Friday, February 25, 2011

ہار جیت کا اصل دن

انسان کو اس دنیا میں عقل اور ارادہ و اختیار کی قوت اس لیے دی گئی ہے تاکہ اس کی آزمائش کی

جائے۔ ارشادِ بار تعالیٰ ہے

’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘

( الملک ٢:٦٧)

اُس کے سامنے زندگی گزارنے کے دو راستے ہیں۔

ایک اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری

اور دوسرا نافرمانی کا راستہ ہے۔

اس امتحان میں صراطِ مستقیم کی راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔

جن میں سے تین اہم ہیں

۱۔
ہر انسان کو عقل و شعور سے نواز اور قرآن حکیم کا یہ دعویٰ ہے کہ ہر انسان کے شعور میں یہ حقیقت اچھی

طرح بٹھا دی گئی ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں بلکہ اس کا پیدا کرنے والا، پالنے والا اور اس کا انتظام چلانے والا موجود ہے۔ اسی لیے

انسان ہمیشہ توحید کے سوال سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ بڑے سے بڑا ملحد بھی کسی نہ کسی موقع پر اپنے دل میں پروردگار کے وجود کی

گواہی ضرور دیتا ہے۔ اسی طرح بڑے سے بڑا مشرک بھی بسا اوقات یہ سمجھ لیتا ہے کہ مسبب الاسباب صرف ایک ہی ذات ہے باقی کسی کی

کوئی حیثیت نہیں۔ پھر اس کے ساتھ اُس کے اردگرد بے شمار ایسی نشانیاں پھیلا دی گئی ہیں جن پر معمولی سا غور و فکر کر کے بھی وہ اس

نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ یہ عظیم کارخانہ خود بخود وجود میں نہیں آسکتا۔

۲۔

دوسری حیرت انگیز چیز ہر انسان کے قلب میں موجود ہے۔ جب بھی انسان غلط کام کرتا ہے تو اس کے قلب کے

اندر سے آواز اسی ٹوکتی ہے کہ تم نے یہ اچھا نہیں کیا اور انسان کو ندامت محسوس ہوتی ہے۔ اسے ہم ’ضمیر‘ کہتے ہیں اور قرآن

اسے ’نفسِ لوامہ‘

کہتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ اس لیے انسان کو دیا گیا ہے تاکہ وہ اچھے اور برے میں فرق محسوس کر سکے۔

۳۔
انبیا اور ان کے ذریعے کتب بھیجیں۔ ان میں سے آخری کتاب قرآن حکیم زندہ معجزہ اپنی اصل شکل میں قیامت تک

راہنمائی کے لیے موجود ہے۔

اس دنیا میں صحت بیماری، خوشحالی، غربت تمام چیزیں صرف اور صرف امتحان کے لیے ہیں۔ ہر انسان کو مختلف حالات میں ڈال کر اسے

آزمایا جا رہا ہے۔ لیکن ایک دن آئے گا جب اس امتحان کا وقت ختم ہو جائے گا۔ اس دن زمین اور اس پوری کائنات کے قوانین بدل دیے جائیں

گے۔ وہی دن قیامت کا دن ہو گا۔ اس کے بعد ہر انسان سے حساب کتاب ہو گا۔ اگر وہ دنیا میں شکر گزار بندہ بن کر رہا ہو گا تو اسے جنت کی

صورت میں ابدی انعامات ملیں گے اور اگر اس نے بغاوت کی زندگی بسر کی ہو گی تو اسے سزا دی جائے گی اور جہنم کی شکل میں برا انجام

اس کا منتظر ہو گا۔

موجودہ دنیا کی چیزوں کو جو لوگ ذاتی چیزیں سمجھ کر اس میں بے روک ٹوک تصرف کر رہے ہیں ان کا حال آخرت میں وہی ہو گا جو

کسی بنک کے اُس اکائونٹنٹ کا ہوتا ہے جو بنک کی الماری میں بھرے ہوئے نوٹوں کو اپنی ذاتی چیز سمجھ لے۔

قیامت کے عقلی دلائل


اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز جوڑوں کی شکل میں بنائی ہے لیکن یہ ایک ہی حقیقت کے دو اجزا ہوتے ہیں اور

دونوں مل کر ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر ایک حصہ میں کوئی کمی یا خلا ہوتا ہے تو دوسرے حصے سے پُر ہو جاتا ہے۔ مثلاً مرد

و عورت، پیاس پانی وغیرہ۔ اگر پیاس نہ ہوتی تو پانی کا وجود بے معنی تھا لیکن اگر پیاس موجود ہے تو اسے محسوس کرنے والا ہر عاقل

پکار اٹھے گا کہ پانی کا وجود بھی ہونا چاہیے۔ یہی معاملہ زندگی کے ان دو اجزا دنیا اور آخرت کا ہے۔ یہ دنیا پکار پکار کر ہمیں متوجہ کر

رہی ہے کہ یہ نامکمل ہے۔ اس دنیا میں انسان کی زندگی پر غور کریں۔ انسان مرنا نہیں چاہتا، ابدی زندگی اس کا سب سے بڑا خواب ہے۔ مگر

موت اس دنیا کی سب سے بڑی اٹل حقیقت ہے۔ گویا پیاس تو موجود ہے مگر پانی نہیں۔


اس دنیا میں انسان سب سے بڑھ کر ظلم سے نفرت کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ظالم کو اس کے کیے کی پوری

سزا ملے۔ یہاں دولت و قوت کے نشے میں فرعون اور ہٹلر جیسے حکمران ہزاروں لاکھوں انسانوں پر ہی ظلم کا باعث نہیں بنتے بلکہ ان کے

اثرات ان کی نسلوں تک جا پہنچتے ہیں۔ مگر یہ بھی اس دنیا کا عجیب سلسلہ ہے کہ اوّل تو بڑے مجرم گرفت میں آتے ہی نہیں اور اگر آ بھی

جائیں تو ان کو جرم کی مناسبت سے سزا ہی نہیں دی جا سکتی۔ گویا اس دنیا کی زندگی کا ہر معاملہ پکار پکار کر یہ اعلان کر رہا ہے کہ یہ

تمام اور ناقص ہے اس کا ایک ایسا جوڑا ہونا چاہیے جہاں ابدی زندگی ہو۔ جہاں ظلم کا پورا پورا بدلہ دیا جا سکے۔ چنانچہ قرآن کریم ہمیں

بتاتا ہے کہ جس طرح ہر چیز جوڑا جوڑا ہے اسی طرح اس دنیا کا جوڑ آخرت ہے گویا زندگی کے دو رُخ ہیں ایک عارضی اور ایک ابدی۔

عارضی زندگی کی ساری تنمائیں ابدی زندگی میں جا کر پوری ہو جاتی ہیں۔


قیامت کا آنا خدا کی صفت رحمت کا لازمی تقاضہ ہے اگر قیامت نہ آئے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کائنات کا خالق

رحمٰن و رحیم نہیں

ہے۔ اِس کے نزدیک نعوذ باللہ عدل و ظلم، نیکی بدی، خیرو شر دونوں یکساں ہیں بلکہ مجرم نسبتاً اچھے ہیں جن کو من مانیاں کرنے کے

لیے اس نے بالکل آزاد چھوڑ رکھا ہے۔ یہ باتیں چونکہ بالکل غلط ہیں۔ رحمٰن و رحیم خدا کی شان کے بالکل منافی ہے کہ وہ کوئی بے مقصد

کام کرے اس لیے لازم ہے وہ ایک ایسا دن لائے جس میں اپنے نیک بندوں کو وہ لازوال رحمتوں سے نوازے اور بدکار اپنے برے انجام کو

پہنچیں۔


جس نے انسان کے لیے زندگی اور پرورش کا یہ بہترین نظام قائم قائم کیا ہے کیا محض اس لیے کہ وہ کھائے پئے اور ایک

دن ختم ہو جائے؟ کیا ان صلاحیتوں سے متعلق اس پر کوئی ذمہ داری نہیں عائد ہوتی؟ کیا جس نے اس قدر اہتمام سے اس کو وجود بخشا، اس

کا کوئی حق اس پر قائم نہیں ہوتا۔ لازم ہے کہ ایک دن اس حق کے بارے میں اس سے پوچھ ہو جنھوں نے اس کو پہچانا ہو وہ اس کا انعام

پائیں اور جنھوں نے اس کی ناقدری کی ہو وہ سزا بھگتیں۔


ضمیر کی صورت میں گویا قیامت کی عدالت کا عکس ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ اگر قیامت نہ ہو تو پھر ضمیر کا

وجود بے معنی تھا۔ یہی ضمیر انسان کو ہر وقت یہ احساس دلاتا رہتا ہے کہ نیکی و بدی برابر نہیں ہیں اس لیے نتیجے کے اعتبار سے بھی

انھیں برابر نہیں ہونا چاہیے۔


ٹی وی پر کوئی فلم چل رہی ہو اور اچانک سلسلہ منقطع کر کے یہ کہہ دیا جائے کہ فلم ختم ہو گئی تو دیکھنے والوں میں

سے کوئی شخص اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ کہانی کے انجام پذیر ہونے سے پہلے فلم کیوں کر ختم ہو گئی۔ اس لیے کہ مصنف سے یہ

سب توقع رکھتے ہیں کہ وہ کہانی کو اختتام تک پہنچائے اور کہانی کے کرداروں کا حساب بے باق کر دے۔ تو کیا کوئی ذی عقل یہ باور کر

سکتا ہے کہ زندگی کی داستان جس کا خالق اللہ ہے موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے جبکہ ابھی کہانی مکمل نہیں ہوئی اور کسی کا حساب نہیں

چکایا گیا۔


کسی دفتر میں ایک محنتی اور ایک نکمے کارکن کو یکساں ترقی دی جائے تو ہم اس بے انصافی پر چیخ اٹھتے

ہیں۔ تو کیا جس نے انصاف کی یہ خواہش ہمارے اندر ھکی ہے وہ خود ہی انصاف نہ کرے گا؟ یہ ناممکن ہے۔


قیامت کے انکار کی دوسری وجہ اللہ کی قدرتوں کے بارے میں بدگمانی ہے کہ یہ اتنا عظیم الشان واقعہ کیسے ہو سکتا ہے۔

قرآن میں عموماً قیامت کے ذکر کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ انسان کو اس دنیا کی چیزوں میں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ اپنے اردگرد

دیکھے کہ کیسے مردہ زمین بے رنگ پانی کے آسمان سے برسنے پر لہلہاتے ہوئے کھیتوں، خوشبو دار پھولوں، لذیذ پھلوں اور آسمان سے

باتیں کرتے درختوں سے بھر جاتی ہے۔ کیسے اللہ نے مویشیوں کے پیٹ میں سے گوبر اور خون کے بیچ میں سے خالص دوھ اس کے لیے

تخلیق کیا ہے۔ کیسے طرح طرح کے ذائقوں کے ساتھ کیسی کیسی نفیس پیکنگ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے پھل، سبزیاں، اناج تخلیق کیے

ہیں۔ پھر کیسے خود اس کی ذات ایک عظیم معجزہ ہے۔ دو قطروں سے کیسے نو ماہ ماں کے رحم میں اس کا بننا، گوناگوں صلاحیتوں کے

ساتھ اس دنیا میں آنا پھر مرد و عورت کی شکل میں ایک دوسرے کے لیے بہترین ساتھی کا وجود میں آنا ایک عظیم نشانی ہے۔

کسی جادوگر کی چھڑی سے ایک پتھر کوئی آواز نکالے تو اس کو دیکھ کر لوگ حیران رہ جائیں گے مگر خدا بے شمار انسانوں کی دو قطروں

سے ابتدا کر کے کیسی حسین شکل میں کھڑا کر دیتا ہے اور وہ نہایت بامعنی الفاظ میں بول رہے ہیں مگر اس کو دیکھ کر کسی پر کوئی حیرت

طاری نہیں ہوتی۔ خدا کی ہر تخلیق نہایت عجیب ہے مگر چونکہ انسان ان کو برابر دیکھتا رہتا ہے لہٰذا ان کا عجوبہ پن اس کی نظر میں ختم

