Friday, May 27, 2011

نیت کے مسائل

مسئلہ نمبر 31 نیت کے مسائل

اعمال کے اجر و ثواب کا دارومدار نیت پر ہے۔

”حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق بدلہ ملے گا جس نے دنیا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کی اسے صرف دنیا ہی ملے گی( اور ہجرت کا ثواب نہیں ملے گا) اور جس نے کسی عورت سے نکاح کے لیے ہجرت کی اسے بس عورت ہی ملے گی(اور ہجرت کا ثواب نہیں ملے گا۔“

اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
مختصر صحیح بخاری، للزبیدی، رقم الحدیث1



مسئلہ نمبر 32 دکھاوے کا روزہ شرک ہے۔

”حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے”جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔

اسے احمد نے روایت کیا ہے۔
الترغیب والترھیب، لمحی الدین دیب، الجزءالاول، رقم الحدیث43



مسئلہ نمبر 33 روزے کی نیت دل کے ارادے سے ہے۔ مروجہ الفاظ ”وَبِصَومِ غَدِِ نَوَیتُ“ سنت سے ثابت نہیں۔

”حضرت حفصہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جس نے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔“

اسے ابو داﺅد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
صحیح سنن الترمذی، للالبانی، الجزءالاول، رقم الحدیث583



مسئلہ نمبر 35 نفلی روزہ کی نیت دن میں زوال سے پہلے سے پہلے کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے۔


”ام المﺅمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور پوچھا”کیا تمہارے پاس کچھ (کھانے کو) ہے؟“ ہم نے کہا”نہیں!“ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”اچھا تو پھر میرا روزہ ہے۔“ کسی اور دن پھر بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے“ میں نے عرض کیا”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! حیس(حلوہ) تحفہ آیا ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” تو لاﺅ میں صبح سے روزے سے تھا۔“

اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
مختصر صحیح مسلم، للالبانی، رقم الحدیث630

دکھاوے کی نماز

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن (صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ بتلاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر جاری ہو جس میں روزانہ پانچ دفعہ وہ نہاتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین نے عرض کیا کہ کچھ بھی میل باقی نہ رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بالکل یہ مثال پانچ نمازوں کی ہے۔ اللہ تعالٰی ان کے ذریعہ سے خطاؤں کو دھوتا اور مٹا دیتا ہے”۔ (بخاری و مسلم)

 فائدہ:۔

 انسان اللہ کا بندہ اور عبد یعنی غلام ہے۔ اللہ تعالٰی ہی اس کا خالق اور الٰہ ہے۔ اللہ کو اپنا رب اور معبود ماننے کا تقاضہ یہ ہے کہ بندہ اپنی زندگی اللہ ہی کی اطاعت اور بندگی میں بسر کرے۔ اسی کے دیئے ہوئے احکام کو اپنی زندگی کا قانون بنائے۔ اسی کے آگے سر جھکائے۔ اسی کے آگے سجدہ ریز ہو۔ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرے اور نماز ہی درحقیقت اللہ تعالٰی کی عبادت اور اس کی پرستش کا کامل طریقہ ہے۔ نماز میں بندہ بار بار اللہ تعالٰی کے سامنے حاضر ہوتا ہے اور اس کے سامنے اپنی عاجزی اور بندگی کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے کا عہد کرتا ہے۔ اس سے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگتا ہے۔ صاحب ایمان بندہ جس کو نماز کی حقیقت نصیب ہو۔ جب نماز میں مشغول ہوتا ہے تو اس کی روح گویا اللہ تعالٰی کے بحر جلال و جمال میں غوطہ زن ہوتی ہے اور جس طرح کوئی میلا کچیلا اور گندہ کپڑا دریا کی موجوں میں پڑ کر پاک و صاف اور اجلا ہوجاتا ہے اسی طرح اللہ تعالٰی کے جلال و جمال کے انوار کی موجیں اس بندہ کے سارے میل کچیل کو صاف کردیتی ہیں اور جب دن میں پانچ دفعہ یہ عمل ہو تو ظاہر ہے کہ اس بندہ میں میل کچیل کا نام و نشان بھی نہ رہ سکے گا۔ پس یہی حقیقت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال کے ذریعہ سمجھائی ہے۔ یعنی جس طرح پانچ مرتبہ غسل کرنے سے جسم پر میل باقی نہیں رہ سکتا اسی طرح پانچوں وقت کی نماز ادا کرنے سے گناہ بھی باقی نہیں رہ سکتے۔ اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دیتا ہے۔ گناہوں اور خطاؤں کے برے اثرات قلب پر پڑتے ہیں۔ یہ اثرات نماز سے زائل ہو جاتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ نماز حقیقت میں نماز ہو۔ محض دکھاوے کی نماز نہ ہو۔ بلکہ پورے آداب اور حضور قلب کے ساتھ ادا کی گئی ہو۔ بےشک اللہ تعالٰی کا قرب اور اس قرب کی کیفیت جو بندے کو نماز میں حاصل ہوتی ہے اس کی موجودگی میں گناہ کیسے باقی رہ سکتا ہے

۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اس حقیقت پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے:۔

 ”دن کے دونوں کناروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیا کرو۔ بےشک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں اور یہ نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کے لیے”۔

 (ہود۔114)

۔ ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےسردی کے دِنوں میں ایک درخت کی دو ٹہنیوں کو پکڑا اور ہلایا تو ایک دم اس کے پتے جھڑنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: ”اے ابوذر! جب بندہ مومن خالص اللہ کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ان پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں۔ (مسنداحمد)۔

 یعنی جس طرح آفتاب کی شعاعوں اور موسم کی خاص ہواؤں نے ان پتوں کو خشک کردیا ہے اور یہ ہوا کے معمولی جھونکوں سے اور ذرا سی حرکت دینے سے اس طرح جھڑتے ہیں اسی طرح جب بندہ مومن پوری طرح اللہ تعالٰی کی طرف متوجہ ہوکر صرف اس کی رضا جوئی کے لیے نماز پڑھتا ہے تو انوار الٰہی کی شعاعیں اور رحمت الٰہی کے جھونکے اس کے گناہوں کی گندگی کو فنا اور اس کے قصوروں کے میل کچیل کو اس سے جدا کرکے اس کو پاک صاف کردیتے ہیں۔

جہنم کے کتے، آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہی

ابوغالب نے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ :
انہوں نے مسجدِ دمشق کی سیڑھیوں پر (خارجیوں کے) سر نصب کئے ہوئے دیکھے تو فرمایا :

جہنم کے کتے، آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہیں۔ اور وہ شخص بہترین مقتول ہے جسے انہوں نے قتل کیا۔
پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ’’جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے‘‘۔
ابوغالب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : کیا آپ نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟
انہوں نے فرمایا : اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک، دو، تین، چار یہاں تک کہ سات بار تک گنا، سنا ہوتا تو تم سے بیان نہ کرتا۔
ترمذی
كتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم
باب : ومن سورة آل عمران


حدیث : 3270

ماں کے ساتھ نیکی کرنا

عَنْ ذَکَرِیَّا بِنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ کُنْتُ نَصْرَانِیًّا فَاَسْلَمْتُ وَحَجَجْتُ فَدَخَلْتُ عَلٰی اَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ فَقُلْتُ اِنِّیْ کُنْتُ عَلَی النَّصْرَانِیَّةِ وَ اِنِّیْ اَسْلَمْتُ فَقَالَ وَ اَیُّ شَیْءٍ رَاِٴیْتَ فِیْ الْاِسْلااَامِ؟ قُلْتُ قَوْلَ اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ

" مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَ لااَا الْاِیْمَانُ وَ ٰلکِنْ جَعَلْنہُاٰا نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہ مَنْ نَّشَآءُ "

فَقَالَ لَقَدْْ ھَدَاکَ اللّٰہُ ثُمَّ قَالَ:

اللّٰھُمَّ اِھْدِہ ثَلااَاثًا

سَلْ عَمَّا شِئْتَ یَا بُنَیَّ

فَقُلْتُ اِنَّ اَبِیْ وَاُمِّیْ عَلَی النَّصْرَانِیَّةِ وَاَھْلَ بَیْتِیْ وَ اُمِّیْ مَکْفُوْفَةُ الْبَصْرِ فَاَکُوْنُ مَعَھُمْ وَاَکُلُ فِیْ آنِیَتِھِمْ

فَقَالَ یَاْکُلُوْنَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ؟

فَقُلْتُ لااَا وَ لااَا یَمَسُّوْنَہُ

فَقَالَ لااَا بَآسَ فَانْظُرْ اُمَّکَ فَبَرَّھَا فَاِذَا مَاتَتْ فَلااَا تَکِلْھَا اِلٰی غَیْرِکَ کُنْ اَنْتَ الَّذِیْ تَقُوْمُ بِشَاْنِھَا وَلااَا تُخْبِرَنَّ اَحَدًا اَنَکَ اَتَیْتَنِیْ حَتّٰی تَاْتِیَنِیْ بِمِنٰی اِنْشَآءَ اللّٰہُ قَالَ فَاَتَیْنُہ بِمِنٰی وَالنَّاسُ حَوْلَہ کَاَنَّہ مُعَلِّمُ صِبْیَانٍ ھٰذَا یَسْاَلُہ وَ ھٰذَا یَسْاَلُہ فَلَمَّا قَدِمْتَ الْکُوْفَةَ الْطَفْتُ لِاُمِّیْ وَ کُنْتُ اُطْعِمُھَا وَ اَفْلِیْ ثَوْبَھَا وَ رَأْسَھَا وَاَخْدِمُھَا

فَقَالَتْ لِیْ یَا بُنَیَّ مَا کُنْتَ تَضَعُ بِیْ ہٰذَا وَاَنْتَ عَلٰی دَنِیْ فَمَا الَّذِیْ اَرٰی مِنْکَ مُنْذُھَا جَرَتْ فَدَخَلْتَ فِیْ الْحَنِیْفِیَّةِ

فَقُلْتُ رَجُلٌ مِنْ وَلَدٌ نَبِیِّنَا اَمَرَنِیْ بِھٰذَا

فَقَالَتْ ھٰذَا الرَّجُلُ ھُوَ نَبِیٌّ

فَقُلْتُ لااَا وَ ٰلکِنَّہ اِبْنُ نَبِیٍّ

فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ اِنَّ ھٰذَا نَبِیٌّ اِنَّ ھٰذِہ وَصَایَا الْاَنْبِیَآءِ

فَقُلْتُ یَا اُمَّہُ اِنَّہ لَیْسَ یَکُوْنُ بَعْدَ نَبِیِّنَا نَبِیٌّ وَٰلکِنَّہ اِبْنُہ

فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ دُیْنُکَ خَیْرُ دِیْنٍ اِعْرِضْہُ عَلَیَّ فَعَرَضْتُہ عَلَیْھَا فَدَخَلَتْ فِیْ الْاِسْلااَامِ وَ عَلَمْتُھَا فَصَلَّتِ الظُّھْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاْءَ الْآخِرَةَ ثُمَّ عَرَضَ لَھَا عَارِضٌ فِیْ الَّیْلِ فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ اَعِدْ عَلَیَّ مَا عَلَّمْتَنِیْ فَاَعَدْتَّہ عَلَیْھَا فَاَقَرَّتْ بِہ وَمَاتَتْ فَلَمَّا اَصْبَحَتْ کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ الَّذِیْنَ غَسَّلُوْھَا وَکُنْتَ اَنَا الَّذِیْ صَلَّیْتُ عَلَیْھَا وَ نَزَلَتْ فِیْ قَبْرِہ۔

(اصول کافی جلد ۳ صفحہ ۲۳۳)

ترجمہ:۔

ثقة الاسلام شیخ محمد ابن یعقوب کلینی قدس سرہ نے اپنی سند کے ساتھ زکریا ابن ابراہیم سے روایت کی ہے زکریا کہتا ہے کہ میں نصرانی تھا جو مسلمان ہو گیا اور حج کیلئے گیا وہاں امام جعفر صادق-کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا کہ میں نصرانی سے مسلمان ہو گیا ہوں۔حضرت-نے فرمایا کہ اسلام میں تو نے کیا دیکھا ہے۔میں نے کہا خدا کا یہ قول

" مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَ لااَا الْاِیْمَانُ وَ ٰلکِنْ جَعَلْنہُاٰا نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہ مَنْ نَّشَآءُ "(سورہ شوریٰ آیت ۵۲)

(تو کیا جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان کو ہی جانتا تھا لیکن ہم نے اسے نور قرار دیا ہے اس شخص کے لئے جسے ہم ہدایت کرنا چاہیں)

ظا ہر اً اس آیت کو ذ کر کرنے سے اس کی مراد یہ تھی کہ حضر ت- کی خد مت میں عر ض کر ے کہ میر ے اسلام کا سبب کو ئی چیز نہیں تھی سوا ئے اس کے کہ اللہ تعا لیٰ مجھے ہدایت کرنا چاہتا تھا۔ حضرت- نے فرمایا کہ خدا نے تجھے ہدایت کی پھر تین مرتبہ اس کے حق میں فرمایا:

اللّٰھُمَ اھْدِہ

(خدایا اس کی ہدایت فرما)

اس کے بعد حضرت- نے فرمایا جو جی چاہے سوال کر۔

میں نے عرض کیا کہ میرے والدین اور گھر والے نصرانی ہیں اور میری ماں نابینا ہے میں انکے ساتھ رہتا ہوں انہیں کے برتنوں میں کھاتا ہوں

حضرت- نے فرمایا کیا وہ سور کا گوشت کھاتے ہیں؟

عرض کی نہ بلکہ سور کے گوشت کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔

حضرت- نے فرمایاکہ ماں کی رعایت کر اور اس کے حق میں نیکی کر اور جب مرے تو اس کی میّت دوسروں کے حوالے نہ کرنا بلکہ خود اسے سنبھالنا اور اس ملاقات کے بارے میں کسی سے کچھ نہ کہنا اور منٰی میں مجھے دوبارہ ملنا اس وقت کسی کو نہ بتا نا کہ تو میرے پاس آیا ہے پس میں منٰی میں حضرت- کی خدمت میں حاضر ہو گیا ہے میں نے دیکھا کہ لوگوں نے حضرت-کے ارد گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے جس طرح بچے استاد کے ارد گرد ہوتے ہیں ہر کوئی حضرت- سے سوال پوچھ رہا تھا پس جب میں کوفہ میں آیا تواپنی ماں کے ساتھ بہت نرمی کے ساتھ پیش آنے لگااور اس کی خدمت میں مصروف ہو گیا میں اسے کھانا کھلاتااور اس کے سر اور لباس کو صاف کرتا۔

