :۔

یَا قَابِلَ تَوْبَۃِ اٰدَمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔۔۔۔۔۔یَا فَارِجَ کَرْبِ ذِی النُّوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔۔۔۔۔۔یَا جَامِعَ شَمْلِ یَعْقُوْبَ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔۔۔۔۔۔یَا سَامِعَ دَعْوَۃِ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔۔۔۔۔۔یَا مُغِیْثَ اِبْرَاہِیْمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔۔۔۔۔۔ یَا رَافِعَ اِدْرِیْسَ اِلَی السَّمَآءِ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ ۔۔۔۔۔۔ یَا مُجِیْبَ دَعْوَۃِ صَالِحٍ فِی النَّاقَۃِ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔۔۔۔۔۔یَا نَاصِرَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ ۔۔۔۔۔ یَا رَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ رَحِیْمُھُمَا صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ صَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ الْاَنْبِیَآءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ وَاقْضِ حَاجَاتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَطِلْ عُمُرَنَا فِیْ طَاعَتِکَ وَ مَحَبَّتِکَ وَ رِضَاکَ وَ اَحْیِنَاحَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَّ تَوَفَّنَا عَلَی الْاِیْمَانِ وَ الْاِسْلَامِ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ط اَللّٰھُمَّ بِعِزِّ الْحَسَنِ وَ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہ وَ جَدِّہ وَ بَنِیْہ فَرِّجْ عَمَّا مَا نَحْنُ فِیْہِ ط

پھر سات بار پڑھے :

سُبْحَانَ اللّٰہِ مِلْءَ الْمِیْزَانِ وَ مُنْتَھَی الْعِلْمِ وَ مَبْلَغَ الرِّضٰی وَ زِنَۃِ الْعَرْشِ لَا مَلْجَاءَ وَ لَا مَنْجَاءَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّا اِلَیْہِ ط سُبْحَانَ اللّٰہِ الْشَفْعِ وَ الْوِتْرِ وَ عَدَدَ کَلِمَاتِ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ط وَ ھُوَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ط نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ ط وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ط وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہ وَ صَحْبِہ وَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ عَدَدَ ذَرَّاتِ الْوُجُوْدِ وَ عَدَدَ مَعْلُوْمَاتِ اللّٰہِ وَ الْحَمْد

Sunday, July 3, 2011

قرآن کی مختلف سورتوں کے فضائل

The Amazing Facts Of Quran

Check this out, very interesting findings of Dr. Tariq Al Swaidan might
grasp your attention:
Dr.Tarig Al Swaidan discovered some verses in the Holy Qur'an that mention
one thing is equal to another, i.e. men are equal to women.

Although this makes sense grammatically, the astonishing fact is that the
number of times the
word man appears in the Qur'an is 24 and number of times the word woman
appears is also 24, therefore not only is this phrase correct in the
grammatical sense but also true mathematically, i.e. 24 = 24.

Upon further analysis of various verses, he discovered that this is
consistent throughout the whole Qur'an, where it says one thing is like
another. See below for astonishing result of the words mentioned number of
times in Arabic Qur'an:

Dunia (one name for life) 115. Aakhirat (one name for the life after this
world) 115
Malaika (Angels) 88 . Shayteen (Satan) 88
Life 145 .... Death 145
Benefit 50 . Corrupt 50
People 50 .. Messengers 50
Eblees (king of devils) 11 . Seek refuge from Eblees 11
Museebah (calamity) 75 . Thanks 75
Spending (Sadaqah) 73 . Satisfaction 73
People who are mislead 17 . Dead people 17
Muslimeen 41 . Jihad 41
Gold 8 . Easy life 8
Magic 60 . Fitnah (dissuasion, misleading) 60
Zakat (Taxes Muslims pay to the poor) 32 . Barakah (Increasing or blessings
of wealth) 32
Mind 49 . Noor 49
Tongue 25 . Sermon 25
Desite 8 . Fear 8
Speaking publicly 18 . Publicising 18
Hardship 114 .... Patience 114
Muhammed 4 . Sharee'ah (Muhammed's teachings) 4
Man 24. Woman 24
And amazingly enough have a look how many times the following words appear:

Salah 5, Month 12, Day 365,
Sea 32, Land 13

Sea + land = 32+13= 45

Sea = 32/45*100=71.11111111%
Land = 13/45*100 = 28.88888889%
Sea + land =100.00%

Modern science has only recently proven that the water covers 71.111% of the
earth, while the land covers 28.889%.


Is this a coincidence?
Question is that Who taught Prophet Muhammed (PBUH) all this?

Reply automatically comes in mind that ALMIGHTY ALLAH taught him this. As
the Qur'an also tells us this.

Aayah 87 of Suraa (Chapter) Al-Anbia \ para 17:
LA ILAHA ILA ANTA SUBHANAKA INI KUNTU MINA ZALIMEEN.

ان شاءاللہ لکھنے میں غلطی کرنا

بسم اللہ الرحمن الرحیم


آ پ لوگوں نے اکثر کتابوں میں لفظ

 ان شاءاللہ

کو اس طرح لکھا ہوا پڑھاہوگا


 انشاءاللہ

 اور جب کہ اس طرح لکھنے سے اس کا معنی بدل جاتا ہے۔


 لفظ ان شاءاللہ کے اردو میں معنی بنتا ہے اگر اللہ نے چاہا

 اور جب کہ انشاء عربی میں کسی چیز کو بنانے کو کہتے ہیں اس طرح اکٹھا لکھنے سے

 انشاءاللہ کے

 معنی بہت غلط بن جاتے ہیں۔


ہم لوگ عربی زبان سے واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں اللہ ہمیں معاف فرمائے آمین۔


اللہ کا ارشاد ہے کہ

 
اِنَّآ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَاۗءً 35۝ۙ

ہم نے ان (کی بیویوں کو) خاص طور پر بنایا ہے۔الواقعہ:۳۵


قَالَ اِنَّمَا يَاْتِيْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَاۗءَ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ 33 ؀


 جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالٰی ہی لائے گا اگر وہ چاہے اور ہاں تم اسے ہرانے والے نہیں ہو۔ھود:۳۳


فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ 99؀ۭ

پھر جب (سب کے سب) یوسف کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے والدین کو (عزت و احترام کے ساتھ) اپنے پاس جگہ دی اور کہا، ''کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم (سب) مصر میں امن کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔'' یوسف:۹۹


ان آیات سے بات بالکل واضح ہوئی۔الحمدللہ



غلط جملہ:  انشاء اللہ

  جبکہ صحیح جملہ یوں لکھا جائے گا :  ان شاءاللہ


اب ان شاء اللہ ہم دوبارہ یہ غلطی نہیں کریں گے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی اصلاح کریں گے
ان شاء اللہ

Friday, June 24, 2011

Our final destination

Ticket type: One Way

Price: Absolutely free (Booking confirmed)

Passenger Details Name: One of the 'children of Adam'

Origins: From clay

Address: Planet earth

Departure: From life on earth

Destination: eternal life Stop-over: hotel (2 meters under the ground, for one person)

Duration of flight: From couple of seconds to several millions of years

Departure time: Time of death (exact time is unknown, but it can happenearlier than expected)

Arrival time: On the Judgment Day (not specified in the timetable)

Information About Interrogation: On the arrival to the hotel (grave):

Incorruptible Auditors - two angels: Munkar & Nakir, will immediately start questioning.

Three questions will be asked:

1. Who is your God?
2. Who is your prophet?
3. What is your religion?

Questions will follow about your life on earth. For more information, refer to 27th Aya of Sura "Ibrahim" of the Holy Quran.

Luggage: Despite the fact that the airplane transfers only one passenger at a time, there are some restrictions on the amount of baggage that you can take with you:

1. You can take with you 5 meters of white cloth
2. Any items of material life of earth are strictly forbidden.
3. Realistic luggage should consist of good deeds, modest behavior and of well spent time on calling people to Islam.

Important instructions: All the passengers should remember that tickets are not exchangeable or refundable. This journey is compulsory for representatives of all races, nationalities, religions and of all ages. Delays are not stipulated.

Captain: Angel of Death will not compromise on changing the date and time ofdeparture. For more information: Read instructions, which you can find in The Holy Quran and Sunnah. You could also consult alims(scholars). Please do it as soon as possible. During your journey you will not be provided with oxygen mask, as your breathing system will be terminated just before the departure time.

Additional instructions: You don't need to take care of your boarding pass, passport and othertravel documents.

To prepare for the flight: - Pray 5 times a day - Read the Holy Quran- Follow the sunna to the best of your ability - and be ready for your flight, as you may have to depart any minute (even now)

Final warning: Final destination depend on you! Please do not waste your time on planet earth. Remember, you have one-way ticket: Either to Hell or to Paradise.

JANNAT OR JAHANNAM.... ......... .........

May Allah's Peace, Mercy and Blessings be upon all of us

Tuesday, June 7, 2011

درود شریف کی عظمت و فضیلت

وَ اَحسَنُ مِنکَ لَم تَرَ قَطُّ عَین’‘ ٭ وَ اَجمَلُ مِنکَ لَم تَلِدِالنِّسَاء
خُلِقتَ مُبَرَّ ً مِن کُلِّ عَیبٍ ٭ کَاَنَّکَ قَد خُلِقتَ کَمَا تَشَا ء


ترجمہ:

کسی آنکھ نےتجھ سےزیادہ خوبصورت شخص نہیں دیکھا
تجھ سےزیادہ صاحب ِ جمال کبھی کسی عورت نےنہیں جنا
تو ہر عیب سےاس طرح پاک و صاف ہے
جیسےتو اپنی مرضی اور پسند سےپیدا ہوا ہے


شاعر ِ رسول اﷲ حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ


:٭ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے

اِنَّ اﷲ َ وَ مَلئِکَتَہ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ ط یاَ یُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوا صَلُّوا عَلَیہِ وَسَلِّمُوا تَسلِیمًا۔ سورہ الاحزاب:٦٥

ترجمہ:بےشک اﷲ تعالیٰ اور اس کےفرشتےنبی کر یم پرصلوٰۃ بھیجتےہیں، اےایمان والو ! تم (بھی) ان پر صلوٰۃ اور خوب سلام بھیجو

۔درود شریف کا مطلب :

عربی زبان میں صلوٰۃ چند معانی کیلئےاستعمال ہوتا ہے۔ مثلا ً : مدح و ثنا ، تعریف ، رحمت ، د ُعا اور استغفار وغیرہ ۔
اس آیت ِ مبارکہ میں اﷲ رب العالمین کی طرف صلوٰۃ کی جو نسبت وارد ہوئی ہے، اس سےمراد اﷲ تعالیٰ کا فرشتوں کےسامنےنبی کریم کی مدح و ثنا اور تعریف و توصیف کرنا ہےاور ان پر اپنی رحمت ِ مخصوصہ نازل فرمانا ہے۔اور فرشتوں کی طرف سےصلوٰۃ ان کا آپ کیلئےد ُعائےرحمت و مغفرت کرنا ہے۔ اور ایمان والوں کی طرف سےصلوٰۃ کا مفہوم آپ کی مدح و ثنا اور تعریف و توصیف اور رحمت کی د ُعا کرنا ہے۔

مفسر ِ قرآن
عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ ا و ر اس آیت ِ مبا رکہ کی تفسیر

٭ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نےاﷲ تعالیٰ کےارشاد اِنَّ اﷲ َ وَ مَلئِکَتَہ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ ط کی تفسیر میں فرمایا کہ اسکا مطلب یہ ہےکہ اﷲتعالیٰ تمہارےنبی کی تعریف کرتا ہےاور ان کی مغفرت فرماتا ہےاور فرشتوں کو آپ کیلئےد ُعائےا ِستغفار کا حکم دیتا ہے یاَ یُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوا صَلُّوا عَلَیہِ وَسَلِّمُوا تَسلِیمًا کا مطلب یہ ہے:اےایمان والو ! تم اپنی نمازوں میں انکی تعریف و توصیف کرو اور اپنی مساجد میں اور ہر جگہ پر اور نکاح کےخطبہ میں بھی آپ کی مدح و ثنا کرو، کہیں بھی آپ کو نہ بھولنا چاہئیے۔ بحوالہ القول البدیع ٥١٢


٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ! تم میں سےکوئی شخص جب تک اپنی نمازکی جگہ بیٹھا رہےاور اسکا وضو نہ ٹوٹےتب تک فرشتےاس پر درود بھیجتےرہتےہیں اور یوں کہتےہیں : یا اﷲ ! اس کو بخش دےاس پر رحم فرما ۔ بخاری شریف

درود شریف کی فضیلت


٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ! جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے، اﷲ رب العالمین اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ مسلم ، نسائی ، ترمذی
٭ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ! جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھےگا ،تو اﷲ رب العالمین اس پر دس رحمتیں نازل فرمائےگا ۔ اور اس کی دس خطائیں معاف کی جائیں گی ، اور اس کےدس درجےبلند کئےجائیں گے۔ نسائی ، مسند احمد ، مستدرک حاکم
٭ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ! جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے، اﷲ رب العالمین اس پر ستر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اور فرشتےستر مرتبہ د ُعائےرحمت کرتےہیں ۔ نسائی

٭ حضرت عبد ا ﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ! جو شخص مجھ پر بکثرت درود شریف پڑھتا ہے، قیامت کےروز وہ سب سےزیادہ میرےقریب ہو گا ۔ ترمذی
٭ حضرت عبد ا ﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا !جس نےمجھ پر درود شریف بھیجا یا میرےلئےاﷲ رب العالمین سےوسیلہ ( جنت میں بلند مقام ) مانگا ، اس کےلئےمیں قیامت کےروز ضرور سفارش کروں گا ۔ اسےاسماعیل قا ضی نےروایت کیا