ہو جاتا ہے۔ انھیں چیزوں میں سے کسی کو بھی اچانک ایک روز آپ پوری توجہ سے دیکھیں تو آپ ایسی حیرت میں ڈوبیں گے کہ خود ہی

چلا اُٹھیں گے کہ بے شک دوبارہ پیدا کرنا اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ سب سے ضروری چیز سبق لینے کا مزاج ہے جس شخص کے

اندر یہ مزاج پیدا ہو جائے اس کے لیے دنیا ایک زندہ کتاب بن جائے گی جس پر غور و فکر روزانہ اس کے ایمان میں اضافہ، خالق سے قریب

کرنے اور یقین کی بڑھوتری کا باعث بنے گا۔

قیامت کے منکر کسی دلیل سے انکار نہیں کر سکتے وہ صرف اس لیے نہیں ماننا چاہتے کہ اس طرح انھیں اپنی زندگی پر کچھ پابندیاں لگانا

پڑتی ہیں جو انھیں گوارہ نہیں چاہے ابدی جہنم میں جلنے کا خطرہ ہی کیوں نہ مول لینا پڑے۔ حالانکہ مثبت سوچیئے تو ہم ایک لافانی عیش

بھری زندگی اس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔

بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اگر اسے کہا جائے کہ تیری اس تنگ اور محدود دنیا سے باہر ایک بڑی وسیع

اور خوبصورت دنیا آباد ہے تو وہ کہے گا یہ ناممکن ہے۔ لازم ہے کہ آپ اس کے اس جواب پر ہنس کر کہیں گے کہ یہ ابھی کم عقل ہے، اس

لیے کہ اس کی محدود عقل لامحدود کائنات کا تصور تک نہیں کر سکتی۔ اس دنیا میں آنے پر اسے خود محسوس ہوتا ہے کہ واقعی وہ اس سے

پہلے قید و بند کی زندگی گزار رہا تھا جس کا اس دنیا سے کوئی مقابلہ نہیں لیکن جب اسے بتلایا جاتا ہے کہ ایک دن یہ جسم بھی فنا ہو کر

مٹی میں مل جائے گا اس کے بعد اخروی زندگی پیش آئے گی۔ اُس دنیا کی نعمتوں کے مقابلے میں یہ دنیا بالکل تنگ و تاریک اور قید و بند

سے بھرپور ہے۔ تو وہ پھر اپنی کم عقلی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ باتیں ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔

لوگ دنیا کو ہار جیت کی جگہ سمجھتے ہیں حالانکہ دنیا کی ہار جیت بالکل بے معنی ہے، ہار جیت کا اصل مقام آخرت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’جس دن تم سب کو ایک جمع ہونے کے دن جمع کرے گا یہی دن ہے ہار جیت کا۔‘‘

( التغابن ٩:٦٤ )

جو مرا اس کی قیامت آگئی۔ قیامت کے دن اس فاصلہ کا کسی کو احساس نہ ہو گا۔ یعنی ہر شخص کی قیامت میں بس

اتنے ہی دن ہیں جس قدر اس کی زندگی باقی ہے۔ ہو سکتا ہے کسی رات آپ سوئیں یا راہ چلتے ہوئے کوئی حادثہ ہو اور آنکھ حشر کی صبح

کھلے۔

وہ دن جس کی ہولناکی سے تمام انبیا علیہ السلام خبردار کرنے آئے۔ اس دن انسانوں کے انفرادی اعمال کا ہی کا نہیں بلکہ ان کے ذریعے جو

خیر و شر جہاں جہاں پھیلا اس سب کا انھیں بدلہ ملے گا۔ اسی لیے ایک صحابی فرماتے تھے ’بدبخت ہے وہ جس کا گناہ اس کے ساتھ نہ مرے۔


قیامت کی ہولناکی قرآن میں

’’جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس مہینے کی

حاملہ اونٹیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کر دیے جائیں گے اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں

گے اور جب جانیں جسموں سے جوڑ دی جائیں گی اور جب زندہ گاڑھی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی اور

جب اعمال نامے کھولے جائیں گے اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جب جہنم دہکائی جائے گی اور جب جنت قریب لے آئی جائے

گی اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔‘‘

( التکویر 14-1:81 )

’’اور جب صور پھونکا جائے گا سو تمام آسمان اور زمین والوں کے ہوش اُڑ جائیں گے مگر جس کو خدا چاہے پھر دوسری

دفعہ ﴿صور﴾ پھونکا جائے گا تو فوراً سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی اور ﴿سب کا﴾

اعمال نامہ ﴿ہر ایک کے سامنے﴾ رکھ دیا جائے گا۔ اور پیغمبر اور گواہ حاضر کیے جائیں گے اور سب میں ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیا جائے گا

اور ان پر ذرا ظلم نہ ہو گا اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ سب کے کاموں کو خوب جانتا ہے۔‘‘

( الزمر 70- 68:39 )

’’مجرم تمنا کرے گا کہ کاش اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو اور اپنے کنبے کو ﴿جو وقت

پڑنے پر﴾ اس کو پناہ دیا کرتا تھا اور تمام ﴿آدمی﴾ جو زمین میں ہیں ﴿سب کو﴾ فدیے میں دے دے، پھر، ﴿یہ فدیہ﴾ اسے ﴿عذاب سے﴾ نجات دلا

دے۔‘‘

(المعارج 14-11:70)

’’اس دن ظالم انسان ﴿مارے افسوس کے﴾ اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا ﴿اور﴾ کہے گا: ’کاش میں ﴿بھی﴾ رسول صلی اللہ علیہ

وسلم کے ساتھ ﴿دین کی﴾ راہ پکڑ لیتا۔ ہائے میری کم بختی کاش میں نے فلاں ﴿شخص﴾ کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس ﴿کم بخت﴾ نے میرے پاس

آئی ہوئی نصیحت سے مجھے بہکا دیا۔‘ اور شیطان ﴿کا تو قاعدہ ہے کہ وقت پڑے تو﴾ انسان کو چھوڑ کر الگ ہو جاتا ہے اور ﴿اس وقت﴾

رسول کہے گا۔ ’’اے میرے رب میری ﴿اس﴾ قوم نے قرآن کو نظر انداز کر رکھا تھا۔‘‘

( الفرقان 30 27:25)

لوگو﴾ ہم نے تمھیں قیامت ﴿کے عذاب﴾ سے خبردار کر دیا ہے جو قریب ہے۔ اس دن آدمی اس ﴿کمائی﴾ کو دیکھ لے گا جو اس

کے ہاتھوں نے

زاد آخرت بنا کر

آگے بھیجی ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی ہوتا
۔‘‘
( النبا 40:78 )

قیامت کی ہولناکی احادیث میں

’’اگر کوئی شخص اپنی پیدائش کے دن سے لے کر موت کے دن تک مسلسل اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے سجدہ میں پڑا

رہے تو قیامت کے دن اپنے اس عمل کو بھی وہ حقیر سمجھے گا۔‘‘ ﴿مسند احمد﴾ یعنی قیامت کی ہولناکی دیکھنے پر نیک ترین انسان بھی

سمجھے گا کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔

’’اگر تم وہ باتیں جانتے ہو جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ اور اللہ سے نالہ و فریاد اور

گریہ و زاری کرتے ہوئے بیابانوں اور جنگلوں کی طرف نکل جاتے۔‘‘ ﴿مسند احمد﴾ اس حدیث کو بیان کرنے والے صحابی فرماتے ہیں: ’’کاش

میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔‘‘ یعنی حساب نہ دینا ہوتا۔

’’قیامت کے دن انسان کے قدم اس وقت تک ﴿اپنی جگہ سے﴾ ہٹ نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میں

سوال نہ کر لیا جائے۔

:1
عمر کن کاموں میں گزاری؟

:2
جوانی کی توانائیاں کن کاموں میں لگائیں؟

:3
مال کہاں سے کمایا؟

:4
حاصل شدہ مال کہاں اور کیسے خرچ کیا؟

:5
جو علم اسے حاصل ہوا اس پر اس نے کس حد تک عمل کیا؟ ‘‘

( ترمذی )

’’جس آدمی نے مال جمع کیا اور اس کی زکوٰة ادا نہ کی۔ اس کا جمع شدہ مال روزِ قیامت ایک ایسے سانپ کی شکل میں

سامنے آئے گا جس کے سر کے بال کثرتِ زہر کی وجہ سے ختم ہو چکے ہوں گے وہ منہ کھولے مالک کے پیچھے بھاگتا ہوا پہنچے گا۔ مال

والا اسے دیکھتے ہی بھاگ کھڑا ہو گا۔ سانپ پکار کر کہے گا اپنا چھپایا ہوا خزانہ لےلو، مجھے تو اس کی ضرورت نہیں۔ جب مال والے کو

یقین ہو جائے گا کہ اب جان نہیں چھوٹتی تو اپنا ہاتھ سانپ کے منہ میں دے دے گا۔ چنانچہ سانپ بپھرے ہوئے اونٹ کی طرح اس کا ہاتھ کو

چبا جائے گا۔‘‘

( مسلم )

میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزہ اور زکوٰة کے

ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہو گا اور اسی کے ساتھ اس

نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال مار کھایا ہو گا، کسی کو قتل کیا ہو گا، کسی کو ناحق مارا ہو

گا، تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور مظلوموں کے حقوق باقی رہے تو ان کی

غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘

( مسلم )

قیامت کے دِن کے گواہ

زمین کی گواہی: ’’﴿زمین﴾ ہر بندہ اور بندی کے متعلق شہادت دے گی کہ اس نے فلاں دن میرے اوپر فلاں کام کیا تھا۔‘‘

( مسند احمد )

جسمانی اعضا کی گواہی: ’’آج ہم ان کے منہ پر مہر لگائے دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہمیں بتائیں گے اور ان کے

پائوں بھی گواہی دیں گے کہ یہ لوگ ﴿دنیا میں﴾ کیا کچھ کرتے رہے۔‘‘

( یس ٦٥:٣٦ )

فرشتوں کی گواہی: ’’دو ضبط کرنے والے ﴿فرشتے اس کے﴾ دائیں اور بائیں بیٹھے ﴿اس کی باتیں﴾ ضبط ﴿تحریر﴾ کرتے

رہتے ہیں۔ وہ کوئی بات منہ سے نکالنے نہیں پاتا مگر اس کے پاس ایک حاضر باش نگران ﴿فرشتہ لکھنے کو تیار رہتا﴾ ہے۔‘‘

( ق 18-17:50 )

اعمال نامہ کی گواہی: اور آدمی اپنے نامہ اعمال کو دیکھ کر خوفزدہ ہو کر کہے گا: ’’یہ کیسی کتاب ہے میرا چھوٹا بڑا کوئی

عمل ایسا نہیں ہے جو اِس نے محفوظ نہ کر لیا ہو۔‘‘

( الکہف 49:18 )

آخری انجام

’’پھر جب ﴿قیامت کا﴾ ہنگامہ عظیم برپا ہو گا اور جو کچھ آدمی نے ﴿دنیا میں﴾ کیا تھا اس دن وہ اس کو یاد کرے گا اور دوزخ

ہر دیکھنے والے کے سامنے بے نقاب کر دی جائے گی۔ تو جس نے ﴿دنیا میں﴾ سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ﴿آخرت پر﴾ ترجیح دی

تھی اس کا ٹھکانہ تو بس دوزخ ﴿ہی ہو گی﴾۔ اور جو اپنے رب کے سامنے پیشی سے ڈرا تھا اور ﴿اپنے﴾ نفس کو ﴿بری﴾ خواہشات سے روکتا

رہا تھا تو بلاشبہ جنت اس کا ٹھکانہ ﴿ہو گی﴾‘‘۔

( النازعات 41-34:79 )