میری ماں نے ایک دن مجھ سے کہا اے فرزند عزیز! جب تو میرے دین میں تھا تو اس طرح میری خدمت نہیں کرتا تھا۔کیا وجہ ہے کہ اسلام قبول کر لینے کے بعد میرا اتنا خیال رکھتا ہے؟

میں نے کہا کہ میرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ایک فرزند نے مجھے اس طرح کرنے کا حکم دیا ہے۔

میری ماں نے کہا کیا وہ پیغمبر ہے۔

میں نے کہا نہیں بلکہ پیغمبر کے فرزند ہیں ۔

میری ماں نے کہا ایسے شخص کو پیغمبر ہونا چاہیے کیونکہ جو تعلیم اس نے تجھے دی ہے یہ تو پیغمبروں کی وصیت ہے۔

میں نے کہا: اماں جان ہمارے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد کوئی پیغمبر نہیں۔

میری ماں نے کہا: اے بیٹا تیرا دین تمام ادیان میں سب سے بہتر ہے یہ دین میرے سامنے پیش کر اور بیان کر۔

پس میں نے دین اسلام بیان کیااور میری ماں بھی اسلام میں داخل ہو گئی۔میں نے اسے دین کے آداب سکھائے۔پھر اس نے نماز ظہر و عصر اور مغرب وعشاء پڑھی۔اور اسی رات مرض المو ت اسے عارض ہوئی تو مجھے بلا کر کہنے لگی اے میرے بیٹے تو نے جو کچھ مجھے سکھایا ہے اسے دوبارہ میرے سامنے دہراوٴ۔میں نے وہ سب کچھ دہرایا اور ماں نے اس کا اقرار کیا اور وفات پا گئی۔جب صبح ہوئی تو مسلمانوں نے اسے غسل دیا اور میں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کو خود قبر میں رکھا۔

"نعم ما قیل"

(کسی نے کیا خوب کہا ہے۔)

آبادی میخانہ زویرانی ما است

جمعیت کفر از پریشانی ما است

اسلام بذات خود ندارد عیبی

ہر عیب کہ ہست در مسلمانی ما است

( ترجمہ اشعار)

شراب خانے کی آبادی ہماری ویرانی کی وجہ سے ہے۔کفر کی جمعیت اور تعداد میں روز افزوں اضافہ ہماری پریشان حالی اور دگر گونی کی وجہ سے ہے۔اسلام کی ذات میں کوئی عیب نہیں ہے جو بھی عیب ہے وہ ہماری مسلمانی میں ہے۔

اول وقت میں نمازکی فضیلت

 عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ سَئَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ؟

قَالَ: اَلصَّلٰوةُ لَوْ وَقْتِھَا۔

ثُمَّ اَیُّ شَیْءٍ؟

قَالَ: بِرُّ الْوَالِدَیْنِ۔

قُلْتُ ثُمَّ اَیُّ شَیْءٍ؟

قَالَ: اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ (وسا ئل الشیعہ جلد۳صفحہ ۸۲)

تر جمہ :۔

ابن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سوال کیا کونسا عمل خدا کو پسند ہے؟

حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: نماز کو بر وقت بجالانا (یعنی نماز کو اول وقت میں اور فضیلت کے وقت میں ادا کرنا)۔

میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا عمل ؟

حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ۔

میں نے عرض کیا اس کے بعد کونسا عمل ؟

حضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔

فقیر (شیخ عباس قمی(رحمۃ اللہ علیہ))فرماتے ہیں اسی مضمون کو شیخ کلینی(رحمۃ اللہ علیہ)نے منصور ابن حازم کے ذریعے امام جعفر صادق-سے نقل کیا ہے۔نماز کو اول وقت میں بجالانے اور اس کی حفاظت کے بارے میں بہت زیادہ روایات منقول ہیں ایک روایت میں ہے کہ

"مشرق و مغرب میں کوئی گھر ایسا نہیں ملک الموت ہر دن رات میں پانچوں نمازوں کے اوقات میں اس کی طرف نہ دیکھتا ہوپس جب کسی ایسے شخص کی روح قبض کرنا چاہتا ہو جو نماز کا خیال رکھتاہو اور اسے بر وقت بجا لاتا ہو تو ملک الموت اسے کلمہ شہادتین کی تلقین کرتا ہے( کلمہ شہادتین پڑھاتا ہے)اور شیطان ملعون کو اس سے دور کرتا ہے۔"

نیز معلوم ہونا چاہیے کہ والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی روایات بہت ہیں ایک روایات میں ہے کہ ایک جوان جہاد کا شوق رکھتا تھا لیکن اس کے والدین راضی نہیں تھے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اسے حکم دیا :

" اپنے والدین کے پاس رہو اس خدا کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے والدین کا تیرے ساتھ ایک دن کا انس تمہارے ایک سال تک جہاد کرنے سے بہتر ہے"۔

ابراہیم ابن شعیب نے امام جعفر صادق-کی خدمت میں عرض کی کہ میرا باپ بوڑھا اور کمزور ہوگیا ہے جب وہ رفع حاجت کا ارادہ کرتا ہے تو ہم اسے اٹھا کر لے جاتے ہیں

حضرت-نے فرمایا: اگر ہو سکے تو تم خود یہ کام کرو یعنی رفع حاجت کے لئے اسے اٹھا کر لے جاوٴاور اسے کھانا کھلاو ٴ کیونکہ تیرا باپ کل تیرے لیے جہنم سے بچنے کی ڈھال ہے۔

والدین کے فرمانبردار کی دعا قبول ہوتی ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم




حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَمَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَتَمَاشَوْنَ أَخَذَهُمْ الْمَطَرُ فَمَالُوا إِلَی غَارٍ فِي الْجَبَلِ فَانْحَطَّتْ عَلَی فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنْ الْجَبَلِ فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا لِلَّهِ صَالِحَةً فَادْعُوا اللَّهَ بِهَا لَعَلَّهُ يَفْرُجُهَا فَقَالَ أَحَدُهُمْ اللَّهُمَّ إِنَّهُ کَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ کَبِيرَانِ وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ کُنْتُ أَرْعَی عَلَيْهِمْ فَإِذَا رُحْتُ عَلَيْهِمْ فَحَلَبْتُ بَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ أَسْقِيهِمَا قَبْلَ وَلَدِي وَإِنَّهُ نَائَ بِيَ الشَّجَرُ فَمَا أَتَيْتُ حَتَّی أَمْسَيْتُ فَوَجَدْتُهُمَا قَدْ نَامَا فَحَلَبْتُ کَمَا کُنْتُ أَحْلُبُ فَجِئْتُ بِالْحِلَابِ فَقُمْتُ عِنْدَ رُئُوسِهِمَا أَکْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا مِنْ نَوْمِهِمَا وَأَکْرَهُ أَنْ أَبْدَأَ بِالصِّبْيَةِ قَبْلَهُمَا وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ فَلَمْ يَزَلْ ذَلِکَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمْ حَتَّی طَلَعَ الْفَجْرُ فَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْهِکَ فَافْرُجْ لَنَا فُرْجَةً نَرَی مِنْهَا السَّمَائَ فَفَرَجَ اللَّهُ لَهُمْ فُرْجَةً حَتَّی يَرَوْنَ مِنْهَا السَّمَائَ وَقَالَ الثَّانِي اللَّهُمَّ إِنَّهُ کَانَتْ لِي ابْنَةُ عَمٍّ أُحِبُّهَا کَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَائَ فَطَلَبْتُ إِلَيْهَا نَفْسَهَا فَأَبَتْ حَتَّی آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ فَسَعَيْتُ حَتَّی جَمَعْتُ مِائَةَ دِينَارٍ فَلَقِيتُهَا بِهَا فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا قَالَتْ يَا عَبْدَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفْتَحْ الْخَاتَمَ فَقُمْتُ عَنْهَا اللَّهُمَّ فَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي قَدْ فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْهِکَ فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا فَفَرَجَ لَهُمْ فُرْجَةً وَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ إِنِّي کُنْتُ اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ فَلَمَّا قَضَی عَمَلَهُ قَالَ أَعْطِنِي حَقِّي فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَقَّهُ فَتَرَکَهُ وَرَغِبَ عَنْهُ فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّی جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيَهَا فَجَائَنِي فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَظْلِمْنِي وَأَعْطِنِي حَقِّي فَقُلْتُ اذْهَبْ إِلَی ذَلِکَ الْبَقَرِ وَرَاعِيهَا فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَهْزَأْ بِي فَقُلْتُ إِنِّي لَا أَهْزَأُ بِکَ فَخُذْ ذَلِکَ الْبَقَرَ وَرَاعِيَهَا فَأَخَذَهُ فَانْطَلَقَ بِهَا فَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْهِکَ فَافْرُجْ مَا بَقِيَ فَفَرَجَ اللَّهُ عَنْهُمْ

صحیح البخاری کتاب الادب بَاب إِجَابَةِ دُعَاءِ مَنْ بَرَّ وَالِدَيْهِ



" ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی چلے جا رہے تھے کہ ان کو بارش نے آ گھیرا، تو وہ پہاڑکے ایک غار میں پناہ کے لئے گئے، ان کی غار کے دہانے پر ایک چٹان آ گری، جس سے اس کا منہ بند ہوگیا، تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم لوگ اپنے اپنے نیک کاموں پر غور کرو جو تم نے اللہ کے لئے کئے ہوں، اور اس کے واسطہ سے اللہ تعالی سے دعا کرو، امید ہے کہ اللہ اس چٹان کو ہٹادے گا۔

ان میں سے ایک نے کہا یا اللہ میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے، میں ان کے لئے جانور چراتا تھا، جب شام کو واپس آتا تو ان جانوروں کو دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے والدین کو پینے کو دیتا، ایک دن جنگل میں دورتک چرانے کو لے گیا، واپسی میں شام ہو گئی، جب آیا تو وہ دونوں سوچکے تھے، میں نے حسب دستور جانوروں کو دوہا اور دودھ لے کر آیا اور ان کے سرہانے کھڑا ہوگیا، میں نے ناپسند سمجھا کہ انہیں نیند سے بیدا کروں اور یہ بھی برا معلوم ہوا کہ میں پہلے اپنے بچوں کو دوں، حالانکہ بچے میرے قدموں کے پاس آکر چیخ رہے تھے، طلوع فجر تک میرا اور میرے بچوں کا یہی حال رہا، اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیری رضا کی خاطر کیا ہے تو یہ چٹان تھوڑی سے ہٹادے، تاکہ آسمان نظر آ سکے، تو اللہ تعالی نے اس چٹان کو تھوڑا سا ہٹا دیا، یہاں تک کہ آسمان نظر آنے لگا

اور دوسرے آدمی نے کہا یا اللہ میری ایک چچا زاد بہن تھی، میں اسے بہت چاہتا تھا، جتنا کہ مرد عورتوں سے محبت کرتے ہیں، میں نے اس کی جان اس سے طلب کی، (یعنی وہ اپنے آپ کو میرے حوالے کردے) لیکن اس نے انکار کیا، یہاں تک کہ میں اس کے پاس سو دینار لے کر آؤ، چناچہ میں نے محنت کی یہاں تک کہ سو دینار ہو گئے، تو میں انہیں لے اس کے پاس آیا، جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو اس نے کہا کہ اے خدا کے بندے خدا سے ڈر اور مہر (سیل) کو نہ کھول، یہ سن کر میں کھڑا ہو گیا، یا اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیری خوشی کی خاطر کیا ہے، تو ہم سے اس چٹان کو ہٹادے، تو اللہ تعالی نے اس چٹان کو تھوڑا سا سرکا دیا

تیسرے آدمی نے کہا یا اللہ میں نے ایک فرق چاول پر ایک مزدور کام پر لگایا، جب وہ کام پورا کر چکا تو اس نے کہا کہ میرا حق دے دو، میں نے اس کی مزدوری دے دی، لیکن اس نے اپنی مزدوری چھوڑ دی اور لینے سے انکار کردیا، میں اس کو مسلسل کاشت کیا یہاں تک کہ میں نے مویشی اور چرواہا اکٹھا کیا (یعنی بڑھتے بڑھتے بہت سے مویشی ہوگئے اور اس کے لئے ایک چرواہا بھی رکھ لیا) وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ اللہ سے ڈرو اور مجھ پہ ظلم نہ کرو اور مجھے میراحق دے دو، میں نے کہا ان مویشیوں اور چرواہے کے پاس جا (اور ان سب کو لے جا) اس نے کہا اللہ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق نہ کر، میں نے کہا میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا ہوں، یہ جانور اور چرواہا لے جا، چناچہ اس نے لے لیا اور چلا گیا اس لئے اگر تو جانتا ہے کہ یہ میں نے صرف تیری رضا کی خاطر کیا ہے تو باقی حصہ بھی دور کردے، چناچہ اللہ تعالی نے اس کو بھی سرکا دیا۔"


صحیح البخاری کتاب الادب بَاب إِجَابَةِ دُعَاءِ مَنْ بَرَّ وَالِدَيْهِ

سیدنا انس رضی اللٌھ تعالی عنھ سے روایت ہے کھ نبی صلی اللٌھ

سیدنا انس رضی اللٌھ تعالی عنھ سے روایت ہے کھ نبی صلی اللٌھ
علیھ وسلم نے فرمایا: یھ تین باتیں جس کسی میں ھوں گی وہ ایمان
کی شیرینی کا مزہ پائے گا۔اللٌھ اور اس کا رسول اس کے نزدیک
تمام ، ماسوا سے زیادہ محبوب ھوں۔اور جس کسی سے محبت کرے
تو اللٌھ ھی کے لیے اس سے محبت کرے۔اور کفر میں واپس جانے
کو ایسا برا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو ہر کوئ برا
سمجھتا ہے۔ا

بخاری:کتاب الایمان

جو استغفار کرنے کو اپنے اوپر لازم کرے


ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، حکم بن مصعب، محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو استغفار کرنے کو اپنے اوپر لازم کرے گا تو اللہ تعالی اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا ایک راستہ پیدا فرمائے گا اور ہر غم سے نجات دے گا اور ایسی جگہ سے روزی عطا فرمائے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا۔