٭ حضرت ابی بن کعب رضی اﷲٰ عنہ کہتےہیں میں عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں کثرت سےدرود شریف پڑھتا ہوں ، اپنی د ُعا میں سےکتنا وقت درود شریف کیلئےوقف کروں ؟

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا !جتنا تو چاہے میں عرض کیا : ایک چو تھائی صحیح ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا !جتنا تو چاہے، میں نے عرض کیا : نصف وقت مقرر کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا جتنا تو چاہے، لیکن اگر اس سےزیادہ کرےتو تیرےلئےاچھا ہے۔ میں نے عرض کیا : دو تہائی مقرر کروں ؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ! جتنا تو چاہے، لیکن اگر زیادہ کرےتو تیرےہی لئےبہتر ہے۔ میں نےعرض کیا ،میں اپنی ساری د ُعا کا وقت درود شریف کیلئےوقف کرتا ہوں ۔ اس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ! یہ تیرےسارےدکھوں اور غموں کیلئےکافی ہو گا اور تیرےگناہوں کی بخشِش کا باعث ہو گا ۔ ترمذی


٭ حضرت ابو درداءرضی اﷲ تعالیٰ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ! جس نےدس مرتبہ صبح دس مرتبہ شام کےوقت مجھ پر درود شریف پڑھا ، اسےروز ِ قیامت میری سفارش حاصل ہو گی ۔ طبرانی


٭ حضرت عبد ا ﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتےہیں میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تشریف فرما تھے۔ میں (د ُعا کیلئے) بیٹھا تو پہلےاﷲ رب العالمین کی حمد و ثنا کی پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجا، پھر اپنےلئےد ُعا کی تو امام الانبیا رسول ِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ! اﷲ سےمانگو ضرور دئیےجائو گے، اﷲ سےمانگو ضرور دئیےجائو گے۔ ترمذی
٭ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ! جب تک کوئی مسلمان مجھ پر درود شریف بھیجتا رہتا ہے، اس وقت تک فرشتےاس کیلئےد ُعا ئےرحمت کرتےرہتےہیں ، اب جو چاہےکم پڑھےجو چاہےزیادہ پڑھے

۔
د رود شریف کی اہمیت
اور نہ پڑھنےپر وعید:


٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتےہیں کہ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ! رسوا ہو وہ آدمی جس کےسامنےمیرا نام لیا جائےاور وہ درود شریف نہ پڑھے۔ رسوا ہو وہ آدمی جس نےرمضان کا پورا مہینہ پایا اور وہ اپنےگناہ نہ بخشوا سکا ، رسوا ہو وہ آدمی جس کےسامنےاس کےماں باپ یا دونوں میں سےایک بڑھاپےکی عمر کو پہنچےاور وہ انکی خدمت کرکےجنت میں داخل نہ ہوا ۔ ترمذی


٭ حضرت کعب بن عجرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتےہیں کہ،ایک روز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر لانےکا حکم دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین ! پھر دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین ! پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین !خطبہ سےفارغ ہونےکےبعدجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سےنیچےتشریف لائےتو صحابہ اکرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نےعرض کیا :آج آپ سےایسی بات سنی جو اس سےپہلےنہیں سنی تھی ۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :جبریل علیہ السلام تشریف لائےاورکہا ہلاکت ہے اس آدمی کیلئےجس نےرمضان کا پورا مہینہ پایا اور وہ اپنےگناہ نہ بخشوا سکا ۔میں نےجواب میں کہا :آمین ۔پھر جب میں نےدوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبریل علیہ السلام نےکہا :ہلاکت ہو اس آدمی کیلئےجس کےسامنےآپ کا نام لیا جائےاور وہ درود شریف نہ پڑھے۔میں نےجواب میں کہا :آمین ۔پھر جب میں نےتیسری سیڑھی پر قدم رکھا ،تو جبریل علیہ السلام نےکہا :ہلاکت ہو اس آدمی کیلئےجس کےسامنےاس کےماں باپ یا دونوں میں سےایک بڑھاپےکی عمر کو پہنچےاور وہ انکی خدمت کرکےجنت حاصل نہ کرے ۔میں نےجواب میں کہا :آمین ۔ حاکم


٭ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتےہیں کہ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : جس کےسامنےمیرا نام کیا جائےاور وہ درود شریف نہ پڑھےوہ بخیل ہے۔ ترمذی


٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتےہیں کہ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :جس مجلس میں لوگ اﷲ کا ذکر کریں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف نہ پڑھیں ، وہ مجلس قیامت کےدن ان لوگوں کیلئےباعث ِ حسرت ہوگی خواہ وہ نیک اعمال کےبدلےجنت میں ہی کیوں نہ چلےجائیں ۔ احمد ، ابن ِ حبان ، حاکم
٭ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتےہیں کہ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :جو مجھ پر درود شریف پڑھنا بھول گیا ، اس نےجنت کا راستہ کھودیا ۔ ابنِ ماجہ


٭ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتےہیں کہ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : جب تک نبی کریم پر درود شریف نہ پڑھا جائے ، کوئی د ُ عا قبول نہیں کی جاتی ۔ رواہ الدیلمی

٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں: جب تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف نہ پڑھا جائے،آدمی کی د ُعا زمین و آسمان کےدرمیان لٹکتی رہتی ہے۔ ترمذی


نبی کریم امامُ الانبیا،محمد مصطفےاحمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت شدہ درود شریف کےالفاظ

٭ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰل ِمُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلٰی اِبرَاھِیمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید’‘ ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِک عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰل ِمُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکتَ عَلٰی اِبرَاھِیمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید
’‘
۔ترجمہ: اِلٰہی ! رحم و کرم فرما! محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر ،جس طرح آپ نےرحم و کرم فرمایا ، ابراھیم (علیہ السلام) پر اور ابراھیم (علیہ السلام) کی آل پر ، بیشک آپ ہیں تعریف کےلائق اور بزرگی والے۔ اےاﷲ! برکت نازل فرما ، محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر ،جس طرح آپ نےبرکت نازل کی ،ابراھیم علیہ السلام) پر اور ابراھیم (علیہ السلام) کی آل پر ، بیشک آپ ہیں تعریف کےلائق اور بزرگی والے۔

 بخاری شریف


٭ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اَزوَاجِہ وَ ذُرِّ یَّتِہ کَمَاصَلَّیتَ عَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیمَ وَ بَارِک عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اَزوَاجِہ وَ ذُرِّ یَّتِہ کَمَا بَارَکتَ عَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید’‘

۔
ترجمہ: اِلٰہی ! محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اوران کی ازواج ِ مطہرات اور ان کی اولاد پراس طرح آپ رحم و کرم فرماجس طرح تو نےابراھیم (علیہ السلام) پر درود بھیجا۔اور اِلٰہی ! محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اوران کی ازواج ِ مطہرات اور ان کی اولاد پراس طرح برکتیں نازل فرما ، جس طرح تو نےبرکتیں نازل کی، ابراھیم (علیہ السلام) پر۔ بیشک آپ ہیں تعریف کےلائق اور بزرگی والے۔ بخاری ، مسلم ابو داود ، نسائی


٭ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ وَ اَزوَاجِہ اُمَّھَاتِ المُومِنِینَ وَ ذُرِّ یَّتِہ وَ اَھلِ بَیتِہ کَمَاصَلَّیتَ عَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید’‘ ٠

ترجمہ: اِلٰہی ! محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اوران کی ازواج ِ مطہرات امہات المومنین اور ان کی اولاد و اھل بیت پراس طرح آپ رحم و کرم فرماجس طرح تو نےآل ِ ابراھیم (علیہ السلام) پر درود بھیجا۔ بیشک آپ ہیں تعریف کےلائق اور بزرگی والے۔ سنن ابو داود


٭ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبدِکَ وَ رَسُولِکَ کَمَا صَلَّیتَ عَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیمَ وَ بَارِک عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰل ِمُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکتَ عَلٰی اِبرَاھِیمَ

٠
ترجمہ: اِلٰہی !اپنےبندےاور اپنےرسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اس طرح رحمتیں نازل فرمایا ،جس طرح تو نےابراھیم (علیہ السلام) پر اور ان کی آل پر نازل فرمائیں،محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اور آل ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ،اسی طرح برکتیں نازل فرما، جس طرح تو نےابراھیم (علیہ السلام) پر نازل فرمائیں بخاری شریف،سنن نسائی ، مسند احمد

٭ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الا ُمِّی وَ عَلٰی اٰل ِمُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلٰی اِبرَاھِیمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیمَ وَ بَارِک عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الا ُمِّی وَ عَلٰی اٰل ِمُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکتَ عَلٰی اِبرَاھِیمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید’‘ ۔


ترجمہ: اِلٰہی ! رحم و کرم فرما!اُمّی نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر ،جس طرح آپ نےرحم و کرم فرمایا ، ابراھیم (علیہ السلام) پر اور ابراھیم (علیہ السلام) کی آل پر ، اےاﷲ! برکت نازل فرما ، اُمّی نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر ،جس طرح آپ نےبرکت نازل کی ،ابراھیم (علیہ السلام) پر اور ابراھیم
(علیہ السلام) کی آل پر ، بیشک آپ ہیں تعریف کےلائق اور بزرگی والے۔ مسند احمد ، سنن دارقطنی ، مستدرک حاکم


٭ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبدِکَ وَ رَسُولِکَ وَ صَلِّ عَلَی المُو مِنِینَ وَ المُومِنَاتِ وَالمُسلِمِینَ وَ المُسلِمَاتِ ٠

ترجمہ: اِلٰہی !اپنےبندےاور اپنےرسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں نازل فرمایا ، اور رحم و کرم فرما ،مومنین و مومنات پر اور مسلمین و مسلیمات پر ۔ صحیح ابن حبان


٭ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰل ِمُحَمَّدٍ ٠

ترجمہ: اِلٰہی ! رحم و کرم فرما! محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر ۔ نسائی شریف

Friday, May 27, 2011

نیت کے مسائل

مسئلہ نمبر 31 نیت کے مسائل

اعمال کے اجر و ثواب کا دارومدار نیت پر ہے۔

”حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق بدلہ ملے گا جس نے دنیا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کی اسے صرف دنیا ہی ملے گی( اور ہجرت کا ثواب نہیں ملے گا) اور جس نے کسی عورت سے نکاح کے لیے ہجرت کی اسے بس عورت ہی ملے گی(اور ہجرت کا ثواب نہیں ملے گا۔“

اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
مختصر صحیح بخاری، للزبیدی، رقم الحدیث1



مسئلہ نمبر 32 دکھاوے کا روزہ شرک ہے۔

”حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے”جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔

اسے احمد نے روایت کیا ہے۔
الترغیب والترھیب، لمحی الدین دیب، الجزءالاول، رقم الحدیث43



مسئلہ نمبر 33 روزے کی نیت دل کے ارادے سے ہے۔ مروجہ الفاظ ”وَبِصَومِ غَدِِ نَوَیتُ“ سنت سے ثابت نہیں۔

”حضرت حفصہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جس نے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔“

اسے ابو داﺅد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
صحیح سنن الترمذی، للالبانی، الجزءالاول، رقم الحدیث583



مسئلہ نمبر 35 نفلی روزہ کی نیت دن میں زوال سے پہلے سے پہلے کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے۔


”ام المﺅمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور پوچھا”کیا تمہارے پاس کچھ (کھانے کو) ہے؟“ ہم نے کہا”نہیں!“ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”اچھا تو پھر میرا روزہ ہے۔“ کسی اور دن پھر بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے“ میں نے عرض کیا”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! حیس(حلوہ) تحفہ آیا ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” تو لاﺅ میں صبح سے روزے سے تھا۔“

اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
مختصر صحیح مسلم، للالبانی، رقم الحدیث630

دکھاوے کی نماز

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن (صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ بتلاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر جاری ہو جس میں روزانہ پانچ دفعہ وہ نہاتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین نے عرض کیا کہ کچھ بھی میل باقی نہ رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بالکل یہ مثال پانچ نمازوں کی ہے۔ اللہ تعالٰی ان کے ذریعہ سے خطاؤں کو دھوتا اور مٹا دیتا ہے”۔ (بخاری و مسلم)