عقیدہ شفاعت

احادیث کے مطابق
قیامت کے دن انبیا، صالحین بلکہ بعض اعمال صالحہ بھی شفاعت کریں گے مگر یہ جاننا ضروری ہے کہ قیامت میں یہ شفاعت کس اصول پر

ہو گی اور کن کے لیے ہو گی۔ شفاعت کے بارے میں یہ بات اصولی طور پر جان لینی چاہیے کہ اس کی حیثیت دعا، التجا اور درخواست کی

ہے۔ قرآن میں واضح طور پر بیان ہوا ہے:

’’کون ہے جو اس کی بارگاہ میں بغیر اس کی اجازت کے کسی کی سفارش کر سکے۔‘‘

( البقرة 255:2 )

’’اور وہ نہیں سفارش کر سکیں گے مگر صرف اس کے لیے، جس کے لیے اُس کی رضا ہو۔‘‘

( الانبیا 28:21 )

’’﴿اُس روز﴾ ظالموں کا کوئی دوست نہ ہو گا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے۔‘‘

( المومن 18:40 )

یعنی کوئی خود آگے بڑھ کر سفارش نہ کر سکے گا اور نہ ایسا ہے کہ خدا ان کی ناز برداری میں لازماً ان کی سفارش

قبول فرمائے گا اور نہ کسی کا زور اثر کام آئے گا۔ شفاعت قرآن کے بیان کردہ قانون کے مطابق اللہ کی مرضی اور رضا مندی سے ہو گی۔ یہ

حق کو باطل اور باطل کو حق نہیں بنا سکے گی۔ یہ دراصل شفاعت کرنے والوں کی عظمت و مقبولیت کے اظہار کے لیے اور ان کے اعزاز

کے لیے ہو گی، ورنہ حق تعالیٰ کے کاموں اور اس کے فیصلوں میں دخل دینے کی کسے مجال ہے۔

اور یہ اُن لوگوں کے بارے میں ہو گی جنھوں نے ایمان کے ساتھ عمل صالح کو مقصد بنا کر تمام عمر گزاری ہو

گی۔ لیکن پھر بھی بعض کمزوریوں ور گناہوں کے باعث وہ جنت کے مطلوب معیار سے کچھ کم رہ گئے ہوں گے۔ انبیا علیہم السلام، صدیقین،

شہدا اور صالحین کی شفاعت سے امید ہے کہ یہ جنت کے مستحق قرار پائیں گے۔

وَاللہ علم!

شفاعت سے محروم لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت عمدگی سے احادیث میں بیان فرمایا ہے:

’’کچھ لوگ ﴿روز قیامت﴾ میرے پاس آئیں گے میں انھیں پہچانوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے لیکن انھیں میرے پاس آنے سے روک دیا

جائے گا تو میں کہوں گا یہ میرے امتی ہیں ﴿انھیں مجھ تک آنے دو﴾ تو جواب میں مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں

جانتے کہ انھوں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے دین میں کتنی بدعتیں داخل کر دی تھیں تو میں کہوں گا دوری ہو، دوری ہو ان لوگوں کے

لیے جنھوں نے میرے بعد دین کے نقشہ کو بدل ڈالا۔‘‘

( متفق علیہ)

مالِ غنیمت کی چوری کے مسئلہ کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ پائوں کہ اس کی گردن پر اونٹ ہے جو زور سے بلبلا رہا ہے ﴿یہ اس نے دنیا میں

چوری کیا تھا﴾ اور یہ شخص کہہ رہا ہے کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری مدد فرمائیے ﴿یعنی اس گناہ کے وبال سے بچائیے﴾

تو میں کہوں گا میں تیری کچھ بھی مدد نہیں کر سکتا میں نے تو تجھے دنیا میں یہ بات پہنچا دی تھی۔‘‘

( مسلم )

رہے وہ اہلِ ایمان جن کے اعمال صالحہ کا ذخیرہ اس سے بھی کم ہو گا وہ جہنم میں نامعلوم کتنی مدت عذاب سہہ کر

جنت میں داخل کر دیے جائیں گے۔ وہ جہنم جس میں ایک لمحہ دنیا کی تمام عیش بھلا دینے کے لیے کافی ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اور

حضرت آسیہ کا شوہر قرآنِ مجید کے مطابق جہنمی ہیں۔ باپ بیٹے اور میاں بیوی کے رشتے سب سے زیادہ محبوب رشتے ہیں اور پیغمبروں

سے زیادہ خدا کا کوئی نہیں ہو سکتا لیکن جن کے پاس ایمان و نیکی کا توشتہ موجود نہیں تھا وہ ان رشتوں سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے تو

دوسروں کو کیا نسبت۔

اُخروی زندگی کا دَوام

آخرت کے سلسلہ میں ایک خاص طور پر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ آخرت پر صرف ایمان ہی نہیں رکھنا بلکہ اس

حقیقت کو پوری طرح ذہن نشین کرنا ہے کہ جو زندگی آخرت میں ملے گی وہ پھر کبھی ختم نہ ہو گی۔ بار بار یاد کرنا چاہیے کہ آخرت کی

زندگی انجام سے ناآشنا ہو گی۔ وہاں موت کا کوئی وجود نہیں۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے اس دنیا میں اگر مسرت کا کوئی لمحہ آبھی

جاتا ہے تو بسا اوقات دل میں یہ کانٹا کھٹک رہا ہوتا ہے کہ کل کیا ہو گا لیکن وہاں اگر کامیاب ہو گئے تو نہ ماضی کے پچھتاوے ہوں گے

اور نہ مستقل کے اندیشے۔ اور وہاں کا عذاب خدا محفوظ رکھے ناقابلِ برداشت ہو گا۔ اس حقیقت کو بار بار، بار بار، بار بار دل و دماغ میں

ذہن نشین کرنے کی کوشش جاری رہے تاکہ دنیا کی حقیر نفسانی خواہشات کی بے ثباتی کا احساس اتنا گہرا ہو جائے کہ پھر انسان اللہ کی

نافرمانی سے دور تر ہوتا چلا جائے۔ جس کے شب و روز جنت کے تصور، خواہش اور دعا میں کٹتے ہوں اور جو دن میں کئی بار جہنم سے

پناہ مانگتا ہو وہ اس گھٹیا اور

چند روزہ عیش کی حرص میں گرفتار ہو کر اپنی آخرت خراب نہیں کر سکتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

’’جس شخص نے تمام فکروں کو چھوڑ کر ایک ہی فکر لگائی یعنی آخرت کی فکر اللہ تعالیٰ اس کی دنیوی فکروں کے معاملے میں اس کے لیے

کافی ہو جائے گا اور جسے طرح طرح کی دنیوی فکروں نے پریشان کر رکھا اور وہ آخرت کی فکر کو بھولا رہا تو اللہ تعالیٰ پرواہ نہیں کرے

گا کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوتا ہے۔‘‘

( ابن ماجہ )

مراقبہ موت

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’موت کو کثرت سے یاد کیا کرو جو تمام لذتوں کو ختم کرنیوالی ہے۔‘‘

( ترمذی )

کبھی کبھی رات کو عشا کی نماز کے بعد یا خدا توفیق دے تو تہجد میں اپنی موت کا تصور کیا کیجیے۔

تصور میں لائیے کہ کہیں جاتے ہوئے اچانک حادثہ میں آپ شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ آپ کو ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر جان بچانے کی

بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ عزیز و اقارب پریشان کھڑے ہیں۔ ڈاکٹربالآخر موت سے ہار جاتے ہیں۔ خود کو مرا ہوا دیکھیں پھر آپ کی لاش

گھر لائی جا رہی ہے۔ نہلانا، کفن دینا، رشتہ داروں اور دوستوں کا رونا، پھر جنازہ اٹھا کر قبرستان کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ پھر نماز

جنازہ پڑھ کر مٹی کے گڑھے میں دفنا کر پتھر کی سلیں رکھی جا رہی ہیں۔ پھر سب مٹی ڈال کر اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ گھپ اندھیرا،

تنہائی، کیڑوں کی آوازیں۔ اگر کوئی اور سزا نہ ہو تو کیا یوں لیٹا رہنا ہی کچھ کم سزا ہے۔ اب سوچئے کہ میں کیا اعمال لے کر آیا ہوں۔ کسی کا

کوئی حق تو میرے ذمے نہیں تھا۔ فلاں کا قرض دینا تھا۔ دے سکتا تھا لیکن غفلت کے باعث آگے ڈالتا گیا۔ فلاں سے زیادتی کی تھی۔ احساس

بھی ہوا مگر جھوٹی اکڑ کے باعث معافی نہ مانگی۔ اب کیا ہو گا تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ فلاں دن یہ موقع پیدا ہوا تھا کہ غریب

ہمسائے کی مالی امداد کریں مگر جو رقم اس پر خرچ ہو سکتی تھی وہ ایک قیمتی لباس پر خرچ کر دی۔ آج وہ لباس اُس دنیا ہی میں چھوڑ آئے

ہیں۔ حالانکہ اگر وہ رقم ایک محتاج کی مدد پر خرچ ہوتی۔ تو یہاں قبر میں ہمارے ساتھ آتی اور اب تو اسے لانے کی کوئی صورت نہیں۔ خوب

اپنی کمزوریاں تلاش کیجیے۔ خوب ندامت کے آنسو بہائیے۔ پھر خدا کا شکر ادا کر کے فوراً وہ سب کام کر ڈالئے جو حقیقی موت کی صورت

میں جہنم میں لے جانے والے ہوتے۔

راہِ عمل

اگر دلوں میں یہ خیال جاگزیں رہے کہ یہ زندگی جو آج ہم گزار رہے ہیں صرف راہ کی حیثیت رکھتی ہے اور منزل مقصود وہی ہے جو موت

کے بعد ملے گی تو پھر اس راہ پر غم کے کانٹے اگے ہوں۔ یا خوشیوں کے پھول کھلے ہوں، عقلمند مسافر راہ کو راہ ہی سمجھے گا اور منزل

مقصود نہیں بنائے گا۔ اگر راستے میں کانٹے اگے ہوں گے تو وہ صبرو استقامت سے ان کی اذیتیں سہتا سفر جاری رکھے گا اور اگر پھول

کھلے ہوں گے تو اس کے لیے اتنی خوشی کافی ہو گی کہ راستہ چلتے ہوئے کانٹوں کی اذیت نہیں سہنی پڑ رہی اور خوشبو سفر کو خوشگوار

بنا رہی ہے لیکن ان پھولوں سے لطف اٹھانے کے لیے وہ بہرحال راہ کو منزل بنا کر وہیں نہ بیٹھ جائے گا بلکہ اصل منزل کی طرف گامزن

رہے گا۔

انسان ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ اگر راہیں نامعلوم اور دشوار ہوں تو سفر دن کی روشنی میں کسی قابل اعتماد راہنما کے

ساتھ طے کیا جائے۔ یہ سفر بھی تبھی منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے اگر اس میں اللہ تعالیٰ کو اپنا مولیٰ و مددگار بنا لیا جائے۔ اسے اس راہ

کے تمام پیچ و خم کی پہلے سے خبر ہے اور وہ ہماری کمزوریوں اور صلاحیتوں کو بھی جانتا ہے۔ اس ذات کے ساتھ ایمان و دعا کا رشتہ

استوار کر کے یہ سفر جاری کیا جائے۔ اسی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بھیجی گئی کتاب میں یہ خبر دی ہے:

’’پھر اگر تمھیں ہماری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو لوگ ہماری ہدایت کی پیروی کریں گے ان پر ﴿آخرت میں﴾ نہ تو

( کسی قسم کا )

خوف ﴿طاری﴾ ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو لوگ نافرمانی کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہی دوزخی ہوں گے ﴿اور

وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔

( البقرة 39- 38:2 )

یہاں قرآن مجید کی پیروی کا حکم ہے اور کسی حکم کی پیروی تب ہی ممکن ہے جب وہ سمجھ میں آیا ہو۔ لہٰذا قرآن کا

ترجمہ جاننا اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں عمل کامیابی کی واحد راہ ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دورانِ سفر