جہنم میں عورتوں کی کثرت کیوں؟

جہنم میں عورتوں کی تعداد مردوں کی تعداد سے زیادہ کیوں ہے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ جہنم میں عورتوں کی اکثریت ہے ۔ عمران بن حصین بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے جنت میں جھانکا تو اس میں اکثر لوگ فقراء تھے اور میں نے جہنم میں جھانکا تو اس میں اکثر عورتیںتھیں
صحیح بخاری حدیث نمبر 3241 صحیح مسلم حدیث نمبر
2737
اور اس کے سبب کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے وہ بھی بیان فرمایا کہ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے آگ دکھائی گئي تو میں آج جیسا خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے جہنم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی ہے تو صحابہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اپنے کفر کی وجہ سے تو آپ سے یہ کہا گیا وہ اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرتی ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خاوند اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ زندگی بھر احسان کرتے رہو توپھر وہ آپ سے کوئی (ناپسندیدہ)چیز دیکھ لے تو یہ کہتی ہے کہ میں نے ساری زندگی تم سے کوئی خیر ہی نہیں دیکھی صحیح بخاری حدیث نمبر 1052
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عید الفطر کے لۓ عید گاہ کی طرف نکلے تو عورتوں کے پاس گزرے تو فرمانے لگے : اے عورتوں کی جماعت صدقہ و خیرات کیا کرو بیشک مجھے دکھایا گیا ہے کہ تمہاری جہنم میں اکثریت ہے تو وہ کہنے لگیں اے اللہ کے رسول وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم گالی گلوچ بہت زیادہ کرتی ہو اور خاوند کی نافرمانی کرتی ہو میں نے دین اور عقل میں ناقص تم سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا تم میں سے کوئی ایک اچھے بھلے شخص کی عقل خراب کر دیتی ہے وہ کہنے لگیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارا دین اور ہماری عقل میں نقص کیا ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا عورت کی گواہی نصف مرد کے برابر نہیں؟ تو وہ کہنے لگیں کیوں نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو یہ اس کی عقل کا نقصان ہے۔اور کیا جب کسی کو حیض آئے تو وہ نماز اور روزہ نہیں چھوڑتی؟ تو وہ کہنے لگيں کیوں نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اس کے دین کا نقصان ہے۔ صحیح بخاری
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کے دن نماز میں حاضر تھا تو آپ نے خطبہ سے قبل بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی پھر نماز کے بعد بلال رضی اللہ عنہ پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئےاور اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا اور اس کی اطاعت کرنے پر ابھارا اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کی پھر عورتوں کے پاس آئے اور انہیں وعظ و نصیحت کی اور کہنے لگے : اے عورتو ! صدقہ و خیرات کیا کرو کیونکہ تمہاری اکثریت جہنم کا ایندھن ہے تو عورتوں کے درمیان سے ایک سیاہ نشان والے رخساروں والی عورت اٹھ کر کہنے لگی اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تم شکوہ اور شکایت بہت زیادہ کرتی اور خاوند کی نافرمانی اور نا شکری کرتی ہو

(صحیح مسلم حدیث نمبر 885
اس لیےہماری مسلمان بہنوں پر ضروری ہے کہ جو اس حدیث کو جانتی ہیں وہ خاص کر نماز پڑھیں اور ان اشیاء سے دور رہیں جو کہ اللہ تعالی نے حرام کی ہیں خاص کر اس شرک سے جو کہ عورتوں کے اندر مختلف صورتوں میں پھیلا ہوا ہے مثلا اللہ تعالی کےعلاوہ دوسروں سے حاجات پوری کروانا اور جادو گروں اورنجومیوں کے پاس جاناوغیرہ
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اور ہمارے سب بہن بھائیوں کو آگ سے دور کرے اور ایسے قول وعمل کرنے کی توفیق دے جو اللہ تعالی کے قربت کاذریعہ ہوں آمین


اللہ ہم سب کو بغیر عذاب و حساب ک جنت میں داخل کردے آمین

دو طرح کی آنکھوں پر جہنم حرام ہے

دو طرح کی آنکھوں پر جہنم حرام ہے
حضر ت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھو سکتی۔ ایک اللہ کے ڈر سے رونے والی آنکھ اور دوسری وہ آنکھ جو رات بھر بیدار رہ کر اللہ کی راہ میں پہرہ دے۔

فرشتے ان کو اپنے پروں سے ڈھک لیتے ہیں

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1340 حدیث قدسی مکررات 3 متفق علیہ 2 بدون مکرر
قتیبہ بن سعید، جریر، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کے چند فرشتے ہیں جو رستوں میں گھومتے ہیں، اور ذکر کرنے والوں کو ڈھونڈتے ہیں، جب وہ کسی قوم کو ذکر الٰہی میں مشغول پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکار کر کہتے ہیں، اپنی ضرورت کی طرف آؤ، آپ نے فرمایا کہ وہ فرشتے ان کو اپنے پروں سے ڈھک لیتے ہیں، اور آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ ان کا رب پوچھتا ہے کہ میرے بندے کیا کر رہے ہیں حالانکہ وہ ان کو فرشتوں سے زیادہ جانتا ہے، فرشتے جواب دیتے ہیں وہ تیری تسبیح و تکبیر اور حمد اور بڑائی بیان کر رہے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے، کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے، فرشتے کہتے ہیں بخدا انہوں نے آپ کو نہیں دیکھا ہے، آپ نے فرمایا، اللہ فرماتا ہے، اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو کیا کرتے؟ فرشتے کہتے ہیں اگر آپ کو دیکھ لیتے تو آپ کی بہت زیادہ عبادت کرتے اور بہت زیادہ بڑائی یا پاکی بیان کرتے، آپ نے فرمایا اللہ فرماتا ہے، وہ مجھ سے کیا مانگتے تھے، فرشتے کہتے ہیں وہ آپ سے جنت مانگ رہے تھے، آپ نے فرمایا اللہ ان سے پوچھتا ہے کیا انہوں نے جنت دیکھی ہے فرشتے کہتے ہیں بخدا انہوں نے جنت نہیں دیکھی اللہ فرماتا ہے اگر وہ جنت دیکھ لیتے تو کیا کرتے، فرشتے کہتے ہیں کہ اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو اس کے بہت زیادہ حریص ہوتے اور بہت زیادہ طالب ہوتے اور اسکی طرف ان کی رغبت بہت زیادہ ہوتی، اللہ فرماتا ہے کہ کس چیز سے وہ پناہ مانگ رہے تھے فرشتے کہتے ہیں جہنم سے، آپ نے فرمایا، اللہ فرماتا ہے کہ انہوں نے اسکو دیکھا ہے، فرشتے جواب دیتے ہیں نہیں بخدا انہوں نے نہیں دیکھا ہے، اللہ فرماتا ہے اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو کیا کرتے، فرشتے کہتے ہیں اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو اس سے بہت زیادہ بھاگتے، اور بہت زیادہ ڈرتے، آپ نے فرمایا، اللہ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا آپ نے فرمایا کہ ان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے کہ ان میں فلاں شخص ان (ذکر کرنے والوں) میں نہیں تھا بلکہ وہ کسی ضرورت کے لئے آیا تھا اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنے والامحروم نہیں رہتا، شعبہ نے اس حدیث کو اعمش سے روایت کیا، لیکن مرفوع نہیں بیان کیا اور سہیل نے بواسطہ اپنے والد انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث نقل کی۔

Narrated Abu Huraira:
Allah 's Apostle said,(may Allah peace be upon him) "Allah has some angels who look for those who celebrate the Praises of Allah on the roads and paths. And when they find some people celebrating the Praises of Allah, they call each other, saying, "Come to the object of your pursuit.' " He added, "Then the angels encircle them with their wings up to the sky of the world." He added. "(after those people celebrated the Praises of Allah, and the angels go back), their Lord, asks them (those angels)----though He knows better than them----'What do My slaves say?' The angels reply, 'They say: Subhan Allah, Allahu Akbar, and Alham-du-lillah, Allah then says 'Did they see Me?' The angels reply, 'No! By Allah, they didn't see You.'
Allah says, How it would have been if they saw Me?' The angels reply, 'If they saw You, they would worship You more devoutly and celebrate Your Glory more deeply, and declare Your freedom from any resemblance to anything more often.' Allah says (to the angels), 'What do they ask Me for?' The angels reply, 'They ask You for Paradise.' Allah says (to the angels), 'Did they see it?' The angels say, 'No! By Allah, O Lord! They did not see it.' Allah says, How it would have been if they saw it?' The angels say, 'If they saw it, they would have greater covetousness for it and would seek It with greater zeal and would have greater desire for it.' Allah says, 'From what do they seek refuge?' The angels reply, 'They seek refuge from the (Hell) Fire.' Allah says, 'Did they see it?' The angels say, 'No By Allah, O Lord! They did not see it.' Allah says, How it would have been if they saw it?' The angels say, 'If they saw it they would flee from it with the extreme fleeing and would have extreme fear from it.' Then Allah says, 'I make you witnesses that I have forgiven them."' Allah's Apostle added, "One of the angels would say, 'There was so-and-so amongst them, and he was not one of them, but he had just come for some need.' Allah would say, 'These are those people whose companions will not be reduced to misery.' "

تفسیر سور فاتحہ

بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِيم

(1) الحمد للہ رب العلمین(2) الرحمن الرحیم (3) ملک یوم الدین(4) ایاک نعبد وایاک نستعین (5) اھدنا الصراط المستقیم (6) صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین(7)

ترجمہ: اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحم والا
”سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے والوں کا بہت مہربان رحمت والا روزِ جزا کا مالک ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں ہم کو سیدھا راستہ چلا راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا“
۔
خطبۂ مسنونہ:

ترجمہ:

 تمام خوبیاں اللہ کو، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس سے مدد مانگتے ہیں اور اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہم اللہ کی پناہ لیتے ہیں اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے بُرے اعمال سے، جسے اللہ راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے گمراہ کرے اسے کوئی راہ دینے والا نہیں، اور ہم گواہی دیتے ہیں کے اللہ کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے سردار ،ہمارے نبی، ہمارے محبوب ہمارے شفیع ہمارے (بیمار) دلوں کے طبیب اور ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں تمام انسانوں اور تمام کائنات کے لیے خوشخبری دینے اور ڈر سُنانے والا بنا کر قیامت سے پہلے بھیجا گیا۔)

قال اللہ تعالیٰ فی شان حبیبہ: (ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما)

(ترجمہ: اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک کی شان میں فرماتا ہے: ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر، اے ایمان والو! اُن پر دُرود اور خوب سلام بھیجو“۔)

اللھم صل وسلم علیہ وزد وتفضل وبارک علی سید السادات وافضل الموجودات واشرف الموجودات واحسن الموجودات واکرم الموجودات واجمل الموجودات واکمل الموجودات سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی جمیع الانبیاء والمرسلین وعلی جمیع ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ جمیع الانبیاء والمرسلین وعلی جمیع ملئکتہ المعصومین وعلی جمیع عبادہ الصالحین
۔
(ترجمہ: اے اللہ دُرود وسلام، خوب رحمتیں اور برکتیں نازل فرما اُن پر جو تمام سرداروں کے سردار، تمام موجودات (کائنات) میں سب سے افضل ، سب سے زیادہ شرف والے، سب سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ عزت والے، سب سے زیادہ جمیل اور سب سے زیادہ کامل ہیں ، یعنی ہمارے آقا ومولیٰ جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ اُن پر ، تمام نبیوں اور رسولوں پر، تمام معصوم فرشتوں پر اور اپنے تمام نیک بندوں پر رحمت نازل فرمائے۔
)
اما بعد: لقد قال اللہ تبارك وتعالي في كلامہ القديم العظيم:
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّہ)

صدق اللہ مولانا العظیم وبلغ رسولہ النبی الحبیب الکریم ونحن علی ذلک من الشاہدین والشاکرین
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کا ثمر

جو آیت تلاوت کی گئی اس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
:
(قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّہ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّہُ غَفُور رَّحِيمٌ) (سورۂ آل عمران: آیت: 31)

ترجمہ: ”اے محبوب! تم فرما دو کہ لوگو! اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے“

۔
یعنی: اپنی نظریں، توجہ، دل، جذبات اور احساسات میری پیروی کرنے میں لگا دو، نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا دوست بنا لے گا۔یہ آیت مسلمان کی اللہ تعالیٰ سے اور اللہ تعالیٰ کی مسلمان سے محبت کے بارے میں بتاتی ہے،

 اس کا کیا معنی ہے؟ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر ہم ایک سچے معبود ، اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں تو ہم اس سے اپنا تعلق بھی جوڑ سکتے ہیں ، ہم کسی ایسی ہستی پر ایمان نہیں لائے جس سے رحمتیں اور انعام حاصل نہیں کر سکتے، نہ ہی کسی ایسی ہستی پر ایمان لائے ہیں جو محض دُور ایک قوت یا طاقت ہے جسے ہم سے کوئی سروکار نہیں ہے، یا اگر کوئی سروکار بھی ہے تو صرف ایسا جیسا کہ ایک حاکم کو اپنی رعایا کے ساتھ۔نہیں۔۔۔! نہیں۔۔۔!ایسا نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ حاکم، خالق ، بدیع (یعنی: بغیر کسی نمونے کے چیزوں کو پیدا کرنے والا) اور ہادی ہے، کائنات کی ہر چیز پر اس کا اختیار ہے، وہ بہت بلند، عظیم، لا محدود اور ہم سے بہت مختلف ہے، اِن صفات کے باوجود بھی وہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ وہ ہم سے محبت اس لیے کرتا ہے کیونکہ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔

 اسے ایک آسان مثال سے سمجھئے کہ اگر کوئی کاریگر (آرٹسٹ) کوئی فن پارہ پوری عقیدت ومحبت سے بناتا ہے تو وہ کبھی بھی اپنے فن پارے کو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں ہونے دے گا،اسی طرح اگر ہم کچھ بناتے یا اپنے پاس رکھتے ہیں تو اسے کسی بھی قسم کا نقصان ہونے سے بچاتے ہیں کیونکہ ہم اس میں اپنی توانائی، دل اور روح کو دخل دیتے ہیں ہمیں اس چیز سے شعوری یا لا شعوری طور پر محبت ہو تی ہے۔ پھر ہم کیسے یہ تصور کر سکتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اور اچھی صورت پر بنایا،
-جیسے کہ وہ ارشاد فرماتا ہے: (لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِي اَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (4)) (ترجمہ: ”بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا“۔) (سورۂ تین: آیت: 4) – مگر وہ نہ تو ہم سے محبت کرتا ہے اور نہ اسے ہم سے کوئی سروکار ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح پیدا فرمایا ہے تو یقیناًوہ اس سے محبت کرے گا اور وہ محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا انسانوں سے تعلق، رحمت ومحبت کا ہے
۔
سورۂ فاتحہ اور صفاتِ باری تعالیٰ