 فائدہ:۔

 انسان اللہ کا بندہ اور عبد یعنی غلام ہے۔ اللہ تعالٰی ہی اس کا خالق اور الٰہ ہے۔ اللہ کو اپنا رب اور معبود ماننے کا تقاضہ یہ ہے کہ بندہ اپنی زندگی اللہ ہی کی اطاعت اور بندگی میں بسر کرے۔ اسی کے دیئے ہوئے احکام کو اپنی زندگی کا قانون بنائے۔ اسی کے آگے سر جھکائے۔ اسی کے آگے سجدہ ریز ہو۔ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرے اور نماز ہی درحقیقت اللہ تعالٰی کی عبادت اور اس کی پرستش کا کامل طریقہ ہے۔ نماز میں بندہ بار بار اللہ تعالٰی کے سامنے حاضر ہوتا ہے اور اس کے سامنے اپنی عاجزی اور بندگی کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے کا عہد کرتا ہے۔ اس سے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگتا ہے۔ صاحب ایمان بندہ جس کو نماز کی حقیقت نصیب ہو۔ جب نماز میں مشغول ہوتا ہے تو اس کی روح گویا اللہ تعالٰی کے بحر جلال و جمال میں غوطہ زن ہوتی ہے اور جس طرح کوئی میلا کچیلا اور گندہ کپڑا دریا کی موجوں میں پڑ کر پاک و صاف اور اجلا ہوجاتا ہے اسی طرح اللہ تعالٰی کے جلال و جمال کے انوار کی موجیں اس بندہ کے سارے میل کچیل کو صاف کردیتی ہیں اور جب دن میں پانچ دفعہ یہ عمل ہو تو ظاہر ہے کہ اس بندہ میں میل کچیل کا نام و نشان بھی نہ رہ سکے گا۔ پس یہی حقیقت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال کے ذریعہ سمجھائی ہے۔ یعنی جس طرح پانچ مرتبہ غسل کرنے سے جسم پر میل باقی نہیں رہ سکتا اسی طرح پانچوں وقت کی نماز ادا کرنے سے گناہ بھی باقی نہیں رہ سکتے۔ اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دیتا ہے۔ گناہوں اور خطاؤں کے برے اثرات قلب پر پڑتے ہیں۔ یہ اثرات نماز سے زائل ہو جاتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ نماز حقیقت میں نماز ہو۔ محض دکھاوے کی نماز نہ ہو۔ بلکہ پورے آداب اور حضور قلب کے ساتھ ادا کی گئی ہو۔ بےشک اللہ تعالٰی کا قرب اور اس قرب کی کیفیت جو بندے کو نماز میں حاصل ہوتی ہے اس کی موجودگی میں گناہ کیسے باقی رہ سکتا ہے

۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اس حقیقت پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے:۔

 ”دن کے دونوں کناروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیا کرو۔ بےشک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں اور یہ نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کے لیے”۔

 (ہود۔114)

۔ ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےسردی کے دِنوں میں ایک درخت کی دو ٹہنیوں کو پکڑا اور ہلایا تو ایک دم اس کے پتے جھڑنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: ”اے ابوذر! جب بندہ مومن خالص اللہ کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ان پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں۔ (مسنداحمد)۔

 یعنی جس طرح آفتاب کی شعاعوں اور موسم کی خاص ہواؤں نے ان پتوں کو خشک کردیا ہے اور یہ ہوا کے معمولی جھونکوں سے اور ذرا سی حرکت دینے سے اس طرح جھڑتے ہیں اسی طرح جب بندہ مومن پوری طرح اللہ تعالٰی کی طرف متوجہ ہوکر صرف اس کی رضا جوئی کے لیے نماز پڑھتا ہے تو انوار الٰہی کی شعاعیں اور رحمت الٰہی کے جھونکے اس کے گناہوں کی گندگی کو فنا اور اس کے قصوروں کے میل کچیل کو اس سے جدا کرکے اس کو پاک صاف کردیتے ہیں۔

جہنم کے کتے، آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہی

ابوغالب نے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ :
انہوں نے مسجدِ دمشق کی سیڑھیوں پر (خارجیوں کے) سر نصب کئے ہوئے دیکھے تو فرمایا :

جہنم کے کتے، آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہیں۔ اور وہ شخص بہترین مقتول ہے جسے انہوں نے قتل کیا۔
پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ’’جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے‘‘۔
ابوغالب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : کیا آپ نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟
انہوں نے فرمایا : اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک، دو، تین، چار یہاں تک کہ سات بار تک گنا، سنا ہوتا تو تم سے بیان نہ کرتا۔
ترمذی
كتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم
باب : ومن سورة آل عمران


حدیث : 3270

ماں کے ساتھ نیکی کرنا

عَنْ ذَکَرِیَّا بِنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ کُنْتُ نَصْرَانِیًّا فَاَسْلَمْتُ وَحَجَجْتُ فَدَخَلْتُ عَلٰی اَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ فَقُلْتُ اِنِّیْ کُنْتُ عَلَی النَّصْرَانِیَّةِ وَ اِنِّیْ اَسْلَمْتُ فَقَالَ وَ اَیُّ شَیْءٍ رَاِٴیْتَ فِیْ الْاِسْلااَامِ؟ قُلْتُ قَوْلَ اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ

" مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَ لااَا الْاِیْمَانُ وَ ٰلکِنْ جَعَلْنہُاٰا نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہ مَنْ نَّشَآءُ "

فَقَالَ لَقَدْْ ھَدَاکَ اللّٰہُ ثُمَّ قَالَ:

اللّٰھُمَّ اِھْدِہ ثَلااَاثًا

سَلْ عَمَّا شِئْتَ یَا بُنَیَّ

فَقُلْتُ اِنَّ اَبِیْ وَاُمِّیْ عَلَی النَّصْرَانِیَّةِ وَاَھْلَ بَیْتِیْ وَ اُمِّیْ مَکْفُوْفَةُ الْبَصْرِ فَاَکُوْنُ مَعَھُمْ وَاَکُلُ فِیْ آنِیَتِھِمْ

فَقَالَ یَاْکُلُوْنَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ؟

فَقُلْتُ لااَا وَ لااَا یَمَسُّوْنَہُ

فَقَالَ لااَا بَآسَ فَانْظُرْ اُمَّکَ فَبَرَّھَا فَاِذَا مَاتَتْ فَلااَا تَکِلْھَا اِلٰی غَیْرِکَ کُنْ اَنْتَ الَّذِیْ تَقُوْمُ بِشَاْنِھَا وَلااَا تُخْبِرَنَّ اَحَدًا اَنَکَ اَتَیْتَنِیْ حَتّٰی تَاْتِیَنِیْ بِمِنٰی اِنْشَآءَ اللّٰہُ قَالَ فَاَتَیْنُہ بِمِنٰی وَالنَّاسُ حَوْلَہ کَاَنَّہ مُعَلِّمُ صِبْیَانٍ ھٰذَا یَسْاَلُہ وَ ھٰذَا یَسْاَلُہ فَلَمَّا قَدِمْتَ الْکُوْفَةَ الْطَفْتُ لِاُمِّیْ وَ کُنْتُ اُطْعِمُھَا وَ اَفْلِیْ ثَوْبَھَا وَ رَأْسَھَا وَاَخْدِمُھَا

فَقَالَتْ لِیْ یَا بُنَیَّ مَا کُنْتَ تَضَعُ بِیْ ہٰذَا وَاَنْتَ عَلٰی دَنِیْ فَمَا الَّذِیْ اَرٰی مِنْکَ مُنْذُھَا جَرَتْ فَدَخَلْتَ فِیْ الْحَنِیْفِیَّةِ

فَقُلْتُ رَجُلٌ مِنْ وَلَدٌ نَبِیِّنَا اَمَرَنِیْ بِھٰذَا

فَقَالَتْ ھٰذَا الرَّجُلُ ھُوَ نَبِیٌّ

فَقُلْتُ لااَا وَ ٰلکِنَّہ اِبْنُ نَبِیٍّ

فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ اِنَّ ھٰذَا نَبِیٌّ اِنَّ ھٰذِہ وَصَایَا الْاَنْبِیَآءِ

فَقُلْتُ یَا اُمَّہُ اِنَّہ لَیْسَ یَکُوْنُ بَعْدَ نَبِیِّنَا نَبِیٌّ وَٰلکِنَّہ اِبْنُہ

فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ دُیْنُکَ خَیْرُ دِیْنٍ اِعْرِضْہُ عَلَیَّ فَعَرَضْتُہ عَلَیْھَا فَدَخَلَتْ فِیْ الْاِسْلااَامِ وَ عَلَمْتُھَا فَصَلَّتِ الظُّھْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاْءَ الْآخِرَةَ ثُمَّ عَرَضَ لَھَا عَارِضٌ فِیْ الَّیْلِ فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ اَعِدْ عَلَیَّ مَا عَلَّمْتَنِیْ فَاَعَدْتَّہ عَلَیْھَا فَاَقَرَّتْ بِہ وَمَاتَتْ فَلَمَّا اَصْبَحَتْ کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ الَّذِیْنَ غَسَّلُوْھَا وَکُنْتَ اَنَا الَّذِیْ صَلَّیْتُ عَلَیْھَا وَ نَزَلَتْ فِیْ قَبْرِہ۔

(اصول کافی جلد ۳ صفحہ ۲۳۳)

ترجمہ:۔

ثقة الاسلام شیخ محمد ابن یعقوب کلینی قدس سرہ نے اپنی سند کے ساتھ زکریا ابن ابراہیم سے روایت کی ہے زکریا کہتا ہے کہ میں نصرانی تھا جو مسلمان ہو گیا اور حج کیلئے گیا وہاں امام جعفر صادق-کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا کہ میں نصرانی سے مسلمان ہو گیا ہوں۔حضرت-نے فرمایا کہ اسلام میں تو نے کیا دیکھا ہے۔میں نے کہا خدا کا یہ قول

" مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَ لااَا الْاِیْمَانُ وَ ٰلکِنْ جَعَلْنہُاٰا نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہ مَنْ نَّشَآءُ "(سورہ شوریٰ آیت ۵۲)

(تو کیا جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان کو ہی جانتا تھا لیکن ہم نے اسے نور قرار دیا ہے اس شخص کے لئے جسے ہم ہدایت کرنا چاہیں)

ظا ہر اً اس آیت کو ذ کر کرنے سے اس کی مراد یہ تھی کہ حضر ت- کی خد مت میں عر ض کر ے کہ میر ے اسلام کا سبب کو ئی چیز نہیں تھی سوا ئے اس کے کہ اللہ تعا لیٰ مجھے ہدایت کرنا چاہتا تھا۔ حضرت- نے فرمایا کہ خدا نے تجھے ہدایت کی پھر تین مرتبہ اس کے حق میں فرمایا:

اللّٰھُمَ اھْدِہ

(خدایا اس کی ہدایت فرما)

اس کے بعد حضرت- نے فرمایا جو جی چاہے سوال کر۔

میں نے عرض کیا کہ میرے والدین اور گھر والے نصرانی ہیں اور میری ماں نابینا ہے میں انکے ساتھ رہتا ہوں انہیں کے برتنوں میں کھاتا ہوں

حضرت- نے فرمایا کیا وہ سور کا گوشت کھاتے ہیں؟

عرض کی نہ بلکہ سور کے گوشت کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔

حضرت- نے فرمایاکہ ماں کی رعایت کر اور اس کے حق میں نیکی کر اور جب مرے تو اس کی میّت دوسروں کے حوالے نہ کرنا بلکہ خود اسے سنبھالنا اور اس ملاقات کے بارے میں کسی سے کچھ نہ کہنا اور منٰی میں مجھے دوبارہ ملنا اس وقت کسی کو نہ بتا نا کہ تو میرے پاس آیا ہے پس میں منٰی میں حضرت- کی خدمت میں حاضر ہو گیا ہے میں نے دیکھا کہ لوگوں نے حضرت-کے ارد گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے جس طرح بچے استاد کے ارد گرد ہوتے ہیں ہر کوئی حضرت- سے سوال پوچھ رہا تھا پس جب میں کوفہ میں آیا تواپنی ماں کے ساتھ بہت نرمی کے ساتھ پیش آنے لگااور اس کی خدمت میں مصروف ہو گیا میں اسے کھانا کھلاتااور اس کے سر اور لباس کو صاف کرتا۔

میری ماں نے ایک دن مجھ سے کہا اے فرزند عزیز! جب تو میرے دین میں تھا تو اس طرح میری خدمت نہیں کرتا تھا۔کیا وجہ ہے کہ اسلام قبول کر لینے کے بعد میرا اتنا خیال رکھتا ہے؟

میں نے کہا کہ میرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ایک فرزند نے مجھے اس طرح کرنے کا حکم دیا ہے۔

میری ماں نے کہا کیا وہ پیغمبر ہے۔

میں نے کہا نہیں بلکہ پیغمبر کے فرزند ہیں ۔

میری ماں نے کہا ایسے شخص کو پیغمبر ہونا چاہیے کیونکہ جو تعلیم اس نے تجھے دی ہے یہ تو پیغمبروں کی وصیت ہے۔

میں نے کہا: اماں جان ہمارے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد کوئی پیغمبر نہیں۔

میری ماں نے کہا: اے بیٹا تیرا دین تمام ادیان میں سب سے بہتر ہے یہ دین میرے سامنے پیش کر اور بیان کر۔

پس میں نے دین اسلام بیان کیااور میری ماں بھی اسلام میں داخل ہو گئی۔میں نے اسے دین کے آداب سکھائے۔پھر اس نے نماز ظہر و عصر اور مغرب وعشاء پڑھی۔اور اسی رات مرض المو ت اسے عارض ہوئی تو مجھے بلا کر کہنے لگی اے میرے بیٹے تو نے جو کچھ مجھے سکھایا ہے اسے دوبارہ میرے سامنے دہراوٴ۔میں نے وہ سب کچھ دہرایا اور ماں نے اس کا اقرار کیا اور وفات پا گئی۔جب صبح ہوئی تو مسلمانوں نے اسے غسل دیا اور میں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کو خود قبر میں رکھا۔

"نعم ما قیل"

(کسی نے کیا خوب کہا ہے۔)

آبادی میخانہ زویرانی ما است

جمعیت کفر از پریشانی ما است

اسلام بذات خود ندارد عیبی

ہر عیب کہ ہست در مسلمانی ما است

( ترجمہ اشعار)

شراب خانے کی آبادی ہماری ویرانی کی وجہ سے ہے۔کفر کی جمعیت اور تعداد میں روز افزوں اضافہ ہماری پریشان حالی اور دگر گونی کی وجہ سے ہے۔اسلام کی ذات میں کوئی عیب نہیں ہے جو بھی عیب ہے وہ ہماری مسلمانی میں ہے۔