منزل کا ہر لمحہ دھیان رہے۔ قرآن کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جو آخرت کے ذکر سے خالی ہو لہٰذا روزانہ باقاعدگی کے ساتھ قرآن سمجھ

کر پڑھنا آخرت کی یاد دل میں تازہ رکھنے اور صراطِ مستقیم پر ثابت قدمی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ احادیث کا کوئی اچھا مجموعہ بھی

روزانہ کچھ وقت مطالعہ اور غور و فکر کا موضوع ہونا چاہیے۔ اس سے آپ اُس روشنی میں سفر کریں گے جس کے بار ےمیں ارشادِ باری

تعالیٰ ہے:

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائو تاکہ اللہ اپنی رحمت میں سے تم کو دوہرا حصہ

دے۔ اور تم کو ﴿ایسا﴾ نور عنایت کرے جس ﴿کی روشنی﴾ میں تم چلو اور تمھاری مغفرت فرمائے اور اللہ غفور و رحیم ہے۔‘‘

( الحدید 28:57 )

آخری بات

جس امتحان کو انسان زیادہ اہمیت دیتا ہے اس کی اتنی ہی زیادہ تیاری بھی کرتا ہے۔ ایک ہونہار طالب علم کے لیے

امتحان کی تیاری کے دنوں کا ہر لمحہ نہایت قیمتی ہوتا ہے۔ ان دنوں میں تمام غیر ضروری کام چھوڑ دیے جاتے ہیں بسا اوقات غذا اور راتوں

کی نیند بھی کم کر دی جاتی ہے۔

یہ تو ان امتحانوں کا حال ہے جن پر بہرحال زندگی اور موت منحصر نہیں ہوتی اور جن میں ایک بار فیل ہو جانے کے

بعد دوبارہ بیٹھنے کا موقع بھی موجود ہوتا ہے تو پھر کیا صورت ہو گی اس امتحان کی جس پر ابدی نجات منحصر ہے جس میں فیل ہو جانے

کے بعد کوئی دوسرا موقع امتحان دینے کا حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی تھوڑا سا وقت تیاری کے لیے ملا ہے جسے ہم دنیاوی زندگی کہتے ہیں

یہ مختصر سا وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر اس کا ایک سیکنڈ بھی دوبارہ نہیں مل سکے گا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے

’’وہ دوزخ میں چلائیں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں یہاں سے نکال ﴿اب﴾ ہم نیک عمل کریں گے برخلاف ان اعمال کے

جو ہم ﴿پہلے﴾ کرتے رہے تھے۔ ﴿ارشاد ہو گا﴾ ’’کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں کسی کو سوچنا سمجھنا ہوتا وہ سوچ سمجھ لیتا۔‘‘

( فاطر 37:35 )

اس آیت پر جتنا غور کیجیے کم ہے۔ اب جبکہ ہم زندہ ہیں اور موت سامنےنظر بھی نہیں آرہی یہی وقت ہے نصیحت

پکڑنے کا۔ ورنہ کچھ خبر نہیں کہ کب وہ وقت سر پر آجائے کہ ہم تڑپ تڑپ کر درخواست کریں کہ ہمیں دوبارہ عمل کا موقع دیا جائے مگر

ہمیں وہی جواب دیا جائے گا جو نافرمانوں کو دیا جاتا ہے کہ ’کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہ دی تھی۔‘

اللہ تعالیٰ ہمیں درست راہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین ثمہ آمین

Saturday, February 19, 2011

اللہ تعا لی کے سوا کسی اور کی قسم کھانا

عن عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من حلف بغیر اللہ فقد کفر او اشرک۔ (جامع الترمذی،الایمان والنذور،باب ما جاء ان من حلف بغیراللہ فقد اشرک)

سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اللہ کے سوا کسی دوسرے کی قسم اٹھائی اس نے کفر کیا یا شرک کا ارتکاب کیا۔



عن ابن عمر رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : لا تحلفو بآباءکم ،من حلف با اللہ فلیصدق ،ومن حلف لہ با اللہ فلیرض،و من لم یرض فلیس من اللہ۔

(سنن ابن ماجہ،الکفارات،باب من حلف لہ باللہ فلیرض)

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اپنے آباو اجداد کی قسمیں نہ اٹھایا کرو جو شخص اللہ تعالی کی قسم اٹھائے اسے چا ہیے کہ وہ سچی قسم اٹھائے اور جس کے لیے اللہ تعالی کی قسم اٹھائی جائے اسے چاہیے کہ وہ اسے تسلیم کرے اور جو اسے تسلیم نہ کرے اس کا اللہ تعالی سے کوئی تعلق نہیں۔(سنن ابن ماجہ،کفاروں کے بیان میں،باب :جس کے لیے اللہ کی قسم اٹھائی جائے اسے چاہیے کہ وہ اس پر راضی ہو)



عن سعیدبن ابی عبیدہ قال سمع ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ رجلا یحلف لا و الکعبة فقال لہ ابن عمررضی اللہ تعالی عنہ انی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من حلف بغیر اللہ فقد اشرک۔

(رواہ ابی داود:کتاب الایمان والنذور ،باب ما جاءفی کراھیةالحلف بالابائ)

سعید بن ابی عبید رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو کعبہ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو انہوںنے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جس نے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم اٹھائی اس نے شرک کیا ۔(رواہ ابی داود:کتاب ایمان اورنذر ں ،باب اپنے باپ دادوںکی قسمیں کھانا منع ہے)

دوطرح کی آنکھوں پرجہنم حرام ہے

عبداللہ ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہ قال سمعت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  یقول عینان لا تمسھما النارعین بکت من خشیة اللہ و عین باتت تحرس فی سبیل اللہ
(رواہ الترمزی کتاب الجہاد باب ماجاءفی فضل الحرس فی سبیل اللہ)
حضر ت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ تعالی عنہ  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھو سکتی۔ ایک اللہ کے ڈر سے رونے والی آنکھ اور دوسری وہ آنکھ جو رات بھر بیدار رہ کر اللہ کی راہ میں پہرہ دے۔
(جامع ترمذی۔ کتاب الجہاد ۔باب اللہ کے رستے میں پہرہ دینے کی فضیلت )

Saturday, February 5, 2011

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال ۔ بعض لوگ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے اور محافل میلاد منعقد کرنے کو بدعت و حرام کہتے ہیں ۔ قرآن و سنت اور ائمہ دین کے اقوال کی روشنی میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان فرمائیے۔

جواب۔ ماہ ربیع الاول میں بالعموم اور  بارہ ربیع الاول کو بالخصوص آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں پورے عالم اسلام میں محافل میلاد منعقد کی جاتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانا جائز و مستحب ہے اور اس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے۔

ارشاد باری تعالی ہوا ، ( اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ) ۔ ( ابراہیم ، 5 ) امام المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس ( رضی اللہ عنہما ) کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔جن میں رب تعالی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔ ( ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔ (تفسیر خزائن العرفان)

بلاشبہ اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہوا ، ( بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا)۔ (آل عمران ،164)

آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر رب تعالی نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے ۔ ارشاد ہوا ، ( اے حبیب ! ) تم فرماؤ ( یہ ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ( سے ہے ) اور اسی چاہیے کہ خوشی کریں ، وہ ( خو شی منانا ) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ) ۔ ( یونس ، 58 ) ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرما یا، (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو)۔ (الضحی 11، کنز الایمان)

خلاصہ یہ ہے کہ عید میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالی کے دن یا د دلانا بھی ہے، اس کی نعمت عظمی کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکر میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی سنت بھی ہے ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی۔

سورہ آل عمران کی آیت ( 81 ) ملاحظہ کیجیے ۔ رب ذوالجلا ل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا ۔ گویا یہ سب سے پہلی محفل میلاد تھی جسے اللہ تعالی نے منعقد فرمایا ۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے۔

رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201) آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے (اسد الغابہ ج 2 ص 129)

اسی طرح حضرات کعب بن زبیر ، سواد بن قارب ، عبد اللہ بن رواحہ ، کعب بن مالک و دیگر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کی نعتیں کتب احادیث و سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عید یں ہیں لہذا تیسری عید حرام ہے ۔ ( معاذ ا للہ ) اس نظریہ کے باطل ہونے کے متعلق قرآن کریم سے دلیل لیجئے ۔ ارشاد باری تعالی ہے ، ( عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک ( کھانے کا ) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی)۔ (المائدہ ، 114، کنزالایمان)

صدر الافاضل فرماتے ہیں ، ( یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں ، اسکی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں ، شکر بجا لا ئیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جس روز اللہ تعالی کی خاص رحمت نازل ہو ۔ اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں بنانا ، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے ۔ اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ) ۔ ( تفسیر خزائن العرفان )۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت (الیوم اکملت لکم دینکم ) تلاوت فرمائی تو ایک یہود ی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا ، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالی کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ چونکہ عید الفطر اور عید الاضحی حضور ﷺ ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم میلاد بدرجہ اولی عید قرار پایا۔


شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اکابر محدثین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شب میلاد مصفطے صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر سے افضل ہے، کیونکہ شب قدر میں قرآن نازل ہو اس لیے وہ ہزار مہنوں سے بہتر قرار پائی تو جس شب میں صاحب قرآن آیا وہ کیونکہ شب قدر سے افضل نہ ہو گی؟

صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خ-واب میں بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا ، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزری فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حا ل ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے ۔ حالانکہ ا س کی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن امتی کا کیا حال ہوگا ۔ جو میلاد کی خوشی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے ۔ قسم ہے میری عمر کی ، اس کی جزا یہی ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنے افضل و کرم سے جنت نعیم میں داخ-ل فرمادے ۔ ( مواہب الدنیہ ج 1 ص 27 ، مطبوعہ مصر )

اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خالق کائنات نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن عید میلاد کیسے منایا؟ سیرت حلبیہ ج 1 ص 78 اور خصائص کبری ج 1 ص 47 پر یہ روایت موجود ہے کہ (جس سال نور مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت ، تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لدگئے اور اہل قریش خوشحال ہوگئے ) ۔ اہلسنت اسی مناسبت سے میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی خوسی میں اپنی استطاعت کے مطابق کھانے، شیرینی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں ۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں ۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ، (میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے(۔ (مشکوہ)

حضرت آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی ) ۔ (طبقاب ابن سعد ج 1 ص 102، سیرت جلسہ ج 1 ص 91)

ہم تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ( رضی اللہ عنہ ) کی والدہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا ۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج 1 ص 94 ، خصائص کبری ج 1 ص 40 ، زرقانی علی المواہب 1 ص 114)

سیدتنا آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( میں نے تین جھندے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خا نہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج 1 ص 109 ) یہ حدیث ( الو فابا حوال مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) مےں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے ۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرئہ رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چرھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ ، یا محمد یا رسول اللہ ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔(صحیح مسلم جلد دوم باب الھجرہ)
جشن عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ جن سے ثا بت ہو جائے گا کہ محافل میلاد کا سلسلہ عالم اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔

محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی 597 ھ) فرماتے ہیں، (مکہ مکرمہ ، مدینہ طیبہ ، یمن ، مصر، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں)۔ (المیلاد النبوی ص 58)
امام ابن حجر شافعی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 852 ھ ) فرماتے ہیں ، ( محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے)۔ (فتاوی حدیثیہ ص 129)

امام جلال الدین سیوطی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 911 ھ ) فرماتے ہیں ، ( میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوت قرآن ، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے ۔ جن پر ثواب ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا ا ظہا ر ہوتا ہے ) ۔ ( حسن المقصد فی عمل المولدنی الہاوی للفتاوی ج 1 ص 189)

امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ (م 923ھ) فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے ۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے)۔ (مواہب الدنیہ ج 1 ص 27)

شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ ( والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ، م 1176 ھ ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا ۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا ، میں نے وہی چنے تقسیم کرد یے ۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔ (الدار الثمین ص 8)
ان دلائل و براہین سے ثابت ہوگیا کہ میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل منعقد کرنے اور میلاد کا جشن منانے کا سلسلہ امت مسلمہ میں صدیوں سے جاری ہے ۔ اور اسے بدعت و حرام کہنے والے دراصل خود بدعتی و گمراہ ہیں۔
از: سید شاہ تراب الحق قادری رضوی

Tuesday, February 1, 2011

(The Abundance) - سورة الكوثر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.


إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ

Indeed, We have granted you, [O Muhammad], al-Kawthar.

(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو کوثر عطا فرمائی ہے


فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ

So pray to your Lord and sacrifice [to Him alone].

تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو


إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ

Indeed, your enemy is the one cut off.

بیشک جو دشمن ہے تیرا وہی رہ گیا پیچھا کٹا


کوثر کے معنیٰ اور مفاہیم
:
"کوثر " کے معنی "خیر کثیر" کے ہیں۔ یعنی بہت زیادہ بھلائی اور بہتری۔ یہاں اس سے کیا چیز مراد ہے؟ "البحر المحیط" میں اس کے متعلق چھبیس اقوال ذکر کیے ہیں اور اخیر میں اس کو ترجیح دی ہے کہ اس لفظ کے تحت میں ہر قسم کی دینی و دنیوی دولتیں اور حسّی و معنوی نعمتیں داخل ہیں۔ جو آپ کو یا آپ کے طفیل میں امّت مرحومہ کو ملنے والی تھیں۔ ان نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت وہ "حوض کوثر" بھی ہے جو اسی نام سے مسلمانوں میں مشہور ہے اور جس کے پانی سے آپ ﷺ اپنی امت کو محشر میں سیراب فرمائیں گے (اے ارحم الراحمین! تو اس خطا کار روسیاہ کو بھی اس سے سیراب کیجیے)۔(تنبیہ) حوضِ کوثر: " حوضِ کوثر" کا ثبوت بعض محدثین کے نزدیک حد تواتر تک پہنچ چکا ہے ہر مسلمان کو اس پر اعتقاد رکھنا لازم ہے۔ احادیث میں اس کی عجیب و غریب خوبیاں بیان ہوئی ہیں۔ بعض روایات سے اس کا محشر میں ہونا اور اکثر سے جنت میں ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اکثر علماء نے تطبیق یوں دی ہے کہ اصل نہر جنت میں ہوگی اور اسی کا پانی میدانِ حشر میں لا کر کسی حوض میں جمع کر دیا جائیگا۔ دونوں کو "کوثر" ہی کہتے ہونگے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

نماز اور قربانی کی تاکید
:
یعنی اتنے بڑے انعام و احسان کا شکر بھی بہت بڑا ہونا چاہیئے۔ تو چاہیئے کہ آپ اپنی روح، بدن اور مال سے برابر اپنے رب کی عبادت میں لگے رہیں، بدنی و روحی عبادات میں سب سے بڑی چیز نماز ہے۔ اور مالی عبادات میں قربانی ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ قربانی کی اصل حقیقت جان کا قربان کرنا تھا۔ جانور کی قربانی کو بعض حکمتوں اور مصلحتوں کی بناء پر اس کے قائم مقام کر دیا گیا۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کے قصہ سے ظاہر ہے اسی لئے قرآن میں دوسری جگہ بھی نماز اور قربانی کا ذکر ساتھ ساتھ کیا ہے۔ قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ لَا شَرِیۡکَ لَہٗ ۚ وَ بِذٰلِکَ اُمِرۡتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (انعام۔۱۶۲،۱۶۳) (تنبیہ) بعض روایات میں "وانحر" کے معنی سینہ پر ہاتھ باندھنے کے آئے ہیں۔ مگر ابن کثیرؒ نے ان روایات میں کلام کیا ہے۔ اور ترجیح اس قول کو دی ہے کہ "نحر" کے معنی قربان کرنے کے ہیں۔ گویا اس میں مشرکین پر تعریض ہوئی کہ وہ نماز اور قربانی بتوں کے لئے کرتے تھے۔ مسلمانوں کو یہ کام خالص خدائے واحد کے لئے کرنے چاہئیں
۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہی ابتر ہے
:
بعض کفار حضور ﷺ کی شان میں کہتے تھے کہ اس شخص کے کوئی بیٹا نہیں۔ بس زندگی تک اس کا نام ہے پیچھے کون نام لیگا۔ ایسے شخص کو ان کے محاورات میں "ابتر" کہتے تھے ۔ "ابتر" اصل میں دم کٹے جانور کو کہتے ہیں۔ جس کے پیچھے کوئی نام لینے والا نہ رہے۔ گویا اس کی دم کٹ گئی۔ قرآن نے بتلایا کہ جس شخص کو اللہ خیر کثیر عنایت فرمائے اور ابدالآباد تک نام روشن کرے اسے "ابتر" کہنا پرلے درجہ کی حماقت ہے۔ حقیقت میں "ابتر" وہ ہے جو ایسی مقدس و مقبول ہستی سے بغض و عناد اور عداوت رکھے اور اپنے پیچھے کوئی ذکرِ خیر اور اثر نیک نہ چھوڑے۔ آج ساڑھے تیرہ سو برس کے بعد ماشاء اللہ حضور ﷺ کی روحانی اولاد سے دنیا پٹی پڑی ہے اور جسمانی دختری اولاد بھی بکثرت ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ کا دین، آپ ﷺ کے آثار صالحہ، عالم میں چمک رہے ہیں۔ آپ ﷺ کی یاد نیک نامی اور محبت و عقیدت کے ساتھ کروڑوں انسانوں کے دلوں کو گرما رہی ہے۔ دوست دشمن سب آپ ﷺ کے اصلاحی کارناموں کا صدق دل سے اعتراف کر رہے ہیں۔ پھر دنیا سے گزر کر آخرت میں جس مقام محمود پر آپ ﷺ کھڑے ہونگے اور جو مقبولیت و متبوعیت عامہ آپ ﷺ کو علی رؤس الاشہاد حاصل ہوگی وہ الگ رہی۔ کیا ایسی دائم البرکۃ ہستی کو (العیاذباللہ) "ابتر" کہاجاسکتا ہے؟ اس کے مقابل اس گستاخ کو خیال کرو جس نے یہ کلمہ زبان سے نکالا تھا۔ اس کا نام و نشان کہیں باقی نہیں، نہ آج بھلائی کے ساتھ اسے کوئی یاد کرنے والا ہے۔ یہ ہی حال ان تمام گستاخوں کا ہوا، جنہوں نے کسی زمانہ میں آپ ﷺ کے بغض و عداوت پر کمر باندھی اور آپ ﷺ کی شان مبارک میں گستاخی کی اور اسی طرح آئندہ ہوتا رہیگا۔


نام :

انآ اعطینٰک الکوثر کے لفظ الکوثر کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول :

ابن مردویہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن الزبیر اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے کہ یہ سورت مکی ہے، کلبی اور مقاتل بھی اسے مکی کہتے ہیں اور جمہور مفسرین کا قول بھی یہی ہے۔ لیکن حضرت حسن بصری، عکرمہ، مجاہد اور قتادہ اس کو مدنی قرار دیتے ہیں۔ امام سیوطی نے اتقان میں اسی قول کو صحیح ٹھیرایا ہے، اور امام نووی نے شرح مسلم میں اسی کو ترجیح دی ہے۔ وجہ اس کی وہ روایت ہے جو امام احمد، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ابی شیبہ، ابن المنذر، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ محدثین نے حضرت انس بھی مالک سے نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے۔ اتنے میں آپ پر کچھ اونگھ سی طاری ہو ہوئی، پھر آپ نے مسکراتے ہوئے سرِ مبارک اٹھایا۔ بعض روایات میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا آپ کس بات پر تبسم فرما رہے ہیں؟ اور بعض میں ہے کہ آپ نے خود لوگوں سے فرمایا اِس وقت میرے اوپر ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر آپ نے سورۂ کوثر پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے پوچھا جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے۔ فرمایا وہ ایک نہر ہے جو میرے رب نے مجھے جنت میں عطا کی ہے ۔ اس روایت سے اس سورہ کے مدنی ہونے پر اس وجہ سے استدلال کیا گیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ مکہ میں نہیں بلکہ مدینے میں تھے، اور ان کا یہ کہنا کہ ہماری موجودگی میں یہ سورت نازل ہوئی، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مدنی ہے۔ مگر اول تو انہی حضرت انس سے امام احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور ابن جریر نے یہ روایات نقل کی ہیں کہ جنت کی یہ نہر (کوثر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معراج میں دکھائی جا چکی تھی، اور سب کو معلوم ہے کہ معراج ہجرت سے پہلے مکہ میں ہوئی تھی۔ دوسرے، جب معراج میں آپ کو اللہ تعالٰی کے اِس عطیہ کی نہ صرف خبر دی جا چکی تھی بلکہ اس کا مشاہدہ بھی کرا دیا گیا تھا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ حضور کو اُس کی خوشخبری دینے کے لیے مدینۂ طیبہ میں سورۂ کوثر نازل کی جاتی۔ تیسرے، اگر صحابہ ایک مجمع میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود سورۂ کوثر کے نزول کی خبر دی ہوتی جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مذکورۂ بالا روایت میں بیان ہوئی ہے اور اُس کا مطلب یہ ہوتا کہ پہلی مرتبہ یہ سورت اِسی وقت نازل ہوئی ہے، تو کس طرح ممکن تھا کہ حضرت عائشہ، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے باخبر صحابہ اس سورت کو مکی قرار دیتے اور جمہور مفسرین اس کے مکی ہونے کے قائل ہو جاتے؟ اس معاملہ پر غور کیا جائے تو حضرت انس کی روایت میں خلا صاف محسوس ہوتا ہے کہ اُس میں یہ تفصیل بیان نہیں ہوئی ہے کہ جس مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی اُس میں پہلے سے کیا گفتگو چل رہی تھی۔ ممکن ہے کہ اُس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی مسئلے پر کچھ ارشاد فرما رہے ہوں، اُس کے دوران میں وحی کے ذریعہ آپ کو مطلع کیا گیا ہو کہ اِس مسئلے پر سورۂ کوثر سے روشنی پڑتی ہے، اور آپ نے اِسی بات کا ذکر یوں فرمایا ہو کہ مجھ پر یہ سورۃ نازل ہوئی ہے۔ اِس قسم کے واقعات متعدد مواقع پر پیش آئے ہیں جن کی بنا پر مفسرین نے بعض آیات کے متعلق کہا ہے کہ وہ دو مرتبہ نازل ہوئی ہیں۔ اس دوسرے نزول کا مطلب دراصل یہ ہوتا ہے کہ آیت تو پہلے نازل ہوچکی تھی، مگر دوسری بار کسی موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بذریعۂ وحی اُسی آیت کی طرف توجہ دلائی گئی۔ ایسی روایات میں کسی آیت کے نزول کا ذکر یہ فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا کہ وہ مکی ہے یا مدنی، اور اس کا اصل نزول فی الواقع کسی زمانے میں ہوا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اگر شک پیدا کرنے کی موجب نہ ہو تو سورۂ کوثر کا پورا مضمون بجائے خود اِس امر کی شہادت دیتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ میں نازل ہوئی تھی اور اُس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو انتہائی دل شکن حالات سے سابقہ درپیش تھا
۔
تاریخی پس منظر :