قرآن مجید کی ابتدا میں بسم اللہ شریف میں اللہ تعالیٰ اپنی ذات کو محبت والی صفات کے ذریعہ اس طرح سے متعارف کرتا ہے کہ وہ (الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ) (یعنی وہ نہایت مہربان اور رحم والا )ہے۔ دوسری آیت میں وہ ارشاد فرماتا ہے:

(الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ(2)) (ترجمہ: ’’سب خوبیاں اللہ کو جو پروردگار سارے جہان کا‘‘۔) یہاں دوبارہ ہم صفتِ محبت کو دیکھتے ہیں کیونکہ لفظِ ’’رب‘‘ کا معنی ہے پروردگار، پالنے والا، حفاظت کرنے والا، پرورش کرنے والا اور مقصد کی طرف رہنمائی کرنے والا وغیرہ۔ یہ ’’رب‘‘ کے وظائف ہیں اور یہ وظائف محبت کے بھی ہیں،

 پھر وہ تیسری آیت میں دوبارہ دُہراتا ہے کہ وہ (الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ (3)) (نہایت مہربان رحم والا)ہے۔

چوتھی آیت میں ارشاد فرماتا ہے کہ وہ (مٰلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4)) (روزِ جزا کا مالک) ہے، وہ اس دن ہمارے اُن اعمال کا حساب لینے والا ہے، جنہیں ہم نے دنیا میں کیا۔ پھر وہ ہمیں اسی سورۂ فاتحہ ہمیں میں بُلاتا ہے کہ ہم اس کی بارگاہ میں پہنچیں اور اس کی رحمتیں لیں، اور وہ ہمیں تسلی دیتا ہے کہ ’’مجھے کسی ایسے انسان کی طرح گمان نہ کرنا جو اونچے مرتبہ پر پہنچ گیا اور اس سے رابطہ نا ممکن ہو گیا ہو، باوجود اس حقیقت کے کہ میں ہمیشہ سے بلند وبرتر ہوں اور یہ کہ میں تمہارا مالک اور معبود ہوں، میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ تم میری بارگاہ میں آتے ہو‘‘

۔مؤذن کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی طرف روزانہ ، ہر مسجد سے بلاتا ہے ”حَیَّ عَلیٰ الصَّلوٰۃِ“ (آؤ نماز کی طرف) ”حَیَّ عَلی الفَلاَحِ“(آؤ فلاح کی طرف) میں، مؤذن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاتا ہے کہ ہم اس کی بارگاہ میں پہنچیں اور خیر کا سوال کریں۔

 اسی طرح ہمیں سورۂ فاتحہ کی پانچویں آیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے: (اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (5)) (ترجمہ: ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں)۔ ہم یہاں اللہ تعالیٰ سے اپنی وفاداری کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہم باغی نہیں ہیں ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس آیت کے ذریعے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں، پھر ہم اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتے ہیں مدد کس چیز میں۔۔۔۔؟ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ ہی سے ہر چیز کا سوال کریں اگرچہ بہت معمولی سی ہی ہو۔ مگر یہاں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سکھا رہا ہے کہ ہم اس سے اعلیٰ خواہش کا سوال کریں جبکہ ادنی کو ہمارے اختیار پر چھوڑ دیا، وہ اعلیٰ خواہش

 آیت نمبر چھ میں ہے: (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6)) (ترجمہ: ’’ہم کو سیدھا راستہ چلا‘‘) یعنی: ہمیں برزگی، کامیابی حکمت اور خوبصورتی کے راستے پر چلا۔
یاد رہے: ”اِھدِنَا “ کا معنی صرف ’’ہمیں راستہ چلا‘‘ ہی نہیں ہے کیونکہ ہدایت کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو معنی یہ ہو تا ہے کہ اس راہ پر بھی ہماری راہنمائی فرما کہ ہم اس ’’مقصد‘‘ تک پہنچنے کے قابل ہوں، اور مقصد کیا ہے۔۔۔؟
انعام یافتہ بندے

وہ ’’مقصد‘‘سورۂ فاتحہ کی ساتویں آیت میں ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ (صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْھمْ) (ترجمہ: ’’راستہ اُن کا جن پر تو نے احسان کیا‘‘)، کون ہیں یہ اِحسان وانعام یافتہ لوگ؟ قرآن مجید واضح طور پر بتاتا ہے:

 ( وَ مَن یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُولَ فَاُؤلٰٓئِکَ مَعَ الَّذِینَ اَنْعَمَ اللَّہُ عَلَيْہِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيقًا) ۔
(ترجمہ: ’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں‘‘۔) (سورۂ نساء: آیت: 69)

(1) وہ انعام یافتہ بندے، حضراتِ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام ہیں جن میں آخری نبی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

(2) اور اِن کے بعد دوسرے درجہ میں صدیقین ہیں، وہ لوگ جو اپنے افکار، اقوال وافعال میں سچائی کا مجسمہ ہوتے ہیں، یہ لوگ نبی نہیں ہوتے بلکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی ’’سچائی‘‘ کو اس حد تک اپنی ذات میں سمایا کہ ان میں کوئی کمی ونقص نہیں ملتا۔


(3) تیسرا درجہ ’’شہداء‘‘ کا ہے ، وہ لوگ جنہوں نے حق کی خاطر، محبت سے سرشار ہو کر اپنی جانیں، اللہ تعالیٰ کے لیے قربان کر دیں
۔
(4) چوتھا درجہ ’’صالحین‘‘ (نیک لوگوں) کا ہے،جنہوں نے اپنی زندگیاں اچھے طریقے سے، خدائی ضابطۂ حیات کے مطابق گزاریں
۔
اسلام کا مقصد۔۔۔!

اسلام اس لیے نہیں آیا تھا کہ اس کے ماننے والے ایسے ہوں جو صرف نام کے یا رَسماً ”مسلمان “ ہوں کہ بعض عبادات بجا لاتے ہیں، یا وہ مسلمان، کچھ عقائد کے نقطۂ نظر سے ہوں، مگر اِن کی بنیاد پر وہ عمل نہ کریں، جس کا یہ عقائد تقاضا کرتے ہیں۔ اسلام اس لیے آیا تھا کہ انسان کی خراب حالت کو تبدیل کرے تاکہ وہ ان مذکورہ چار درجات میں سے کسی ایک درجہ والوں کا ”رفیق وہم نشین“ ہو سکے۔ آدمی اپنی سنگت سے پہچانا جاتا ہے، اسی لیے ان چار درجات میں سے کسی ایک کے ساتھ ہونے کے لیے، فرد کو اللہ تعالیٰ کا بندۂ صادق ہونا پڑے گا۔ کچھ لوگ اس مذکورہ آیت کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ ایک اچھا مسلمان بننے سے کوئی شخص (خود سے) نبی بھی بن سکتا ہے۔ یہ لوگ گمراہ ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ’’نُبوت‘‘ ختم ہو چکی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری نبی مبعوث کیے گئے ہیں۔ کوئی بھی شخص اپنے ’’مجاہدات‘‘ (عبادات وریاضات) سے نبی نہیں بن سکتا کہ نُبوت محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے نبیِ آخر الزمان خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کو عطا کی گئی

۔
رفاقت وہم نشینی کا معنی۔۔۔!


بلکہ اس آیت میں مراد ’’رفاقت وہم نشینی‘‘ہے، مثلاً اگر لوہے کا ایک ٹکڑا مقناطیس کے ساتھ رہے تو وہ مقناطیسی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ کچھ نئی صفات حاصل کر لیتا ہے۔ اسی طرح ایک مالی، خوشبودار پھولوں میں رہے تو وہ خود ان پھولوں میں رہنے کی وجہ سے خوشبو پاتا ہے، یہ ہے معنی ”رفاقت وہم نشینی“ کا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم دیا گیا ہے

 وہ یہ ہے کہ اس سے سوال کریں (صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْھِمْ) (ترجمہ: ’’راستہ اُن کا جن پر تو نے احسان کیا‘‘)۔ میرے عزیز دوستو! موضوع بہت مشکل ہے مگر میں کوشش کر رہا ہوں کہ آپ اسے آسانی سے سمجھ لیں اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں اور بار بار غور وفکر کریں

۔
کیا اسلام صرف اس لیے آیا تھا کہ ہم پر فرض نماز کی بے سمجھے، ادائیگی مقرر کرے؟ یا ہم کچھ مذہبی رسموں (مثلِ روزہ ونماز) کی ادائیگی کریں اور اپنے اندر کوئی تبدیلی نہ پائیں باوجود یہ کہ نماز پڑھ چکے ہیں؟ کیا اسلام اس لیے آیا تھا کہ رمضان کے مہینے میں ہم پر روزوں کی مشقت نافذ کرے، معاذ اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہمیں مشقت میں ڈال کر خوش ہوتا ہے؟


 اس نے قرآن میں واضح ارشاد فرما دیا :


(وجاھدوا في اللہِ حَقَّ جہادہ واجْتباكم وما جعلَ عليكم فِي الدِّينِ مِنْ حرجٍ ملۃ اَبيكمْ اِبْرَاھِیْمَ وَ سماكُمُ الْمسْلِمِينَ مِنْ قَبلُ وَفِيہ ذا لِيَكُونَ الرَّسولُ شَہيدا عَلَيكُمْ وَتَكُونُوا شُہدَآءَ عَلٰی النَّاسِ)۔

(ترجمہ: ’’اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا حق ہے جہاد کرنے کا اس نے تمہیں پسند کیا اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی تمہارے باپ ابراہیم کا دین اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اگلی کتابوں میں اور اس قرآن میں تاکہ رسول تمہارا نگہبان وگواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہی دو‘‘۔) (سورۂ حج: آیت: 78)

اللہ تعالیٰ نے اسلام اس لیے بھیجا تاکہ اس کے ماننے والے اللہ تعالیٰ کے وُجود کے گواہ بن سکیں اور اس روحانی نظم وضبط کے گواہ جو اس دنیا میں ہے۔ شہداء شہید،شاہد، مشاہدہ، شہود، مشہود جیسے تمام الفاظ ’’شَہِدَ‘‘ (بمعنی گواہی دینا) سے بنے ہیں۔ کوئی آدمی اس وقت تک (کسی چیز کا) گواہ نہیں ہو سکتا جب تک اس نے ”اُس چیز“ کا مشاہدہ نہ کیا ہو۔ کورٹ میں قاضی، گواہ سے پوچھتا ہے کہ تم جس امر کی گواہی دے رہے ہو کیا تم نے اسے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ہے یا یہ محض الزام ہے؟ اگر وہ گواہ کہے کہ میں نے اسے خود دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا ہے، پھر تو اس کی گواہی قابل سماعت ہوتی ورنہ نہیں

۔
پھر انسان ، کس کو اسلام کی صداقت کا ”گواہ“ تسلیم کرے گا؟ یقیناً اسے کہ جو صفاتِ باری تعالیٰ کے جلووں کا دیدار کر لینے کا دعویٰ کرے اگرچہ اس نے ذات باری تعالیٰ کا دیدار نہ کیا ہو، ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے افعال (صفات) کا گواہ ہے۔جب تک کوئی شخص اس ”مرتبہ“ کو نہ پہنچ جائے اس وقت تک اس نے اسلام کی اس شرط کو پورا نہیں کیا جس کے لیے اسلام آیا ہے یعنی (وَتَكُونُوا شُھدَآءَ عَلٰی النَّاسِ) (اور تم لوگوں پر گواہی دو)۔

فرائض کی ادائیگی کا مقصد۔۔۔!

ہمارا کام نماز اور ماہِ رمضان کے روزوں کو محض رسماً ادا کرنا نہیں، یقیناً یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرائض ہیں بلکہ ہمیں (لوگوں پر) گواہ بننے، ذاتی اور براہِ راست مشاہدۂ حق سبحانہ وتعالیٰ کے لیے اِن کو ادا کرنا ضروری ہےاور یہی وجہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہوئے ہیں۔

حضرت سیدنا جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور ایک مؤذن

آئیے تاریخ سے اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں، بغداد میں سلسلۂ قادریہ کے ایک بزرگ اور اللہ تعالی کے ایک بہت بڑے ولی سیدنا جنید رَحمۃُ اللہ عَلَیہِ وَقَدَّسَ اللہُ تَعَالیٰ سِرَّہٗ (910ء/297ھ) رہا کرتے تھے ایک دن آپ رحمۃ اللہ علیہ مسجد کے پاس سے گزر رہے تھے کہ آپ نے اَذان سُنی،

جب مؤذن نے ’’اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ‘‘ کہا، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جا کر مؤذن کو گردن سے پکڑا اور فرمایا: ’’تُو جھوٹا ہے‘‘، مؤذن کانپنے لگا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حضرت سیدنا جنید رحمۃ اللہ علیہ ایک عالمِ دین اور اللہ کے ولی ہیں، آپ نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اللہ کو دیکھا ہے تم یہ کیسے کہتے ہو کہ ’’میں گواہی دیتا ہوں‘‘ کیونکہ گواہی دینا ”ذاتی مشاہدہ“ پر ہوتا ہے، اور اگر تم نے مشاہدہ نہیں کیا تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم کہو ’’میں گواہی دیتا ہوں‘‘، آپ رحمۃ اللہ علیہ جس وقت مؤذن کے پاس تشریف لائے تو اس وقت ’’حال‘‘ (وجد کی حالت) میں تھے (لہٰذا آپ رحمۃ اللہ علیہ پر کوئی مؤاخذہ نہیں)۔ ایک دانا شخص نے، جو یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، مؤذن سے کہا: انہیں یہ جواب دو کہ میں یہ اعلان اس ذاتِ گرامی کی طرف سے کر رہا ہوں جس نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے، لہٰذا میں جھوٹا نہیں ہوں‘‘
۔
قرآن کریم کی اس آیت کو دوبارہ پڑھیں

:
(قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی يُحْبِبْكُمُ اللَّہُ)۔

(ترجمہ: ’’اے محبوب! تم فرما دو کہ لوگو! اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا‘‘۔)
(سورۂ آلِ عمران: آیت: 31)


محبوبانِ خدا کی ہم نشینی کی برکات


یہ تمام درجے، محبوب لوگوں کے ہیں جو حضراتِ اَنبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ السلام، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں، انسان میں کیا تبدیلی آتی ہے جب وہ (عورت یا مرد) اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں (دوستوں) میں سے ہو جاتا ہے؟

 یہ امر بہت اہم ہے، اسے ایک حدیث ِ قدسی میں بتایا گیا جسے صحاح ستہ ودیگر کتب حدیث میں محدثین نے روایت کیا کہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ((وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی أُحِبَّہُ فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ كُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِيْ يَسْمَعُ بِہِ وَبَصَرَہُ الَّذِيْ يُبْصِرُ بِہِ وَيَدَہُ الَّتِيْ يَبْطِشُ بِہَا وَرِجْلَہُ الَّتِيْ يَمْشِيْ بِہَا وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّہُ))

 یعنی: ”میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قُرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے دوست بنا لیتا ہوں، پس جب اسے دوست بنا لیتا ہوں تو اس کے کان (کی قدرت) بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اس کی آنکھ (کی طاقت) بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ (کی قوت)بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں (کی طاقت)بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں ضرور عطا فرماتا ہوں“۔(أخرجہ البخاري في صحيحہ في الرقاق).امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ زائد الفاظ روایت کیے: ((وَلِسَانَہُ الَّذِي يَنْطِقُ بِہِ، وَقَلْبَہُ الَّذِي يَعْقِلُ بِہِ)) یعنی: ”اور اس کی زبان (کی قوت) بن جاتا ہوں جس سے وہ بات کرتا ہے اور اس کا دل بن جاتا ہوں جس سے وہ سوچتا ہے“

۔
اللہ تعالیٰ کا بندے کے اعضاء (کی طاقت وقدرت )بننے کا معنی ۔۔۔!