اول وقت میں نمازکی فضیلت

 عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ سَئَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ؟

قَالَ: اَلصَّلٰوةُ لَوْ وَقْتِھَا۔

ثُمَّ اَیُّ شَیْءٍ؟

قَالَ: بِرُّ الْوَالِدَیْنِ۔

قُلْتُ ثُمَّ اَیُّ شَیْءٍ؟

قَالَ: اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ (وسا ئل الشیعہ جلد۳صفحہ ۸۲)

تر جمہ :۔

ابن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سوال کیا کونسا عمل خدا کو پسند ہے؟

حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: نماز کو بر وقت بجالانا (یعنی نماز کو اول وقت میں اور فضیلت کے وقت میں ادا کرنا)۔

میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا عمل ؟

حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ۔

میں نے عرض کیا اس کے بعد کونسا عمل ؟

حضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔

فقیر (شیخ عباس قمی(رحمۃ اللہ علیہ))فرماتے ہیں اسی مضمون کو شیخ کلینی(رحمۃ اللہ علیہ)نے منصور ابن حازم کے ذریعے امام جعفر صادق-سے نقل کیا ہے۔نماز کو اول وقت میں بجالانے اور اس کی حفاظت کے بارے میں بہت زیادہ روایات منقول ہیں ایک روایت میں ہے کہ

"مشرق و مغرب میں کوئی گھر ایسا نہیں ملک الموت ہر دن رات میں پانچوں نمازوں کے اوقات میں اس کی طرف نہ دیکھتا ہوپس جب کسی ایسے شخص کی روح قبض کرنا چاہتا ہو جو نماز کا خیال رکھتاہو اور اسے بر وقت بجا لاتا ہو تو ملک الموت اسے کلمہ شہادتین کی تلقین کرتا ہے( کلمہ شہادتین پڑھاتا ہے)اور شیطان ملعون کو اس سے دور کرتا ہے۔"

نیز معلوم ہونا چاہیے کہ والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی روایات بہت ہیں ایک روایات میں ہے کہ ایک جوان جہاد کا شوق رکھتا تھا لیکن اس کے والدین راضی نہیں تھے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اسے حکم دیا :

" اپنے والدین کے پاس رہو اس خدا کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے والدین کا تیرے ساتھ ایک دن کا انس تمہارے ایک سال تک جہاد کرنے سے بہتر ہے"۔

ابراہیم ابن شعیب نے امام جعفر صادق-کی خدمت میں عرض کی کہ میرا باپ بوڑھا اور کمزور ہوگیا ہے جب وہ رفع حاجت کا ارادہ کرتا ہے تو ہم اسے اٹھا کر لے جاتے ہیں

حضرت-نے فرمایا: اگر ہو سکے تو تم خود یہ کام کرو یعنی رفع حاجت کے لئے اسے اٹھا کر لے جاوٴاور اسے کھانا کھلاو ٴ کیونکہ تیرا باپ کل تیرے لیے جہنم سے بچنے کی ڈھال ہے۔

والدین کے فرمانبردار کی دعا قبول ہوتی ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم




حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَمَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَتَمَاشَوْنَ أَخَذَهُمْ الْمَطَرُ فَمَالُوا إِلَی غَارٍ فِي الْجَبَلِ فَانْحَطَّتْ عَلَی فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنْ الْجَبَلِ فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا لِلَّهِ صَالِحَةً فَادْعُوا اللَّهَ بِهَا لَعَلَّهُ يَفْرُجُهَا فَقَالَ أَحَدُهُمْ اللَّهُمَّ إِنَّهُ کَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ کَبِيرَانِ وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ کُنْتُ أَرْعَی عَلَيْهِمْ فَإِذَا رُحْتُ عَلَيْهِمْ فَحَلَبْتُ بَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ أَسْقِيهِمَا قَبْلَ وَلَدِي وَإِنَّهُ نَائَ بِيَ الشَّجَرُ فَمَا أَتَيْتُ حَتَّی أَمْسَيْتُ فَوَجَدْتُهُمَا قَدْ نَامَا فَحَلَبْتُ کَمَا کُنْتُ أَحْلُبُ فَجِئْتُ بِالْحِلَابِ فَقُمْتُ عِنْدَ رُئُوسِهِمَا أَکْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا مِنْ نَوْمِهِمَا وَأَکْرَهُ أَنْ أَبْدَأَ بِالصِّبْيَةِ قَبْلَهُمَا وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ فَلَمْ يَزَلْ ذَلِکَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمْ حَتَّی طَلَعَ الْفَجْرُ فَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْهِکَ فَافْرُجْ لَنَا فُرْجَةً نَرَی مِنْهَا السَّمَائَ فَفَرَجَ اللَّهُ لَهُمْ فُرْجَةً حَتَّی يَرَوْنَ مِنْهَا السَّمَائَ وَقَالَ الثَّانِي اللَّهُمَّ إِنَّهُ کَانَتْ لِي ابْنَةُ عَمٍّ أُحِبُّهَا کَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَائَ فَطَلَبْتُ إِلَيْهَا نَفْسَهَا فَأَبَتْ حَتَّی آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ فَسَعَيْتُ حَتَّی جَمَعْتُ مِائَةَ دِينَارٍ فَلَقِيتُهَا بِهَا فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا قَالَتْ يَا عَبْدَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفْتَحْ الْخَاتَمَ فَقُمْتُ عَنْهَا اللَّهُمَّ فَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي قَدْ فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْهِکَ فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا فَفَرَجَ لَهُمْ فُرْجَةً وَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ إِنِّي کُنْتُ اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ فَلَمَّا قَضَی عَمَلَهُ قَالَ أَعْطِنِي حَقِّي فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَقَّهُ فَتَرَکَهُ وَرَغِبَ عَنْهُ فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّی جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيَهَا فَجَائَنِي فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَظْلِمْنِي وَأَعْطِنِي حَقِّي فَقُلْتُ اذْهَبْ إِلَی ذَلِکَ الْبَقَرِ وَرَاعِيهَا فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَهْزَأْ بِي فَقُلْتُ إِنِّي لَا أَهْزَأُ بِکَ فَخُذْ ذَلِکَ الْبَقَرَ وَرَاعِيَهَا فَأَخَذَهُ فَانْطَلَقَ بِهَا فَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْهِکَ فَافْرُجْ مَا بَقِيَ فَفَرَجَ اللَّهُ عَنْهُمْ

صحیح البخاری کتاب الادب بَاب إِجَابَةِ دُعَاءِ مَنْ بَرَّ وَالِدَيْهِ



" ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی چلے جا رہے تھے کہ ان کو بارش نے آ گھیرا، تو وہ پہاڑکے ایک غار میں پناہ کے لئے گئے، ان کی غار کے دہانے پر ایک چٹان آ گری، جس سے اس کا منہ بند ہوگیا، تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم لوگ اپنے اپنے نیک کاموں پر غور کرو جو تم نے اللہ کے لئے کئے ہوں، اور اس کے واسطہ سے اللہ تعالی سے دعا کرو، امید ہے کہ اللہ اس چٹان کو ہٹادے گا۔

ان میں سے ایک نے کہا یا اللہ میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے، میں ان کے لئے جانور چراتا تھا، جب شام کو واپس آتا تو ان جانوروں کو دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے والدین کو پینے کو دیتا، ایک دن جنگل میں دورتک چرانے کو لے گیا، واپسی میں شام ہو گئی، جب آیا تو وہ دونوں سوچکے تھے، میں نے حسب دستور جانوروں کو دوہا اور دودھ لے کر آیا اور ان کے سرہانے کھڑا ہوگیا، میں نے ناپسند سمجھا کہ انہیں نیند سے بیدا کروں اور یہ بھی برا معلوم ہوا کہ میں پہلے اپنے بچوں کو دوں، حالانکہ بچے میرے قدموں کے پاس آکر چیخ رہے تھے، طلوع فجر تک میرا اور میرے بچوں کا یہی حال رہا، اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیری رضا کی خاطر کیا ہے تو یہ چٹان تھوڑی سے ہٹادے، تاکہ آسمان نظر آ سکے، تو اللہ تعالی نے اس چٹان کو تھوڑا سا ہٹا دیا، یہاں تک کہ آسمان نظر آنے لگا

اور دوسرے آدمی نے کہا یا اللہ میری ایک چچا زاد بہن تھی، میں اسے بہت چاہتا تھا، جتنا کہ مرد عورتوں سے محبت کرتے ہیں، میں نے اس کی جان اس سے طلب کی، (یعنی وہ اپنے آپ کو میرے حوالے کردے) لیکن اس نے انکار کیا، یہاں تک کہ میں اس کے پاس سو دینار لے کر آؤ، چناچہ میں نے محنت کی یہاں تک کہ سو دینار ہو گئے، تو میں انہیں لے اس کے پاس آیا، جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو اس نے کہا کہ اے خدا کے بندے خدا سے ڈر اور مہر (سیل) کو نہ کھول، یہ سن کر میں کھڑا ہو گیا، یا اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیری خوشی کی خاطر کیا ہے، تو ہم سے اس چٹان کو ہٹادے، تو اللہ تعالی نے اس چٹان کو تھوڑا سا سرکا دیا

تیسرے آدمی نے کہا یا اللہ میں نے ایک فرق چاول پر ایک مزدور کام پر لگایا، جب وہ کام پورا کر چکا تو اس نے کہا کہ میرا حق دے دو، میں نے اس کی مزدوری دے دی، لیکن اس نے اپنی مزدوری چھوڑ دی اور لینے سے انکار کردیا، میں اس کو مسلسل کاشت کیا یہاں تک کہ میں نے مویشی اور چرواہا اکٹھا کیا (یعنی بڑھتے بڑھتے بہت سے مویشی ہوگئے اور اس کے لئے ایک چرواہا بھی رکھ لیا) وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ اللہ سے ڈرو اور مجھ پہ ظلم نہ کرو اور مجھے میراحق دے دو، میں نے کہا ان مویشیوں اور چرواہے کے پاس جا (اور ان سب کو لے جا) اس نے کہا اللہ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق نہ کر، میں نے کہا میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا ہوں، یہ جانور اور چرواہا لے جا، چناچہ اس نے لے لیا اور چلا گیا اس لئے اگر تو جانتا ہے کہ یہ میں نے صرف تیری رضا کی خاطر کیا ہے تو باقی حصہ بھی دور کردے، چناچہ اللہ تعالی نے اس کو بھی سرکا دیا۔"


صحیح البخاری کتاب الادب بَاب إِجَابَةِ دُعَاءِ مَنْ بَرَّ وَالِدَيْهِ

سیدنا انس رضی اللٌھ تعالی عنھ سے روایت ہے کھ نبی صلی اللٌھ

سیدنا انس رضی اللٌھ تعالی عنھ سے روایت ہے کھ نبی صلی اللٌھ
علیھ وسلم نے فرمایا: یھ تین باتیں جس کسی میں ھوں گی وہ ایمان
کی شیرینی کا مزہ پائے گا۔اللٌھ اور اس کا رسول اس کے نزدیک
تمام ، ماسوا سے زیادہ محبوب ھوں۔اور جس کسی سے محبت کرے
تو اللٌھ ھی کے لیے اس سے محبت کرے۔اور کفر میں واپس جانے
کو ایسا برا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو ہر کوئ برا
سمجھتا ہے۔ا

بخاری:کتاب الایمان

جو استغفار کرنے کو اپنے اوپر لازم کرے


ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، حکم بن مصعب، محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو استغفار کرنے کو اپنے اوپر لازم کرے گا تو اللہ تعالی اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا ایک راستہ پیدا فرمائے گا اور ہر غم سے نجات دے گا اور ایسی جگہ سے روزی عطا فرمائے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا۔

جہنم میں عورتوں کی کثرت کیوں؟

جہنم میں عورتوں کی تعداد مردوں کی تعداد سے زیادہ کیوں ہے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ جہنم میں عورتوں کی اکثریت ہے ۔ عمران بن حصین بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے جنت میں جھانکا تو اس میں اکثر لوگ فقراء تھے اور میں نے جہنم میں جھانکا تو اس میں اکثر عورتیںتھیں
صحیح بخاری حدیث نمبر 3241 صحیح مسلم حدیث نمبر
2737
اور اس کے سبب کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے وہ بھی بیان فرمایا کہ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے آگ دکھائی گئي تو میں آج جیسا خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے جہنم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی ہے تو صحابہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اپنے کفر کی وجہ سے تو آپ سے یہ کہا گیا وہ اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرتی ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خاوند اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ زندگی بھر احسان کرتے رہو توپھر وہ آپ سے کوئی (ناپسندیدہ)چیز دیکھ لے تو یہ کہتی ہے کہ میں نے ساری زندگی تم سے کوئی خیر ہی نہیں دیکھی صحیح بخاری حدیث نمبر 1052
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عید الفطر کے لۓ عید گاہ کی طرف نکلے تو عورتوں کے پاس گزرے تو فرمانے لگے : اے عورتوں کی جماعت صدقہ و خیرات کیا کرو بیشک مجھے دکھایا گیا ہے کہ تمہاری جہنم میں اکثریت ہے تو وہ کہنے لگیں اے اللہ کے رسول وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم گالی گلوچ بہت زیادہ کرتی ہو اور خاوند کی نافرمانی کرتی ہو میں نے دین اور عقل میں ناقص تم سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا تم میں سے کوئی ایک اچھے بھلے شخص کی عقل خراب کر دیتی ہے وہ کہنے لگیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارا دین اور ہماری عقل میں نقص کیا ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا عورت کی گواہی نصف مرد کے برابر نہیں؟ تو وہ کہنے لگیں کیوں نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو یہ اس کی عقل کا نقصان ہے۔اور کیا جب کسی کو حیض آئے تو وہ نماز اور روزہ نہیں چھوڑتی؟ تو وہ کہنے لگيں کیوں نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اس کے دین کا نقصان ہے۔ صحیح بخاری
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کے دن نماز میں حاضر تھا تو آپ نے خطبہ سے قبل بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی پھر نماز کے بعد بلال رضی اللہ عنہ پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئےاور اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا اور اس کی اطاعت کرنے پر ابھارا اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کی پھر عورتوں کے پاس آئے اور انہیں وعظ و نصیحت کی اور کہنے لگے : اے عورتو ! صدقہ و خیرات کیا کرو کیونکہ تمہاری اکثریت جہنم کا ایندھن ہے تو عورتوں کے درمیان سے ایک سیاہ نشان والے رخساروں والی عورت اٹھ کر کہنے لگی اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تم شکوہ اور شکایت بہت زیادہ کرتی اور خاوند کی نافرمانی اور نا شکری کرتی ہو