اس سے پہلے سروۂ ضحٰی اور سورۂ الم نشرح میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ نبوت کے ابتدائی دور میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شدید ترین مشکلات سے گزر رہے تھے، پوری قوم دشمنی پر تلی ہوئی تھی، مزاحمتوں کے پہاڑ راستے میں حائل تھے، مخالفت کا طوفان ہر طرف برپا تھا، اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے چند مٹھی بھر ساتھیوں کو دور دور تک کہیں کامیابی کے آثار نظر نہیں آتے تھے، اُس وقت آپ کو تسلی دینے اور آپ کی ہمت بندھانے کے لیے اللہ تعالٰی نے متعدد آیات نازل فرمائیں۔ سورۂ ضحٰی میں فرمایا
” اور یقیناً تمہارے لیے بعد کا دور (یعنی ہر بعد کا دور) پہلے دور سے بہتر ہے اور عنقریب تمہارا رب تمہیں وہ کچھ دے گا جس سے تم خوش ہو جاؤ گے “
اور الم نشرح میں فرمایا
” اور ہم نے تمہارا آوازہ بلند کر دیا “
یعنی دشمن تمہیں ملک بھر میں بدنام کرتے پھر رہے ہیں مگر ہم نے ان کے علی الرغم تمہارا نام روشن کرنے اور تمہیں ناموری عطا کرنے کا سامان کر دیا ہے اور
” پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے، یقیناً تسگی کے ساتھ فراخی بھی ہے “
یعنی اِس وقت حالات کی سختیوں سے پریشان نہ ہو، عنقریب یہ مصائب کا دور ختم ہونے والا ہے اور کامیابیوں کا دور آنے ہی والا ہے۔
ایسے ہی حالات تھے جن میں سورۂ کوثر نازل کر کے اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تسلی بھی دی اور آپ کے مخالفین کے تباہ و برباد ہونے کی پیشینگوئی بھی فرمائی۔ قریش کے کفار کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ساری قوم سے کٹ گئے ہیں اور اُن کی حیثیت ایک بے کس اور بے یار و مددگار انسان کی سی ہو گئی ہے۔ عکرمہ کی روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نبی بنائے گئے اور آپ نے قریش کو اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو قریش کے لوگ کہنے لگے "محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنی قوم سے کٹ کر ایسے ہو گئے ہیں جیسے کوئی درخت اپنی جڑ سے کٹ گیا ہو اور متوقع یہی ہے کہ کچھ مدت بعد وہ سوکھ کر پیوند خاک ہو جائیں گے" حوالہ: ابن جریر۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ مکہ کے سردار عاص بن وائل سہمی کے سامنے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتا "اجی چھوڑو انہیں، وہ تو ایک ابتر (جڑ کٹے) آدمی ہیں، ان کی کوئی اولاد نرینہ نہیں، مر جائیں گے تو کوئی ان کا نام لیوا بھی نہ ہوگا"۔ شمر بن عطیہ کا بیان ہے کہ عقبہ بن ابی معیط بھی ایسی ہی باتیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق کہا کرتا تھا حوالہ: ابن جریر۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ کعب بن اشرف (مدینہ کا یہودی سردار) مکہ آیا تو قریش کے سرداروں نے اس سے کہا "بھلا دیکھو تو سہی، اس لڑکے کو جو اپنی قوم سے کٹ گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ ہم سے بہتر ہے، حالانکہ ہم حج اور سدانت اور سقایات کے منتظم ہیں حوالہ: بزار۔ اسی واقعہ کے متعلق عکرمہ کی روایت یہ ہے کہ قریش والوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے "کمزور، بے یار و مددگار اور بے اولاد آدمی جو اپنی قوم سے کٹ گیا ہے" کے الفاظ استعمال کیے تھے حوالہ: ابن جریر۔ ابن سعد اور ابن عساکر کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سب سے بڑے صاحب زادے قاسم رضی اللہ عنہ تھے، ان سے چھوٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھیں، ان سے چھوٹے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ تھے، پھر علی الترتیب تین صاحبزادیاں ام کلثوم، فاطمہ اور رقیہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ ان میں سے پہلے حضرت قاسم کا انتقال ہوا، پھر حضرت عبد اللہ نے بھی وفات پائی۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا کہ "اُن کی نسل ختم ہو گئی۔ اب وہ ابتر ہیں" (یعنی ان کی جڑ کٹ گئی)۔ بعض روایات میں یہ اضافہ ہے کہ عاص نے کہا "محمد ابتر ہیں، ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے جو ان کا قائم مقام بنے، جب وہ مر جائیں گے تو ان کا نام دنیا سے مٹ جائے گا اور ان سے تمہارا پیچھا چھوٹ جائے گا"۔ عبد بن حمید نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی جو روایت نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صاحبزادے عبد اللہ کی وفات پر ابو جہل نے بھی ایسی ہی باتیں کہی تھیں۔ شمر بن عطیہ سے ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس غم پر خوشی مناتے ہوئے ایسے ہی کمینہ پن کا مظاہرہ عقبہ بن ابی معیط نے کیا تھا۔ عطاء کہتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دوسرے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اپنا چچا ابو لہب (جس کا گھر بالکل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر سے متصل تھا) دوڑا ہوا مشرکین کے پاس گیا اور اُن کو یہ "خوشخبری" دی کہ "آج رات محمد لا ولد ہو گئے یا ان کی جڑ کٹ گئی" یہ تھے وہ انتہائی دلشکن حالات جن میں سورۂ کوثر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل کی گئی۔ قریش اس لیے آپ سے بگڑے تھے کہ آپ صرف الل ہی کی بندگی و عبادت کرتے تھے اور ان کے شرک کو آپ نے علانیہ رد کر دیا تھا۔ اِسی وجہ سے پوری قوم میں جو مرتبہ و مقام آپ کو نبوت سے پہلے حاصل تھا وہ آپ سے چھین لیا گیا تھا اور آپ گویا برادری سے کاٹ پھینکے گئے تھے۔ آپ کے چند مٹھی بھر ساتھی بھی سب بے یار و مددگار تھے اور مارے کھدیڑے جا رہے تھے۔ اس پر مزید آپ پر ایک کے بعد ایک بیٹے کی وفات سے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اس موقع پر عزیزوں، رشتہ داروں، قبیلے اور برادری کے لوگوں اور ہمسایوں کی طرف سے ہمدردی و تعزیت کے بجائے وہ خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور وہ باتیں بنائی جا رہی تھیں جو ایک ایسے شریف انسان کے لیے دل توڑ دینے والی باتیں تھیں جس نے اپنے تو اپنے غیروں تک سے ہمیشہ انتہائی نیک سلوک کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالٰی نے آپ کو اِس مختصر ترین سورت کے ایک فقرے میں وہ خوش خبری دی ہے جس سے بڑی خوش خبری دنیا کے کسی انسان کو کبھی نہیں دی گئی۔ اور ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ آپ کی مخالفت کرنے والوں ہی کی جڑ کٹ جائے گی۔

The Enemy of the Prophet is Cut Off

﴿إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الاٌّبْتَرُ ﴾
(For he who hates you, he will be cut off.) meaning, `indeed he who hates you, O Muhammad, and he hates what you have come with of guidance, truth, clear proof and manifest light, he is the most cut off, meanest, lowliest person who will not be remembered. Ibn `Abbas, Mujahid, Sa`id bin Jubayr and Qatadah all said, "This Ayah was revealed about Al-`As bin Wa'il. Whenever the Messenger of Allah would be mentioned (in his presence) he would say, `Leave him, for indeed he is a man who is cut off having no descendants. So when he dies he will not be remembered.' Therefore, Allah revealed this Surah.'' Shamir bin `Atiyah said, "This Surah was revealed concerning `Uqbah bin Abi Mu`ayt.'' Ibn `Abbas and `Ikrimah have both said, "This Surah was revealed about Ka`b bin Al-Ashraf and a group of the disbelievers of the Quraysh.'' Al-Bazzar recorded that Ibn `Abbas said, "Ka`b bin Al-Ashraf came to Makkah and the Quraysh said to him, `You are the leader of them (the people). What do you think about this worthless man who is cut off from his people He claims that he is better than us while we are the people of the place of pilgrimage, the people of custodianship (of the Ka`bah), and the people who supply water to the pilgrims.' He replied, `You all are better than him.' So Allah revealed,
﴿إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الاٌّبْتَرُ ﴾
(For he who hates you, he will be cut off.)'' This is how Al-Bazzar recorded this incident and its chain of narration is authentic. It has been reported that `Ata' said, "This Surah was revealed about Abu Lahab when a son of the Messenger of Allah died. Abu Lahab went to the idolators and said, `Muhammad has been cut off (i.e., from progeny) tonight.' So concerning this Allah revealed,
﴿إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الاٌّبْتَرُ ﴾
(For he who hates you, he will be cut off.)'' As-Suddi said, "When the male sons of a man died the people used to say, `He has been cut off.' So, when the sons of the Messenger of Allah
died they said, `Muhammad has been cut off.' Thus, Allah revealed,
﴿إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الاٌّبْتَرُ ﴾
(For he who hates you, he will be cut off.)'' So they thought in their ignorance that if his sons died, his remembrance would be cut off. Allah forbid! To the contrary, Allah preserved his remembrance for all the world to see, and He obligated all the servants to follow his Law. This will continue for all of time until the Day of Gathering and the coming of the Hereafter. May the blessings of Allah and His peace be upon him forever until the Day of Assembling. This is the end of the Tafsir of Surat Al-Kawthar, and all praise and blessings are due to Allah.

(The Divine Support) - سورة النصر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ


When the victory of Allah has come and the conquest,

جب خدا کی مدد آ پہنچی اور فتح (حاصل ہو گئی) 


وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا

And you see the people entering into the religion of Allah in multitudes,

اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ غول کے غول خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا

Then exalt [Him] with praise of your Lord and ask forgiveness of Him. Indeed, He is ever Accepting of repentance.

تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ معاف کرنے والا ہے



فتح مکّہ کا وعدہ:

بڑی فیصلہ کن چیز یہ تھی کہ مکہ معظمہ ( جو گویا زمین پر اللہ کا دارالسلطنت ہے) فتح ہو جائے۔ اسی پر اکثر قبائل عرب کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے ایک ایک دو دو آدمی اسلام میں داخل ہوتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جوق در جوق داخل ہونے لگے۔ حتّٰی کہ سارا جزیرہ عرب اسلام کا کلمہ پڑھنے لگا۔ اور جو مقصد نبی کریم ﷺ کی بعثت سے تھا پورا ہوا۔
غلبہ دین کا وعدہ اور تسبیح و تحمید کی تاکید:
یعنی سمجھ لیجیے کہ مقصود بعثت کا اور دنیا میں رہنے کا (جو تکمیل دین و تمہید خلافت کبریٰ ہے) پورا ہوا، اب سفر آخرت قریب ہے۔ لہٰذا ادھر سے فارغ ہو کر ہمہ تن ادھر ہی لگ جائیے۔ اور پہلے سے بھی زیادہ کثرت سے اللہ کی تسبیح و تحمید اور ان فتوحات اور کامیابیوں پر اس کا شکر ادا کیجیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کا حکم:
یعنی اپنے لئے اور امت کے لئے استغفار کیجیے۔ (تنبیہ) نبی کریم ﷺ کا اپنے لئے استغفار کرنا پہلے کئ جگہ بیان ہوچکا ہے، وہیں دیکھ لیا جائے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں " یعنی قرآن میں ہر جگہ وعدہ ہے فیصلہ کا، اور کافر شتابی کرتے تھے۔ حضرت ﷺ کی آخر عمر میں مکہ فتح ہوچکا، قبائل عرب دَل کے دَل مسلمان ہونے لگے۔ وعدہ سچا ہوا اب امت کے گناہ بخشوایا کر کہ درجہ شفاعت کا بھی ملے۔ یہ سورت اتری آخر عمر میں، حضرت ﷺ نے جانا کہ میرا جو کام تھا دنیا میں کرچکا اب سفر ہے آخرت کا۔

نام :پہلی آیت اذا جآءَ نصر اللہ کے لفظ نصر کو اِس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول :

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہ قرآن مجید کی آخری سورت ہے، یعنی اس کے بعد کوئی مکمل سورت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل نہیں ہوئی حوالہ: مسلم، نسائی، طبرانی، ابن ابی شیبہ، ابن مردویہ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ یہ سورت حجۃ الوداع کے موقع پر ایامِ تشریق کے وسط میں بمقامِ منٰی نازل ہوئی اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹنی پر سوار ہو کر اپنا مشہور خطبہ ارشاد فرمایا حوالہ: ترمذی، بزار، بیہقی، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابو یعلٰی، ابن مردویہ۔ بیہقی نے کتاب الحج میں حضرت سراء بن بنہان کی روایت سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وہ خطبہ نقل کیا ہے جو آپ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ:
” میں نے حجۃ الوداع میں حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ لوگو جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا یہ ایامِ تشریق کے بیچ کا دن ہے۔ پھر آپ نے پوچھا جانتے ہو یہ کون سا مقام ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا یہ مشعرِ حرام ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا، شاید اس کے بعد میں تم سے نہ مل سکوں۔ خبردار رہو، تمہارے خون اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اُسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن اور یہ مقام حرام ہے، یہاں تک کہ تم اپنے رب کے سامنے حاضر ہو اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے۔ سنو، یہ بات تم میں سے قریب والا دور والے تک پہنچا دے۔ سنو، کیا میں نے تمہیں پہنچا دیا؟ اس کے بعد جب ہم لوگ مدینہ واپس ہوئے تو کچھ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہو گیا “
ان دونوں روایتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ نصر کے نزول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے درمیان تین مہینے کچھ دن کا فصل تھا، کیونکہ تاریخ کی رو سے حجۃ الوداع اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وِصال کے درمیان اتنا ہی زمانہ گزرا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے میری وفات کی خبر دے دی گئی ہے اور میرا وقت آن پورا ہوا حوالہ: مسند احمد، ابن جریر، ابن المنذر، ابن مردویہ۔ دوسری روایات جو حضرت عبد اللہ بن عباس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہوئی ہیں اُن میں بیان کیا گیا ہے کہ اِس سورت کے نزول سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ آپ کو دنیا سے رخصت ہونے کی اطلاع دے دی گئی ہے حوالہ: مسند احمد، ابن جریر، نسائی ابن ابی حاتم، ابن مردویہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس سال میرا انتقال ہونے والا ہے۔ یہ بات سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رو دیں۔ اس پر آپ نے فرمایا میرے خاندان میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملو گی۔ یہ سن کر وہ ہنس دیں حوالہ ابن ابی حاتم، ابن مردویہ۔ قریب قریب اِسی مضمون کی روایت بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجھے غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے بڑے بڑے شیوح کے ساتھ اپنی مجلس میں بلاتے تھے۔ یہ بات بعض بزرگوں کو ناگوار گزری اور انہوں نے کہا ہمارے لڑکے بھی تو اسی لڑکے جیسے ہیں، اس کو خاص طور پر کیوں ہمارے ساتھ شریکِ مجلس کیا جاتا ہے؟ (امام بخاری اور ابن جریر نے تصریح کی ہے کہ یہ بات کہنے والے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ علم کے لحاظ سے اس کا جو مقام ہے وہ آپ لوگ جانتے ہیں۔ پھر ایک روز انہوں نے شیوخِ بدر کو بلایا اور مجھے بھی اُن کے ساتھ بلا لیا۔ میں سمجھ گیا کہ آج مجھےیہ دکھانے کے لیے بلایا گیا ہے کہ مجھ کو ان کی مجلس میں کیوں شریک کیا جاتا ہے۔ دورانِ گفتگو میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شیوخ بدر رضی اللہ عنہم اجمعین سے پوچھا کہ آپ حضرات اذا جآءَ نصر اللہ والفتح کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ بعض نے کہا اس میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب اللہ کی نصرت آئے اور ہم کو فتح نصیب ہو تو ہم اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کریں۔ بعض نے کہا اس سے مراد شہروں اور قلعوں کی فتح ہے۔ بعض خاموش رہے۔ اس کے بعد حضرت رضی اللہ عنہ نے کہا ابن عباس رضی اللہ عنہ، کیا تم بھی یہی کہتے ہو؟ میں نے کہا، نہیں۔ انہوں نے پوچھا پھر تم کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اجل ہے۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر دی گئی ہے جب اللہ کی نصرت آ جائے اور فتح نصیب ہو جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وقت آن پورا ہوا، اس کے بعد آپ اللہ کی حمد اور استغفار کریں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بھی اُس کے سوا کچھ نہیں جانتا جو تم نے کہا ہے۔ ایک روایت میں اس پر یہ اضافہ ہے کہ حضرت عمر نے شیوخِ بدر سے فرمایا آپ لوگ مجھے کیسے ملامت کرتے ہیں جبکہ اِس لڑکے کو اس مجلس میں شریک کرنے کی وجہ آ نے دیکھ لی حوالہ: بخاری، مسند احمد، ترمذی، ابن جریر، ابن مردویہ، بغوی، بیہقی، ابن المنذر
موضوع اور مضمون :

جیسا کہ مندرجۂ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے، اِس سورہ میں اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ بتا دیا تھا کہ جب عرب میں اسلام کی فتح مکمل ہو جائے اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کام مکمل ہو گیا ہے جس کے لیے آپ دنیا میں بھیجے گئے تھے۔ اس کے بعد آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ اللہ کی حمد اور اس کی تسبیح کرنے میں مشغول ہو جائیں کہ اُس کے فضل سے آپ اتنا بڑا کام انجام دینے میں کامیاب ہوئے، اور اُس سے دعا کریں کہ اِس خدمت کی انجام دہی میں جو بھول چوک یا کوتاہی بھی آپ سے ہوئی ہو اُسے وہ معاف فرما دے۔ اس مقام پر آدمی غور کرے تو دیکھ سکتا ہے کہ ایک نبی اور ایک عام دنیوی رہنما کے درمیان کتنا عظیم فرق ہے۔ کسی دنیی رہنما کو اگر اپنی زندگی ہی میں وہ انقلاب عظیم برپا کرنے میں کامیابی نصیب ہو جائے جس کے لیے وہ کام کرنے اٹھا ہو تو اس کے لیے یہ حشن منانے اور اپنی قیادت پر فخر کرنے کا موقع ہوتا ہے لیکن یہاں اللہ کے پیغمبر کو ہم دیکھتے ہیں کہ اُس نے 23 سال کی مختصر مدت میں ایک پوری قوم کے عقائد، افکار، عادات، اخلاق، تمدن، تہذیب، معاشرت، معیشت، سیاست اور حربی قابلیت کو بالکل بدل ڈالا اور جہالت و جاہلیت میں ڈوبی ہوئی قوم کو اٹھا کر اس قابل بنا دیا کہ وہ دنیا کو مسخر کر ڈالے اور اقوامِ عالم کی امام بن جائے، مگر ایسا عظیم کارنامہ اُس کے ہاتھوں انجام پانے کے بعد اُسے جشن منانے کا نہیں بلکہ اللہ کی حمد اور تسبیح کرنے اور اُس سے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، اور وہ پوری عاجزی کے ساتھ اِس حکم کی تعمیل میں لگ جاتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی وفات سے پہلے سبحٰنک اللھم و بحمدک استغفرک و اتوب الیک (بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں سبحان اللہ و بحمدہ استغفر اللہ و اتوب الیہ) کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیسے کلمات ہیں جو آپ نے اب پڑھنے شروع کر دیے ہیں؟ فرمایا میرے لیے ایک علامت مقرر کر دی گئی ہے کہ جب میں اُسے دیکھوں تو یہ الفاظ کروں اور وہ ہے اذا جآءق نصر اللہ والفتح حوالہ مسند احمد، ابن جریر، ابن المنذر، ابن مردویہ۔ اسی سے ملتی جلتی بعض روایات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے رکوع و سجود میں بکثرت یہ الفاظ کہتے تھے سبحٰنک اللھم و بحمدک اللھم اغفرلی۔ یہ قرآن (یعنی سورۂ نصر) کی تاویل تھی جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمائی تھی حوالہ: بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانِ مبارک پر آپ کے آخری زمانۂ حیات میں اٹھتے بیٹھتے اور جاتے آتے یہ الفاظ جاری رہتے: سبحان اللہ و بحمدہ میں نے ایک روز پوچھا یا رسول اللہ، آپ کثرت سے یہ ذکر کیوں کرتے رہتے ہیں؟ فرمایا مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے پھر آپ نے یہ سورت پڑھی حوالہ ابن جریر۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کثرت سے یہ ذکر فرماتے رہتے: سبحانک اللھم و بحمدک اللھم اغفرلی، سبحانک ربنا و بحمدک، اللھم اغفرلی، انک انت التواب الغفور حوالہ ابن جریر، مسند احمد، ابن ابی حاتم ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخرت کے لیے محنت و ریاضت کرنے میں اِس قدر شدت کے ساتھ مشغول ہو گئے جتنے اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے حوالہ: نسائی، طبرانی، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ ۔

This Surah informs of the Completion of the Life of Allah's Messenger

Al-Bukhari recorded from Ibn `Abbas that he said, "Umar used to bring me into the gatherings with the old men of (the battle of) Badr. However, it was as if one of them felt something in himself (against my attending). So he said, `Why do you (`Umar) bring this (youth) to sit with us when we have children like him (i.e., his age)' So `Umar replied, `Verily, he is among those whom you know. Then one day he called them and invited me to sit with them, and I do not think that he invited me to be among them that day except to show them. So he said, `What do you say about Allah's statement,
﴿إِذَا جَآءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ﴾
(When there comes the help of Allah and the Conquest.)' Some of them said, `We were commanded to praise Allah and seek His forgiveness when He helps us and gives us victory.' Some of them remained silent and did not say anything. Then he (`Umar) said to me, `Is this what you say, O Ibn `Abbas' I said, `No.' He then said, `What do you say' I said, `It was the end of the life of Allah's Messenger that Allah was informing him of. Allah said,
﴿إِذَا جَآءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ﴾
(When there comes the help of Allah and the Conquest.) which means, that is a sign of the end of your life.
﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوِبَا ﴾
(So, glorify the praises of your Lord, and ask His forgiveness. Verily, He is the One Who accepts the repentance and Who forgives.)' So, `Umar bin Al-Khattab said, `I do not know anything about it other than what you have said.''' Al-Bukhari was alone in recording this Hadith. Imam Ahmad recorded from Ibn `Abbas that he said, "When
﴿إِذَا جَآءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ﴾
(When there comes the help of Allah and the Conquest.) was revealed, the Messenger of Allah said,
«نُعِيَتْ إِلَيَّ نَفْسِي»
(My death has been announced to me.) And indeed he died during that year.'' Ahmad was alone in recording this Hadith. Al-Bukhari recorded that `A'ishah said, "The Messenger of Allah used to say often in his bowing and prostrating,
«سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي»
(Glory to You, O Allah, our Lord, and praise be to You. O Allah, forgive me.) He did this as his interpretation of the Qur'an (i.e., showing its implementation).'' The rest of the group has also recorded this Hadith except for At-Tirmidhi. Imam Ahmad recorded from Masruq that `A'ishah said, "The Messenger of Allah used to often say towards the end of his life,
«سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْه»
(Glory to Allah, and praise be unto Him. I seek Allah's forgiveness and I repent to Him.) And he said,
«إِنَّ رَبِّي كَانَ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَأَرَى عَلَامَةً فِي أُمَّتِي، وَأَمَرَنِي إِذَا رَأَيْتُهَا أَنْ أُسَبِّحَ بِحَمْدِهِ وَأَسْتَغْفِرَهُ، إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا، فَقَدْ رَأَيْتُهَا:
﴿إِذَا جَآءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِى دِينِ اللَّهِ أَفْوَجاً - فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوِبَا ﴾»
(Verily, my Lord has informed me that I will see a sign in my Ummah and He has commanded me that when I see it, I should glorify His praises and seek His forgiveness, for He is the One Who accepts repentance. And indeed I have seen it (i.e., the sign). (When there comes the help of Allah and the Conquest (Al-Fath). And you see that the people enter Allah's religion in crowds. So glorify the praises of your Lord, and ask His forgiveness. Verily, He is the One Who accepts the repentance and Who forgives.))'' Muslim also recorded this Hadith. The meaning of Al-Fath here is the conquest of Makkah, and there is only one view concerning it. For indeed the different areas of the Arabs were waiting for the conquest of Makkah before they would accept Islam. They said, "If he (Muhammad is victorious over his people, then he is a (true) Prophet.'' So when Allah gave him victory over Makkah, they entered into the religion of Allah (Islam) in crowds. Thus, two years did not pass (after the conquest of Makkah) before the peninsula of the Arabs was laden with faith. And there did not remain any of the tribes of the Arabs except that they professed (their acceptance) of Islam. And all praise and blessings are due to Allah. Al-Bukhari recorded in his Sahih that `Amr bin Salamah said, "When Makkah was conquered, all of the people rushed to the Messenger of Allah to profess their Islam. The various regions were delaying their acceptance of Islam until Makkah was conquered. The people used to say, `Leave him and his people alone. If he is victorious over them he is a (true) Prophet.''' We have researched the war expedition for conquest of Makkah in our book As-Surah. Therefore, whoever wishes he may review it there. And all praise and blessings are due to Allah.Imam Ahmad recorded from Abu `Ammar that a neighbor of Jabir bin `Abdullah told him, "I returned from a journey and Jabir bin `Abdullah came and greeted me. So I began to talk with him about the divisions among the people and what they had started doing. Thus, Jabir began to cry and he said, `I heard the Messenger of Allah saying,
«إِنَّ النَّاسَ دَخَلُوا فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا، وَسَيَخْرُجُونَ مِنْهُ أَفْوَاجًا»
(Verily, the people have entered into the religion of Allah in crowds and they will also leave it in crowds.)'' This is the end of the Tafsir of Surat An-Nasr, and all praise and blessings are due to Allah.