ہم مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لا محدود اور غیر منقسم ہے وہ کسی میں حلول نہیں کرتا، بلکہ اُس کا ”آنکھ (کی طاقت) بن جانے“ سے مراد یہ ہےکہ پھر کوئی چیز کائنات میں اُس آنکھ سے پوشیدہ نہیں رہتی ، اُس کا ”کان (کی قدرت)بننے“ سے مراد یہ ہے کہ پھر کائنات میں کوئی آواز اس کان سے پوشیدہ نہیں رہتی، جب اللہ تعالیٰ ”پاؤں (کی طاقت) بن جائے“ تو پھر کائنات میں کوئی ایسی جگہ نہیں رہتی جہاں وہ ”پاؤں“ نہ جا سکیں،جب وہ ”زبان (کی قوت) بن جائے“ تو پھر وہ زبان اگر کہے کہ ایسا ایسا ہونے والا ہے تو وہ ضرور ہوتا ہے
۔
میرے عزیز دوستو! یاد رکھئے یہ ہے اسلام کا ”مقصد“ ، جو ہمارے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ نہ سمجھئے گا کہ اس میں کسی قسم کے ”شرک“ کا نام ونشان ہے کیونکہ انسان، انسان ہی رہتا ہے اور خدا، خدا، اللہ تعالیٰ کی ذات سے کچھ بھی کم نہیں ہوتا۔ (بلا تشبیہ وتمثیل)

 ایک مثال سے سمجھئے Convex lens (یعنی: محدّب عدسے/انعطافی شیشہ) میں نہ تو روشنی ہوتی ہے اور نہ ہی حرارت کہ وہ ایک بے جان اور تاریک چیز ہے۔ اس (Convex lens) کو سورج کے سامنے کریں تو ایک چھوٹا سا سورج ظاہر ہوگا، آپ اپنی ہتھیلی یا کاغذ اُس کے نیچے کریں تو وہ ہاتھ یا کاغذ کو جلانے لگے گا۔ یہ چھوٹا سورج جو ہتھیلی پر بنا، در اصل، اصلی سورج کی شبیہ ہے اپنی شکل وعمل میں چندھیانے والی چمک کہ جس پر ہم اپنی آنکھیں نہیں جما سکتے کہ یہ اِن کے لیے مضر ہیں، مگر اپنی حقیقت میں یہ ایسا نہیں ہے، یہ تو صرف ایک شبیہ ہے جو ہاتھ کی سطح پر بنی ہے۔

 ہم جانتے ہیں کہ سورج، روشنی اور حرارت رکھتا ہے، یہ چھوٹا سورج بھی، روشنی اور حرارت رکھتا ہے مگر خود سے وجود نہیں رکھتا(یعنی:قائم بالذات نہیں)۔ یہ حقیقی سورج کے رہنے تک رہتا ہے، جب تک حقیقی سورج ، Convex lens کو غذا (روشنی وحرارت) دیتا رہے یہ مصنوعی سورج رہے گا، اور اگر Convex lens کو ہٹا لیا جائے تو یہ بھی چھپ جائے گا۔
اسی طرح جب وہ Convex lens، جو یہاں (ہمارے بدن میں) ہے

-یعنی روحانی دل، اور یقیناً جسمانی دل بھی- اللہ تعالیٰ کی محبت اور ”لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ“ کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں، اس لینس کے ارتکاز اور عکس کی طاقت بڑھتی ہے، یہ آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ (کی بارگاہ) سے نور وتابانی لیتا ہے اور اسے (اپنے اندر)جذب کرتا ہے، جیسا کہ اس امر کے بارے میں کہا گیا کہ ”قَلْبُ المُؤْمِنِ عَرْشُ اللہِ“ یعنی: مؤمن کا دل، اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور اسے لازماً ایک متحرک عرش بنانا چاہیے

کہ یہ اسلام کا ”مقصد“ ہے۔ جب یہ صفات آہستہ آہستہ باقاعدہ طریقہ سے جذب ہو جائینگی جیسا کہ

 اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (وَأَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِكْرِي) (ترجمہ: ”اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ“۔) (سورۂ طہٰ: آیت 14

 اور فرماتا ہے: (فَاذْكُرُونِي اَذْكُرْكُمْ) (ترجمہ: ”تم میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کرونگا“۔) (سورۂ بقرہ: آیت 152)


اللہ تعالیٰ کی بندے سے محبت کی تجلی


محبت طرفین میں باہمی وایک دوسرے پر منحصر ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ہم سے شدید محبت کا نتیجہ ہے کہ اس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم (گناہگاروں) کو یہ بتایا کہ اے حبیب! میرے بندوں سے کہہ دو کہ جب وہ میری جانب ایک قدم بڑھتے ہیں تو میری رحمت ان کی طرف دس قدم بڑھ کر آتی ہے، یہ ”حقیقی محبت“ ہے اور وہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے۔ یقیناً ہم میں بہت سے اس کی محبت کے لائق نہیں ہیں، یہ ہمارا اپنا ”نقصانِ عظیم“ ہے۔ ہم نہ تو اُسے کوئی نقصان دے سکتے ہیں نہ ہی اُس کی عظمت وبزرگی میں کچھ کمی یا زیادتی کر سکتے ہیں، وہ بے نیاز ، بادشاہِ مطلق اور ہر چیز سے غنی ہے
۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس راستہ کو بیان فرمایا وہ یہ ہے ”تَخَلَّقُوا بِاخلاَقِ اللہِ“ یعنی: ”اللہ تعالیٰ کے اخلاق (صفات) اپناؤ“۔ یہ شرک نہیں بلکہ حقیقی توحید ہے جو اپنی صحیح معرفت کا تقاضا کرتی ہے یہ کام خلیفۃ اللہ کا ہے جیسا کہ Convex lens سورج خلیفہ کا ہے ۔ جب آدمی ”خلیفۃ اللہ“ بنتا ہے تو وہ اپنے مرتبۂ طاقت کو محسوس کرتا ہے علمِ نباتات میں ہر ”بیج“ اپنے سے نکلنے والے پودے پر مشتمل ہوتا ہے یعنی صلاحیت رکھتا ہے، اسی طرح انسان میں خلیفۃ اللہ ہونے کی صلاحیت ہے، ایک مرد یا عورت کو خلیفۃ اللہ بننے کے لیے اپنے آپ کو اسلامی ضابطۂ ہدایت کے تحت تعمیر کرنا پڑے گا
۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق میں اللہ تعالیٰ کے خلیفۂ اعظم ہیں

اسلام اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا خزانہ ہے ہم اس لا زوال خزانہ سے صرف اُس وقت فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جبکہ ہم محبوبِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں اُن سے شدید محبت کریں اور آپ علیہ السلام کے حقیقی اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے والے بن جائیں، ایک مسلمان حقیقی معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اتباع کرنے والا ہے

 اس کے سوا پھر کیا ہے؟

 اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے
:
(لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ)

(ترجمہ: ”بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے“۔) (سورۂ احزاب: آیت 21)


(آیت میں مذکور) ”اُسوہ یا نمونہ“ وہ چیز ہے جس کی پیروی کی جائے، اس جذبہ کے تحت کہ اس جیسا ہوا جائے،

 ایک نمونہ (Sample) کسی فیکٹری میں ایک بڑی پیداوار کے لیےدیا جاتا ہے تاکہ اس جیسی مزید پروڈکٹس تیار کی جا سکیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ایک عملی نمونہ ہے اور ایک مسلمان کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس عملی نمونہ کی طرح اپنے آپ کو بدلے۔ وہ کیا صفات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس عملی نمونہ میں رکھا ہے؟ آپ علیہ السلام سورج کو روک سکتے ہیں، چاند کو دو ٹکڑے کر سکتے ہیں، یا آپ علیہ السلام خلا کو حکم دیں تو وہ راستہ دے دیتی ہے کہ آپ علیہ السلام اپنے مالک عَزّوَجَلَّ کے حضور پہنچ جائیں۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ کامل خلیفۃ اللہ ہیں اور آپ علیہ السلام کی ذات اس چیز کو شامل ہے

 جسے قرآن کریم کہتا ہے:

(وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيعًا مِّنْہُ)

(ترجمہ: ”اور تمہارے لیے کام میں لگائے جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں“۔)

(سورۂ جاثیہ: آیت 13)

آپ علیہ السلام اس مہارت کے مجسم تھے اسی لیے خلیفۃ اللہ اور ایک مکمل عملی نمونہ ہیں ، ہر اس شخص کے لیے جو خلیفۃ اللہ بننا چاہتا ہے۔ مگر ہم مسلمان، ایک چھوٹے سے کیڑے کی طرح ہو گئے ہیں جو زیرِ زمین آبناؤں(نالیوں) میں (دنیا سے بے خبر) رینگتا ہے، نیز ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس طرح کی جہالت ولاپرواہی والی زندگی گزار کر، بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ یاد رکھیے! یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی ذمہ داری ہے کہ حقیقت کو سمجھیں

۔

غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ اور بغداد کا حاکم


یہ وہ چیز ہے جس کی تعلیم کے لیے اسلام آیا اور ہمارے اسلاف کرام نے اس کو مانا اور اس پر عمل کیا، جب ہم اپنے اسلاف کے بارے میں سُنتے ہیں جیسے سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں، تو ہم حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بغداد کے حاکم نے، جو اپنی رعایا کے ساتھ نہ تو عدل وانصاف قائم کر رہا تھا اور نہ ہی سلطنت کے اُمور سہی طور پر چلا رہا تھا ، جب حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شہرت کا چرچہ سُنا اور دیکھا کہ آپ لوگوں میں ایک بلند مقام حاصل کر چکے ہیں

 تو وہ، حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دو تھیلیاں اشرفیوں کی لے کر حاضر ہوا اور اُس نے وہ تھیلیاں حضرت کے سامنے رکھ دیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اس میں کیا ہے؟ حاکم نے عرض کی: یہ ایک حقیر سا تحفہ ہے، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ کیوں لائے ہوں؟ اُس نے عرض کی: حضور! میں یہ آپ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے لایا ہوں کیونکہ آپ روحانی بادشاہ ہیں اور میں ایک (دنیا کا) عارضی بادشاہ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: اگر تم یہ مانتے ہو کہ میں ایک روحانی بادشاہ ہوں تو پھر تمہیں مادی طریقے کے بجائے روحانی طریقے سے خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہیے۔ یہ ہیں خلیفۃ اللہ جو کسی بھی دنیاوی حاکم یا بادشاہ وغیرہ کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور آوازِ حق بلند کر دیتے تھے۔ بہر حال حاکم نے اصرار کیا کہ غوث الاعظم شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ اس کا تحفہ قبول کر لیں جبکہ حضرت جانتے تھے کہ یہ حاکم حقیقت سے لا علم ہے۔

 شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں تھیلیوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور انہیں دبایا تو ان تھیلیوں سے خون بہنے لگا۔ حاکم تھرتھرانے لگا، تو حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت سے کس قدر غافل ہو کہ اپنی رعایا کا خون چوستے ہو اور وہ خون اس کے پاس لاتے ہو جسے تم اللہ کا بندہ سمجھتے ہو، حاکم کپکپاتا رہا جب اس کے حواس بحال ہوئے تو عرض کی: حضور میں (توبہ کرتا ہوں اور) آپ کے حکم کے مطابق عمل کرونگا، یہ ہے خلیفۃ اللہ۔۔۔!