(صحیح مسلم حدیث نمبر 885
اس لیےہماری مسلمان بہنوں پر ضروری ہے کہ جو اس حدیث کو جانتی ہیں وہ خاص کر نماز پڑھیں اور ان اشیاء سے دور رہیں جو کہ اللہ تعالی نے حرام کی ہیں خاص کر اس شرک سے جو کہ عورتوں کے اندر مختلف صورتوں میں پھیلا ہوا ہے مثلا اللہ تعالی کےعلاوہ دوسروں سے حاجات پوری کروانا اور جادو گروں اورنجومیوں کے پاس جاناوغیرہ
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اور ہمارے سب بہن بھائیوں کو آگ سے دور کرے اور ایسے قول وعمل کرنے کی توفیق دے جو اللہ تعالی کے قربت کاذریعہ ہوں آمین


اللہ ہم سب کو بغیر عذاب و حساب ک جنت میں داخل کردے آمین

دو طرح کی آنکھوں پر جہنم حرام ہے

دو طرح کی آنکھوں پر جہنم حرام ہے
حضر ت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھو سکتی۔ ایک اللہ کے ڈر سے رونے والی آنکھ اور دوسری وہ آنکھ جو رات بھر بیدار رہ کر اللہ کی راہ میں پہرہ دے۔

فرشتے ان کو اپنے پروں سے ڈھک لیتے ہیں

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1340 حدیث قدسی مکررات 3 متفق علیہ 2 بدون مکرر
قتیبہ بن سعید، جریر، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کے چند فرشتے ہیں جو رستوں میں گھومتے ہیں، اور ذکر کرنے والوں کو ڈھونڈتے ہیں، جب وہ کسی قوم کو ذکر الٰہی میں مشغول پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکار کر کہتے ہیں، اپنی ضرورت کی طرف آؤ، آپ نے فرمایا کہ وہ فرشتے ان کو اپنے پروں سے ڈھک لیتے ہیں، اور آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ ان کا رب پوچھتا ہے کہ میرے بندے کیا کر رہے ہیں حالانکہ وہ ان کو فرشتوں سے زیادہ جانتا ہے، فرشتے جواب دیتے ہیں وہ تیری تسبیح و تکبیر اور حمد اور بڑائی بیان کر رہے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے، کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے، فرشتے کہتے ہیں بخدا انہوں نے آپ کو نہیں دیکھا ہے، آپ نے فرمایا، اللہ فرماتا ہے، اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو کیا کرتے؟ فرشتے کہتے ہیں اگر آپ کو دیکھ لیتے تو آپ کی بہت زیادہ عبادت کرتے اور بہت زیادہ بڑائی یا پاکی بیان کرتے، آپ نے فرمایا اللہ فرماتا ہے، وہ مجھ سے کیا مانگتے تھے، فرشتے کہتے ہیں وہ آپ سے جنت مانگ رہے تھے، آپ نے فرمایا اللہ ان سے پوچھتا ہے کیا انہوں نے جنت دیکھی ہے فرشتے کہتے ہیں بخدا انہوں نے جنت نہیں دیکھی اللہ فرماتا ہے اگر وہ جنت دیکھ لیتے تو کیا کرتے، فرشتے کہتے ہیں کہ اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو اس کے بہت زیادہ حریص ہوتے اور بہت زیادہ طالب ہوتے اور اسکی طرف ان کی رغبت بہت زیادہ ہوتی، اللہ فرماتا ہے کہ کس چیز سے وہ پناہ مانگ رہے تھے فرشتے کہتے ہیں جہنم سے، آپ نے فرمایا، اللہ فرماتا ہے کہ انہوں نے اسکو دیکھا ہے، فرشتے جواب دیتے ہیں نہیں بخدا انہوں نے نہیں دیکھا ہے، اللہ فرماتا ہے اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو کیا کرتے، فرشتے کہتے ہیں اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو اس سے بہت زیادہ بھاگتے، اور بہت زیادہ ڈرتے، آپ نے فرمایا، اللہ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا آپ نے فرمایا کہ ان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے کہ ان میں فلاں شخص ان (ذکر کرنے والوں) میں نہیں تھا بلکہ وہ کسی ضرورت کے لئے آیا تھا اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنے والامحروم نہیں رہتا، شعبہ نے اس حدیث کو اعمش سے روایت کیا، لیکن مرفوع نہیں بیان کیا اور سہیل نے بواسطہ اپنے والد انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث نقل کی۔

Narrated Abu Huraira:
Allah 's Apostle said,(may Allah peace be upon him) "Allah has some angels who look for those who celebrate the Praises of Allah on the roads and paths. And when they find some people celebrating the Praises of Allah, they call each other, saying, "Come to the object of your pursuit.' " He added, "Then the angels encircle them with their wings up to the sky of the world." He added. "(after those people celebrated the Praises of Allah, and the angels go back), their Lord, asks them (those angels)----though He knows better than them----'What do My slaves say?' The angels reply, 'They say: Subhan Allah, Allahu Akbar, and Alham-du-lillah, Allah then says 'Did they see Me?' The angels reply, 'No! By Allah, they didn't see You.'
Allah says, How it would have been if they saw Me?' The angels reply, 'If they saw You, they would worship You more devoutly and celebrate Your Glory more deeply, and declare Your freedom from any resemblance to anything more often.' Allah says (to the angels), 'What do they ask Me for?' The angels reply, 'They ask You for Paradise.' Allah says (to the angels), 'Did they see it?' The angels say, 'No! By Allah, O Lord! They did not see it.' Allah says, How it would have been if they saw it?' The angels say, 'If they saw it, they would have greater covetousness for it and would seek It with greater zeal and would have greater desire for it.' Allah says, 'From what do they seek refuge?' The angels reply, 'They seek refuge from the (Hell) Fire.' Allah says, 'Did they see it?' The angels say, 'No By Allah, O Lord! They did not see it.' Allah says, How it would have been if they saw it?' The angels say, 'If they saw it they would flee from it with the extreme fleeing and would have extreme fear from it.' Then Allah says, 'I make you witnesses that I have forgiven them."' Allah's Apostle added, "One of the angels would say, 'There was so-and-so amongst them, and he was not one of them, but he had just come for some need.' Allah would say, 'These are those people whose companions will not be reduced to misery.' "

تفسیر سور فاتحہ

بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِيم

(1) الحمد للہ رب العلمین(2) الرحمن الرحیم (3) ملک یوم الدین(4) ایاک نعبد وایاک نستعین (5) اھدنا الصراط المستقیم (6) صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین(7)

ترجمہ: اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحم والا
”سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے والوں کا بہت مہربان رحمت والا روزِ جزا کا مالک ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں ہم کو سیدھا راستہ چلا راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا“
۔
خطبۂ مسنونہ:

ترجمہ:

 تمام خوبیاں اللہ کو، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس سے مدد مانگتے ہیں اور اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہم اللہ کی پناہ لیتے ہیں اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے بُرے اعمال سے، جسے اللہ راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے گمراہ کرے اسے کوئی راہ دینے والا نہیں، اور ہم گواہی دیتے ہیں کے اللہ کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے سردار ،ہمارے نبی، ہمارے محبوب ہمارے شفیع ہمارے (بیمار) دلوں کے طبیب اور ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں تمام انسانوں اور تمام کائنات کے لیے خوشخبری دینے اور ڈر سُنانے والا بنا کر قیامت سے پہلے بھیجا گیا۔)

قال اللہ تعالیٰ فی شان حبیبہ: (ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما)

(ترجمہ: اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک کی شان میں فرماتا ہے: ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر، اے ایمان والو! اُن پر دُرود اور خوب سلام بھیجو“۔)

اللھم صل وسلم علیہ وزد وتفضل وبارک علی سید السادات وافضل الموجودات واشرف الموجودات واحسن الموجودات واکرم الموجودات واجمل الموجودات واکمل الموجودات سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی جمیع الانبیاء والمرسلین وعلی جمیع ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ جمیع الانبیاء والمرسلین وعلی جمیع ملئکتہ المعصومین وعلی جمیع عبادہ الصالحین
۔
(ترجمہ: اے اللہ دُرود وسلام، خوب رحمتیں اور برکتیں نازل فرما اُن پر جو تمام سرداروں کے سردار، تمام موجودات (کائنات) میں سب سے افضل ، سب سے زیادہ شرف والے، سب سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ عزت والے، سب سے زیادہ جمیل اور سب سے زیادہ کامل ہیں ، یعنی ہمارے آقا ومولیٰ جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ اُن پر ، تمام نبیوں اور رسولوں پر، تمام معصوم فرشتوں پر اور اپنے تمام نیک بندوں پر رحمت نازل فرمائے۔
)
اما بعد: لقد قال اللہ تبارك وتعالي في كلامہ القديم العظيم:
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّہ)

صدق اللہ مولانا العظیم وبلغ رسولہ النبی الحبیب الکریم ونحن علی ذلک من الشاہدین والشاکرین
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کا ثمر

جو آیت تلاوت کی گئی اس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
:
(قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّہ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّہُ غَفُور رَّحِيمٌ) (سورۂ آل عمران: آیت: 31)

ترجمہ: ”اے محبوب! تم فرما دو کہ لوگو! اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے“

۔
یعنی: اپنی نظریں، توجہ، دل، جذبات اور احساسات میری پیروی کرنے میں لگا دو، نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا دوست بنا لے گا۔یہ آیت مسلمان کی اللہ تعالیٰ سے اور اللہ تعالیٰ کی مسلمان سے محبت کے بارے میں بتاتی ہے،

 اس کا کیا معنی ہے؟ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر ہم ایک سچے معبود ، اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں تو ہم اس سے اپنا تعلق بھی جوڑ سکتے ہیں ، ہم کسی ایسی ہستی پر ایمان نہیں لائے جس سے رحمتیں اور انعام حاصل نہیں کر سکتے، نہ ہی کسی ایسی ہستی پر ایمان لائے ہیں جو محض دُور ایک قوت یا طاقت ہے جسے ہم سے کوئی سروکار نہیں ہے، یا اگر کوئی سروکار بھی ہے تو صرف ایسا جیسا کہ ایک حاکم کو اپنی رعایا کے ساتھ۔نہیں۔۔۔! نہیں۔۔۔!ایسا نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ حاکم، خالق ، بدیع (یعنی: بغیر کسی نمونے کے چیزوں کو پیدا کرنے والا) اور ہادی ہے، کائنات کی ہر چیز پر اس کا اختیار ہے، وہ بہت بلند، عظیم، لا محدود اور ہم سے بہت مختلف ہے، اِن صفات کے باوجود بھی وہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ وہ ہم سے محبت اس لیے کرتا ہے کیونکہ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔

 اسے ایک آسان مثال سے سمجھئے کہ اگر کوئی کاریگر (آرٹسٹ) کوئی فن پارہ پوری عقیدت ومحبت سے بناتا ہے تو وہ کبھی بھی اپنے فن پارے کو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں ہونے دے گا،اسی طرح اگر ہم کچھ بناتے یا اپنے پاس رکھتے ہیں تو اسے کسی بھی قسم کا نقصان ہونے سے بچاتے ہیں کیونکہ ہم اس میں اپنی توانائی، دل اور روح کو دخل دیتے ہیں ہمیں اس چیز سے شعوری یا لا شعوری طور پر محبت ہو تی ہے۔ پھر ہم کیسے یہ تصور کر سکتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اور اچھی صورت پر بنایا،
-جیسے کہ وہ ارشاد فرماتا ہے: (لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِي اَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (4)) (ترجمہ: ”بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا“۔) (سورۂ تین: آیت: 4) – مگر وہ نہ تو ہم سے محبت کرتا ہے اور نہ اسے ہم سے کوئی سروکار ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح پیدا فرمایا ہے تو یقیناًوہ اس سے محبت کرے گا اور وہ محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا انسانوں سے تعلق، رحمت ومحبت کا ہے
۔
سورۂ فاتحہ اور صفاتِ باری تعالیٰ

قرآن مجید کی ابتدا میں بسم اللہ شریف میں اللہ تعالیٰ اپنی ذات کو محبت والی صفات کے ذریعہ اس طرح سے متعارف کرتا ہے کہ وہ (الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ) (یعنی وہ نہایت مہربان اور رحم والا )ہے۔ دوسری آیت میں وہ ارشاد فرماتا ہے:

(الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ(2)) (ترجمہ: ’’سب خوبیاں اللہ کو جو پروردگار سارے جہان کا‘‘۔) یہاں دوبارہ ہم صفتِ محبت کو دیکھتے ہیں کیونکہ لفظِ ’’رب‘‘ کا معنی ہے پروردگار، پالنے والا، حفاظت کرنے والا، پرورش کرنے والا اور مقصد کی طرف رہنمائی کرنے والا وغیرہ۔ یہ ’’رب‘‘ کے وظائف ہیں اور یہ وظائف محبت کے بھی ہیں،

 پھر وہ تیسری آیت میں دوبارہ دُہراتا ہے کہ وہ (الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ (3)) (نہایت مہربان رحم والا)ہے۔

چوتھی آیت میں ارشاد فرماتا ہے کہ وہ (مٰلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4)) (روزِ جزا کا مالک) ہے، وہ اس دن ہمارے اُن اعمال کا حساب لینے والا ہے، جنہیں ہم نے دنیا میں کیا۔ پھر وہ ہمیں اسی سورۂ فاتحہ ہمیں میں بُلاتا ہے کہ ہم اس کی بارگاہ میں پہنچیں اور اس کی رحمتیں لیں، اور وہ ہمیں تسلی دیتا ہے کہ ’’مجھے کسی ایسے انسان کی طرح گمان نہ کرنا جو اونچے مرتبہ پر پہنچ گیا اور اس سے رابطہ نا ممکن ہو گیا ہو، باوجود اس حقیقت کے کہ میں ہمیشہ سے بلند وبرتر ہوں اور یہ کہ میں تمہارا مالک اور معبود ہوں، میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ تم میری بارگاہ میں آتے ہو‘‘

۔مؤذن کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی طرف روزانہ ، ہر مسجد سے بلاتا ہے ”حَیَّ عَلیٰ الصَّلوٰۃِ“ (آؤ نماز کی طرف) ”حَیَّ عَلی الفَلاَحِ“(آؤ فلاح کی طرف) میں، مؤذن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاتا ہے کہ ہم اس کی بارگاہ میں پہنچیں اور خیر کا سوال کریں۔

 اسی طرح ہمیں سورۂ فاتحہ کی پانچویں آیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے: (اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (5)) (ترجمہ: ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں)۔ ہم یہاں اللہ تعالیٰ سے اپنی وفاداری کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہم باغی نہیں ہیں ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس آیت کے ذریعے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں، پھر ہم اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتے ہیں مدد کس چیز میں۔۔۔۔؟ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ ہی سے ہر چیز کا سوال کریں اگرچہ بہت معمولی سی ہی ہو۔ مگر یہاں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سکھا رہا ہے کہ ہم اس سے اعلیٰ خواہش کا سوال کریں جبکہ ادنی کو ہمارے اختیار پر چھوڑ دیا، وہ اعلیٰ خواہش

 آیت نمبر چھ میں ہے: (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6)) (ترجمہ: ’’ہم کو سیدھا راستہ چلا‘‘) یعنی: ہمیں برزگی، کامیابی حکمت اور خوبصورتی کے راستے پر چلا۔
یاد رہے: ”اِھدِنَا “ کا معنی صرف ’’ہمیں راستہ چلا‘‘ ہی نہیں ہے کیونکہ ہدایت کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو معنی یہ ہو تا ہے کہ اس راہ پر بھی ہماری راہنمائی فرما کہ ہم اس ’’مقصد‘‘ تک پہنچنے کے قابل ہوں، اور مقصد کیا ہے۔۔۔؟
انعام یافتہ بندے

وہ ’’مقصد‘‘سورۂ فاتحہ کی ساتویں آیت میں ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ (صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْھمْ) (ترجمہ: ’’راستہ اُن کا جن پر تو نے احسان کیا‘‘)، کون ہیں یہ اِحسان وانعام یافتہ لوگ؟ قرآن مجید واضح طور پر بتاتا ہے:

 ( وَ مَن یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُولَ فَاُؤلٰٓئِکَ مَعَ الَّذِینَ اَنْعَمَ اللَّہُ عَلَيْہِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيقًا) ۔
(ترجمہ: ’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں‘‘۔) (سورۂ نساء: آیت: 69)

(1) وہ انعام یافتہ بندے، حضراتِ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام ہیں جن میں آخری نبی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

(2) اور اِن کے بعد دوسرے درجہ میں صدیقین ہیں، وہ لوگ جو اپنے افکار، اقوال وافعال میں سچائی کا مجسمہ ہوتے ہیں، یہ لوگ نبی نہیں ہوتے بلکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی ’’سچائی‘‘ کو اس حد تک اپنی ذات میں سمایا کہ ان میں کوئی کمی ونقص نہیں ملتا۔


(3) تیسرا درجہ ’’شہداء‘‘ کا ہے ، وہ لوگ جنہوں نے حق کی خاطر، محبت سے سرشار ہو کر اپنی جانیں، اللہ تعالیٰ کے لیے قربان کر دیں
۔
(4) چوتھا درجہ ’’صالحین‘‘ (نیک لوگوں) کا ہے،جنہوں نے اپنی زندگیاں اچھے طریقے سے، خدائی ضابطۂ حیات کے مطابق گزاریں
۔
اسلام کا مقصد۔۔۔!

اسلام اس لیے نہیں آیا تھا کہ اس کے ماننے والے ایسے ہوں جو صرف نام کے یا رَسماً ”مسلمان “ ہوں کہ بعض عبادات بجا لاتے ہیں، یا وہ مسلمان، کچھ عقائد کے نقطۂ نظر سے ہوں، مگر اِن کی بنیاد پر وہ عمل نہ کریں، جس کا یہ عقائد تقاضا کرتے ہیں۔ اسلام اس لیے آیا تھا کہ انسان کی خراب حالت کو تبدیل کرے تاکہ وہ ان مذکورہ چار درجات میں سے کسی ایک درجہ والوں کا ”رفیق وہم نشین“ ہو سکے۔ آدمی اپنی سنگت سے پہچانا جاتا ہے، اسی لیے ان چار درجات میں سے کسی ایک کے ساتھ ہونے کے لیے، فرد کو اللہ تعالیٰ کا بندۂ صادق ہونا پڑے گا۔ کچھ لوگ اس مذکورہ آیت کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ ایک اچھا مسلمان بننے سے کوئی شخص (خود سے) نبی بھی بن سکتا ہے۔ یہ لوگ گمراہ ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ’’نُبوت‘‘ ختم ہو چکی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری نبی مبعوث کیے گئے ہیں۔ کوئی بھی شخص اپنے ’’مجاہدات‘‘ (عبادات وریاضات) سے نبی نہیں بن سکتا کہ نُبوت محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے نبیِ آخر الزمان خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کو عطا کی گئی

۔
رفاقت وہم نشینی کا معنی۔۔۔!


بلکہ اس آیت میں مراد ’’رفاقت وہم نشینی‘‘ہے، مثلاً اگر لوہے کا ایک ٹکڑا مقناطیس کے ساتھ رہے تو وہ مقناطیسی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ کچھ نئی صفات حاصل کر لیتا ہے۔ اسی طرح ایک مالی، خوشبودار پھولوں میں رہے تو وہ خود ان پھولوں میں رہنے کی وجہ سے خوشبو پاتا ہے، یہ ہے معنی ”رفاقت وہم نشینی“ کا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم دیا گیا ہے

 وہ یہ ہے کہ اس سے سوال کریں (صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْھِمْ) (ترجمہ: ’’راستہ اُن کا جن پر تو نے احسان کیا‘‘)۔ میرے عزیز دوستو! موضوع بہت مشکل ہے مگر میں کوشش کر رہا ہوں کہ آپ اسے آسانی سے سمجھ لیں اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں اور بار بار غور وفکر کریں

۔
کیا اسلام صرف اس لیے آیا تھا کہ ہم پر فرض نماز کی بے سمجھے، ادائیگی مقرر کرے؟ یا ہم کچھ مذہبی رسموں (مثلِ روزہ ونماز) کی ادائیگی کریں اور اپنے اندر کوئی تبدیلی نہ پائیں باوجود یہ کہ نماز پڑھ چکے ہیں؟ کیا اسلام اس لیے آیا تھا کہ رمضان کے مہینے میں ہم پر روزوں کی مشقت نافذ کرے، معاذ اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہمیں مشقت میں ڈال کر خوش ہوتا ہے؟


 اس نے قرآن میں واضح ارشاد فرما دیا :


(وجاھدوا في اللہِ حَقَّ جہادہ واجْتباكم وما جعلَ عليكم فِي الدِّينِ مِنْ حرجٍ ملۃ اَبيكمْ اِبْرَاھِیْمَ وَ سماكُمُ الْمسْلِمِينَ مِنْ قَبلُ وَفِيہ ذا لِيَكُونَ الرَّسولُ شَہيدا عَلَيكُمْ وَتَكُونُوا شُہدَآءَ عَلٰی النَّاسِ)۔

(ترجمہ: ’’اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا حق ہے جہاد کرنے کا اس نے تمہیں پسند کیا اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی تمہارے باپ ابراہیم کا دین اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اگلی کتابوں میں اور اس قرآن میں تاکہ رسول تمہارا نگہبان وگواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہی دو‘‘۔) (سورۂ حج: آیت: 78)

اللہ تعالیٰ نے اسلام اس لیے بھیجا تاکہ اس کے ماننے والے اللہ تعالیٰ کے وُجود کے گواہ بن سکیں اور اس روحانی نظم وضبط کے گواہ جو اس دنیا میں ہے۔ شہداء شہید،شاہد، مشاہدہ، شہود، مشہود جیسے تمام الفاظ ’’شَہِدَ‘‘ (بمعنی گواہی دینا) سے بنے ہیں۔ کوئی آدمی اس وقت تک (کسی چیز کا) گواہ نہیں ہو سکتا جب تک اس نے ”اُس چیز“ کا مشاہدہ نہ کیا ہو۔ کورٹ میں قاضی، گواہ سے پوچھتا ہے کہ تم جس امر کی گواہی دے رہے ہو کیا تم نے اسے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ہے یا یہ محض الزام ہے؟ اگر وہ گواہ کہے کہ میں نے اسے خود دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا ہے، پھر تو اس کی گواہی قابل سماعت ہوتی ورنہ نہیں

۔
پھر انسان ، کس کو اسلام کی صداقت کا ”گواہ“ تسلیم کرے گا؟ یقیناً اسے کہ جو صفاتِ باری تعالیٰ کے جلووں کا دیدار کر لینے کا دعویٰ کرے اگرچہ اس نے ذات باری تعالیٰ کا دیدار نہ کیا ہو، ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے افعال (صفات) کا گواہ ہے۔جب تک کوئی شخص اس ”مرتبہ“ کو نہ پہنچ جائے اس وقت تک اس نے اسلام کی اس شرط کو پورا نہیں کیا جس کے لیے اسلام آیا ہے یعنی (وَتَكُونُوا شُھدَآءَ عَلٰی النَّاسِ) (اور تم لوگوں پر گواہی دو)۔

فرائض کی ادائیگی کا مقصد۔۔۔!

ہمارا کام نماز اور ماہِ رمضان کے روزوں کو محض رسماً ادا کرنا نہیں، یقیناً یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرائض ہیں بلکہ ہمیں (لوگوں پر) گواہ بننے، ذاتی اور براہِ راست مشاہدۂ حق سبحانہ وتعالیٰ کے لیے اِن کو ادا کرنا ضروری ہےاور یہی وجہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہوئے ہیں۔

حضرت سیدنا جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور ایک مؤذن

آئیے تاریخ سے اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں، بغداد میں سلسلۂ قادریہ کے ایک بزرگ اور اللہ تعالی کے ایک بہت بڑے ولی سیدنا جنید رَحمۃُ اللہ عَلَیہِ وَقَدَّسَ اللہُ تَعَالیٰ سِرَّہٗ (910ء/297ھ) رہا کرتے تھے ایک دن آپ رحمۃ اللہ علیہ مسجد کے پاس سے گزر رہے تھے کہ آپ نے اَذان سُنی،

جب مؤذن نے ’’اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ‘‘ کہا، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جا کر مؤذن کو گردن سے پکڑا اور فرمایا: ’’تُو جھوٹا ہے‘‘، مؤذن کانپنے لگا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حضرت سیدنا جنید رحمۃ اللہ علیہ ایک عالمِ دین اور اللہ کے ولی ہیں، آپ نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اللہ کو دیکھا ہے تم یہ کیسے کہتے ہو کہ ’’میں گواہی دیتا ہوں‘‘ کیونکہ گواہی دینا ”ذاتی مشاہدہ“ پر ہوتا ہے، اور اگر تم نے مشاہدہ نہیں کیا تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم کہو ’’میں گواہی دیتا ہوں‘‘، آپ رحمۃ اللہ علیہ جس وقت مؤذن کے پاس تشریف لائے تو اس وقت ’’حال‘‘ (وجد کی حالت) میں تھے (لہٰذا آپ رحمۃ اللہ علیہ پر کوئی مؤاخذہ نہیں)۔ ایک دانا شخص نے، جو یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، مؤذن سے کہا: انہیں یہ جواب دو کہ میں یہ اعلان اس ذاتِ گرامی کی طرف سے کر رہا ہوں جس نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے، لہٰذا میں جھوٹا نہیں ہوں‘‘
۔
قرآن کریم کی اس آیت کو دوبارہ پڑھیں