انسان خسارے میں ہے

والعصر إن الإنسان لفي خسر إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر (سورة العصر)


ترجمہ :”زمانے کی قسم !بے شک انسان گھاٹے میں ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے اور ایک دوسرے کو ( ایمان اور عمل صالح کی ) نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی “ ۔


تشریح : یہ سورہ بے پناہ اہمیت کی حامل اور عظمت والی سورہ ہے ۔ امام شافعی رحمه الله فرماتے ہیں” اگر لوگ اس سورہ کوبغورپڑھیں اور سمجھیں تو ان کے لیے یہی سورہ کافی ہے“۔


امام ابن قیم رحمه الله مفتاح دار السعادة میں اس سورہ کی تشریح کرتے ہوے فرماتے ہیں :


” یہ سورہ چار باتوں پر مشتمل ہے ۔ سب سے پہلی بات علم ، جس سے حق کی معرفت حاصل ہوتی ہے ، مومن جانتا ہے کہ اللہ حق ہے ، اس کا وعدہ حق ہے ، اس کا رسول حق ہے ، اس کی ملاقات حق ہے ، فرشتے حق ہیں، انبیاءحق ہیں، جنت حق ہے، جہنم حق ہے ، پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہے پھر لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہے اور علم عمل اور تعلیم پر صبر کرتا ہے ۔ یہ (علم ،عمل،تعلیم اورصبر) چارچیزیں ہوئیں ‘ جب انسان ان کو مکمل کرلیتا ہے تو وہ اپنی ذات کی تکمیل کرلیتا اور دوسروں کوبھی مکمل کرنے والا بن جاتا ہے “۔


چنانچہ اللہ پاک نے اس سورہ میں زمانے کی قسم کھاکر کہاکہ اس دنیا میںسارے انسان گھاٹے ،خسارے اور ٹوٹے میں ہيں۔ زمانہ تین طرح کا ہوتا ہے ماضی حال اور مستقبل ‘ گویا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ سارے انسان خسارے میں تھے ،خسارے میں ہیں اور خسارے میں رہیں گے ۔ تاہم اس خسارے اور گھاٹے سے صرف وہی لوگ محفوظ ہیں جو ان چار صفات کے حامل ہیں۔




(۱) (۲) اللہ پر پختہ ایمان ، اوراس ایمان کے مطابق عمل صالح : ایمان کے ساتھ عمل ہرانسان سے مطلوب ہے ، ایمان اور عمل دونوں کا بہت گہرا تعلق ہے ،ایمان کی تصدیق عمل ہی کرتا ہے،اور عمل کی قبولیت کے لیے ایمان لازم ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں مختلف مقامات پر دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے جیسے ” جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیا، وہی لوگ جنتی ہوںگے، اس میں ہمیشہ رہیںگے“ ( البقرة : ۲۸) اس معنی کی متعدد آیات آئی ہیں


عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میںنہ نوری ہے نہ ناری ہے


(۳)حق کی وصیت :ایمان وعمل کے بعد اس امت کی بنیادی صفت ایمان وعمل کی طرف دعوت ہے،اوراسی بنیاد پر اس امت کو خیرامت کا لقب دیا گیا ہے کہ یہ امت محض اپنی اصلاح پراکتفانہیں کرتی بلکہ افراد اورمعاشرے کی اصلاح کی بھی فکرمند ہوتی اوراس کے لیے بے چین رہتی ہے۔ ( آل عمران : ۰۱۱ )


(۴)صبر کی وصیت : دعوت واصلاح کا کام بڑا صبرآزماہوتا ہے ،اس راہ میں پھولوں کی سیج نہیں بچھائی جاتی بلکہ کانٹوںسے مقابلہ کرنا پڑتاہے ،اس لیے دعوت کی راہ میں آنے والی مصیبتوں اورپریشانیوں کوخندہ پیشانی سے انگیز کرنابندہ مومن سے مطلوب ہے ۔


جس شخص کے اندر یہ چار صفات پیدا ہوگئے حقیقت میں وہی کامیاب ہے ۔
شیخ حبیب الرحمن

مانگو تو بس اللہ سے

احمد بن ابي غالب چھٹي صدي ہجري کے بزرگ ہے، لوگ ان کے پاس دعا کيلئے عموما حاضر ہوتے تھے۔

ايک مرتبہ کوئي صاحب ان کي خدمت ميں آئے اور کسي چيز کے متعلق کہا کہ۔۔۔۔
آپ فلاں صاحب سے ميرے لئے وہ چيز مانگ ليجئيے۔

احمد فرمانے لگے ميرے بھائي ميرے ساتھ کھڑے ھوجائيے، دونوں دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ ہي سے کيوں نہ مانگ ليں، کھلا در چھوڑ کر بند دروازے کا رخ کيوں کيا جائے۔
يقينا اللہ کا در ہر وقت کھلا ھے، يقين اور ايمان کي کمزوري ہوتي ہے، کہ اسے چھوڑ کر مخلوق کے بند دروازوں پر کھڑے ہوکر ذلت اٹھائي جائے، اس کھلے دروازے کي طرف رجوع کي عادت تو ڈالئيے، آزما کر تو ديکھئيے۔

ہماری دُعائیں قبول نہیں ہوتیں

شقیق بن اِبراہیم رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ اِبراہیم بن أدھم بصرہ کے بازار میں سے گذر رہے تھے کہ لوگوں ان کے ارد گِرد اکٹھے ہوگئے اور پوچھنے لگے """ اے ابو اسحاق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے (((((أدعُونی أستجِب لَکُم ::: مجھے پکارو میں تمہارے لیے تُم لوگوں کی (پُکار ودُعا )قبول کروں گا ))))) سورت غافر /آیت60،
اور ہم مدتوں سے اسے پکار رہے ہیں لیکن ہماری دُعائیں قبول نہیں ہوتیں ،
ابراہیم رحمہُ اللہ نے فرمایا :::
""""" اے بصرہ والو تُم لوگوں کے دِل دس چیزوں میں مر چکے ہیں ،
پہلی چیز یہ ہے کہ ::: تُم لوگوں نے اللہ کے بارے میں جانا لیکن اس کا حق ادا نہیں کیا،
دوسری چیز یہ ہے کہ :::تُم لوگ اللہ کی کتاب پرھتے ہو لیکن اُس پر عمل نہیں کرتے ،
تیسری چیز یہ ہے کہ:::تُم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہو لیکن اُن کی سُنّت کو چھوڑ دیتے ہو،
چوتھی چیز یہ ہے کہ ::: تُم لوگ شیطان سے دُشمنی کا دعویٰ کرتے ہو لیکن(عملی طور پر) اُس کی موافقت کرتے ہو ،
پانچویں چیز یہ ہے کہ ::: تم لوگ کہتے ہو کہ ہمیں جنّت (حاصل کرنا) پسند ہے ، لیکن اس کے لیے کام نہیں کرتے ،
چَھٹی چیز یہ ہے کہ :::تُم لوگ کہتے ہو ہم جنہم (میں جانے سے) ڈرتے ہیں لیکن اپنے آپ کو اُس کے لیے تیار کر رکھا ہے ،
ساتویں چیز یہ ہے کہ :::تُم لوگ کہتے ہو کہ موت حق ہے لیکن اس کے لیے تیاری نہیں کرتے ،
آٹھویں چیز یہ ہے کہ ::: اپنے (مُسلمان) بھائیوں (بہنوں) کی خامیاں تلاش کرنے اوراُنہیں بڑھا چڑھا کر اُن کی تشہیر کرنے میں مشغول رہتے ہو اور اپنی خامیوں کومعمولی سمجھتے ہو،
نویں چیز یہ ہے کہ ::: اپنے رب کی نعمتیں کھاتے (پیتے اور استعمال کرتے) ہو لیکن اس کا شکر ادا نہیں کرتے (نہ ز ُبان سے اور نہ عمل سے)،
اور دسویں چیز یہ ہے کہ ::: تُم لوگ اپنوں کے مردے تو دفناتے ہو لیکن ان مرنے والوں (کی زندگی اور موت) سے کچھ سبق حاصل نہیں کرتے ۔
حلیۃ الاولیاء / جلد 8/صفحہ 16، مطبوعہ دارالکتاب العربی ، بیروت ، لبنان۔

سورۃ توبہ سے پہلے بسم اللہ کیوں نہیں لکھی جاتی؟

سوال: قرآن مجید کی ہر سورت سے پہلے بسم اللہ لکھی جاتی ہے؟

سورہ توبہ سے پہلے ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟


جواب: سورہ توبہ کا موضوع اللہ تعالیٰ کا عرب کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ پر

عذاب ہے۔ اس کو آپ ایسا سمجھ لیجئے کہ قوم نوح اور عاد و ثمود وغیرہ پر اللہ تعالیٰ کا
عذاب آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اپنے رسول بھیجے جنہیں انہوں
نے جھٹلا دیا۔ ایک خاص مدت تک مہلت دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب نازل کیا۔

اس عذاب کو نازل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ

وہ ان پر طوفان اور زلزلے کی صورت میں آفات نازل کریں جس کے

نتیجے میں یہ اقوام صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے
جو جزا و سزا آخرت میں برپا کرنی ہے ،

اس کا ایک نمونہ (Sample) دنیا میں دکھا دیا تاکہ باقی اقوام اس سے
عبرت حاصل کریں اور خدا کی فرمانبردار بن کر رہیں۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم پر یہ عذاب آسمانی آفت کی

بجائے اہل اسلام کی تلوار کے ذریعے نافذ کیا گیا اور اس کی تفصیلی

ہدایات سورہ توبہ میں دی گئیں۔ یہ ہدایات بالکل ویسی ہی تھیں

جیسی سابقہ اقوام کے معاملے میں فرشتوں کو دی گئی تھیں۔

اس سورہ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ مشرکین عرب

اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو قبول نہ کریں

تو ان کی سزا موت ہے ۔ توحید سے اپنی وابستگی کے باعث عرب اور

چند مخصوص علاقوں کے اہل کتاب کے لئے جزیہ کی سزا مقرر کی گئی ہے

کہ وہ پست ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ عطا کریں۔ چونکہ یہ سزا کا بیان ہے،

اس لئے یہ مناسب نہ تھا کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ذکر کیا جاتا اس لئے

اس سورہ سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ نہیں لکھوائی۔