۔
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور جادوگر


سیدنا خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے اذن ملا کہ اجمیر (بھارت)میں جا کر اسلام کی تبلیغ کریں۔ وہاں کے ہندو حاکم نے اپنے سب سے بڑے ہندو جوگی اجے پال کو بلایا کہ وہ خواجہ صاحب سے ان کی اجمیر آمد پر آمنے سامنے ایک مقابلہ کرے۔ اس جوگی نے حضرت خواجہ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ کو مقابلہ کے للکارا اور کہا: میں ہوا میں اُڑ سکتا ہوں، اب دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے کون دور تک اُڑ سکتا ہے“۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مسکرا کر فرمایا: اچھا واقعی تم اُڑ سکتے ہو ، اُڑو ، کہا جاتا ہے جوگی اس کے بعد ہوا میں اُڑ گیا، حضرت سیدنا معین الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کھڑانوں (لکڑی کی چپلوں) کو اس کے پیچھے اُڑنے کا حکم دیا کہ اس کے سر پر ماریں اور اسے نیچے لائیں، یہ واقعہ حقیقتاً ہوا تھا۔ ہمیں یہ خیال آسکتا ہے کہ یہ ماضی کی کہانیاں ہیں اس کا کیا ثبوت ہے، اگر یہ تاریخ کے ثابت شدہ حقائق، من گھڑت ہیں تو پوری تاریخ من گھڑت ہے لہٰذا نہ تو اس کی تعلیم دیں اور نہ اسے سیکھیں

۔
مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت


آپ کو مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بتاتا ہوں، جو ایک بہت بڑے عالمِ دین، مقرر اور عظیم مبلغ تھے۔ میں حضرت کے ساتھ 1949ء تا 1950ء کے دوران عالمی دورے پر تھا، مشرقِ وسطیٰ ، یورپ اور شمالی وجنوبی امریکہ کا دورہ کرنے کے بعد ہم فلپائن کے مشہور شہر قتابتو (Qutabatu) گئے،فلپائن ایک ایسا ملک ہے جہاں طوفانی بارش کثرت سے ہوتی ہے، ایک شام ایک کھلے میدان میں ایک محفل کا انعقاد کیا جانا تھا، جسے مغرب کے بعد شروع ہونا تھا، ایسی محفل جس میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے لیے شرکت کی اجازت تھی۔ ظہر کے بعد کالے بادل چھا گئے اور عصر تک حالات ایک بڑے طوفان کے آثار کے ساتھ خراب ہو گئے۔ ہم ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے،

 عصر کے بعد میں اپنے مرشد مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کچھ آرام فرما چکے تھے، ہم شام کی چائے پی رہے تھے اور وہاں حضرت کے پاس دیگر مقامی لوگ بھی آئے ہوئے تھے، میں نے اپنے مرشد سے کالے بادلوں، بجلی کی کڑک اور آنے والے طوفان کے بارے میں عرض کی، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور فرمایا:”میرے پیارے بیٹے تم کیوں پریشان ہو؟ ہم یہاں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے آئے ہیں، اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے، زمین اس کی ملکیت ہے اور جو لوگ آئیں گے وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اگر وہ چاہتا ہے کہ میں اس کا پیغام پہنچاؤں، تو یہ ہو گا“۔

مغرب کے بعد ہم میدان کی طرف گئے جہاں ایک بہت بڑا مجمع انتظار کر رہا تھا، جو وہاں تقریباً تین بجے کے بعد سے جمع ہونا شروع ہوا تھا، صوبہ کا گورنر جو کہ مسلمان اور صدرِمحفل تھا، وہ وہاں موجود تھا ، ایک رومن کیتھولک مہمانِ خصوصی اور دیگر مہمان بھی وہاں تھے۔ محترم المقام مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی گفتگو انگریزی زبان میں کرنا شروع کی اور ساتھ ہی ایک مترجم نے مقامی زبان میں اس کا ترجمہ کر نا شروع کیا اور میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک جانب بیٹھا تھا۔ بارش کی بڑی بڑی بوندیں گرنا شروع ہوئیں، مجمع نے بے چین ہو کر اٹھنا شروع کیا تاکہ وہ اپنے گھروں کو بھاگ سکیں، اتنا بڑا مجمع جب ایک ساتھ اٹھے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے، اس وقت تک جبکہ یہ معاملہ ہوا، مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ نے صرف عربی میں خطبۂ مسنونہ اور اس کے بعد ایک دو جملہ ہی ادا فرمائے تھے، میری حیرت کی انتہا تھی

 کیونکہ اس وقت تک میں اُس راز کو نہیں جانتا تھا جو مولانا جانتے تھے،مولانا نے فرمایا: ”میرے عزیز دوستو! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بس اب بارش رُکنے والی ہے، اور جب تک یہ محفل جاری ہے اس وقت تک بارش نہیں ہو گی، تاہم محفل ختم ہونے کے بعد آپ لوگوں کے پاس ”دس منٹ“ ہوں گے کہ آپ اپنے گھروں کو جاسکیں، پھر ایک بہت بڑا طوفان آئے گا، براہِ کرم جب محفل ختم ہوجائے تو مجھ سے مصافحہ کرنے کے لیے آگے نہ آیئے گا کیونکہ اس وقت میں نے ہوٹل واپس جانا ہے“، جب آپ نے یہ اعلان فرمایا تو بارش رُک گئی، اس کے بعد ایک قطرہ بھی بارش کا نہیں گرا ، میں اور وہ دیگر لوگ جو آج بھی زندہ ہیں ، اس کے گواہ ہیں۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے انتہائی مطمئن انداز میں، ایک بہت ہی عمدہ خطاب فرمایا، میں پریشان تھا کہ مولانا نے یہ کیسا جرأتمندانہ اعلان کر دیا ہے گویا کہ میرے سُسر کائنات میں تصرف کر سکتے ہیں اور میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ آیا مولانا بھی جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا اعلان کیا ہے اس دوران گرج چمک ہوتی رہی، اور مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک گفتگو کی،

 اس دوران مجمع آرام سے بیٹھا رہا، میں یہ بھی سمجھا تھا کہ مولانا اس اعلان کے بعد گفتگو کچھ کم کریں مگر مولانا نے طویل گفتگو کی۔ پھر دیگر کے خطاب اور صدرِ محفل کے اظہارِ تشکر کے بعد محفل ختم ہوئی۔ لوگوں نے منچ (اسٹیج) کی طرف بڑھنا شروع کیا تاکہ وہ مولانا عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ سے مصافحہ کرسکیں، تو مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے دوبارہ فرمایا: ”میرے عزیز دوستو! پہلے تو آپ لوگ یہاں سے بھاگ رہے تھے اور کیا آپ نہیں دیکھتے کہ آسمان میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا میں نے آپ کو آگاہ نہیں کیا تھا، خدارا! مہربانی فرمائیں، آپ کے پاس گھروں کو جانے کے لیے ”دس منٹ“ ہیں اور میں بھی اپنے ہوٹل جا رہا ہوں“
۔
پورے دس منٹ بعد شدید طوفان آیا اور دوسری صبح کو پانی قتابتو کی سڑکوں پر تقریباً چھ سے سات فٹ اونچا کھڑا تھا۔ اس کرامت کو دیکھ کر ہزاروں کیتھولک عیسائی، مسلمان ہوئے۔ یہ 1950ء؁ میں ہوا جس کے گواہ آج بھی زندہ ہیں۔ یہ ہے خلیفۃ اللہ ۔۔۔! اور یہ ہے اسلام کا مقصد۔۔۔!اسلام کا مقصد اور کام یہ نہیں ہے کہ (حقائق کو) اندھیرے میں ٹٹولا جائے، بلکہ اسلام کا مقصد اور کام یہ ہے، جس طرح ہمیں قرآن کریم میں بتایا گیا ہے

 کہ: (اَللہُ وَلِیُّ الَّذِینَ اٰمَنُوا لا یُخرِجُہُم مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلٰی النُّورِ)

(ترجمہ: ”اللہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے“۔)
(سورۂ بقرہ: آیت 257)


.اولیائے کرام کا بعد وفات دنیاوی اُمور میں تصرف کرنا

یعنی وہ انہیں اندھیرے میں نہیں دھکیلتا بلکہ انہیں اُس روشنی کی طرف لاتا ہے جہاں وہ ہر حقیقت کو کما حقّہ دیکھ سکتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہاں اس ملک میں کچھ لوگ غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ (1166-1077ء/ 561-470 ھ) کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں، یقیناً وہ ایسا نِری جہالت کی وجہ سے کرتے ہیں، اسلام کے عظیم مفکر شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اب تک ”اللہ تعالیٰ کے عطا سے“ اس دنیا کے اُمور میں اس طرح تصرف فرماتے ہیں جیسے کہ وہ زندگی میں فرماتے تھے، جب مقصد یہ ہے کہ خلیفۃ اللہ ہونے کے لیے، اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا رنگ چڑھائیں، تو پھر”تصرف“ فطری عمل ہے۔


سائنسدان کا تصرف کرنا

یہ ”تصرف“ کس طرح ہوتا ہے۔۔۔؟ ایک سائنسدان بھی تصرف کرتا ہے جب وہ ہوائی جہاز، راکٹ یا مائیکرو فون وغیرہ بناتا ہے ، تو وہ ایسی چیز ایجاد کرتا ہے جو وہاں پہلے نہیں تھی۔ یقیناً یہ ایجاد، ان خصوصیات کی وجہ سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اُن کے مادوں میں رکھا ہے، نیز اُس دماغ کی وجہ سے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔مگر یہ خلیفۃ اللہ، ”ایک خالق“ کی طرح کام کرتا ہے، پریشان نہ ہوں، قرآن پڑھیں کہ قرآن کریم کہتا ہے

: (فَتَبٰرَکَ اللہُ اَحسَنُ الخٰلِقِینَ)۔

(ترجمہ: ”تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا“۔)

 (سورۂ مؤمنون: آیت 14)


تصرف کی تعریف اور اس کے درجات


صرف اللہ تعالیٰ ہی ایک ”حقیقی خالق “ ہے جو پیدا کرتا ہے یعنی جس نے چیزوں کو عدم سے تخلیق کیا، انسان کا کام، ثانوی حیثیت سے ایک طرح کا خالق ہونا ہے۔ انسان نے یقیناً یہ مذکورہ چیزیں، دماغ اور اُن مادوں کی مدد سے بنائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے۔ جب انسان دنیا میں بھیجا گیا تو پکی سڑکیں، پل اور دیگر نو ایجاد کردہ چیزیں نہ تھیں، انسان نے بطور خلیفۃ اللہ یہ سڑکیں، عمارات اور پُل تعمیر کیے، اور بغیر ”تصرف“ کے یہ کام کرنا ممکن نہیں کیونکہ کسی چیز کی شکل وعمل کو تبدیل کرنا ”تصرف“ کہلاتا ہے۔یہ تصرف کم درجہ کا سائنس میں جبکہ اعلیٰ درجہ کا روحانیت میں ممکن ہے ۔ جو لوگ خلیفۃ اللہ کی خصوصیات، روحانی اور اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندوں کے طور پر حاصل کر لیتے ہیں،وہ اللہ تعالیٰ کی محبت پھیلانے والے اور ایک ایسا آئینہ بن جاتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس دکھائی دیتا ہے، پھر یہ لوگ سائنسدانوں سے بڑھ کر حیرت انگیز کام کر سکتے ہیں

۔
ڈاکٹر محمد اقبال (1938-1873ء /1357-1290ھ) نے کہا ہے
:
نگاہِ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

اگر ایک شخص حقیقی معنوں میں ”مؤمن“ ہے تو وہ تصویر نہیں بلکہ اُس ذات کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے۔ جیسے

 اقبال نےکہا:

کوئی بھی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں


غزوۂ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ


غزوۂ بدر میں، جبکہ کفار کی تعداد ایک ہزار تھی اور انکے پاس قوت زیادہ تھی، اور مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تقریباً تین سو تیرہ تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مُٹھی مٹی اٹھائی اور اُن کی طرف پھینکی، جنگ اس کے ساتھ ہی لڑی گئی جیسا کہ

 قرآن کریم کہتا ہے: (وَمَا رَمَیتَ اِذ رَمَیتَ وَلٰکِنَّ اللہَ رَمیٰ) (ترجمہ: ”اور اے محبوب! وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی“۔) (سورۂ انفال: آیت 17)

 کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس پھینکے کی نسبت اپنی طرف فرمائی
۔
میرے دوستو! میں نے جو کچھ بھی بیان کیا یہ وہ ہے جسے میں نے قرآنِ کریم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور تاریخِ اسلام کو پڑھ کر سمجھا ہے، جو کچھ بھی کہا گیا اس کا تجربہ کریں، اور کوشش کریں کہ زندگی اور وقت بے کار کاموں میں خرچ نہ ہوں اور نہ اس کام کو کل تک ملتوی کر یں

۔ ابھی عہد کریں کہ آپ پوری کوشش کریں گےکہ اسلام جس عظمت کو دینے کے لیے آیا ہے وہ حاصل کریں گے،

 اور وہ یہ ہے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ط غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْہِمْ وَلَا الضَّآلِّينَ (7)) آمین۔



خطاب: حضرت مولانا ڈاکٹر محمد فضل الرحمن انصاری رحمۃ اللہ علیہ
ترجمہ: مولانا حامد علی علیمی
(لیکچرار جامعہ علیمیہ، ریسرچ اسکالر)

چند اہم اسلامی آداب

جب آپ کو عقد نکاح یا ولیمہ کی دعوت دیجائے تو وہاں ضرور جائیں، کیونکہ اس میں حاضری سنت ہے، جب کہ اس میں کوئی شرعی محرمات نہ ہوں، کیونکہ شریعت نے نکاح اور شادی کو عبادت اور اطاعت میں شمار کیا ہے۔اسی لئے مستحب یہ ہے کہ نکاح مسجد میں ہو ،جیسا کہ فقہاء کرام نے اس کی تصریح کی ہے،

اور حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
أاعلنوا النکاح ،واجعلوہ فی المساجد واضربوا علیہ بالدفوف۔“
‘(ترمذی و ابن ماجہ)


ترجمہ:۔”اس نکاح کا اعلان کرو، اور اسے مسجد وں میں منعقد کرو، اور اس نکاح پر دف بجاوٴ۔


اور اس کی تائید ” اعلنوا النکاح “…نکاح کا اعلان کرو …والی حدیث سے بھی ہوتی ہے، (احمد اور حاکم)اور حدیث ” فصل ما بین الحلال والحرام الصوت والدف فی النکاح“…حلال اور حرام میں شہرت اور دف کافرق ہے… والی حدیث اس کی تائید کرتی ہے( اس کو احمد ،ترمذی ،نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح میں عورتوں کو دف بجانے کی اجازت دی ہے ، جس میں کسی کا اختلاف نہیں، اور بعض علماء کے نزدیک مردوں کے لئے بھی اجازت ہے، تاکہ شادی کی شہرت ہو او راس کا اعلان ہو،تاکہ اپنے اور غیر سب کو معلوم ہو کہ یہ شادی ہوئی ہے۔

اس اعلان اور تشہیر میں شریعت کے اونچے مقاصد ہیں ،ایک تو یہ کہ پاکیزہ اور حلال نکاح اورحرام اور خبیث جوڑ میں فرق کرنا ہے، جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پہلے گزر چکا:
”فصل ما بین الحلال والحرام الصوت والدف فی النکاح۔“
(احمد،ترمذی، نسائی ،ابن ماجہ)

یعنی حلال اور حرام میں فرق کرنے والی چیز آواز اور دف ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ: آواز سے مراد نکاح کا علان ہے اور لوگوں میں اس کا تذکرہ ہے، اسی طرح عورتوں اور مردوں کی اس موقع پر خاص آواز ( جیسے بعض عرب ملکوں میں ہوتا ہے۔)
آپ کا عقدِ نکاح کی مجلس میں شریک ہو نا اس مطلوب اعلان کو ثابت کرتا ہے، اور نکاح پر گواہی میں قوت حاصل ہوتی ہے، اور ایک مومن بھائی یا مومن بہن کے نیک عمل میں آپ شریک ہوتے ہیں، جس کے ذریعہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنا نصف دین محفوظ کرلیا ہے، اب ان کو چاہئے کہ باقی نصف میں اللہ سے ڈرتے رہیں۔