:
(قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی يُحْبِبْكُمُ اللَّہُ)۔

(ترجمہ: ’’اے محبوب! تم فرما دو کہ لوگو! اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا‘‘۔)
(سورۂ آلِ عمران: آیت: 31)


محبوبانِ خدا کی ہم نشینی کی برکات


یہ تمام درجے، محبوب لوگوں کے ہیں جو حضراتِ اَنبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ السلام، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں، انسان میں کیا تبدیلی آتی ہے جب وہ (عورت یا مرد) اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں (دوستوں) میں سے ہو جاتا ہے؟

 یہ امر بہت اہم ہے، اسے ایک حدیث ِ قدسی میں بتایا گیا جسے صحاح ستہ ودیگر کتب حدیث میں محدثین نے روایت کیا کہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ((وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی أُحِبَّہُ فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ كُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِيْ يَسْمَعُ بِہِ وَبَصَرَہُ الَّذِيْ يُبْصِرُ بِہِ وَيَدَہُ الَّتِيْ يَبْطِشُ بِہَا وَرِجْلَہُ الَّتِيْ يَمْشِيْ بِہَا وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّہُ))

 یعنی: ”میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قُرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے دوست بنا لیتا ہوں، پس جب اسے دوست بنا لیتا ہوں تو اس کے کان (کی قدرت) بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اس کی آنکھ (کی طاقت) بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ (کی قوت)بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں (کی طاقت)بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں ضرور عطا فرماتا ہوں“۔(أخرجہ البخاري في صحيحہ في الرقاق).امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ زائد الفاظ روایت کیے: ((وَلِسَانَہُ الَّذِي يَنْطِقُ بِہِ، وَقَلْبَہُ الَّذِي يَعْقِلُ بِہِ)) یعنی: ”اور اس کی زبان (کی قوت) بن جاتا ہوں جس سے وہ بات کرتا ہے اور اس کا دل بن جاتا ہوں جس سے وہ سوچتا ہے“

۔
اللہ تعالیٰ کا بندے کے اعضاء (کی طاقت وقدرت )بننے کا معنی ۔۔۔!


ہم مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لا محدود اور غیر منقسم ہے وہ کسی میں حلول نہیں کرتا، بلکہ اُس کا ”آنکھ (کی طاقت) بن جانے“ سے مراد یہ ہےکہ پھر کوئی چیز کائنات میں اُس آنکھ سے پوشیدہ نہیں رہتی ، اُس کا ”کان (کی قدرت)بننے“ سے مراد یہ ہے کہ پھر کائنات میں کوئی آواز اس کان سے پوشیدہ نہیں رہتی، جب اللہ تعالیٰ ”پاؤں (کی طاقت) بن جائے“ تو پھر کائنات میں کوئی ایسی جگہ نہیں رہتی جہاں وہ ”پاؤں“ نہ جا سکیں،جب وہ ”زبان (کی قوت) بن جائے“ تو پھر وہ زبان اگر کہے کہ ایسا ایسا ہونے والا ہے تو وہ ضرور ہوتا ہے
۔
میرے عزیز دوستو! یاد رکھئے یہ ہے اسلام کا ”مقصد“ ، جو ہمارے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ نہ سمجھئے گا کہ اس میں کسی قسم کے ”شرک“ کا نام ونشان ہے کیونکہ انسان، انسان ہی رہتا ہے اور خدا، خدا، اللہ تعالیٰ کی ذات سے کچھ بھی کم نہیں ہوتا۔ (بلا تشبیہ وتمثیل)

 ایک مثال سے سمجھئے Convex lens (یعنی: محدّب عدسے/انعطافی شیشہ) میں نہ تو روشنی ہوتی ہے اور نہ ہی حرارت کہ وہ ایک بے جان اور تاریک چیز ہے۔ اس (Convex lens) کو سورج کے سامنے کریں تو ایک چھوٹا سا سورج ظاہر ہوگا، آپ اپنی ہتھیلی یا کاغذ اُس کے نیچے کریں تو وہ ہاتھ یا کاغذ کو جلانے لگے گا۔ یہ چھوٹا سورج جو ہتھیلی پر بنا، در اصل، اصلی سورج کی شبیہ ہے اپنی شکل وعمل میں چندھیانے والی چمک کہ جس پر ہم اپنی آنکھیں نہیں جما سکتے کہ یہ اِن کے لیے مضر ہیں، مگر اپنی حقیقت میں یہ ایسا نہیں ہے، یہ تو صرف ایک شبیہ ہے جو ہاتھ کی سطح پر بنی ہے۔

 ہم جانتے ہیں کہ سورج، روشنی اور حرارت رکھتا ہے، یہ چھوٹا سورج بھی، روشنی اور حرارت رکھتا ہے مگر خود سے وجود نہیں رکھتا(یعنی:قائم بالذات نہیں)۔ یہ حقیقی سورج کے رہنے تک رہتا ہے، جب تک حقیقی سورج ، Convex lens کو غذا (روشنی وحرارت) دیتا رہے یہ مصنوعی سورج رہے گا، اور اگر Convex lens کو ہٹا لیا جائے تو یہ بھی چھپ جائے گا۔
اسی طرح جب وہ Convex lens، جو یہاں (ہمارے بدن میں) ہے

-یعنی روحانی دل، اور یقیناً جسمانی دل بھی- اللہ تعالیٰ کی محبت اور ”لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ“ کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں، اس لینس کے ارتکاز اور عکس کی طاقت بڑھتی ہے، یہ آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ (کی بارگاہ) سے نور وتابانی لیتا ہے اور اسے (اپنے اندر)جذب کرتا ہے، جیسا کہ اس امر کے بارے میں کہا گیا کہ ”قَلْبُ المُؤْمِنِ عَرْشُ اللہِ“ یعنی: مؤمن کا دل، اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور اسے لازماً ایک متحرک عرش بنانا چاہیے

کہ یہ اسلام کا ”مقصد“ ہے۔ جب یہ صفات آہستہ آہستہ باقاعدہ طریقہ سے جذب ہو جائینگی جیسا کہ

 اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (وَأَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِكْرِي) (ترجمہ: ”اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ“۔) (سورۂ طہٰ: آیت 14

 اور فرماتا ہے: (فَاذْكُرُونِي اَذْكُرْكُمْ) (ترجمہ: ”تم میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کرونگا“۔) (سورۂ بقرہ: آیت 152)


اللہ تعالیٰ کی بندے سے محبت کی تجلی


محبت طرفین میں باہمی وایک دوسرے پر منحصر ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ہم سے شدید محبت کا نتیجہ ہے کہ اس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم (گناہگاروں) کو یہ بتایا کہ اے حبیب! میرے بندوں سے کہہ دو کہ جب وہ میری جانب ایک قدم بڑھتے ہیں تو میری رحمت ان کی طرف دس قدم بڑھ کر آتی ہے، یہ ”حقیقی محبت“ ہے اور وہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے۔ یقیناً ہم میں بہت سے اس کی محبت کے لائق نہیں ہیں، یہ ہمارا اپنا ”نقصانِ عظیم“ ہے۔ ہم نہ تو اُسے کوئی نقصان دے سکتے ہیں نہ ہی اُس کی عظمت وبزرگی میں کچھ کمی یا زیادتی کر سکتے ہیں، وہ بے نیاز ، بادشاہِ مطلق اور ہر چیز سے غنی ہے
۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس راستہ کو بیان فرمایا وہ یہ ہے ”تَخَلَّقُوا بِاخلاَقِ اللہِ“ یعنی: ”اللہ تعالیٰ کے اخلاق (صفات) اپناؤ“۔ یہ شرک نہیں بلکہ حقیقی توحید ہے جو اپنی صحیح معرفت کا تقاضا کرتی ہے یہ کام خلیفۃ اللہ کا ہے جیسا کہ Convex lens سورج خلیفہ کا ہے ۔ جب آدمی ”خلیفۃ اللہ“ بنتا ہے تو وہ اپنے مرتبۂ طاقت کو محسوس کرتا ہے علمِ نباتات میں ہر ”بیج“ اپنے سے نکلنے والے پودے پر مشتمل ہوتا ہے یعنی صلاحیت رکھتا ہے، اسی طرح انسان میں خلیفۃ اللہ ہونے کی صلاحیت ہے، ایک مرد یا عورت کو خلیفۃ اللہ بننے کے لیے اپنے آپ کو اسلامی ضابطۂ ہدایت کے تحت تعمیر کرنا پڑے گا
۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق میں اللہ تعالیٰ کے خلیفۂ اعظم ہیں

اسلام اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا خزانہ ہے ہم اس لا زوال خزانہ سے صرف اُس وقت فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جبکہ ہم محبوبِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں اُن سے شدید محبت کریں اور آپ علیہ السلام کے حقیقی اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے والے بن جائیں، ایک مسلمان حقیقی معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اتباع کرنے والا ہے

 اس کے سوا پھر کیا ہے؟

 اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے
:
(لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ)

(ترجمہ: ”بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے“۔) (سورۂ احزاب: آیت 21)


(آیت میں مذکور) ”اُسوہ یا نمونہ“ وہ چیز ہے جس کی پیروی کی جائے، اس جذبہ کے تحت کہ اس جیسا ہوا جائے،

 ایک نمونہ (Sample) کسی فیکٹری میں ایک بڑی پیداوار کے لیےدیا جاتا ہے تاکہ اس جیسی مزید پروڈکٹس تیار کی جا سکیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ایک عملی نمونہ ہے اور ایک مسلمان کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس عملی نمونہ کی طرح اپنے آپ کو بدلے۔ وہ کیا صفات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس عملی نمونہ میں رکھا ہے؟ آپ علیہ السلام سورج کو روک سکتے ہیں، چاند کو دو ٹکڑے کر سکتے ہیں، یا آپ علیہ السلام خلا کو حکم دیں تو وہ راستہ دے دیتی ہے کہ آپ علیہ السلام اپنے مالک عَزّوَجَلَّ کے حضور پہنچ جائیں۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ کامل خلیفۃ اللہ ہیں اور آپ علیہ السلام کی ذات اس چیز کو شامل ہے

 جسے قرآن کریم کہتا ہے:

(وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيعًا مِّنْہُ)

(ترجمہ: ”اور تمہارے لیے کام میں لگائے جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں“۔)

(سورۂ جاثیہ: آیت 13)

آپ علیہ السلام اس مہارت کے مجسم تھے اسی لیے خلیفۃ اللہ اور ایک مکمل عملی نمونہ ہیں ، ہر اس شخص کے لیے جو خلیفۃ اللہ بننا چاہتا ہے۔ مگر ہم مسلمان، ایک چھوٹے سے کیڑے کی طرح ہو گئے ہیں جو زیرِ زمین آبناؤں(نالیوں) میں (دنیا سے بے خبر) رینگتا ہے، نیز ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس طرح کی جہالت ولاپرواہی والی زندگی گزار کر، بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ یاد رکھیے! یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی ذمہ داری ہے کہ حقیقت کو سمجھیں

۔

غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ اور بغداد کا حاکم


یہ وہ چیز ہے جس کی تعلیم کے لیے اسلام آیا اور ہمارے اسلاف کرام نے اس کو مانا اور اس پر عمل کیا، جب ہم اپنے اسلاف کے بارے میں سُنتے ہیں جیسے سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں، تو ہم حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بغداد کے حاکم نے، جو اپنی رعایا کے ساتھ نہ تو عدل وانصاف قائم کر رہا تھا اور نہ ہی سلطنت کے اُمور سہی طور پر چلا رہا تھا ، جب حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شہرت کا چرچہ سُنا اور دیکھا کہ آپ لوگوں میں ایک بلند مقام حاصل کر چکے ہیں

 تو وہ، حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دو تھیلیاں اشرفیوں کی لے کر حاضر ہوا اور اُس نے وہ تھیلیاں حضرت کے سامنے رکھ دیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اس میں کیا ہے؟ حاکم نے عرض کی: یہ ایک حقیر سا تحفہ ہے، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ کیوں لائے ہوں؟ اُس نے عرض کی: حضور! میں یہ آپ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے لایا ہوں کیونکہ آپ روحانی بادشاہ ہیں اور میں ایک (دنیا کا) عارضی بادشاہ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: اگر تم یہ مانتے ہو کہ میں ایک روحانی بادشاہ ہوں تو پھر تمہیں مادی طریقے کے بجائے روحانی طریقے سے خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہیے۔ یہ ہیں خلیفۃ اللہ جو کسی بھی دنیاوی حاکم یا بادشاہ وغیرہ کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور آوازِ حق بلند کر دیتے تھے۔ بہر حال حاکم نے اصرار کیا کہ غوث الاعظم شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ اس کا تحفہ قبول کر لیں جبکہ حضرت جانتے تھے کہ یہ حاکم حقیقت سے لا علم ہے۔

 شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں تھیلیوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور انہیں دبایا تو ان تھیلیوں سے خون بہنے لگا۔ حاکم تھرتھرانے لگا، تو حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت سے کس قدر غافل ہو کہ اپنی رعایا کا خون چوستے ہو اور وہ خون اس کے پاس لاتے ہو جسے تم اللہ کا بندہ سمجھتے ہو، حاکم کپکپاتا رہا جب اس کے حواس بحال ہوئے تو عرض کی: حضور میں (توبہ کرتا ہوں اور) آپ کے حکم کے مطابق عمل کرونگا، یہ ہے خلیفۃ اللہ۔۔۔!