نیز اس شرکت سے دولہا اور دلہن دونوں کی تکریم بھی ہے کہ ان کے عزیز و اقارب اور نیک دوست ان کی اس خوشی میں شریک ہیں، او ران دونوں کے لئے صلاح ،کامیابی ،برکت اور توفیق کی دعاء مانگتے ہیں ، اس کا تعلق مسلمانوں میں اسلامی اخوت کے حقوق میں سے ہے
۔
جب آپ کو شادی میں بلا یا جائے تو دعوت کے قبول کرنے میں آپ کی نیت یہ ہو نی چاہئے کہ آپ ایک مبارک دعوت میں شریک ہورہے ہیں اور ایک ایسی خوشی کی تقریب میں شرکت کررہے ہیں، جو شرعاً مطلوب ہے، اور اس میں شرکت کرنے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے،اور اس میں ان تمام آداب کا خیال رکھیں جن کی طرف پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے
۔
آپ اس پاکیزہ تقریب کے لئے شریعت کے دائرے میں رہ کر زیب و زینت اختیار کرسکتے ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب ایک دوسرے کی ملا قات کے لئے جاتے تو ظاہری زینت اختیار کرکے جاتے تھے۔

نیز جب آپ کوئی بات شروع کریں، اور کسی بات میں حصہ لیں تو اس محفل اور خوشی کی مناسبت سے کریں، ایسی بات نہ کریں جس سے حاضرین کو غم اور پریشانی ہو، یا جس سے سامعین کی سمع خراشی ہو، مومن کو عقلمند اور ہوشیار ہو نا چاہئے۔مستحب یہ ہے کہ جب آپ زوجین کو مبارک باد دیں تو ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعاء سے مبارکباد دیں !
”بارک اللّٰہ لک ،وبارک علیک وجمع بینکما بخیر۔“(ابو داوٴد، ترمذی، ابن ماجہ)
 
یعنی اللہ تجھے برکت دے،اور تجھ پر برکت نازل فرمائے اور تم دونوں کو خیر پر جمع فرمائے
۔
ان الفاظ سے مبارک باد نہ دے، جن سے بعض لوگ مبارک باد دیتے ہیں۔ ( بالرفاء والبنین) آپ میں اتفاق ہو اور آپ کے بیٹے ہوں، کیونکہ یہ زمانہ جاہلیت کی مبارکباد ہے۔ اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دعاء سکھا کر اس سے مستغنی کر دیا ہے۔نیز مسنون دعاء یہ بھی ہے:
”بارک اللّٰہ لکم ، وبارک علیکم ۔“ (نسائی ، ابن ماجہ)
 
یعنی اللہ آپ کو برکت دے، اور آپ پر برکت نازل فرمائے
۔
ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میری شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو میری ماں آئیں اور مجھے ایک گھر میں پہنچا دیا، وہاں انصار کی کچھ خواتین موجود تھیں، تو انہوں نے کہا:
علی الخیر والبرکة، وعلی خیر طائر۔“ ( بخاری)
 
یعنی خیر اور برکت ہو، اور خوش بختی اور خوش نصیبی ہو
۔شریعت نے عورتوں کو اجازت دی ہے ،شادی میں ایسے گیت گائیں جو مباح ہیں، اور اچھے اشعار اور اچھے اقوال کو دف کے ساتھ گائیں ، جن اشعار میں محبت، جمال یا حسن کے مظاہر اور بے حیائی کا ذکر نہ ہو ، بلکہ ایسے پاکیزہ اور عمدہ اقوال ہوں جن میں اس بابرکت شادی پر خوشی کا اظہار ہو۔
ام الموٴمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دلہن کو ایک انصاری کے گھر پہنچا یا گیا،

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یا عائشة ماکان معکم لہو، فان الأنصاریعجبہم اللہو“ (بخاری)
 

ترجمہ :”عائشہ ! تم لوگوں کے ہاں مشغولیت کا کوئی سامان نہ تھا، کیونکہ مدینہ والے انصار کو اس قسم کی چیز پسند ہے
۔“
یہاں ” لہو“ سے مراد گیت گانا اوردف بجانا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ” فتح الباری:۹/۲۳۳۶“ میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے۔کہ :طبرانی نے” الاوسط“ میں ام الموٴمنین رضی اللہ عنہا سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اس دلہن کے ساتھ کسی بچی کو نہیں بھیجا، جو گاتی اور دف بجاتی؟ تو میں نے عرض کیا : کہ وہ کیا گاتی؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ یوں کہتی:
أتینا کم أتیناکم فحیّانا و حیّاکم
ولو لا الذہب الأحمر ما حلت بِوَادیکم
ولو لا الحنطة السمرأ ما سمنت عذاریکم
 
یعنی ہم تمہارے پاس آئے ،ہم تمہارے پاس آئے، ہم بھی زندہ رہیں، اورتم بھی زندہ رہو، اگر یہ سرخ سونا نہ ہوتا، تو دلہن تمہاری وادی میں نہ آتی ،اور اگر سرخ گندم نہ ہوتی تو تمہاری دوشیزائیں موٹی نہ ہوتیں۔
اس طرح کے پاکیزہ گانے اور اشعار جن کو عورتیں گاسکتی ہیں،گائے جائیں مگر عشق بازی، محبت اور بے حیائی کے اشعار اور گانے حرام اور منع ہیں
۔
یہ اسلام کے چند آداب ہیں، جن پر آپ کے باپ دادا عمل کرتے رہے ہیں، اور جن کو میں نے صاف اور سمجھ میںآ نے والے الفاظ میں پیش کر دیا ہے، تاکہ آپ ان پر عمل کریں اور ان پر چلیں،اور عمل کے لئے بہترین میدان آپ کا گھر اور آپ کے مسلمان بھائی کا گھر ہے، اور آپ کی شخصیت اور آپ کے بھائی کی شخصیت ہے، لہٰذا اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان ان پر عمل کرنے میں سستی نہ کریں، اس خیال سے کہ گھر والوں اور بھائیوں میں کوئی تکلف ہو تا نہیں ،کیونکہ وہ سب سے زیادہ آپ کی نیکی اور نرمی کے حقدار ہیں
۔
ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا ، یارسول اللہ ! کون شخص میری حسنِ معاشرت کا زیادہ حقدار ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أمّک ، ثم أمّک ،ثم أمّک ، ثم أبو ک ،ثم أدناک أدناک۔“
 
یعنی فرمایا : تیری ماں،پھر تیری ماں، پھرتیری ماں،پھر تیرا باپ پھر درجہ بدرجہ۔(بخاری و مسلم

)
میرے بھائی! خبر دار حسنِ معاشرت میں ایسے لوگوں کے حق میں توکوتاہی برتو جو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ حقدار ہیں، اور غیروں کے ساتھ اخلاق برتو۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو اپنے آپ کو نقصان پہنچاوٴگے اور اپنے حق میں کوتاہی کے مرتکب ہوگے ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہو ئی ہدایت سے دور ہو گے ،لہٰذا اللہ تعالیٰ سے اس کی مرضیات اور اس کی شریعت کے آداب پر چلنے کی توفیق طلب کرو، اور اللہ تعالیٰ ہی نیک لوگوں کا دوست ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کا ،آپ کے رشتہ داروں کا اور آپ سے محبت کرنے والوں کا نگہبان ہو،اور وہ آپ کی مدد فرمائے ،اپنے احکام پر عمل پیرا ہو نے اور اپنی طاعت ، اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اس کی سچی محبت کی محض اپنے احسان اور فضل و کرم سے توفیق عطاء فرمائے۔
وصلی اللّٰہ علی سیدنا و نبینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا ،والحمد للّٰہ رب العالمین۔

I Love you (PBUH) مجھے آپ سے محبت ہے


عقیدہ آخرت

کا ش میں نے ہوش سے کام لیا ہوتا، کا ش میں فلاں کرم فرما کا مشورہ مان لیا ہوتا، میں فلاں حما قت نہ کی ہوتی، تو آج میری حیثیت ہی کچھ اور ہوتی اور اگر بے جا جوش سے کام نہ لیا ہوتا تو آج یہ خستہ حالت اور پریشانی نہ ہوتی۔
یہ کلمات جن میں حسرت ہے، افسوس بھی ہے، پشیمانی بھی ہے اور دکھ کا اظہار بھی، اکثر لوگوں کی زبان سے اس وقت سنے جاتے ہیں جب وہ ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہوتے ہیں جہاں ان کے پاس مصائب و آلام اور دکھ درد و پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اور جہاں پر موجود رہ کر وہ اپنے مجروح ماضی کا صرف جائزہ لے سکتے ہیں اور اس پر ندامت و افسوس کے احساسات کا اظہار کرسکتے ہیں۔ ایسے حالات عام طور پر اس وقت رونما ہوتے ہیں جب کوئی انسان وقتِ امتحان یا فیصلے کرنے کے موقع پر یا تو غلط فیصلہ کرجاتا ہے یا پھر اپنے فیصلے پر قائم رہ کر محنت نہیں کرپاتا۔ اس تذکرہ سے یہ ثابت ہوا کہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے یا اگر کچھ نہیں کرپاتا تو اس کا صلہ اسے جلد ہی مل جاتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت بھی ہے اور ہر جہت کا اصول بھی۔ یعنی انسان جو بھی کرتا ہے اس کا تعلق بعد میں آنے والی چیز سے ضرور ہوتا ہے اور پیش آنے والے حالات و واقعات انہی فیصلوں کا پھل ہوتے ہیں۔ چاہے وہ میٹھا ہو یا کڑوا۔
آخرت کے معنی بھی کچھ اسی قسم کے ہیں۔ اگر اسی سوچ کو ہم وسیع معنوں میں لیں تو ہم آخرت کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ آخرت ایک ایسا نظریہ ہے جس پر ایمان لانا اور جس کو ماننا فطرتِ انسانی اور سوچ و عقل کے تقاضوں کے عین مطابق ہے
۔
آخرت کے معنی و مفہوم


لغت میں لفظ آخرت کا جو مطلب پایا جاتا ہے وہ ہے بعد میں آنے والی چیز۔ شریعت کی اصطلاح میں آخر سے مراد ہے کہ یہ دنیا ایک دن ختم ہوجائے گی اور مرنے کے بعد ایک دن تمام لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ اور ان اعمال کی بنیاد پر ان کا فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ حسرت کے عالم میں جھونک دئیے جائیں یا خوشی و مسرت کی جہت میں داخل ہوں۔ اس بات پر بغیر کسی شک و شبہ کے یقین و اعمال رکھنے کو عقیدہ آخرت کہتے ہیں
۔
عقیدہ آخرت پر ایمان لانے کا مطلب

آخر پر ایمان لانے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم ان پانچ چیزوں پر مکمل ایمان لے آئیں اور بغیر کسی شک و شبہ کے ان کو تسلیم
کرلیں
:
(۱) ایک دن اللہ تعالی تمام عالم اور اس کی مخلوقات کو مٹا دے گا۔ اس دن کا نام قیامت ہے۔

(۲) پھر وہ سب کو ایک دوسری زندگی بخشے گا اور سب لوگ اللہ کے سا منے حاضر ہونگے۔

(۳)
 تمام لوگوں نے اس دنیوی زندگی میں جو کچھ کیا ہے اس کا نامہ اعمال خدا کی عدالت میں پیش ہوگا
۔
(۴)
اللہ تعالی ہر شخص کے اچھے اور برے عمل کا وزن فرمائے گا۔ اور اس کے مطابق بخشش یا سزا ملے گی۔

(۵)
جن لوگوں کی بخشش ہوجائے گی وہ جنت میں جائیں گے۔ اور جن کو سزا دی جائے گی وہ دوزخ میں جائیں گے
۔
تمام مزاہب کی تلقین

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی پیغمبرانِ دین لوگوں تک اللہ کا پیغام لے کر نازل ہوئے ہیں ان سب نے آخرت کا نظریہ بالکل اسی طرح پیش کیا ہی جس طرح حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے۔ ہرزمانے میں اس پر ایمان لانا اور اس کے مطابق اپنے اعمال کو ترتیب دینا مسلمان ہونے کے لئے لازمی شرط رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عقیدہ آخرت پر ایمان کے بغیر اسلام کی تعلیمات کو ماننا اور اس پر عمل کرنا بالکل بے معنی ہوجاتا ہے۔ اور انسان کی ساری زندگی خراب ہوجاتی ہے
۔
انسانی فطرت کا تقاضہ – آخرت

کسی انسان سے جب کوئی کام کرنے کا کہاجاتا ہے تو اس کے ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر مجھے اس

کام کا کیا فائدہ ہوگا؟

میں اسے کیوں کروں؟

اور اس کے صلے میں مجھے کیا ملے گا؟

اگر میں یہ کام نہ کروں تو مجھے کیا نقصان ہوگا؟

یہ سوالات کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ انسانی فطرت ہر ایسے کام کو لغو اور فضول سمجھتی ہے جس کا کوئی حاصل نہ ہو۔ کوئی شخص کوئی ایسا کام ہرگز نہیں کرتا جب تک کہ اس کا کوئی فائدہ نہ ہو اور نہ ہی کسی ایسے کام سے پرہیز کرتا ہے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ اس کا کوئی نقصان نہیں ہے۔
اس دنیا میں ہر طبقہ فکر اس بات پر متفق ہے کہ نیکیاں کیا ہیں یا اچھے اور معروف کام کیا ہیں اور برے کام یا گناہ کے کام کیا ہیں۔ تاش، ٹی وی اور فضول کاموں کو تمام لوگ متفقہ طور پر لغو اور وقت کا زیاں سمجھتے ہیں جاہے وہ ہندو ہوں یا یہودی، نصرانی ہوں یا مسلمان۔ اسی طرح غریبوں کی مدد کرنا، صفائی کا خیال رکھنے اور اچھے اخلاق کو لوگ نیکی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ سب فطرتِ انسانی ہے
۔
اب یہ فطرتِ انسانی تقاضہ کرتی ہے کہ ہم جو نیک کام کرتے ہیں یا برے کاموں سے بچتے ہیں ان کا صلہ بھی ضرور ملنا چاہئے۔ چاہے وہ جیسے بھی اور جس صورت میں ہو۔ اسی انسانی فطرت کو مدِنظر رکھتے ہوئے دنیا کے واحد مکمل دین نے آخرت کا واضح ترین نقشہ پیش کیا اور انسانی تقاضوں کی تسکین کے لئے جنت اور جہنم بنایا اور ان کا نظریہ پیش کیا
۔
قرآن مجید میں ارشان باری تعالی ہے:
جن لوگوں نے نیک کام کئے پس ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے

۔
آخرت کے بارے میں تین نظریے

آخرت کے بارے میں تین مختلف نظریے پائے جاتے ہیں
۔
(۱) ایک گروہ کہتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد فنا ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کا نظریہ ہے جو سائنسدان ہونے کا دعوی کرتے ہیں
۔
(۲) دوسرا گروہ کہتا ہے کہ انسان اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتنے کے لئے باربار اسی دنیا میں جنم لیتا ہے۔ اگر اس کے اعمال برے ہیں تو دوسرے جنم میں کوئی جانور یا کوئی بدتر درجے کا انسان ہوگا۔ اگر اجھے اعمال زیادہ ہیں وہ کسی اونچے درجے پر پہنچ جائے گا۔ یہ خیال بعد خام مذاہب میں پایا جاتا ہے
۔
(۳) تیسرا گروہ قیامت اور حشر اور خدا کی عدالت میں پیشی اور جزا اور سزا پر ایمان رکھتا ہے۔ یہ تمام انبیائکرام کا متفقہ عقیدہ ہے
۔
پہلے گروہ کے عقیدے پر غوروفکر

ایک گنوار نے اگر ہوائی جہاز نہیں دیکھا ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ ہوائی جہاز کیا چیز ہے۔ لیکن اگر وہ
 کہے گا کہ ”میں جانتا ہوں کہ ہوائی جہاز کوئی چیز نہیں ہے۔ “ تو صاحبِ فہم افراد اسے احمق اور بےوقوف کہیں گے۔ اس لئے کہ کسی چیز کا نہ دیکھنا یہ معنی ہرگز نہیں رکھتا کہ وہ چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے
۔
کچھ اسی طرح کا حال اس نظریہ کے ماننے والوں کا بھی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے مرنے کے بعد کسی دوبارہ زندہ ہوتے نہیں دیکھا۔ ہم تو یہی دیکھتے ہیں کہ جو مرجاتا ہے وہ مٹی میں مل جاتا ہے۔ لہذا مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔
اگر مرنے کے کسی نے نہیں دیکھا کہ کیا ہوگا تو وہ زیادہ سے زیادہ اتنا کہہ سکتا ہے کہ ”میں نہیں جانتا کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔“ اس سے یہ دعوی کرنا کہ ” ہم جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد کچھ نہ ہوگا۔“ بالکل بے ثبوت بات ہے اوراس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے
۔
تاریخ – سوچنے کی بات

ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک شخص آیا جو آخر کے خلاف تھا اور یقین نہ رکھتا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے آخرت کے بارے میں بہت دلائل دئے اور سمجھا نے کی کوشس کی لیکن وہ اپنے نظریے پر اڑا رہا اور بات نہ مانا۔ آخر کار حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ چلو فرض کرو تمہاری بات درست ہوئی کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے تو ہم جو اس عقیدے کی بنیاد پر اعمال کرتے ہیں ہم کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ہم بھی مٹی میں ہمیشہ کے لئے مل جائیں گے۔لیکن بالغرض ہمارا نظریہ درست نکلا اور اللہ کے سامنے حاضری ہوگئی تو پھر تم کیا کرو گے؟
یہ سن کر وہ منکرِ آخرت لاجواب ہوگیا
۔
دوسرے گروہ کے نظریے پر غورفکر

اس کے بعد دوسرے نظریے پر غور کریں تو یہ بھی خلاءمیں محسوس ہوتا ہے۔ اس عقیدے کی رو سے ایک شخص جو اس وقت انسان ہوگیا کہ جب وہ جانور تھا تو اس نے اچھے عمل کئے تھے۔ اور ایک جانور جو اس وقت جانور ہے وہ اس لئے جانور ہے کہ جب وہ انسان تھا تو اس نے برے عمل کئے تھے
۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے کیا چیز تھا؟ اگر کہتے ہو کہ انسان تھا تو ماننا پڑے گا کہ اس سے پہلے درخت یا حیوان تھا، ورنہ پوچھا جائے گا کہ انسان کس وجہ سے بنا؟ اگر کہتے ہو کہ درخت تھا یا حیوان تھا تو ماننا پڑے گا کہ اس سے پہلے انسان تھا! غرض اس عقیدے کے ماننے والے مخلوقات کی ابتدا کسی بھی جنم کو قرار نہیں دے سکتے۔ یہ بات صریح عقل کے خلاف ہے
۔
تیسرے گروہ کے نظریے پر غوروفکر

اب ہم تیسرے نظریے پر غور کرتے ہیں۔ اس نظریے میں بیان کی گیا ہے کہ
:
ایک دن قیامت آئے گی اور خدا اپنے اس کارخانے کو توڑ پھوڑ کر نئے سرے سے اعلی درجہ کا پائیدار کارخانہ بنائے گا جس میں اچھے اور برے اعمال کا تجزیہ ہوگا اور اس کے مطابق جزاوسزا کا فیصلہ ہوگا
۔
اس نظریہ میں پہلی بات یہ ہے کہ ایک دن قیامت آئے گی اور یہ تمام نظام کائنات فنا ہوجائے گا۔ اس بات کو کوئی بھی شخص عقل پر پرکھنے کے بعد جھٹلا نہیں سکتا۔ کیونکہ ہم جتنا اس نظام پر غور کریں اتنا ہی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ کائنات فانی ہے اور ایک دن ختم ہوجائے گی۔ سائنس کی رو سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس کائنات میں جتنی بھی چیزیں ہیں سب محدود ہیں اور ایک دن ختم ہوجائیں گی۔ تمام صاحبِ علم شخصیات اس بات پر متفق ہیں اور اسے تسلیم کرچکے ہیں کہ ایک دن یہ سورج ٹھنڈا ہوجائے گا اور سیارے ایک دوسرے سے ٹکرا کر فنا ہوجائیں گے
۔
دوسری بات جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے اعلی درجے کا کارخانہ بنایا جائے گا اور تمام لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔

قرآن پاک میں ارشادِ پاک ہے:
سو کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے

۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن نہیں ہے؟ اگر ناممکن ہے تو اب جو زندگی حاصل ہے یہ کیسے ممکن ہوئی؟ سوچنے کی بات ہے کہ جس خدا نے انسان کو ایک مرتبہ پیدا کیا ہے وہ دوبارہ اسے زندگی کیونکر نہیں بخش سکتا؟ اور جس نے یہ کارخانہ قدرت ایک مرتبہ تخلیق کیا ہے وہ دوبارہ کیسے نیا کارخانہ نہیں بنا سکتا؟
تیسری بات جو بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی اس دنیوی زندگی کا اعمال نامہ اللہ تعالی کے حضور پیش ہوگا اور اس کے مطابق جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا۔ اب لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ اعمال نامہ کیسے بنا رہ گیا یا سب کچھ کیسے محفوظ ہوگیا۔ تو اس کا جواب خود ہی اس کے سامنے آگیا۔ جدید سائنسی تحقیق کے بعد پتہ چلا کے ہمارے منہ سے جو آوازیں نکلتی ہیں وہ ایک خاص Frequency پر نقش ہوجاتی ہے اور تاقیامت گردوپیش میں محفوظ رہتی ہیں۔ اسی طرح ہماری ہر حرکت Images کی صورت میں ہوا میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ یعنی انسان جیسے جیسے ترقی کررہاہے اسے اس بات پر پختہ یقین ہوتا جارہا ہے کہ یہ اعمال نامہ پورا کا پورا محفوظ ہے
۔

تیسرے نظریے کی صداقت

تیسرے نظریے پر ہم غوروفکر کریں تو سب سے زیادہ دل کو لگتا نظریہ یہ ہی ہے اور اس میں کوئی چیز خلافِ عقل یا ناممکن نہیں ہے۔ اگرچہ اس عقیدے پر ہمارا ایمان صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر ہے، عقل پر اس کا مدار نہیں لیکن جب ہم غوروفکر سے کام لیتے ہیں تو ہمیں آخرت کے متعلق تمام عقیدوں میں سب سے زیادہ یہی عقیدہ مطابقِ عقل معلوم ہوتا ہے
۔
سورة البقرہ میں ارشادِ ربانی ہے:
اور وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں

۔
یعنی مومن ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آخرت کو صدقِ دل سے تسلیم کیا جائے


۔ بقول اقبال

موت کو سمجھتے ہیں کافر اختتامِ زندگی
یہ ہے شامِ زندگی، صبح دوامِ زندگی


قرآن و حدیث کی روشنی میں

آخرت کی قدرواہمیت کا اندازہ ہم کلامِ الہی سے بھی لگا سکتے ہیں
۔
ارشادِ خداوندی ہے
:
جو لوگ آخرت پر ایمان لاتے ہیں وہی کتابِ الہی پر بھی ایمان لاتے ہیں

۔
ایک اورجگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے

:
یہ دنیا تو بس عارضی فائدہ ہے اور جو آخرت ہے وہی پائیدار گھڑی ہے

۔
سرورِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
:
خدا کی قسم دنیا آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی اس انگلی کو سمندر میں ڈالے اور اور پھر دیکھے کہ وہ کتنا پانی لے کر لوٹا ہے

۔
عقیدہ آخرت کے فوائد

آخرت کا انکار یا اقرار انسان کی زندگی میں فیصلہ کن اثر رکھتا ہے۔ اس کے ماننے والے اور نہ ماننے والے میں بہت بڑا فرق ہو جاتا ہے۔ ایک کے نزدیک نیکی وہ ہے جس کوئی اچھا نتیجہ اس دنیا کی ذرا سی زندگی میں حاصل ہوجائے۔ مثلاً کوئی عہدہ مل جائے، کوئی خوشی حاصل ہوجائے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے شخص کے نزدیک نیکی وہ ہے جس سے خدا خوش ہو اور بدی وہ ہے جس سے خدا ناراض ہو۔ اسے اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ اگر وہ اس مختصر زندگی میں سزا سے بچ گیا اور چند روز مزے لوٹتا رہا تب بھی آخر کار خدا کے عذاب سے نہ بچے گا۔ غرض یہ کہ عقیدہ آخرت پر ایمانِ کامل
رکھنے والے شخص کو بہت سے اخروی دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں
:
(۱) بہادری و سرفروشی

ہمیشہ کے لئے مٹ جانے کا ڈر انسان کو بزدل بنادیتا ہے۔ مگر دل میں جب یہ یقین موجود ہو کہ دنیوی زندگی ناپائیدار ہے اور اخروی زندگی دائمی ہے تو یہ احساس انسان کو بہادر بنادیتا ہے اور وہ اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے سے بھی نہیں کتراتا
۔

(۲) صبروتحمل

عقیدہ آخرت پر ایمان سے انسان کے دل میں صبروتحمل پیدا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ حق کی خاطر جو بھی تکلیف برداشت کی جائے گی اس کا صلہ آخرت میں ضرور ملے گا۔ لہذا آخرت پر نظر رکھتے ہوئے وہ ہر مصیبت کی گھڑی میں صبروتحمل کا مظاہرہ کرتا ہے
۔
(۳) نیکی سے رغبت

جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کے تمام اعمال اس کے نامہ اعمال میں محفوظ کرلئے جاتے ہیں اور آخرت میں اس کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ یہ احساس اسے نیکی کی طرف مائل کرتا ہے
۔

(۴) مال خرچ کرنے کا جذبہ
عقیدہ آخرت انسان کے دل میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ آخرت کی زندگی دائمی زندگی ہے جو بعدالموت شروع ہوتی ہے۔ یہ احساس اسے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب کرتا ہے تاکہ اس کی اخروی زندگی سنور جائے
۔
(۵) احساسِ ذمہ داریآخرت پر ایمان رکھنے سے انسان میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اپنے فرائض سے کوتاہی جرم ہے جس کی آخرت میں سزا ملے گی۔ لہذا وہ پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا کرتا ہے۔
(۶) پاکیزہ معاشرے کی تشکیلاگر معاشرے کے تمام لوگ عقیدہ آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہوں تو اس سے معاشرے میں ایک اچھی فضا قائم ہوتی ہے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے
۔
(۷) برائیوں کا خاتمہ
ایسے افراد پر مشتمل معاشرہ جو عقیدہ آخرت کے ماننے والے ہوں برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔ آخرت پر ایمان رکھنے سے لوگوں میںیہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ جو برائیاں کر رہے ہیں اس کی سزا انہیں آخرت میں ملیں گی۔ چنانچہ وہ برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں
۔

(۸) باہمی اخوت و مساوات کا فروغعقیدہ آخرت پر یقین رکھنے سے مسلمانوں میں باہمی اخوت و مساوات پیدا ہوتی ہے۔ عقیدہ آخرت ان میں یہ احساس اجاگر کرتا ہے کہ تمام انسان اللہ کی نظر میں برابر ہیں۔ بہتر صرف وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار اور متقی ہے
۔
حروفِ آخر

عقیدہ آخرت اسلام کا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر ایمان لاکر انسان دنیاوآخرت میں رضائے الہی کے مطابق زندگی بسر کرسکتا ہے اور ایک ایسا کردار تشکیل کرتا ہے جس سے اسے قربتِ الہی کا حصول ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس عقیدہ کو بنیاد بنا کر اپنی زندگی کا ہر فعل تشکیل دیں تاکہ روزِ آخرت جنت کے مستحق ٹہریں۔ اللہ تعالی کبھی وعدہ خلافی نہیں فرماتا اور اللہ کا وعدہ ہے کہ
:
بے شک نیک لوگ بہشت میں ہوں گے اور بے شک گناہ گار دوزخ میں۔
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق
رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
کل حشر کے میدان میں اگر یہ اعلان کہ ایک شخص کے سوا سب کو جہنم میں جھونک دو، تو مجھے خدا کی رحمت سے امید ہی کہ جہنم سے بچنے والا وہ شخص میں ہی ہوں گا۔ اور اگر یہ علان ہوجائے کہ ایک شخص کے سوا سب کو جنت میں لے جاو، تو اپنے اعمال کو دیکھتے ہوئے مجھے یہی اندیشہ ہے کہ خدانخواستہ وہ شخص میں ہی ہوں گا۔
فاروق اعظم
رضی اللہ تعالی عنہ کے یہ الفاظ بار بار پڑھنے کے لائق ہیں، جن سے عقیدہ آخرت پر مکمل ایمان نظر آتا ہے۔ اور جس کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے عظیم خلیفہ بنے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنے اندر آخرت کے لئے یہی کیفیت پیدا کریں تاکہ رضائے الہی ہمارا مقدر بنے اور ہم آخرت میں سرخرو ہوسکیں.