۔
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور جادوگر


سیدنا خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے اذن ملا کہ اجمیر (بھارت)میں جا کر اسلام کی تبلیغ کریں۔ وہاں کے ہندو حاکم نے اپنے سب سے بڑے ہندو جوگی اجے پال کو بلایا کہ وہ خواجہ صاحب سے ان کی اجمیر آمد پر آمنے سامنے ایک مقابلہ کرے۔ اس جوگی نے حضرت خواجہ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ کو مقابلہ کے للکارا اور کہا: میں ہوا میں اُڑ سکتا ہوں، اب دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے کون دور تک اُڑ سکتا ہے“۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مسکرا کر فرمایا: اچھا واقعی تم اُڑ سکتے ہو ، اُڑو ، کہا جاتا ہے جوگی اس کے بعد ہوا میں اُڑ گیا، حضرت سیدنا معین الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کھڑانوں (لکڑی کی چپلوں) کو اس کے پیچھے اُڑنے کا حکم دیا کہ اس کے سر پر ماریں اور اسے نیچے لائیں، یہ واقعہ حقیقتاً ہوا تھا۔ ہمیں یہ خیال آسکتا ہے کہ یہ ماضی کی کہانیاں ہیں اس کا کیا ثبوت ہے، اگر یہ تاریخ کے ثابت شدہ حقائق، من گھڑت ہیں تو پوری تاریخ من گھڑت ہے لہٰذا نہ تو اس کی تعلیم دیں اور نہ اسے سیکھیں

۔
مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت


آپ کو مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بتاتا ہوں، جو ایک بہت بڑے عالمِ دین، مقرر اور عظیم مبلغ تھے۔ میں حضرت کے ساتھ 1949ء تا 1950ء کے دوران عالمی دورے پر تھا، مشرقِ وسطیٰ ، یورپ اور شمالی وجنوبی امریکہ کا دورہ کرنے کے بعد ہم فلپائن کے مشہور شہر قتابتو (Qutabatu) گئے،فلپائن ایک ایسا ملک ہے جہاں طوفانی بارش کثرت سے ہوتی ہے، ایک شام ایک کھلے میدان میں ایک محفل کا انعقاد کیا جانا تھا، جسے مغرب کے بعد شروع ہونا تھا، ایسی محفل جس میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے لیے شرکت کی اجازت تھی۔ ظہر کے بعد کالے بادل چھا گئے اور عصر تک حالات ایک بڑے طوفان کے آثار کے ساتھ خراب ہو گئے۔ ہم ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے،

 عصر کے بعد میں اپنے مرشد مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کچھ آرام فرما چکے تھے، ہم شام کی چائے پی رہے تھے اور وہاں حضرت کے پاس دیگر مقامی لوگ بھی آئے ہوئے تھے، میں نے اپنے مرشد سے کالے بادلوں، بجلی کی کڑک اور آنے والے طوفان کے بارے میں عرض کی، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور فرمایا:”میرے پیارے بیٹے تم کیوں پریشان ہو؟ ہم یہاں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے آئے ہیں، اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے، زمین اس کی ملکیت ہے اور جو لوگ آئیں گے وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اگر وہ چاہتا ہے کہ میں اس کا پیغام پہنچاؤں، تو یہ ہو گا“۔

مغرب کے بعد ہم میدان کی طرف گئے جہاں ایک بہت بڑا مجمع انتظار کر رہا تھا، جو وہاں تقریباً تین بجے کے بعد سے جمع ہونا شروع ہوا تھا، صوبہ کا گورنر جو کہ مسلمان اور صدرِمحفل تھا، وہ وہاں موجود تھا ، ایک رومن کیتھولک مہمانِ خصوصی اور دیگر مہمان بھی وہاں تھے۔ محترم المقام مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی گفتگو انگریزی زبان میں کرنا شروع کی اور ساتھ ہی ایک مترجم نے مقامی زبان میں اس کا ترجمہ کر نا شروع کیا اور میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک جانب بیٹھا تھا۔ بارش کی بڑی بڑی بوندیں گرنا شروع ہوئیں، مجمع نے بے چین ہو کر اٹھنا شروع کیا تاکہ وہ اپنے گھروں کو بھاگ سکیں، اتنا بڑا مجمع جب ایک ساتھ اٹھے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے، اس وقت تک جبکہ یہ معاملہ ہوا، مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ نے صرف عربی میں خطبۂ مسنونہ اور اس کے بعد ایک دو جملہ ہی ادا فرمائے تھے، میری حیرت کی انتہا تھی

 کیونکہ اس وقت تک میں اُس راز کو نہیں جانتا تھا جو مولانا جانتے تھے،مولانا نے فرمایا: ”میرے عزیز دوستو! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بس اب بارش رُکنے والی ہے، اور جب تک یہ محفل جاری ہے اس وقت تک بارش نہیں ہو گی، تاہم محفل ختم ہونے کے بعد آپ لوگوں کے پاس ”دس منٹ“ ہوں گے کہ آپ اپنے گھروں کو جاسکیں، پھر ایک بہت بڑا طوفان آئے گا، براہِ کرم جب محفل ختم ہوجائے تو مجھ سے مصافحہ کرنے کے لیے آگے نہ آیئے گا کیونکہ اس وقت میں نے ہوٹل واپس جانا ہے“، جب آپ نے یہ اعلان فرمایا تو بارش رُک گئی، اس کے بعد ایک قطرہ بھی بارش کا نہیں گرا ، میں اور وہ دیگر لوگ جو آج بھی زندہ ہیں ، اس کے گواہ ہیں۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے انتہائی مطمئن انداز میں، ایک بہت ہی عمدہ خطاب فرمایا، میں پریشان تھا کہ مولانا نے یہ کیسا جرأتمندانہ اعلان کر دیا ہے گویا کہ میرے سُسر کائنات میں تصرف کر سکتے ہیں اور میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ آیا مولانا بھی جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا اعلان کیا ہے اس دوران گرج چمک ہوتی رہی، اور مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک گفتگو کی،

 اس دوران مجمع آرام سے بیٹھا رہا، میں یہ بھی سمجھا تھا کہ مولانا اس اعلان کے بعد گفتگو کچھ کم کریں مگر مولانا نے طویل گفتگو کی۔ پھر دیگر کے خطاب اور صدرِ محفل کے اظہارِ تشکر کے بعد محفل ختم ہوئی۔ لوگوں نے منچ (اسٹیج) کی طرف بڑھنا شروع کیا تاکہ وہ مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ سے مصافحہ کرسکیں، تو مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے دوبارہ فرمایا: ”میرے عزیز دوستو! پہلے تو آپ لوگ یہاں سے بھاگ رہے تھے اور کیا آپ نہیں دیکھتے کہ آسمان میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا میں نے آپ کو آگاہ نہیں کیا تھا، خدارا! مہربانی فرمائیں، آپ کے پاس گھروں کو جانے کے لیے ”دس منٹ“ ہیں اور میں بھی اپنے ہوٹل جا رہا ہوں“
۔
پورے دس منٹ بعد شدید طوفان آیا اور دوسری صبح کو پانی قتابتو کی سڑکوں پر تقریباً چھ سے سات فٹ اونچا کھڑا تھا۔ اس کرامت کو دیکھ کر ہزاروں کیتھولک عیسائی، مسلمان ہوئے۔ یہ 1950ء؁ میں ہوا جس کے گواہ آج بھی زندہ ہیں۔ یہ ہے خلیفۃ اللہ ۔۔۔! اور یہ ہے اسلام کا مقصد۔۔۔!اسلام کا مقصد اور کام یہ نہیں ہے کہ (حقائق کو) اندھیرے میں ٹٹولا جائے، بلکہ اسلام کا مقصد اور کام یہ ہے، جس طرح ہمیں قرآن کریم میں بتایا گیا ہے

 کہ: (اَللہُ وَلِیُّ الَّذِینَ اٰمَنُوا لا یُخرِجُہُم مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلٰی النُّورِ)

(ترجمہ: ”اللہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے“۔)
(سورۂ بقرہ: آیت 257)


.اولیائے کرام کا بعد وفات دنیاوی اُمور میں تصرف کرنا

یعنی وہ انہیں اندھیرے میں نہیں دھکیلتا بلکہ انہیں اُس روشنی کی طرف لاتا ہے جہاں وہ ہر حقیقت کو کما حقّہ دیکھ سکتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہاں اس ملک میں کچھ لوگ غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ (1166-1077ء/ 561-470 ھ) کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں، یقیناً وہ ایسا نِری جہالت کی وجہ سے کرتے ہیں، اسلام کے عظیم مفکر شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اب تک ”اللہ تعالیٰ کے عطا سے“ اس دنیا کے اُمور میں اس طرح تصرف فرماتے ہیں جیسے کہ وہ زندگی میں فرماتے تھے، جب مقصد یہ ہے کہ خلیفۃ اللہ ہونے کے لیے، اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا رنگ چڑھائیں، تو پھر”تصرف“ فطری عمل ہے۔


سائنسدان کا تصرف کرنا

یہ ”تصرف“ کس طرح ہوتا ہے۔۔۔؟ ایک سائنسدان بھی تصرف کرتا ہے جب وہ ہوائی جہاز، راکٹ یا مائیکرو فون وغیرہ بناتا ہے ، تو وہ ایسی چیز ایجاد کرتا ہے جو وہاں پہلے نہیں تھی۔ یقیناً یہ ایجاد، ان خصوصیات کی وجہ سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اُن کے مادوں میں رکھا ہے، نیز اُس دماغ کی وجہ سے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔مگر یہ خلیفۃ اللہ، ”ایک خالق“ کی طرح کام کرتا ہے، پریشان نہ ہوں، قرآن پڑھیں کہ قرآن کریم کہتا ہے

: (فَتَبٰرَکَ اللہُ اَحسَنُ الخٰلِقِینَ)۔

(ترجمہ: ”تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا“۔)

 (سورۂ مؤمنون: آیت 14)


تصرف کی تعریف اور اس کے درجات


صرف اللہ تعالیٰ ہی ایک ”حقیقی خالق “ ہے جو پیدا کرتا ہے یعنی جس نے چیزوں کو عدم سے تخلیق کیا، انسان کا کام، ثانوی حیثیت سے ایک طرح کا خالق ہونا ہے۔ انسان نے یقیناً یہ مذکورہ چیزیں، دماغ اور اُن مادوں کی مدد سے بنائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے۔ جب انسان دنیا میں بھیجا گیا تو پکی سڑکیں، پل اور دیگر نو ایجاد کردہ چیزیں نہ تھیں، انسان نے بطور خلیفۃ اللہ یہ سڑکیں، عمارات اور پُل تعمیر کیے، اور بغیر ”تصرف“ کے یہ کام کرنا ممکن نہیں کیونکہ کسی چیز کی شکل وعمل کو تبدیل کرنا ”تصرف“ کہلاتا ہے۔یہ تصرف کم درجہ کا سائنس میں جبکہ اعلیٰ درجہ کا روحانیت میں ممکن ہے ۔ جو لوگ خلیفۃ اللہ کی خصوصیات، روحانی اور اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندوں کے طور پر حاصل کر لیتے ہیں،وہ اللہ تعالیٰ کی محبت پھیلانے والے اور ایک ایسا آئینہ بن جاتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس دکھائی دیتا ہے، پھر یہ لوگ سائنسدانوں سے بڑھ کر حیرت انگیز کام کر سکتے ہیں

۔
ڈاکٹر محمد اقبال (1938-1873ء /1357-1290ھ) نے کہا ہے
:
نگاہِ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

اگر ایک شخص حقیقی معنوں میں ”مؤمن“ ہے تو وہ تصویر نہیں بلکہ اُس ذات کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے۔ جیسے

 اقبال نےکہا:

کوئی بھی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں


غزوۂ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ


غزوۂ بدر میں، جبکہ کفار کی تعداد ایک ہزار تھی اور انکے پاس قوت زیادہ تھی، اور مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تقریباً تین سو تیرہ تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مُٹھی مٹی اٹھائی اور اُن کی طرف پھینکی، جنگ اس کے ساتھ ہی لڑی گئی جیسا کہ

 قرآن کریم کہتا ہے: (وَمَا رَمَیتَ اِذ رَمَیتَ وَلٰکِنَّ اللہَ رَمیٰ) (ترجمہ: ”اور اے محبوب! وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی“۔) (سورۂ انفال: آیت 17)

 کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس پھینکے کی نسبت اپنی طرف فرمائی
۔
میرے دوستو! میں نے جو کچھ بھی بیان کیا یہ وہ ہے جسے میں نے قرآنِ کریم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور تاریخِ اسلام کو پڑھ کر سمجھا ہے، جو کچھ بھی کہا گیا اس کا تجربہ کریں، اور کوشش کریں کہ زندگی اور وقت بے کار کاموں میں خرچ نہ ہوں اور نہ اس کام کو کل تک ملتوی کر یں

۔ ابھی عہد کریں کہ آپ پوری کوشش کریں گےکہ اسلام جس عظمت کو دینے کے لیے آیا ہے وہ حاصل کریں گے،

 اور وہ یہ ہے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ط غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْہِمْ وَلَا الضَّآلِّينَ (7)) آمین۔



خطاب: حضرت مولانا ڈاکٹر محمد فضل الرحمن انصاری رحمۃ اللہ علیہ
ترجمہ: مولانا حامد علی علیمی
(لیکچرار جامعہ علیمیہ، ریسرچ اسکالر)